پاکستان میں سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں اہم عہدوں پر سابق فوجیوں کی تعیناتی معمول ہے۔ تعلیمی اداروں میں ایک عرصے تک سابق فوجی وائس چانسلر کے عہدوں پر بھی تعینات رہے ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز کے مختلف شعبوں میں بھی اسی رحجان کے تحت تدریسی شعبوں میں سابق فوجی افسران تعینات کیے گئے ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے وضع کردہ معیارات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تدریسی عملے کی بجائے گریجویشن سے پی ایچ ڈی تک کے ڈگری کورسز کرانے والے شعبوں میں سابق فوجی افسران تعینات کیے گئے ہیں۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے رہنما اصولوں کے مطابق ہر تدریسی شعبے میں کم از کم ایک پروفیسر تعینات کرنا لازمی ہے۔ ضوابط کے مطابق صرف پندرہ سالہ تدریسی تجربے کا حامل پی ایچ ڈی فرد ہی کسی شعبے کی سربراہی کا اہل ہے، لیکن نمل یونیورسٹی میں علم التعلیم، بین الاقوامی تعلقات، مطالعہ تصادم و امن، نظم عامہ، مطالعہ پاکستان، معاشیات اور مینجمنٹ سائنسز کے شعبوں میں پروفیسر کی اہلیت کا حامل کوئی استاد تعینات نہیں۔ ان شعبوں میں پی ایچ ڈی ڈگری کے بغیر سابق فوجی افسران تعینات کیے گئے ہیں جبکہ سماجی علوم کے ڈین کی نشست بھی خالی ہے۔ انگریزی روزنامے ڈان کی ویب سائٹ پر 24 اکتوبر کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق شعبہ سماجی علوم میں تدریسی شعبے کی کمی کے باعث حال ہی میں یونیورستی کے زیر انتظام سماجی علوم پر منعقد ہونے والی ایک عالمی کانفرنس کے دوران شعبہ سماجی علوم کی جانب سے کسی پروفیسر یا ڈین کا تحقیقی مقالہ پیش نہیں کیا جاسکا۔ کل وقتی اساتذہ کی عدم موجودگی میں یونیورسٹی کے معاملات سابق فوجیوں یا عارضی ملازمین بھرتی کرنے کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے رہنما اصولوں کے مطابق ہر تدریسی شعبے میں کم از کم ایک پروفیسر تعینات کرنا لازمی ہے۔ ضوابط کے مطابق صرف پندرہ سالہ تدریسی تجربے کا حامل پی ایچ ڈی فرد ہی کسی شعبے کی سربراہی کا اہل ہے، لیکن نمل یونیورسٹی میں علم التعلیم، بین الاقوامی تعلقات، مطالعہ تصادم و امن، نظم عامہ، مطالعہ پاکستان، معاشیات اور مینجمنٹ سائنسز کے شعبوں میں پروفیسر کی اہلیت کا حامل کوئی استاد تعینات نہیں۔ ان شعبوں میں پی ایچ ڈی ڈگری کے بغیر سابق فوجی افسران تعینات کیے گئے ہیں جبکہ سماجی علوم کے ڈین کی نشست بھی خالی ہے۔ انگریزی روزنامے ڈان کی ویب سائٹ پر 24 اکتوبر کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق شعبہ سماجی علوم میں تدریسی شعبے کی کمی کے باعث حال ہی میں یونیورستی کے زیر انتظام سماجی علوم پر منعقد ہونے والی ایک عالمی کانفرنس کے دوران شعبہ سماجی علوم کی جانب سے کسی پروفیسر یا ڈین کا تحقیقی مقالہ پیش نہیں کیا جاسکا۔ کل وقتی اساتذہ کی عدم موجودگی میں یونیورسٹی کے معاملات سابق فوجیوں یا عارضی ملازمین بھرتی کرنے کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔
ضوابط کے مطابق صرف پندرہ سالہ تدریسی تجربے کا حامل پی ایچ ڈی فرد ہی کسی شعبے کی سربراہی کا اہل ہے، لیکن نمل یونیورسٹی میں علم التعلیم، بین الاقوامی تعلقات، مطالعہ تصادم و امن، نظم عامہ، مطالعہ پاکستان، معاشیات اور مینجمنٹ سائنسز کے شعبوں میں پروفیسر کی اہلیت کا حامل کوئی استاد تعینات نہیں۔
ہائیر ایجوکیش کمیشن کی پالیسی کے مطابق سرکاری اور نجی جامعات کی توثیق کے لیے ضروری ہے کہ ہر شعبے میں ایک پروفیسر، ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر، دو اسسٹنٹ پروفیسر اور دو لیکچرر ضروری ہیں لیکن یونیورسٹی کے بیشتر شعبوں میں کوئی پروفیسر موجود نہیں اور بعض شعبوں جیسے شعبہ معاشیات اور بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی اساتذہ کی موجودگی کے باوجود کم تر تعلیمی قابلیت کے حامل افراد کو سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ نمل کو 2002 میں یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تھا اور اسے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ کی مدد سے چلایا جارہا ہے۔ یونیورسٹی ترجمان محمد بلال خان نے غیر پی ایچ ڈی اساتذہ کی بطور سربراہ تعیناتی کا دفاع کیا،”نمل نسبتاً ایک نئی یونیورسٹی ہے اس لیے یہاں پروفیسرز کی درکار تعداد موجود نہیں۔ یونیورسٹی میں چار پروفیسرز موجود تھے جن کی خدمات ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر دوبارہ حاصل کی گئی ہیں۔”ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے سو کے قریب اساتذہ کو مختلف شعبوں کے پی ایچ ڈی پروگراموں میں داخلہ دیا گیا ہے۔
ایچ ای سی کے سربراہ ڈاکٹر مختار احمد نے قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر نمل کے خلاف کارروائی کرنے کے سوال پر کہا کہ وہ جلد ایسی تمام جامعات کے خلاف کارروائی کریں گےجہاں قواعد کے مطابق تدریسی عملہ موجود نہیں۔ طلبہ حلقوں کی جانب سے اس صورت حال کو تشویش ناک قرار دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بیشتر جامعات اور تعلیمی ادارے ایسے ہی انتظامی مسائل کا شکار ہیں جس کے باعث معیار تعلیم انحطاط پذیر ہے۔