انقلاب اور آزادی مارچ کو شروع ہوئے ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا ہے اور حالات کے سلجھنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔مارچ کے دوران آنے والے پیچ و خم میں وہ لمحہ اہم ترین تھا جب طاہرالقادری اورعمران خان صاحب نے وزیراعظم ہاؤس کے کی جانب بڑھنے کا اعلان کیا اورمظاہرین اپنا سامان سمیٹ کر وزیراعظم ہاؤس کی جانب بڑھنے لگے ۔اس دوران مظاہرین کو روکنےکے لئےآنسو گیس کے شیل فائر کئے جانے لگے اور ربڑ کی گولیاں بھی فائر کی جانے لگیں۔ خواجہ آصف ایک چینل پر نمودارہوئے اور وزیر اعظم ہاوس کی جانب بڑھنے والوں کو روکنے کے لئےطاقت کے استعمال کا عندیہ دیا۔مظاہرین اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے درمیان جھڑپوں کے دوران تین سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔مظاہرین کو روکنے کے لئےاسلام آباد پولیس کی بجائے پنجاب کی پولیس استعمال کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں۔ ماڈل ٹاؤن سانحہ کی طرح اس واقعہ سے متعلق بھی کئی سوال جواب طلب ہیں۔ اس واقعہ کی ایف آئی آر میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے کئی سو افراد کو ذمہ دار قرار دیا گیا اور چند نا معلوم افراد کو بھی شامل کیا گیا۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پولیس نے ہسپتال والوں کو زخمیوں اور شدید زخمیوں میں فرق ختم کرنے ، سب کو جلد از جلد فارغ کرنے کو کہا گیااور ڈاکٹروں کو ریکارڈ بنانے سے روکا گیا ۔
انقلاب اور لانگ مارچ کےبعد جس بری طرح پاکستانی معاشرہ انتشار کا شکار ہواہے اس کے بعد کسی بھی جماعت کا آئندہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا ممکن نہیں رہا ۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج پر دھاندلی اور بے قاعدگی کے الزامات کے باعث جمہوری انتقال اقتدار کا عمل جس بری طرح مشکوک ہو چکا ہے کوئی بھی جماعت عوام میں مقبولیت عام حاصل کرنے کی حالت میں نہیں۔
مظاہرین کی ڈی چوک پر واپسی کے بعد شروع ہونے والے کریک ڈاون اور جھڑپوں کے بعد حالات دوبارہ سنگین صورت حال اختیار کر چکے ہیں ۔انقلاب مارچ کا اختتام کچھ بھی ہو بہر حال اس سیاسی محاذ آرائی کا سب سے زیادہ نقصان ریاست کو ہوگا۔
حالیہ مظاہروں کے دوران ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات کی شمولیت کے ساتھ طاہر القادری صاحب کو ذوالفقار علی چیمہ جیسے تفتیش کار کو بدلنے کا مطالبہ کرنا چاہئےوگرنہ تفتیش کا وہی حشر ہو گاجو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کا ہوا تھا جس کے سربراہ احسن اقبال کے بہنوئی ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ پنجاب لاہور، ڈاکٹر عارف مشتاق چوہدری تھے۔اقرباء پروری کا یہ رجحان مسلم لیگ حکومت کا وہ “کارنامہ” ہے جو جمہوری حکومت کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ احسن اقبال صاحب وژن 2025 دے رہے ہیں مگر2014 میں بھی ان کی پارٹی اور رشتہ دار 90 کی دہائی میں رہ رہے ہیں ۔میرا احسن اقبال صاحب کو یہ مشورہ ہے کہ وہ پہلے اپنی جماعت کو 2014 میں لے کر آئیں اور 2014کا وژن تیار کریں ، پھر 2025 کی بات کریں،ایسی حرکتوں سے نہ تو مسلم لیگ ن2025 میں جا پائے گی اور نہ ہی پاکستان ۔
اس بحران کے باعث پاکستان کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کااپنا مستقبل بھی داو پر لگا ہوا ہے، ایک طرف جہاں 2013 کے انتخابات کے دوران پیپلز پارٹی ، اے این پی اور ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کو طالبان حملوں کے باعث انتخابی مہم چلانے کا موقع ہی نہ مل سکا اوربد قسمتی سے ترقی پسند جماعتیں اپنے مینڈیٹ سے محروم ہو گئی ہیں، وہیں دائیں بازو کی جماعتوں کا مینڈیٹ بھی تقسیم ہو چکا ہے۔انقلاب اور لانگ مارچ کےبعد جس بری طرح پاکستانی معاشرہ انتشار کا شکار ہواہے اس کے بعد کسی بھی جماعت کا آئندہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا ممکن نہیں رہا ۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج پر دھاندلی اور بے قاعدگی کے الزامات کے باعث جمہوری انتقال اقتدار کا عمل جس بری طرح مشکوک ہو چکا ہے کوئی بھی جماعت عوام میں مقبولیت عام حاصل کرنے کی حالت میں نہیں۔ جب تک عوام اور قیادت ذہنی پختگی اور جمہوری بالیدگی کو نہیں پہنچ پاتی،اس وقت تک جمہوریت کی بقا ممکن نہیں۔ آج پاکستان کی عوام سیاسی طور پر جتنی منتشر ہے اتنا ہی ذہنی انتشار کا بھی شکار ہے، وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کون صحیح ہے کون غلط ؟ کون اس ملک کیلئے بہتر ہے، کون اس ملک کو کیا دے سکتا ہے؟ کون سا سیاسی فیصلہ درست ہے کون سا غلط؟ یہ انتشار بحیثیت قوم ہمیں ہونے والا سب سے بڑا نقصان ہے۔
حالیہ مظاہروں کے دوران ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات کی شمولیت کے ساتھ طاہر القادری صاحب کو ذوالفقار علی چیمہ جیسے تفتیش کار کو بدلنے کا مطالبہ کرنا چاہئےوگرنہ تفتیش کا وہی حشر ہو گاجو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کا ہوا تھا جس کے سربراہ احسن اقبال کے بہنوئی ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ پنجاب لاہور، ڈاکٹر عارف مشتاق چوہدری تھے۔اقرباء پروری کا یہ رجحان مسلم لیگ حکومت کا وہ “کارنامہ” ہے جو جمہوری حکومت کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ احسن اقبال صاحب وژن 2025 دے رہے ہیں مگر2014 میں بھی ان کی پارٹی اور رشتہ دار 90 کی دہائی میں رہ رہے ہیں ۔میرا احسن اقبال صاحب کو یہ مشورہ ہے کہ وہ پہلے اپنی جماعت کو 2014 میں لے کر آئیں اور 2014کا وژن تیار کریں ، پھر 2025 کی بات کریں،ایسی حرکتوں سے نہ تو مسلم لیگ ن2025 میں جا پائے گی اور نہ ہی پاکستان ۔
اس بحران کے باعث پاکستان کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کااپنا مستقبل بھی داو پر لگا ہوا ہے، ایک طرف جہاں 2013 کے انتخابات کے دوران پیپلز پارٹی ، اے این پی اور ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کو طالبان حملوں کے باعث انتخابی مہم چلانے کا موقع ہی نہ مل سکا اوربد قسمتی سے ترقی پسند جماعتیں اپنے مینڈیٹ سے محروم ہو گئی ہیں، وہیں دائیں بازو کی جماعتوں کا مینڈیٹ بھی تقسیم ہو چکا ہے۔انقلاب اور لانگ مارچ کےبعد جس بری طرح پاکستانی معاشرہ انتشار کا شکار ہواہے اس کے بعد کسی بھی جماعت کا آئندہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا ممکن نہیں رہا ۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج پر دھاندلی اور بے قاعدگی کے الزامات کے باعث جمہوری انتقال اقتدار کا عمل جس بری طرح مشکوک ہو چکا ہے کوئی بھی جماعت عوام میں مقبولیت عام حاصل کرنے کی حالت میں نہیں۔ جب تک عوام اور قیادت ذہنی پختگی اور جمہوری بالیدگی کو نہیں پہنچ پاتی،اس وقت تک جمہوریت کی بقا ممکن نہیں۔ آج پاکستان کی عوام سیاسی طور پر جتنی منتشر ہے اتنا ہی ذہنی انتشار کا بھی شکار ہے، وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کون صحیح ہے کون غلط ؟ کون اس ملک کیلئے بہتر ہے، کون اس ملک کو کیا دے سکتا ہے؟ کون سا سیاسی فیصلہ درست ہے کون سا غلط؟ یہ انتشار بحیثیت قوم ہمیں ہونے والا سب سے بڑا نقصان ہے۔
فریق مخالف کو رسوا کرنے،خون بہانے اور اس پر شادیانے بجانے کی روایت مسلم لیگی سیاست کی اساس ہے۔غلط بیانی، معاملات نپٹانے کے لئے محض نمائشی دلچسپی اوراپنے موقف سے انحراف کے باعث موجودہ حکومت اور حکم ران جماعت اپنا اعتبار کھو چکے ہیں۔
میری رائے میں موجود ہ سیاسی بحران میں تحریک انصاف ، عوامی تحریک اور نوازشریف تینوں ہی کامیاب نہیں ہوں گے۔ عمران خان صاحب آزادی مارچ میں بہت ساری خامیوں کے ساتھ آئے ہیں اور وہ خامیاں صرف کرکٹ کی گراؤنڈ میں خوبیاں ہو سکتیں ہیں مگر سیاست میں ایسی سوچ نہیں چل سکتی۔ عمران خان ایک غیر سیاسی مزاج کے حامل ضدی انسان ہیں جو انا پرست ثابت ہوئے ہیں ہیں اور یہی خامیاں ہیں جن کی وجہ سےوہ اب تک کاروبار سیاست میں خسارہ ہی اٹھاتے رہے ہیں۔ سیاست کچھ لو اور کچھ دو کا نام ہے سیاست کم از کم اپنی پارٹی کوفیصلوں میں شریک اور متفق کرنے کا نام ہے چاہے وہ فیصلہ پارٹی قیادت کی انا اور خواہشات کے برعکس ہی ہو۔ تحریک انصاف سے متعلق یہ تاثر عام ہے کہ خان صاحب کسی کی بات کو اہمیت نہیں دیتے اپنی کرتے ہیں اپنی ضد پر اٹک جاتے ہیں،شخصی سیاست کا یہی رحجان دیگر جماعتوں کی ناکامی کا بھی باعث ہے۔طاہر القادری جیسے کردار جن کا نظام میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ان کا کھیل کے ختم ہوجانے کے بعد کوئی کردار نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو وہ کچھ علاقوں میں کسی اور کی حمایت اور اس کو جتوانے کی شکل میں ہو ا کرتا ہے۔ مگر نظام لپیٹنے اور طالع آزماوں کو ایک بار پھر عوام کی مسیحائی کا موقع دینے سے نقصان صرف عوام کا ہوتا آیا ہے۔
2013 کے انتخابات میں اکثریت پانے والی جماعت مسلم لیگ نواز کی ایک سالہ حکومت دیکھ کر تو یوں معلوم ہوتا ہےجیسے وہ مسائل کو بحران بنانے میں یگانہ روزگار ہیں۔مسائل حل کرنے کا واحد طریقہ جو نواز حکومت جانتی ہے وہ طاقت کا غلط استعمال ہے۔فریق مخالف کو رسوا کرنے،خون بہانے اور اس پر شادیانے بجانے کی روایت مسلم لیگی سیاست کی اساس ہے۔غلط بیانی، معاملات نپٹانے کے لئے محض نمائشی دلچسپی اوراپنے موقف سے انحراف کے باعث موجودہ حکومت اور حکم ران جماعت اپنا اعتبار کھو چکے ہیں۔ایک ماہ سے دھرنہ دیے ہوئے پر امن مظاہرین کے مطالبات تسلیم نہ کرنا اور نہتے لوگوں پر پولیس کے ذریعہ تشدد معاملہ فہمی اور مسائل حل کرنے کی حکومت صلاحیت کا بھانڈا پھوڑنے کو کافی ہیں۔
پارلیمان کی حمایت اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے جمہوریت کے تسلسل کے لئے حکومت کے ساتھ یکجہتی کے باوجود اپنی ذاتی حیثیت میں فوجی سربراہ سے سہولت کارکا کردار اداکرنے کو کہنا اور بعد ازاں اسمبلی فلور پر تمام دنیا کے سامنے اس بات پر سے پِھر جاناحکومت کو کم زور کرنے کا باعث بھی بنا ہے ۔ یہ منافقت ، اپنے ساتھ تو ہے ہی مگر اس سے بھی زیادہ جمہوریت اور عوام کے دیے اس مینڈیٹ کے ساتھ دھوکہ ہے جس کی بنیاد پر نواز شریف اس جمہوریہ کے وزیراعظم ہیں ۔نواز شریف صاحب کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ان سے استعفیٰ کا مطالبہ غیر آئینی نہیں محض طریق کار کا مسئلہ ہے،نواز صاحب جمہوریت اور پاکستان کے لئے ناگزیر نہیں ، ان کے بغیر آئین بھی رہے گا اور جمہوریت بھی رہے گی، لیکن ان کے طرز حکم رانی کے باعث وہ تیزی سے حکومت کرنے کا اخلاقی جواز کھوتے جا رہے ہیں۔
2013 کے انتخابات میں اکثریت پانے والی جماعت مسلم لیگ نواز کی ایک سالہ حکومت دیکھ کر تو یوں معلوم ہوتا ہےجیسے وہ مسائل کو بحران بنانے میں یگانہ روزگار ہیں۔مسائل حل کرنے کا واحد طریقہ جو نواز حکومت جانتی ہے وہ طاقت کا غلط استعمال ہے۔فریق مخالف کو رسوا کرنے،خون بہانے اور اس پر شادیانے بجانے کی روایت مسلم لیگی سیاست کی اساس ہے۔غلط بیانی، معاملات نپٹانے کے لئے محض نمائشی دلچسپی اوراپنے موقف سے انحراف کے باعث موجودہ حکومت اور حکم ران جماعت اپنا اعتبار کھو چکے ہیں۔ایک ماہ سے دھرنہ دیے ہوئے پر امن مظاہرین کے مطالبات تسلیم نہ کرنا اور نہتے لوگوں پر پولیس کے ذریعہ تشدد معاملہ فہمی اور مسائل حل کرنے کی حکومت صلاحیت کا بھانڈا پھوڑنے کو کافی ہیں۔
پارلیمان کی حمایت اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے جمہوریت کے تسلسل کے لئے حکومت کے ساتھ یکجہتی کے باوجود اپنی ذاتی حیثیت میں فوجی سربراہ سے سہولت کارکا کردار اداکرنے کو کہنا اور بعد ازاں اسمبلی فلور پر تمام دنیا کے سامنے اس بات پر سے پِھر جاناحکومت کو کم زور کرنے کا باعث بھی بنا ہے ۔ یہ منافقت ، اپنے ساتھ تو ہے ہی مگر اس سے بھی زیادہ جمہوریت اور عوام کے دیے اس مینڈیٹ کے ساتھ دھوکہ ہے جس کی بنیاد پر نواز شریف اس جمہوریہ کے وزیراعظم ہیں ۔نواز شریف صاحب کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ان سے استعفیٰ کا مطالبہ غیر آئینی نہیں محض طریق کار کا مسئلہ ہے،نواز صاحب جمہوریت اور پاکستان کے لئے ناگزیر نہیں ، ان کے بغیر آئین بھی رہے گا اور جمہوریت بھی رہے گی، لیکن ان کے طرز حکم رانی کے باعث وہ تیزی سے حکومت کرنے کا اخلاقی جواز کھوتے جا رہے ہیں۔