Laaltain

نواب تہذیب بیگم

13 اگست، 2015
Picture of غضنفر علی

غضنفر علی

محفل رقص و موسیقی اپنے عروج پر تھی۔ تہذیب بیگم اپنی مترنم آواز میں سامعین کے دلوں کے تار چھیڑ رہی تھیں۔ بالا خانے میں موجود ہر شخص عالم بے خودی میں جھوم رہا تھا۔ تہذیب بیگم کے مداحوں میں نہ صرف شہر کے بڑے بڑے نواب اور روساء شامل تھے بلکہ ان کی سریلی آواز کی باز گشت اب امرتسر سے اٹھ کر لکھنو اور دہلی تک سنائی دے رہی تھی، پورے ہندوستان سے روساء تہذیب بیگم کے بالا خانے پر حاضر ہوتے اور بیگم صاحب کی مترنم آواز میں دادرا، ٹھمری اور خیال گائیکی سے اپنی حس جمالیات کو تسکین پہنچاتے۔ صرف گائیکی پر ہی موقوف نہیں بیگم صاحب رقص میں بھی ید طولیٰ رکھتی تھیں۔ امرتسر کے جنوب میں واقع باگیچی لکھا سنگھ نامی یہ حویلی بیگم صاحب کا بالا خانہ تھا۔ سورج ڈھلتے ہی یہ حویلی جگمگا اٹھتی اور حاضرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا اور رات گئے اس حویلی کے درودیوار سے طبلے کی تال اور گھنگروؤں کی جھنکار میں ڈوبی ہوئی بیگم صاحب کی پر نور آواز رات کی خاموشی کا پردہ چاک کرتی اور بیگم صاحب حاضرین محفل سے داد تحسین وصول کرتیں۔ یہ بھی انہی پر کیف راتوں کی طرح ہی ایک رات تھی جو اپنے جوبن پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوئی۔ دن بھر شہر کے گلی، محلوں میں بیگم صاحب کا ذکر رہتا اور سورج ڈھلنے کا انتظار کیا جاتا۔

 

بیگم صاحب نے اپنے کچھ اصول وضع کر رکھے تھے جن پر وہ سختی سے عمل پیرا تھیں اور کوئی شخص آج تک ان کو اپنے فیصلے سے پیچھے نہ دھکیل سکا تھا۔ جیسے کہ محرم کے دنوں میں نہ حویلی پر چراغاں ہوتا اور نہ ہی محفل جمتی اور بیگم صاحب محرم کے یہ دس روز درگاہ پر گزارتیں اور نوحے پڑھتیں- مختلف تہواروں کے موقع پر مندروں اور گوردواروں میں جا کر بھجن بھی گایا کرتیں۔ عید ہو یا دیوالی ان خاص مواقع پر وہ ہر گز محفل نہ جماتیں اور حویلی کے دیگر مکینوں کے ہمراہ اس طرح کے دیگر تہوار اہتمام سے مناتیں، ہاں کسی تہوار کے موقع پر اگر کوئی مدّاح محض ملاقات کی غرض سے آتا تو خوب خاطر مدارت کی جاتی۔ اپنی زندگی میں انہوں نے کبھی کسی نواب کی حویلی میں جا کر نہ رقص کیا اور نہ ہی کچھ گا کر سنایا بہت لوگوں نے بیش قیمت تحائف دے کر بیگم صاحب کو طائفے سمیت چلنے کو کہا لیکن بیگم صاحب بے دردی سے تمام تحائف لوٹا دیتیں۔ اگر کسی غرض سے حویلی سے باہر جانا ہوتا تو ہمیشہ کچھ کنیزوں کو ہمراہ لے جاتیں اور چاہے کوئی کتنی ہی قریبی شناسائی کیوں نہ رکھتا ہو بازار یا دوران سفر کسی بھی مداح سے ہر گز گفتگو نہ کرتیں۔ ایک بار ان سے ایک کنیز نے پوچھا بھی “بیگم اپنے مداحوں سے تو آپ حویلی میں گھنٹوں گفتگو کرتی ہیں تو باہر کس لیے احتراز برتتی ہیں؟” اس کا جواب بیگم صاحب نے کچھ ایسے دیا “ہمارے خیال میں ایسا کرنا ہندوستان کی گھریلو خواتین کے وقار اور ناموس کے خلاف ہے، آج کوئی ہم سے بات کرے گا تو شاید کل یہ سلسلہ عام نہ ہو جائے، ہم طوائف ضرور ہیں لیکن ہندوستان کی تہذیب ہمیں زیادہ عزیز ہے”۔

 

حویلی کے اندر بھی بیگم صاحب نے اپنے اور حاضرین محفل کے درمیان ایک مخصوص رشتہ قائم کر رکھا تھا جو محض مداحوں اور فنکار کے درمیان ہوتا ہے اس سے آگے وہ نہ کبھی خود بڑھیں اور نہ ہی کسی کو اجازت بخشی۔ وہ حاضرین محفل سے گفتگو ضرور کرتیں ان کے ساتھ عشائیوں میں شریک ہوتیں کئی گھنٹے بحث و مباحثہ ہوتا لیکن جسمانی لمس سے ہمیشہ پرہیز کرتیں۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کی خوابگاہ میں ان کی خاص کنیز کے علاوہ کسی کو جانے کی اجازت نہیں۔ بیگم صاحب نے تو شہر کے مشہور ڈاکو سمپورن سنگھ کی دھونس اور زبردستی کو بھی قبول نہ کیا جو بیگم صاحب کی خواب گاہ تک رسائی کا متمنی تھا۔ ان کا دل ہمیشہ ہی اپنے ملک اور اس میں بسنے والی عوام کے لیے دھڑکتا تھا اور انہوں نے کبھی افراد کے مابین مذہبی، نسلی، سیاسی یا سماجی تفریق نہیں کی اور ہر طبقہ سے وابستہ افراد ان کے بالا خانے پر حاضر ہوسکتے تھے لیکن کلکتہ، بہار اور اتر پردیش میں یکے بعد دیگرے ہونے والے قتل عام کے بعد انہوں نے کانگریس، لیگ اور کمپنی بہادر سے تعلق رکھنے والے تمام افراد پر اپنے بالا خانے میں داخلے پر مکمّل پابندی عائد کر دی۔

 

ایک مکمل بھارتی ناری کے تصور پہ وہ پورا اترتی تھیں بیگم صاحب اپنی ذات میں جیتی جاگتی سرسوتی تھیں۔ اپنے انہی ناز و اداؤں کی بنا پر وہ سارے میں نواب بیگم کے نام سے مشہور تھیں۔ شہر کی کوئی گلی محلہ ہو، یا باگیچی لکھا سنگھ کے قرب میں واقع پان کی دوکان بیگم صاحب کا ذکر جب بھی چھڑتا درگاہ کے ایک معمولی خاکروب سے ان کے معاشقے کا ذکر ہوتا اور ہر شخص اپنی راۓ ضرور دیتا۔ کئی لوگوں کو اس بات پر شدید اعتراض تھا کہ ایک سے بڑھ کر ایک وجیہہ اور مالدار نواب کے ہوتے ہوے بیگم صاحب نے اپنا دل ڈالا بھی تو درگاہ کے ایک معمولی خاکروب کی جھولی میں۔ یہ خاکروب نواب بیگم کی اب تک کی شعوری زندگی میں وہ واحد شخص تھا جسے انہوں نے اپنی نجی زندگی میں داخل کیا۔ کئی حسین شاموں کو انہوں نے محض اس لیے حاضرین کے لیے گانے اور ناچنے سے انکار کر دیا کہ وہ اس خاکروب کے پہلو میں وقت گزارنا چاہتی تھیں۔ ادھر یہ خاکروب نواب بیگم کے جتنا قریب آ رہا تھا بیگم صاحب اپنے مداحوں سے اتنا ہی دور ہوتی جا رہی تھیں۔ بیگم صاحب کے عاشق ان کو پھر سے اسی لگن سے گاتے اور ناچتے ہوے دیکھنا چاہتے تھے لیکن چونکہ بیگم صاحب اب اس خاکروب کے دام الفت میں گرفتار ہو چکی تھیں اس لیے ان کا شاہکار ناچ گانا صرف اسی کے لیۓ وقف تھا۔ ان سے اور کچھ نہ بن پایا تو انہوں نےسردار سمپورن سنگھ ڈاکو کے ہاتھوں اس خاکروب کو قتل کروا دیا۔ اس روز بیگم صاحب اس درگاہ پہ اسی مقام پہ گئیں جہاں اس خاکروب کو پہلی بار دیکھا تھا اور خوب ناچا کیں۔ ناچتے ناچتے بے ہوش ہو کر گر پڑیں اور کئی ماہ بیمار رہیں۔ اس سانحہ کے قریباً ایک برس بعد باگیچی لکھا سنگھ کی رونقیں بحال ہوا کیں۔ لیکن اس سانحہ کے بعد سے بیگم صاحب کا یہ معمول تھا کہ وہ دن کا آغاز اس خاکروب کے مزار پر حاضری سے کیا کرتیں، روز پھولوں کی چادر چڑھاتیں اور ہر جمعرات مزار کو خود غسل دیا کرتیں۔

