[blockquote style=”3″]

ادارتی نوٹ: رضا اختر اس موضوع پر اس سے قبل پنجاب لوک سجاگ کے لیے بھی ایک فیچر لکھ چکے ہیں۔ اس تحریر میں ترمیم اور اضافے کے بعد اسے لالٹین پر شائع کیا جارہا ہے۔

[/blockquote]

کسی معاشرے میں تبدیلی کے لیے اس کی ساخت کو سمجھنا ضروری ہے مگر طبقاتی معاشرے میں معاشرے کی ساخت کے ساتھ ساتھ یہ تلاش کرنا بھی اہم ہےکہ کون سے طبقات موجودہ استحصالی نظام سے غیر مطمئن ہیں اور کون سے طبقات اس استحصالی نظام کو قائم رکھنے کے حامی ہیں۔ استحصالی نظام کو قائم رکھنے والے ایسے حکمران عوام کی اکثریت کوتعلیم اور اپنی ثقافت سے بیگانہ رکھ کر اپنے مخصوص جمودی نظریات کی ترویج کرتے ہیں اور پھر ایسے مقاصد کو قومی نظریات کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ان نظریات میں مخفی مفادات اصل میں انہی حکمرانوں کے ہوتے ہیں جنہیں غیر مطمئن اکثریتی عوام وجہ بنا کر اپنے حقوق سے دستبردار ہو جاتی ہے۔
حقوق سے محروم اکثریت کے سامنے جمودی نظریات کو بے نقاب کرنا، معاشی اور معاشرتی ساکھ کو سمجھنا، معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے آمادگی کی پہلی شرط ہے اور محروم و محکوم پسماندہ رکھے گئے طبقات کو منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد پر آمادہ کرنا آج کی روشن خیالی ہے۔

حقوق سے محروم اکثریت کے سامنے جمودی نظریات کو بے نقاب کرنا، معاشی اور معاشرتی ساکھ کو سمجھنا، معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے آمادگی کی پہلی شرط ہے اور محروم و محکوم پسماندہ رکھے گئے طبقات کو منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد پر آمادہ کرنا آج کی روشن خیالی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے29 مارچ 2006ء کو پاکپتن میں ایک فکری تحریک سانجھ کی بنیاد رکھی گئی ۔ جس کا مقصد لوگوں میں طبقاتی استحصالی نظام اور جمودی نظریات کے خلاف شعور اور آگٓہی پیدا کرنا تھا جس کے لیے سانجھ کے زیر اہتمام 7 کتابوں کی سلسلہ وار اشاعت کا فیصلہ کیا گیا:
1-نو آبادیاتی نظام کا تعارف
2-نو آبادیاتی معاشی ڈھانچے کا تسلسل
3-نو آبادیاتی انتظامی ڈھانچے کا تسلسل
4-نو آبادیاتی تعلیمی ڈھانچے کا تسلسل
5-نو آبادیاتی سیاسی ڈھانچے کا تسلسل
6-متبادل نظام
7-ضمیمہ

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے تحریک کے سربراہ مسعود خالد نے بتایا کہ ” تحریک کےآغاز کے لیے 29 مارچ کو اہمیت دینے کا مقصد لوگوں کو یہ یاد کروانا تھا کہ 29 مارچ 1849ء کو برطانیہ سامراج نے قبضہ کیا تو اپنے 98 سالہ غلامی کے دور میں انہوں نے معاشرے کی تمام بنیادیں تبدیل کر دیں۔ ہندوستان کی معیشت کو زراعت پر جامد کر کے خام مال پیدا کرنے، فوجی بھرتی کے لیے نوجوان تیار کرنے اور برطانوی مصنوعات کی منڈی بنانے کے لیے جاگیردار طبقہ پیدا کیا گیا اور سیاسی اقتدار میں شریک کیا گیا ۔ 1947ء میں انگریز اسی طبقے کو اقتدار منتقل کر کے چلے گئے۔ اس طرح برطانوی سامراج میں معیشت کا زرعی ڈھانچہ، غیر پیداواری نظام تعلیم، بیوروکریسی کا انتظامی ڈھانچہ اور بعد میں ریاستی سرپرستی میں پیدا کیے گئے ریاستی سرمایہ دار کو فوج کی حکمرانی اور حمایت سے اس نظام کو قائم رکھنے میں مدد ملی ۔اس سارے نظام کو جدید نو آبادیاتی نظام کہا جاتا ہے جو کہ غلامی کی ایک نئی شکل ہےاورغلامی کے اسی نظام کو سمجھنے کے لیے ان کتابوں کی اشاعت کا فیصلہ کیا گیا "۔
ہندوستان کی معیشت کو زراعت پر جامد کر کے خام مال پیدا کرنے، فوجی بھرتی کے لیے نوجوان تیار کرنے اور برطانوی مصنوعات کی منڈی بنانے کے لیے جاگیردار طبقہ پیدا کیا گیا اور سیاسی اقتدار میں شریک کیا گیا ۔ 1947ء میں انگریز اسی طبقے کو اقتدار منتقل کر کے چلے گئے۔

