میں انھیں گالی نہیں دینا چاہتی
جو جھوٹ کی کھٹیا پر
پاؤں پسارے پڑے ہیں
میں ان پرنفرت سےتھوک بھی نہیں سکتی
اس بڑھتی ہوئی جوکروں کی آبادی روکنے ٹوکنے کا
میں نے کوئی ٹھیکہ تو نہیں لیا
وہ زمین جس نے مجھےجوان ہوتے ہوئے دیکھا
اور اس پر تنا آسمان جو میرے تنے ہوئےاعضا کو
کمزور درخت کی طرح جھولتے ہوئےدیکھ رہا ہے
میرے پاؤں کے نشان کہاں کہاں پڑے ہونگے
میرے خواب کن کن بادلوں میں آنکھ مچولی کھیل رہے ہوں گے
کوئی نہیں جانتا
یہ تو میں بھی نہیں جانتی
بس آنکھ کھولنے اور بند ہونے کے دورانیے میں
جو دیکھا تو صرف نفرت کو پنپتے ہوئے
نفرت جو ایک بھیانک خواب کی طرح روزہماری نیندوں میں آتی ہے
روز ہمیں اپنے ساتھ لےجاتی ہے
اس ٹریننگ میں شامل ہونے کے لئے کہ ہم بھی نفرت کے بغل بچے بن جائیں
اور اس زمین پر اندھادھند خون کی ہولی کھیلیں
Image: Caroline Durieux