 

انہی دنوں پورا ہندوستان غیر یقینی صورت حال کا شکار تھا سیاسی اور مذہبی کشیدگی میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ لیگ کے علیحدہ وطن کے مطالبہ کو منظور کر لیا گیا تھا اور مسلمان اپنے علیحدہ وطن جانے کی تیاریوں میں مصروف نظر آنے لگے۔ جیسے ہی سرحدوں کا فیصلہ ہوا امرتسر کے مسلمان خاندانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی کیوں کہ امرتسر کو پاکستان میں شامل نہیں کیا گیا تھا جو شہر کل تک ان کا اپنا تھا آج وہ اسی شہر میں بیگانے ہوچکے تھے۔ باگیچی لکھا سنگھ کی رونقیں معدوم ہو چکی تھیں۔ بہت جلد تمام شہر کو فسادات نے آن گھیرا۔ ہر طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا پرانی لکڑ منڈی سے متصل مسلمان آبادی کو بلوائیوں نے آگ لگا دی۔ تمام شہر میں مسلمانوں کے لیے کوئی جاۓ پناہ نہ رہی۔ ایک روز تمام مسلمانوں نے اکٹھے ہو کراپنی جان اور آبرو کی حفاظت سے متعلق مشاورت کی اور ایسے وقت میں امید کی ایک موہوم سی کرن نظر آئی جب امام صاحب نے کہا “سنا ہے کہ اس طوائف کی حویلی کافی بڑی ہے اور محفوظ بھی ہے کیوں نہ اس حویلی میں کچھ عرصہ کے لیئے پناہ لے لی جائے”۔ یہ سنتے ہی حکیم صاحب گویا ہوئے “کیا بات کرتے ہیں آپ؟ اپنی جان اور آبرو کی حفاظت کے لیئے اب ہم ایک ناچنے اور گانے والی سے امداد طلب کریں؟ جس عورت کو اپنی آبرو اور شرم و حیا کا پاس نہیں وہ ہماری عورتوں کی آبرو کی حفاظت کیسے کر سکتی ہے؟” بہت سے اور لوگوں نے بھی اس تجویز کو فوراً رد کر دیا اور ایک صاحب بولے “نواب بیگم ایسا ہر گز نہ کریں گی، چونکہ وہ برسوں سے یہاں موجود ہیں اور اپنا بالا خانہ چلا رہی ہیں وہ ہر گز مقامی لوگوں کو اپنے خلاف نہ کریں گی کیوں کہ اس طوفان کے تھمتے ہی وہ حویلی کو پھر سے آباد کریں گی”۔ ایک نیک بزرگ خاتون نے کہا “وہ مسلمان ہیں تو کیا ہوا؟ سب سے پہلے وہ ایک طوائف ہے اور اپنے روزگار کو داؤ پہ ہر گز نہ لگائے گی”۔

 

الغرض کافی بحث و تمہید کے بعد اسی عمر رسیدہ نیک خاتون کو نواب بیگم کے پاس سفارش کے لیے بھیجا گیا۔ یہ خاتون بیگم صاحب سے مخاطب ہوئیں “تم تو خوب جانتی ہو سارے شہر میں ہم غریبوں کے واسطے اب کوئی ٹھکانہ نہیں رہا، اک امید لے کر تمہارے پاس آئی ہوں کہ لاہور کے لیئے اگلی ٹرین آنے تک ہمیں اپنی حویلی میں رہنے کو ایک کونا دے ڈالو، خدا تمہارا بھلا کرے گا ٹرین آتے ہی ہم لاہور کے لیئے نکل کھڑے ہوں گے ہم مجبور اور بے کسوں پر بہت احسان ہوگا تمہارا”۔ نواب بیگم خلاف توقع نہایت سلوک سے پیش آئیں اور کہا “احسان کس بات کا بڑی بی؟ ہماری خوش نصیبی ہے کہ آپ نے اس خاکسار کو اس قابل سمجھا، آخر اس سنسار میں کوئی تو ہے جس نے ہماری چوکھٹ پہ آ کر ناچ گانے کے سوا کوئی فرمائش کی، آپ ضرور تشریف لائیے باگیچی لکھا سنگھ کے دروازے آپ کے لیئے ہمیشہ کھلے ہیں اور جب تک چاہیں یہاں امن و سکون سے رہ سکتے ہیں”۔

 

یہ وسیع و عریض حویلی جو اپنی مضبوط درو دیوار کے احاطے میں کبھی نواب بیگم کی پر شکوہ آواز اور ناچ سے معمور تھی آج لٹے پٹے مسلمان خاندانوں سے آباد تھی۔ قریباً تین سو کے لگ بھگ عورتوں، بچوں اور بوڑھے افراد کی دیکھ بھال کے لیئے نواب بیگم کی درجن بھر کنیزیں ہر وقت بھاگ دوڑ کرتیں۔ اناج کے کمرے کے تالے توڑ دئیے گئے، خانساماں اور دیگر ملازمین ہر وقت ان کی خدمات میں مصروف رہتے۔ ہر روز صبح و شام نواب بیگم خود نیچے آ کر مہاجرین کو دیکھتیں، بیماروں اور زخمیوں کی عیادت کرتیں اور بچوں کو گود میں بٹھا کر کھلاتیں۔

 

سردار سمپورن سنگھ کو جیسے ہی نواب بیگم کی حویلی میں مسلمان مہاجرین کی موجودگی کا علم ہوا وہ بلوائیوں کو لئیے آن دھمکا اور نواب بیگم سے مہاجرین کی حوالگی کا مطالبہ کر ڈالا۔ بیگم صاحب کی حویلی میں موجود مہاجرین پر ایک مرتبہ پھر سے خوف کے سائے لہرانے لگے اور انہیں اپنی موت صاف دکھائی دینے لگی۔ بیگم صاحب نے مہاجرین کے پاس خود جا کر انہیں یقین دلایا کہ ان کی جان و آبرو کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی اور جیسے ہی اگلی ٹرین آئے گی انھیں بہ حفاظت ٹرین تک پہنچایا جائے گا۔ مہاجرین کو یقین دلانے کے بعد نواب بیگم نے دل پہ پتھر رکھ کر سمپورن سنگھ کو مہمان خانے میں طلب کیا اور خوب شفقت سے پیش آئیں جیسے یہ اس خاکروب کا قاتل نہ ہو بلکہ بیگم صاحب کا عزیز ترین مہمان ہو۔ بیگم صاحب کسی قسم کی تمہید باندھے بناء گویا ہوئیں “میں اپنے تمام زیورات اور روپے کے بدلے تم سے ان مہاجرین کی آبرو اور جان بخشی کا مطالبہ کرتی ہوں”۔ بیگم صاحب کا یہ مطالبہ فوراً رد کر دیا گیا اور مہاجرین کی سلامتی کے بدلے سمپورن سنگھ نے بیگم صاحب کی خواب گاہ میں بیگم صاحب کی تنہائی کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ سنتے ہی نواب بیگم پر جیسے سکتہ کی کیفیت طاری ہوگئی ایک طرف اس خاکروب کا قاتل تھا تو دوسری جانب بے آسرا مسلمان خواتین اور بچے۔

 