یہ تمام کتابیں سلسلہ وار شائع کی گئی ہیں جن میں اس نو آبادیاتی نظام کے تعارف سے لے کر اس کے متبادل نظام تک کو بیان کیا گیاہے۔ اس مرحلے میں 6 کتابیں آتی ہیں جب کہ ساتویں کتاب 4 ایسی کتابوں کی تلخیص ہر مشتمل ہے جو مختلف مفکروں اور دانشوروں نے سرمایہ داری کے استحصال کو بے نقاب کرنے کے لیے لکھیں۔
کتابوں کا تعارف و مرکزی خیال کچھ اس طرح سے ہے:
1-نو آبادیاتی نظام کا تعارف :
پہلا کتابچہ عام آدمی کی زبان میں سیاست، معیشت اور سماجی علوم میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کی ان کے تاریخی پس منظر میں تشریح کرتا ہے۔
2-نو آبادیاتی معاشی ڈھانچے کا تسلسل :
دوسرا کتابچہ عالمی سرمایہ داری کے ارتقاء اور پاکستانی معیشت کو عالمی سرمایہ داری کے مفادات کے مطابق ڈھالنے کے مسلسل عمل کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
3-نو آبادیاتی انتظامی ڈھانچے کا تسلسل :
تیسرا کتابچہ اصل حکمران، فوجی، سول اور عدالتی بیوروکریسی کے پاکستان میں جمہوری عمل کو پنپنے نہ دینے کی تعریف ہے۔

4-نو آبادیاتی تعلیمی ڈھانچے کا تسلسل :

چوتھا کتابچہ پاکستان کے غیر پیداواری نظام تعلیم، قرضہ کی شرائط سے مشروط تعلیمی پالیسیوں، من گھڑت تعلیمی فلسفوں اور آئیڈیالوجی کے نام پر مسلط رکھی گئی پسماندگی اور تصوریت کے پھیلائے جال کوبے نقاب کرتا ہے۔
5-نو آبادیاتی سیاسی ڈھانچے کا تسلسل :
عالمی سرمایہ داروں کے معاشی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے پاکستان میں کن نظریات اور اداروں کو تشکیل دے کر سیاسی ڈھانچہ بنایا گیا ہے یہ کتابچہ ان نظریات اور اداروں پر ایک بحث ہے۔
6-متبادل نظام :
اس کتابچے میں ذکر کیا گیا ہے کہ پاکستان میں پسماندہ، محروم اورمحکوم طبقات کی نجات کے لیے کون سا متبادل نظام ایسا ہے جو یہاں ایک منصفانہ معاشی نظام قائم کر کے بہتر مستقبل کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
ان تمام کتابوں میں اب تک 4 کتب ” سانجھ پبلیکیشنز” کے زیر اہتمام شائع ہو چکی ہیں جب کہ باقی کی کتب ابھی تحریر کے مراحل میں ہیں۔ حال ہی میں 29 دسمبر2014ء کو ان کے چوتھے کتابچے ” نو آبادیاتی تعلیمی ڈھانچے کا تسلسل ” کی تقریب رونمائی قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ہوئی تھی جس میں ملک کے نامور دانشور اشفاق سلیم مرزا، طارق رحٰمن اور سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر انوار نے شرکت کی۔

ان شائع شدہ کتابچوں سے عوامی جمہوریت کے نقطہ نظر کے حامل افراد خود بھی مستفید ہو رہے ہیں اور مختلف ادبی حلقوں میں بھی سٹڈی سرکلز کروا کر اس علم کو پھیلارہےہیں۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ملتان میں ” ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹ فیڈریشن ” پنجاب کے صدر مشکور صاحب کا کہنا تھا کہ:

” خالد صاحب کے کتابچوں پر ہم متعدد سڈی سرکلز کروا چکے ہیں جن کی وجہ یہ ہے کہ یہ آسان فہم اور عام آدمی کی زبان میں لکھے گئے ہیں۔ ان میں طبقاتی جدوجہد کے لیے جس عوامی جمہوریت کے نقطہ نظر پر بحث کی گئی ہے ہم اس سے مکمل متفق ہیں۔ ان کتابوں کی مقبولیت کی بڑی وجہ اس میں استعمال ہونے والے مشاہدے، مفروضے اور مثالیں ہیں جو کہ لوگوں کی عام زندگیوں سے جڑے ہیں۔ استحصالی نظام اور طبقاتی فرق کو سمجھنے کے لیے ان کتب سے زیادہ سہل اور کچھ نہیں ہو سکتا ” ۔

کسی معاشرے میں ایسی فکری سوچ کا پروان چڑھنا جس میں اس معاشرے میں پائے جانے والے استحصالی نظام کا جائزہ لیا جانا اور پھر اس علم کو عام آدمی تک پہنچایا جانا ایک ایسی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے جو فرسودہ نظام کے ڈھانچے کو توڑتے ہوئے ارتقاء کی جانب پہلا قدم اٹھانے کا باعث بنتی ہے۔ نوآبادیاتی نظام کے تسلسل کو سمجھنے اور اس کا متبادل ڈھونڈنے میں مد د کرنے والی یہ کتب بھی ایسی ہی سوچ کی کڑیاں ہیں جو نئی نسل کی رہنمائی کر سکتی ہیں۔

Leave a Reply