تعین قدر کا مسئلہ اکیسویں صدی میں بالکل نئے انداز میں از سر نو زیر بحث آیا ہے، جس میں ہر طرح کی ادبی اقدار پر سوال قائم کئے جا رہے ہیں، شعر کی تفہیم، اس کی اصنافی حیثیت اور شعریت کے ابواب بھی عصر حاضر میں شعری قواعد کو دوبارہ مرتب کرنے میں کوشاں ہیں۔ شاعری یا علم شعر کے بعض مسلم الثبوت قواعد ایسے تھے جن پر جدیدیت کے زمانے تک کوئی سوال قائم نہیں کیے گیے تھے، ان پر بھی ما بعد جدیدیت کے عہد میں استفہامی نشان لگ گئے۔ میر، غالب، داغ، اقبال اور فیض جیسے اردو زبان کے بڑے شعرا کے کلام کو اکیسویں صدی کے اس موڑ پر دوبارہ جانچا اور پرکھا جانے لگا جب سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کی مختلف النوع آرا ایک پلیٹ فارم پر آ کر جمع ہونے لگیں، اردو ادب کے وہ مسلمات جو بیسویں صدی کے نصف آخر تک باہمی گفت و شنید کی عالمی حکمت عملیوں سے محروم تھے، انہوں نے اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہی اپنی مسلم الثبوتیت کو خیرباد کہہ دیا، ایسے عہد میں کسی بھی شعری کاوش پر آخری اظہار خیال کرنا اور اس کے متعلق کوئی حتمی فیصلہ سنانا ہر گز ممکن نہیں رہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شعر کی تفہیم نے سائنس اور عمرانیات کے جدید اصولوں کی روشنی میں اپنے وجود کو جس تنوع سے ہم آہنگ کیا ہے اس کے حاصل کے طور پر کوئی ایسا شعری پیرایہ یکسر تسلیم اور رد نہیں کیا جا سکتا جس میں کوئی واضح ترین صحت و سقم نہ پایا جاتا ہو۔ کسی بھی شے کے متعلق کوئی رائے ذاتی اظہار خیال ہے، جس سے ہر طرح کا اختلاف و اتفاق کیا جا سکتا ہے۔

اردو ادب کے وہ مسلمات جو بیسویں صدی کے نصف آخر تک باہمی گفت و شنید کی عالمی حکمت عملیوں سے محروم تھے، انہوں نے اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہی اپنی مسلم الثبوتیت کو خیرباد کہہ دیا
"نغمات الاسرار فی مقامات الابرار” اکیسویں صدی کی صوفی شعریات کی ایک موزوں ترین کڑی ہے، جس کے تخلیق کار شیخ ابو سعید الہ آبادی ہیں، اس نظم کو اردو زبان میں مثنوی کے پیرائے میں تخلیق کیا گیا ہے۔ مثنوی کے متعلق کوئی رائے قائم کرنے سے قبل میں اس مثنوی کے خالق کے تعلق سے دو ایک باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ صاحب مثنوی ایک ماہر علم و فن ہیں، لہٰذا ان کا رویہ بھی ایسا ہی ہے جیسا دنیا کے بڑے علمائےکرام کا رہا ہے، مثلاً حلم، فکر، اعتدال، محبت، خلوص، شفقت، قوت عمل اور قائدانہ صلاحیتیں وغیرہ جیسی کئی ایک صفات ان کی شخصیت کا حصہ ہیں، ساتھ ہی بات کہنے اور سننے کے آداب سے بھی موصوف بخو بی واقف ہیں۔ اپنی زندگی کے بنیادی مقاصد کواچھی طرح جانتے ہیں اور اپنے فکری اظہار کے تمام حوالوں سے اپنے واضح ترین موقف کی ترسیل کے عمل میں کوشاں رہتے ہیں۔ شاعری ان کا مقصد حیات نہیں بلکہ اصلاح فکر و عمل کا ذریعہ ہے، جس طرح وہ نثر میں اپنی بات کہنا جانتے ہیں اسی طرح شعری ذرائع سے بھی اپنے افکارو خیالات کو ظاہر کرنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ یہاں یہ بات کہنا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ نثر اور نظم ان دونوں پیرایہ بیان پر شیخ صاحب یکساں قادر ہیں، لیکن نظم کے حوالے سے جس انداز کی گفتگو وہ سننے اور پڑھنے کے شائق رہے ہیں اس نے ان کے شعری ذوق میں مزید بالیدگی پیدا کر دی ہے۔

"مثنوی” اردو شاعری میں ایک عرصے سے کہی جا رہی ہے، اس کا سب سے بڑا فائدہ جو مجھے نظر آتا ہے وہ یہ کہ اس صنف کے ذریعےکسی بھی ایسے خیال کو بحسن و خوبی بیان کیا جا سکتا ہے جس میں یک گنا تسلسل پایا جاتا ہو۔ زیرِ نظر مثنوی "نغمات الاسرار فی مقامات الابرار” بھی ایسے ہی خیالات کا گلدستہ ہے جس کے پہلے شعر سے آخری شعر تک ایک طرح کا تسلسل و ربط موجود ہے۔ اس مثنوی کی اصل اہمیت اس میں موجود آداب اور اخلاقیات تصوف کا ضم ہو جانا ہے۔ ابھی تک میں نے اس مثنوی کو تین مرتبہ پڑھا ہے اور ہر بار میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ مثنوی اردو کی کلاسیکل مثنویوں سے جس قدر مشابہ ہے اسی قدر مختلف ہے، اردو زبان میں مثنوی نگاری کی جو روایت رہی ہے اس سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں، کہانی در کہانی اور واقعہ در واقعہ ہماری کلاسیکل اردو مثنویات کا ایک لازمی جزو رہا ہے، پھر خواہ وہ دکنی مثنویات ہوں یا شمالی، نغمات الاسرار میں بھی مجھے اردو کی قدیم مثنویات کی طرح کئی ایک کہانیاں نظر آتی ہیں، فرق یا پھر یہ کہہ لیا جائے کہ تضاد صرف اتنا ہے کہ نغمات الاسرار کی کہانی ایسی جذبی کیفیت سے لبریزہےکہ اس مثنوی کے مضامین کو اردو کی کلاسیکل مثنویوں کے متن سے یکسر مختلف قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس اس مثنوی کی کلاسیکل ہیئت پر اگر غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ صاحب مثنوی نے جس طرح کی زبان اور اسلوب کو اپنی مثنوی میں روا رکھا ہے وہ ہمیں میر تقی میر، خواجہ میر درد اور مظہر جان جاناں وغیرہ کے کلام کی یاد دلاتاہے۔

نغمات الاسرار میں صاحب مثنوی نےاپنی بات کو جن صوفیانہ اصطلاحوں کے ذریعے بیان کیا ہے ان میں اس درجہ بلاغت پائی جاتی ہے کہ خواجہ میر درد اور میر تقی میر کے اشعار کی یاد تازہ ہو جاتی ہے
ایک اور بات جواس مثنوی کو اردو کے ان صف اول کے شعرا سے جوڑتی ہے وہ اس مثنوی کی مستقل متصوفانہ حیثیت ہے، نغمات الاسرار میں صاحب مثنوی نےاپنی بات کو جن صوفیانہ اصطلاحوں کے ذریعے بیان کیا ہے ان میں اس درجہ بلاغت پائی جاتی ہے کہ خواجہ میر درد اور میر تقی میر کے اشعار کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، لیکن یہ واقعہ ہے کہ میں نے حمد باری تعالی کا جو اسلوب اور طرز اس مثنوی میں دیکھا وہ کسی شاعر کے یہاں مجھے نظر نہیں آیا، حتیٰ کے خواجہ میر درد اور میر تقی میر جو اردو کی صوفیانہ شاعری کی سب سے بڑی دو مثالیں ہیں ان کے یہاں بھی نہیں۔(1)،مثلاً آپ میر صاحب، خواجہ صاحب اور زیرنظرمثنوی کے چند ایک حمدیہ اشعار دیکھیے جس سے میری بات مزید واضح ہو جائے گی۔

مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کے رقم کا
حقا کہ خدا وند ہے تو لوح و قلم کا
اس مسند عزت پہ کہ تو جلوہ نما ں ہے
کیا خاک گزر ہوے تعقل کے قدم کا
(خواجہ میر دردؔ)

تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کاذرہ ظہور تھا
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا
(میر تقی میر)

طائر قدسی حقیقت آشنا
لحن داودی میں ہے نغمہ سرا
ساز الہامی ہے اس کی ہر صدا
اور ندائے غیب ہے جس کی ندا
گفتگو ئے حق ہے جس کی گفتگو
جس کا اول ہی سبق ہے وحدہ
(شیخ ابو سعید آلہ بادی)

خواجہ صاحب اور میر صاحب کے حمدیہ اشعار کو غور سے پڑھیے اور پھر شیخ صاحب کے کلام کو دیکھیے آپ کو خود نظر آجائے گا کہ کس کلام میں زیادہ بلاغت پائی جاتی ہے۔ خواجہ صاحب اور میر صاحب نے جو اشعار کہے ہیں اس کی اہمیت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ واقعہ ہے ان کے اشعار کا خیال یک گنا سطحی ہے، جب کہ شیخ صاحب نے وحدۃ کے جس عنصر کو اپنے اشعار کے ذریعے بیان کیا ہے اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وحدۃ کے متعلق غور کرنا اور اس حوالے سے افکار و خیالات کی نئی نئی منزلیں طے کرنا شیخ صاحب کا کل وقتی مشغلہ رہا ہے، جس کی بنیاد پر وہ اپنے اشعار میں وحدۃ کے مضمون کا نیا خیال باندھنے پر قادر ہیں، جبکہ میر صاحب اور خواجہ صاحب کے اشعار کا مطالعہ کر کے ایسا محسوس نہیں ہوتا۔

شیخ صاحب اپنے اشعار میں جس طائر قدسی کا ذکر کر رہے ہیں وہ اتنا معنی خیز ہے کہ اس سے کائنات کی تمام اشیا کی طرف یک بارگی ذہن دوڑ جاتا ہے۔
شیخ صاحب اپنے اشعار میں جس طائر قدسی کا ذکر کر رہے ہیں وہ اتنا معنی خیز ہے کہ اس سے کائنات کی تمام اشیا کی طرف یک بارگی ذہن دوڑ جاتا ہے۔ مادہ اور روح ان دونوں حوالوں سے طائر قدسی کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے، جس سے بات حقیقت کی منزلوں پر پہنچتی ہے، اسی طرح حقیقت، اور حق جیسی اصطلاحات کا استعمال کرکے شیخ نے مضمون میں جو وسعت پیدا کی ہے وہ بھی لائق تحسین ہے۔ یہاں میں اس بات کا اعادہ کرنا چاہوں گا جو بات میں اکثر اپنے احباب سے کہتا رہتا ہوں کہ آج جس عہد میں ہم جی رہے ہیں اس میں زندگی اور زندگی سے متعلق علوم میں کوئی نئی بات کہہ پانا جتنا مشکل ہے اتنا ہی آسان بھی ہے، کیوں کہ ہمارا علمی اساسہ جس میں ہر طرح کی باتیں موجود ہیں وہ ابھی بھی اتنا ہی خالی ہے جتنا اول روز میں تھا، ادب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ہمارے یہاں اس بات کا جو رونا رویا جاتا ہے کہ کوئی نئی بات کیوں کر کہی جائے یا کس اندازمیں کہی جائے تو ایسے لوگوں کو مثنوی کے مطالعےکی ضرورت ہے، تاکہ ان کو زندگی کی قدامت سے جو گلہ ہے وہ ختم ہو سکے۔ خیر آپ مذکورہ بالا اقتباس کی تمام اصطلاحوں کو اگر غور سے دیکھیں گے تو مجھے امید ہے کہ اس نتیجے پر پہنچیں گے کس طرح ایک پھول کے مضمون کو سو رنگوں سے باندھا جا سکتا ہے۔

قرآنی تعلیمات اور قر آن کے ذریعے خدا کی دریافت یہ مضمون مثنوی کے حمدیہ کلام میں دو اور دو چار کی طرح رقم کیا گیا ہے جس میں تفہم کی جس قدر سلاست ہے اسی قدر گیرائیت بھی، اپنے حمدیہ اشار میں وحدۃ کے اول سبق کا ذکر کر کے صاحبِ مثنوی نے آخری سبق تک قاری کی نشان دہی کر دی ہے اور اس کے آگے جن دو قرآنی اصطلاحوں مثلاً "لاتخف” اور "ولا ہم یحزنون” کا تذکرہ انہوں کیا ہے اس سے واضح انداز میں وحدۃ کے سبق کی تکمیل ہو جاتی ہے،۔
نغمات الاسرار فی مقامات الابرار کا مطالعہ میری ناقص رائے میں چار حوالوں سے بیک وقت کیا جا سکتا ہے:

الف :علم تصوف کے حوالے سے
ب:زبان و ادب کے حوالے سے
ج: شعریت کے حوالے سے
اور
د:اردو کے مابعد جدید شعری منظر نامے کے حوالے سے

علم تصوف کےحوالےسے بھی اس مثنوی کے مطالعے کی کئی ایک جہتیں ہیں، مثلاً:
الف: اصلاح علم و عقیدہ کے حوالے سے
ب: صوفیہ کے عقائد و نظریات کے حوالے سے
ج: تصوف کی اصطلاحات کے حوالے سے
د: علم تصوف اور آدا ب تصوف کے حوالے سے

اسی طرح شعریت کے حوالے سے بھی کئی ایک موضوعات ترتیب دے کر نغمات الاسرار کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے، مثلاً:
الف: جدید صوفی شعریات کے حوالے سے نغمات الاثرار کا مطالعہ
ب: نئی استعاراتی بساط اور نغمات الاثرار فی مقامات الابرارکا مطالعہ
ج: شعر یت کی جدید تعریف اور نغمات الاثرار کی عملی کار کردگی ایک مطالعہ

اسی طرح ما بعد جدیدیت کی اگر بات کی جائے تو اس حوالے سے بھی کئی ایک موضوعات زیرِ بحث آ سکتے ہیں، مثلاً اردو کی جو مقامی شاعری ہے اس تناظر میں بھی اس مثنوی پر غور کیا جا سکتا ہے، ساتھ ہی ادب کے جدید مباحث Deconstruction, Reformation ساختیات اور پس ساختیات وغیرہ کے قاعدوں کے تحت بھی اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

اس مثنوی میں تصوف کی اصطلاحات کو اس انداز میں نظم کیا گیا ہے اور اس کے اشارات اس طرح جذب کیے گیے ہیں کہ پوری مثنوی تصوف کے خصوصی مطالعے کا اعلیٰ نصاب معلوم ہوتی ہے۔
اس مثنوی کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں کئی ایک پہلو بیک وقت موجود ہیں، لیکن اس کا بنیادی نقطہ نظر خالص صوفیانہ ہے، اور وہ بھی ایسا صوفیانہ نہیں جس کو اردو زبان میں عمومی انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ اس مثنوی میں تصوف کی اصطلاحات کو اس انداز میں نظم کیا گیا ہے اور اس کے اشارات اس طرح جذب کیے گیے ہیں کہ پوری مثنوی تصوف کے خصوصی مطالعے کا اعلیٰ نصاب معلوم ہوتی ہے۔ اوپر بیان کیے گئے ان عناوین کے تعلق سے میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں کہ یہ مثنوی خواہ کسی حوالے سے پڑھی جائے، لیکن اس کا حقیقی لطف اور اس کی اصل تفہیم اسی کو حاصل ہو سکتی ہے جو شیخ کی صحبت میں رہ چکا ہوں یا شیخ کی صحبت میں رہ کر اس کو سمجھنے کا متمنی ہو۔ کیوں کہ اس کی اصل تفہیم تک رسائی شیخ کی صحبت میں کچھ وقت گزارے بنا مشکل ہی سے حاصل ہوگی۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے جس کو شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنی ایک تقریر میں بہت واضح انداز میں بیان کر دیا ہے، ملاحظہ کیجیے:
ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں :

ہوتا یہ ہے بعض اوقات ایک عبارت کے سمجھنے میں مغالطہ ہو جاتا ہے، ہر عبارت کا ایک سیاق و سباق ہوتا ہے، اور ویسے بھی یہ ایک فیکچئول بات ہے کہ کسی خاص ٹیکنکل چیز کو اگر سمجھنا ہو، تو اس ٹیکنکل چیز کی اپنی ایک اسپیشلٹی ضروری ہوتی ہے، یعنی، اس زبان کو سمجھنا، اس زبان کے اشارات کو سمجھنا، اس زبان کی اصطلاحات کو سمجھنا وغیرہ ضروری ہوتا ہے، مثلاً کیمسٹری کے بہت سے فارمولاز ہیں، ان کے اپنے اشارات ہیں، فزکس کے بہت سے فار مولاز ہیں، ان کے اپنے اشارات ہیں ، میتھ میٹکس کے فارمولاز ہیں، اس کے اپنے اشارات ہیں، اور آج تو آپ جینیٹک سائنس کی تفصیلات میں چلے جائیں، پرو ٹونز کے مباحث میں، نیوٹرون کے ڈسکشن میں، ایک ایک چیز کے اوپر اتنا تکنیکی علم وجود میں آگیا ہے اور اتنی ٹیکنکل اشارات کی زبان وجود میں آ گئی ہے کہ اس مضمون کا بنیادی علم رکھنے والا بھی جب ان چیپٹر پہ آئے گا تو رتی برابر یہ اشارات اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آئیں گے، لہٰذا وہی شخص ان اشارات کوسمجھ سکتا ہے جو در اصل اس سبجیکٹ پر کامل مہارت رکھتا ہو ۔

Dr. Tahir ul Qadri, Introduction to Series (Sufism & Teachings of Sufis: Episode. 1), YouTube.

نغمات الا سرار فی مقامات الابرار کو سمجھنے کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اس کی تفہیم اس کے ماہرین ہی کے ذریعے ممکن ہے۔

یہ مثنوی ایک فن پارہ ہے، جس کو اردو زبان کی نئی شعریات کے حوالے سے میں قابل قدر سمجھتا ہوں، یہ فن پارہ جہاں ایک طرف شاعری کی جدید روایت کو اس زبان کی قدیم روایات سے جو ڑتے ہوئے کئی ایک بڑے کار نامے انجام دیتا نظر آتا ہے وہیں ہندوستان کی علاقائی شعری روایت کو دوبارہ زندہ کرتا ہوا نظر آتا ہے، الہ آباد جو کئی برسوں سے اچھی اور بڑی شعری تخلیقات سے محروم ہوتا چلا جا رہا تھا اس مثنوی نے اس کسر کو بخوبی پورا کیا ہے، میں شیخ صاحب کی مثنوی کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ محسوس کرتا ہوں کہ اردو زبان میں جس کلاسیکی رنگ کے فقدان کو ہم شدت سے محسوس کر رہے تھے وہ کلاسیکی رنگ اس مثنوی کے حوالے سے دوبارہ اپنے حقیقی عرفان کے ساتھ زندہ ہوتا نظر آتا ہے۔

(1) میر صاحب کا اردو دیوان اور خواجہ صاحب کا اردو دیوان دونوں حمدیہ کلام سے شروع ہوئے ہیں اور شیخ صاحب نے چو نکہ اپنا کوئی ایسا دیوان ترتیب نہیں دیا ہے اس لیے میں ان کی مثنوی کے ابتدائی حمدیہ کلام سے یہ ان کے مختلف اسلوب کی مثال پیش کر رہا ہوں،ان تنیوں شعری اقتباسات میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ تنیوں حمدیہ شاعری کی مثالیں ہیں۔

Leave a Reply