سمپورن سنگھ پھر گویا ہوا “اگر آپ اپنا کچھ وقت میرے نام کرتی ہیں تو میں مہاجرین کو بحفاظت ٹرین تک اپنی نگرانی میں پہنچاؤں گا”۔ نواب بیگم نے مزید کسی بحث میں الجھنے کی بجائے مہاجرین سے اپنے کیے ہوے وعدے کو ترجیح دی اوراس خاموش معاہدے کے بعد باگیچی لکھا سنگھ کے در و دیوار کو وہ کچھ دیکھنا پڑا جس کا گمان بھی نہ کیا جاسکتا تھ – ہر روز سورج غروب ہوتے ہی بیگم صاحب کی مترنم آواز حویلی کے درودیوار سے ٹکراتی اور بیگم کی موجودگی کا اعلان کرتی۔ کبھی گھنگرووں کی جھنکار حویلی میں موجود مہاجرین کی نیندوں میں اثر انداز ہوتی تو بزرگ نیک خاتون بیگم صاحب پر خوب لعن طعن کرتی اور دیگر مہاجرین سے مخاطب ہوتی “اس کو معلوم بھی ہے کہ ہم کس حالت میں اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں بے آسرا پڑے ہیں اور اس کو مسلمان عورت ہوتے ہوئے ایک سکھ کے لیے ناچ گانے سے فرصت نہیں، اور ناچ گانے پر ہی کیا موقوف یہ حرافہ تو شب و روز اس غنڈے کے ہمراہ منہ کالا کرتی ہے، اسے تو اس بات کا بھی لحاظ نہیں کہ اس ڈاکو کے ہاتھ درجنوں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہیں”۔ تعجب کی بات تو یہ تھی کہ بیگم صاحب پہلے کی طرح روز صبح و شام مہاجرین کے پاس آتیں اور ان سے ان کی ضروریات سے متعلق پوچھا کرتیں بزرگوں اور بچوں سے خاص محبت سے پیش آتیں۔ اس وقت تو کسی کی ہمت نہ پڑتی کہ اٹھ کر بیگم صاحب کو ٹوک دے اور ان سے پوچھے کہ وہ رات گئے ناچ گانا کر کے ان کے آرام میں کیونکر خلل ڈالتی ہیں۔

 

امرتسر تا حال آگ و خون کا سامنا کر رہا تھا، شہر کے بدترین حالات کے پیش نظر کئی ٹرینیں شہر سے باہر ہی روک لی گئی تھیں۔ چار سو سراسیمگی کا عالم تھا۔ خوف و ہراس اپنی انتہاؤں کو چھو رہا تھا جو مہاجرین حویلی سے پرے خوف و دہشت کے سائے تلے ٹرین کی آمد کا انتظار کر رہے تھے حویلی پر چراغاں دیکھ اور ناچ گانے کی آوازیں سن کر ان کے تن بدن بھی نفرت کی آگ سے سلگ اٹھتے۔ بلآخر ایک شام سرکار کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ اگلے روز سورج طلوع ہوتے ہی ٹرین لاہور کے لیے چھوٹ جائے گی، مایوسی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں مسلمان مہاجرین کے چہرے خوشی سے جگمگا اٹھے اور تمام لوگوں میں زندگی کی نئی رمق عود آئی۔ اس رات حویلی میں موجود مرد اور عورتیں اپنا سامان تیار کرتے رہے اور بزرگ نیک خاتون تمام رات تسبیح پڑھتی رہی اور خدا سے گڑ گڑا کر خیر و عافیت کے سفر کی دعائیں مانگتی رہی۔ ٹھیک اسی رات بیگم صاحب کی حویلی پہ نہ چراغاں ہوا اور نہ ہی کسی طبلے یا سارنگی، ستار کی آواز سنائی دی، چند لمحوں کے لیے گھنگروؤں کی جھنکار ضرور سنائی دی اور حویلی کی نچلی منزل میں موجود مہاجرین بالخصوص نیک بزرگ خاتون اس جانب متوجہ ہوئے اور ایک مرتبہ پھر سے اپنے اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔ اماں بی نے تسبیح پھیرتے ہوئے دونوں ہاتھ باندھے اور آسمان کی جانب نگاہیں کر کے خدا کا شکر ادا کیا کہ بہت جلد نواب بیگم سے جان چھوٹنے والی ہے۔ ان گھنگروؤں کی آواز محض اس لیے آئی تھی کہ نواب بیگم نے بھی علیحدہ وطن جانے کا ارادہ کر لیا تھا اور اپنے مختصر سامان میں یہ گھنگرو بھی باندھے کہ یہ درگاہ کے خاکروب نے تحفتاً نواب بیگم کی نظر کیے تھے۔

 

بیگم صاحب کے ساتھ کچھ روز رہ کر سردار سمپورن سنگھ بھی احساس جرم کا شکار ہو چلا تھا کہ اس نے بیگم ایسی معصوم عورت کو اپنی حوس و درندگی کا نشانہ بنایا تھا۔ سردار سمپورن سنگھ بیگم صاحب سے مخاطب ہوا “یہ ہار میری طرف سے قبول فرمائیے اور ان گھنگروؤں کے ساتھ یہ بھی اپنے ہمراہ لے چلیئے یہ آپکو میری یاد دلاتا رہے گا” بیگم صاحب بولیں “طوائف کی زندگی بھی کس قدر عجیب ہے سینکڑوں لوگوں نے ایسے بیش قیمت ہار ہماری نظر کیئے لیکن منگل سوتر ہماری نظرکسی نے بھی نہ کیا،اور جس نے کوشش کی اسے تم نے مار ڈالا تمہاری یاد دلانے واسطے اس کے بخشے ہوئے یہ گھنگرو ہی کافی ہیں” سمپورن سنگھ کو اس رات اپنے جرم کا احساس ہوا کہ اس نے بیگم صاحب ایسی معصوم خاتون سے ظلم کیا اسے اپنے وجود سے گھن آنے لگی اور اسی وقت تہیہ کیا کہ وہ اپنے گناہ کا مداوہ کرے گا۔ سمپورن سنگھ بیگم صاحب سے مخاطب ہوا “مجھے احساس ہے کہ میں نے آپ کی نیک دلی کا ناجائز فائدہ اٹھایا، جو کچھ میں نے کیا اس کا کفّارہ ادا کرنا تو ناممکن ہے اور آپ کو مجھ سے نفرت کا پورا حق حاصل ہے لیکن میری خواہش ہے کہ صبح میں خود آپ کو ٹرین میں سوار کروانے لے جاؤں”۔ نواب بیگم جو اپنا مختصر اسباب باندھ کر بالکونی میں چوبی ستون کے ساتھ سر لگائے نہ جانے کن سوچوں میں گم بیٹھی تھیں گویا ہوئیں “ہم نے پہلے کون سا تمہاری کسی خواہش سے انکار کیا؟ اتنا کچھ تو ہوچکا اب یہ بھی سہی!!”۔ اوربس اتنا کہہ کر نواب بیگم پھر اپنی یادوں میں گم ہوگئیں اور سمپورن سنگھ احساس ندامت کے باعث مزید کچھ نہ کہہ سکا۔

 

سورج طلوع ہونے تک بیگم صاحب بناء کسی ساز کے بھیروی ٹھمری “بابُل مورا، نیہر چھُوٹو ہی جائے” گنگناتی رہیں

 

” بابُل مورا، نیہر چھُوٹو ہی جائے
بابُل مورا، نیہر چھُوٹو ہی جائے

 

چار کہار مِل، موری ڈولِیا سجاویں (اُٹھایّں)
مورا اَپنا بیگانا چھُوٹو جائے، بابُل مورا۔۔۔

 

آںگنا تو پربت بھیو اؤر دیہری بھیی بِدیش
جائے بابُل گھر آپنو میں چلی پیّا کے دیش، بابُل مورا —— “

 

سورج طلوع ہونے سے قبل ہی تمام مہاجرین کو بحفاظت ٹرین میں پہنچا دیا گیا تھا اور اب سردار سمپورن سنگھ نے بیگم صاحب کا مختصر سامان لیا اور بیگم صاحب کو گھوڑے پر بیٹھا ریلوے سٹیشن کی جانب گھوڑا دوڑایا۔ ابھی ٹرین نے سیٹی بجائی ہی تھی کہ بیگم صاحب ٹرین میں سوار ہوگئیں اور ان کا پہلا سامنا بزرگ نیک خاتون اماں بی سے ہوا۔ اماں بی فوراً بول اٹھیں “ہم نے علیحدہ وطن اس لیئے بنایا کہ تجھ ایسی حرافاؤں سے نجات ہو یہ دیکھو ہفتہ بھر ایک غیر مسلم غنڈے کے ہمراہ منہ کالا کیا اور اب مسلمان بن کر پاکستان جانا چاہتی ہے”۔ اس سے قبل کہ بیگم صاحب کچھ کہتیں اماں بی نے انھیں دھکا دیا اور وہ ٹرین سے دوسری پٹری پر نیچے آگریں۔ سردار سمپورن سنگھ جو بیگم صاحب کو نظروں سے اوجھل ہوجانے تک دیکھنا چاہتا تھا بیگم صاحب کو بچانے واسطے سرپٹ بھاگا مگر بہت دیر ہو چکی تھی اور لاہور سے آتی ہوئی ہندوؤں و سکھوں کی خون و لاشوں سے بھری ٹرین ہندوستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تہذیب کے دو ٹکڑے کر کے آگے جا چکی تھی۔

3 Responses

  1. Very Romantic style, but i request to the writer please mention the sources (references )

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

3 Responses

  1. Very Romantic style, but i request to the writer please mention the sources (references )

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *