Laaltain

نغمۂ جنوں

10 اگست، 2016
Picture of رانا غضنفر

رانا غضنفر

[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]

نغمۂ جنوں

[/vc_column_text][vc_column_text]

عقل کہتی ہے : چُپ ہی بہتر ہے
دل یہ کہتا ہے : کوئی بات کروں
چار سُو پھیلتے اندھیروں کو
حرفِ شعلہ صفت سے مات کروں

 

عقل کہتی ہے : یہ جنوں خیزی
تیرے اپنے لیے ہی مہلک ہے
تیرے دستِ تپاں کی بے تابی
سنگ و آہن کے سلسلوں میں فقط
اک بُنِ مُو سے کچھ زیادہ نہیں

 

دل یہ کہتا ہے: خوف کیسا ہے
جو بھی لکّھا ہے لوحِ ہستی پر
وہ تو ہونا ہے’ ہو کے رہتا ہے
اس جہانِ سفر میں ہر لمحہ
آگ میں کوئی پھول کھلتا ہے

 

عقل کہتی ہے : یہ سبھی باتیں
بے حقیقت ہیں’ بے نتیجہ ہیں
صرف بے کار خواہشوں کے اسیر
اپنی کم مایگی چُھپانے کو
ایسے قصّے تراش لیتے ہیں

 

عقل کہتی ہے : مصلَحت کوشی
کام یابی ہزار دیتی ہے
چند لمحوں کی خامشی اکثر
زندگی کو سنوار دیتی ہے

 

زندگی کی بساطِ پے چیدہ
دستِ شاطر ہی کھول سکتا ہے
آستیں میں چھپا ہوا خنجر
وقت آنے پہ بول سکتا ہے

 

شخصِ عیّار کی فسوں کاری
شہر یاروں کو رام کرتی ہے
چشمِ ناوک فگن کی طرّاری
دل کا قصّہ تمام کرتی ہے

 

ہم کو اس وقت کے سمُندر میں
موج کے ساتھ ساتھ چلنا ہے
ہر نفَس اپنی سَمت بہنا ہے
ہر قدم اپنے ہاتھ چلنا ہے

 

عقل کی لن ترانیاں سُن کر
دل کی دھڑکن کُچھ اور تیز ہوئی
حِرزِ جاں تھے جو درد کے لمحے
آگ بن کر لہو میں پھیل گئے
سُرمئی آنکھ کے ستاروں میں
جوشِ خُوں ناب کی چمک اُبھری
وَحشتیں پور پور سے پھوٹیں
لفظ پھر موجِ تُند کی صورت
غارِ حلقوم سے اُبلنے لگے

 

عقل کیا ہے حواس کا پَرتَو
ایک مخبر : جسے نہیں معلوم
لا سے لا تک کا یہ سفر کیا ہے
موت کیا ہے حیات کیا شے ہے
آسمانوں کی دُھند میں لپٹی
بے کراں کائنات کیا شے ہے

 

کون اس کارگاہِ ہستی میں
نقرئی دن کو رات کرتا ہے
کیسے گردِ ممات سے آگے
ایک نقشِ ابد اُبھرتا ہے

 

رقص میں کائنات ہے کیوں کر
ہر نفَس بے ثبات ہے کیوں کر
ماوراے حواس یہ دُنیا
آخرش کس ڈگر پہ چلتی ہے
کیسے نُطقِ شعورِ بے پایاں
حرفِ وِجدان میں سِمٹتا ہے
وقت اپنی روانیاں کھو کر
کس طرح ایک پَل میں ڈھلتا ہے
آبرُوے یار کے اشارے پر
کیوں جہاں پیرہَن بدلتا ہے

 

عقل کیا ہے کتابِ سادہ پر
طفلِ مکتب کی نقش پردازی
علمِ ظاہر کے چند پیمانے
چشمِ عیّار کی فسوں سازی

 

عقل :-

 

عقلِ آدم کو خام کہہ دینا
یوں تو اہلِ جنوں کی عادت ہے
لیکن اتنا تو مانتے ہیں سبھی
عقل انسان کی ضرورت ہے

 

کس نے اس خار و خَس کی دُنیا کو
حُسن و خوبی میں بے مثال کیا
آدمی خُوگرِ جہالت تھا
کس نے شائستۂ جمال کیا

 

کس نے اِس لالہ زارِ ہستی کی
ایک مدت سے کی نگہ بانی
کیسے اوجِ کمال کو پہنچی
چشمِ اہلِ ہنر کی تابانی

 

کس نے پھینکی کمند تاروں پر
ماہ و انجم شکار کس نے کئے
ریگ زاروں کے خَشمگیں چہرے
کار گاہِ بہار کس نے کئے؟؟

 

کیسے یہ ابر و باد کے موسم
دستِ آئینہ گر میں آٹھہرے
ہفت افلاک سر نگوں ہو کر
کیوں مرے بال و پر میں آٹھہرے

 

تُو کہ وارفتگی کا مارا ہوا
جانِ عالم پہ طنز کرتا ہے
تُو کہ ان دل فریب رنگوں میں
دشتِ وَحشت کی خاک بھرتا ہے

 

دل :-

 

تُو نے سب مُوشگافیاں کر لیں
اب مری بات غور سے سُن لے
میری وارفتگی’ مِرا ورثہ
چاک دامانیاں مرا زیور

 

میں نے اس رنگ و بُو کی دنیا کو
چشمِ بازیچہ گر سے دیکھا ہے
رقص کرتے دیارِ خُوباں کو
گھومتے بام و در سے دیکھا ہے
دشتِ افلاک سے پرے جا کر
خُوے بالیدہ تر سے دیکھا ہے
تُو نے اپنی نظر سے دیکھآ ہے
میں نے اپنی نظر سے دیکھا ہے

 

تُو نے کوتاہیِ نظر کو ہی
رہنماے حیات سمجھا تھا
بزمِ لیل و نہار کو تُو نے
معرضِ حادثات سمجھا تھا

 

تجھ کو آغاز کی خبر ہی نہ تھی
تجھ کو انجام کی خبر کیا ہو
تیری مُٹھی میں ریت کے ذرّے
تجھ میں تخلیق کا ہنر کیا ہو

 

تُو تو اس ریگ زارِ ہستی میں
جل بجھی راکھ کا قرینہ ہے
وقت کے بے کراں سمُندر میں
عقل بے بادباں سفینہ ہے

 

آگہی ورطۂ سفر میں ہے
بے یقینی دل و نظر میں ہے
آہوے تیز محوِ رقص نہیں
جست اندیشۂ دِگر میں ہے

 

خُوب اُڑنے کی آرزو ہے’ مگر
کُچھ خرابی سی بال و پر میں ہے
آنکھ میں دُھند ہے زمانوں کی
تیرگی پردۂ سحَر میں ہے
رازِ ہستی عیاں نہیں تجھ پر
تُو ابھی دستِ کوزہ گر میں ہے

 

رازِ ہستی کو جاننے کے لیے
علم و عرفان کی ضرورت ہے
موجِ الہام کے شناور کو
چشمِ وِجدان کی ضرورت ہے
نغمہ ہاے جنوں کی شورش کو
چاک دامان کی ضرورت ہے
رہ نوَردِ طلب کے سینے میں
ایک طُوفان کی ضرورت ہے

 

ECSTASY:

 

زینہ ہاے فلک کے بالِیں پر
پھر کوئی روشنی اُبھرتی ہے
دل میں اک ساعتِ فسوں پرور
کُنجِ آفاق سے اُترتی ہے
سوز و سازِ درُوں کی بے تابی
نغمۂ ماوراؑ سے بڑھتی ہے

 

پردۂ ہست و بُود اُٹھتا ہے
یا درِ خواب کوئی کُھلتا ہے
قریہِ دید کے دریچوں میں
ایک شعلہ سا رقص کرتا ہے

 

————

 

میرے رنجِ سفر کی قندیلیں
چشمِ شبنم فشاں میں روشن ہیں
میرے زخمی بدن کی خُوش بُو سے
غنچہ ہاے دوام مہکے ہیں
میرے حرفِ جُنوں کے سندیسے
بزمِ آفاق سے اُبھرتے ہیں
اور میں نغمہِ جنوں لے کر
پھر کسی جُستجو میں نکلا ہوں

Image: Duy Huynh
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *