پھر وہ رُکی نہیں۔ وہ ہوتی ہی رہی۔ کسی بھی دن کا آسمان بادلوں سے خالی نہ رہا۔ کبھی موسلادھار بارش ہوتی اور کبھی کبھی ہلکی پڑ جاتی۔ مگر پھوار برابر پڑتی رہی۔ دس دن گزر گئے۔ ندیاں خطرے کے نشان کے اوپر بہنے لگیں۔ باندھ کھول دئے گئے اور پانی نے آس پاس کے علاقوں کو ڈبوکر رکھ دیا۔
باڑھ آگئی، اس باڑھ میں انسانوں کے ساتھ اُن کے مویشی بھی بہہ گئے۔ شہر کی سڑکوں پر گھٹنوں گھٹنوں پانی تھا۔ محلے کے کئی گھروںکی چھتیں اور دیواریں گر گئیں۔ لوگ ان گرتی ہوئی چھتوں اور دیواروں کے نیچے دب دب کر مر گئے۔ مگر بارش نہ رُکی۔
ہمارا گھر کافی پختہ اور مضبوط تھا، مگر اس کی دیواروں میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ گئیں اور دالانوں اور کوٹھریوں کی چھتیں بری طرح ٹپکنے لگیں۔ پلنگ، بستر، صندوق، میز، کرسیاں سب پانی سے تربتر ہو گئے۔ باورچی خانے کا تو سب سے برا حال تھا۔ اس کی چھت سے تو پانی تقریباً اسی طرح نیچے آرہا تھا جیسے آنگن میں۔ چولہا ٹھنڈا پڑ گیا۔ کھانا دالان میں انگیٹھی رکھ کر پکایا جانے لگا۔
باورچی خانے کے برتن، تیل، گھی، اناج اور مسالے سب پانی میں ڈوبے پڑے تھے۔
ایک دن گھر کے کچے آنگن میں بھی گھٹنوں گھٹنوں پانی بھر گیا۔ سڑکوں کی نالیاں بند تھیں۔ اور پانی کی نکاسی کا کوئی راستہ نہ تھا۔ باورچی خانہ کیونکہ آنگن کی سطح سے بالکل ملا ہوا تھا اس لیے وہاں بھی پانی آگیا۔ باورچی خانے کے برتن اسی پانی میں بہہ بہہ کر آنگن میں تیرنے لگے۔ دیگچیاں، پتیلے، تسلے، چمچے، کفگیر، پتیلیاں اور توے سب آنگن میں بہتے چلے جارہے تھے۔ وہ گھر کی نالی سے باہر نکل جانا چاہتے تھے۔
پورا گھر بارش رُکنے کی دعائیں مانگنے لگا۔ آنگن میں چلنا دشوار ہوگیا۔ لوگ پھسل پھسل کر گرنے لگے۔ پاخانے اور دروازے تک جانے کے لیے چند اینٹیں رکھ دی گئیں تھیں جو اَب پانی میں پوری طرح ڈوب چکی تھیں اور نظر نہ آرہی تھیں۔نارنگی کے ایک چھوٹے سے درخت میں اچھّن دادی نے ایک سفید پرزے پر ’’ق ق ق‘‘ لکھ کر لٹکا دیا۔ آنگن میں پانی اور کائی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ جب وہ یہ سفید پرزہ درخت میں لٹکاکر جلدی جلدی دالان کی جانب واپس آرہی تھیں، تب ہی کائی میں اُن کا پیر پھسل گیا۔ وہ چاروں خانے چت گریں۔ وہ کائی اور کیچڑ میں لت پت تھیں۔ اُن کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی۔(اس کے بعد وہ جب تک جئیں، صاحب فراش ہی رہیں اور مجھے ہمیشہ کائی میں لتھڑی ہوئی محسوس ہوئیں) گھر میں نالیوں سے بہہ بہہ کر حشرات الارض چلے آئے۔ مینڈک اور کچھوے، کنکھجورے اور کان سلائیاں۔ کینچوے اور سانپ کے چھوٹے چھوٹے بچّے بھی۔ حد تو یہ تھی کہ ایک دن چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی۔ پورا گھر کائی کی بساندھ سے بھر گیا اور اُس کی ہر دیوار ہری اور کالی نظر آنے لگی۔ اندر کی دیواروں پر سیلن اور پانی نے آکر ساری قلعی نیست و نابود کر دی۔ گارا اور چونا جگہ جگہ سے پھول کر نیچے گرنے لگا۔ وہاں طرح طرح کے دھبّے اور شکلیں سی بنتی نظر آنے لگیں۔ بھیانک اور بولتی ہوئی صورتیں، خود رو گھاس اور پودوں نے دیواروں کی منڈیروں پر پھیلنا شروع کر دیا۔ آسمان پھٹ گیا تھا اور شاید زمین بھی جلد ہی پیروں کے نیچے سے پھسل کر غائب ہوجانے والی تھی۔ طوفانی بارش میں، مَیں اپنے کن کٹے خرگوش کے ساتھ دالان، کبھی کوٹھری اور کبھی داسے کے قریب دُبکا رہتا اور بارش دیکھتا رہتا۔ جب کبھی بجلی زور سے کڑکتی تو نورجہاں خالہ کے منھ سے بے اختیار نکلتا ’’یا اللہ خیر۔‘‘
رات میں اس بارش کی آواز مہیب اور پُراسرار ہوجاتی۔ ٹین پر گرتی ہوئی بارش اب مجھے اس ماتمی باجے کی یاد دلاتی جو محرّم کے دنوں میں تختوں کے ساتھ بجایا جاتا ہے۔
بارش کی یہ آواز آہستہ آہستہ سنّاٹے میں بدلتی جاتی تھی۔ جیسے کوئی اُداس اور ماتمی موسیقی آخر میں خاموشی یا ایک گہری چُپ میں جاکر کھو جاتی ہے۔ اب میرے کان اس بارش کی آواز کے عادی ہوچکے تھے۔ اس لیے میرے لیے اب رات کے سنّاٹے اور بارش میں کوئی فرق نہیں رہا۔ مجھے نیند آنے لگی، ان راتوں میں، مجھ پرجلد ہی نیند کا غلبہ ہوجاتا اور میں گہری نیند سونے لگا۔ نہ صرف سونے لگا بلکہ خواب بھی دیکھنے لگا۔ ایسے خواب جنہیں میں آج تک نہیں بھولا۔
کچھ بیماریاں، عادتیں، اضطراری عمل یا ردّعمل وغیرہ ورثے میں مل جاتے ہیں۔ ہمارے گھر کے تقریباً تمام افراد کی اکثر سوتے میں اپنے ہی دانتوں سے زبان کٹ جاتی تھی۔ جیسے وہ ایک لذت آگیں یا وحشت انگیز خواب دیکھتے تھے۔ وہ صبح کو آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھتے اور اُن کے منھ سے ٹھوڑی کی طرف بہتی ہوئی ایک خون کی لکیر ہوتی۔
اب تک میں بچا ہوا تھا۔ سوتے میں، میری زبان دانتوںکے درمیان کبھی نہیں آئی تھی مگر اس دفعہ بارش اور سیلاب کی اُن پرُاسرار راتوں میں، جب میں بہت گہری نیند سونے لگا اور خواب دیکھنے لگا تو صبح کو جاگنے پر میرے منھ سے بھی خون کی پتلی سی لکیر ٹھوڑی پربہتی نظر آنے لگی۔ میں اُسے اکثر شہادت کی انگلی سے پونچھ دیا کرتا۔
ان خوابوں میں ہمیشہ ایک لڑکی ہوتی یا یہ کہ لڑکی نہ ہوکر وہ بارش تھی جس نے خواب کا چولا پہن لیا تھا۔ ہربار کے خواب میں اس کی صورت مختلف ہوتی مگر میرے اندر، زیریں سطح پر یہ احساس ہمیشہ موجود رہتا کہ وہ ایک ہی لڑکی ہے۔ وہی ایک وجود جو ہر خواب میں آتا ہے۔ میں لاکھ کوشش کر لوں مگر اُس کا حلیہ لفظوں میں نہیں بیان کر سکتا۔ کبھی لگتا کہ وہ چہرہ دنیا کے ہر انسان سے ملتا جلتا ہے۔ اور کبھی یہ محسوس ہوتا کہ وہ چہرہ کسی سے بھی مشابہت نہیں رکھتا۔ کچھ شکلیں، کچھ صورتیں ایسی ہوتی ہیں جو آنکھوں کی گرفت میں نہیں آتیں۔ وہ آنکھوں سے ہوکر نکل جاتی ہیں۔ اور پھر خوشبو بن کر روح میں اُتر جاتی ہیں، یہ اور بات ہے کہ ہر خوشبو آپ کو محض مسرت ہی نہیں فراہم کرتی، وہ کبھی کبھی بلکہ اکثر بے حد افسردہ بھی کر دیتی ہے۔
’’لو—‘‘ وہ اپنی ہتھیلی آگے بڑھاتی ہے۔ کلائیوں تک اُس کے ہاتھوں میں مہندی لگی ہوئی ہے۔ میں غور سے دیکھتا ہوں، گوری، اُجلی صاف، نازک سی ہتھیلی پر ایک سوکھا شامی کباب رکھا ہوا ہے۔
’’لو کھالو۔‘‘
میں احتیاط کے ساتھ شامی کباب اُٹھاتا ہوں۔ شامی کباب برف کی طرح ٹھنڈا اور اُداس ہے۔ میں شامی کباب کا ایک ٹکڑا دانتوں سے کاٹتا ہوں۔
منّ و سلویٰ شرماکر ایک کونے میں چھپ جاتا ہے۔ لڑکی بھی اچانک گم ہوجاتی ہے۔
میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ بارش ہوئے جارہی ہے۔
’’گڈّو میاں! تمھیں کھانے میں سب سے زیادہ کیا پسند ہے؟‘‘ لڑکی پوچھتی ہے۔ اس بار اُس کی کلائیوں میں سبز چوڑیاں ہیں۔ چوڑیاں اُس کی کھنک دار آواز سے خود بھی کھنکنے لگتیں ہیں۔
’’قورمہ۔‘‘ میں جواب دیتا ہوں۔
’’اور؟‘‘
’’پلائو۔‘‘
’’اور؟‘‘
’’ارہر کی دال۔‘‘
’’اور؟‘‘
’’اور۔۔۔ اور۔۔۔ میں ذہن پر زور دیتا ہوں۔ پھر جوش بھرے لہجے میں کہتا ہوں۔ ’’اور سب سے زیادہ تو گردہ کلیجی۔‘‘
’’گردہ کلیجی؟‘‘
’’ہاں! وہ مجھے بہت بہت پسند ہے۔‘‘
’’تمھیں گردے کلیجی اتنے پسند ہیں؟‘‘ لڑکی کی آواز رُندھ جاتی ہے۔
’’ہاں!‘‘ مگر ہمارے یہاں بہت کم پکتے ہیں۔ صرف بقرعید میں۔‘‘
میں افسردگی کے ساتھ کہتا ہوں۔
’’تمھیں گردے کلیجی اتنے پسند ہیں تو میرے نکال کر کھالو۔‘‘
میں اُسے ٹکر ٹکر دیکھتا رہتا ہوں۔
’’ہاں نکال لو، میرے دونوں گردے اورمیری کلیجی۔‘‘ وہ پرخلوص لہجے میں کہتی ہے۔
میں باورچی خانے میں جانور ذبح کرنے والی چھری لینے کے لیے چلا جاتا ہوں۔
میری آنکھ کھل گئی۔ صبح ہو گئی ہے۔ بارش جارہی ہے۔ منھ سے ٹھوڑی تک خون لگا ہوا ہے۔ میری زبان میں بہت تکلیف ہورہی ہے۔ زبان دانتوں کے درمیان آکر بری طرح کٹ گئی ہے۔ میں نے سوچا کہ میرے دانت نکیلے بھی تو بہت ہوتے جارہے ہیں۔
خوابوں کا یہ سلسلہ تب تک چلتا رہاجب تک بارش ہوتی رہی۔ پھر ایک دن پانی برسنا بند ہو گیا۔ آخرکار بارش رُک گئی۔ ہر بارش کو بہرحال ایک نہ ایک دن رُکنا ہی ہوتا ہے۔ اُس طویل ترین بھیانک بارش کو بھی تھک کر رُکنا ہی پڑا تھا۔ جو لاکھوں برس تک اس کرّہ ارض پرہوتی رہی تھی۔
دھوپ نکل آئی ۔ سورج نے بادلوں کی سیاہ نقاب، اپنے چہرے سے نوچ کر پھینک دی۔ ہر شے اب سوکھنے لگی۔ گھر، دیواریں، چھت، کپڑے، سب گرم ہونے لگے۔ مگریہ ایک سیلن زدہ تمازت تھی۔ بارش کے بعد سارے شہر میں بخار کی وبا پھیل گئی۔ کھانے سڑنے لگے۔ کھانا، باورچی خانہ ہو، یا کوئی اور جگہ، ہر جگہ سڑ رہا تھا۔ اور سڑے ہوئے کھانے کی بوہر جگہ سے آرہی تھی۔یہ بخار آنتوں اور پیٹ میں خطرناک جراثیم پیدا ہونے سے آتا تھا۔ ہمارے گھر میں بھی ہر کسی کا پیٹ خراب تھا۔ سب اُلٹیاں کر رہے تھے۔ اور ایک دوسرے کو، چڑچڑاتے ہوئے، تقریباً کھا جانے کے لیے دوڑتے تھے۔ سب کی آنتوں میں مروڑ تھی۔ انجم باجی تک کی آنتوں میں (مجھے اس بار اُن کے پیٹ میں آنتیں ہونے کے احساس سے اتنا صدمہ نہیں پہنچا)۔ ان دنوں گھر میں صرف مونگ کی دال کی کھچڑی پکتی تھی اور سارا گھر اُسے دہی کے ساتھ دونوں وقت کھاتا تھا۔ میں نے اتنے بڑے دیگچے میں اتنی زیادہ کھچڑی پکتی کبھی نہیں دیکھی تھی۔
میں بھی کھچڑی ہی کھاتا رہتا، مگر میرا پیٹ خراب نہیں ہوا۔ نہ تو میری آنتوں میں مروڑ ہوئی اورنہ ہی مجھے کوئی اُلٹی ہوئی۔
دراصل ہیضہ پھیل گیا تھا۔ برسات کے بعد، اُن دنوں یہ بیماری عام تھی، لیکن اس بار اس نے وبا کی صورت اختیار کرلی۔ لوگ قے اور دستوں سے مرنے لگے۔ ہمارے محلے میں ہی کئی موتیں ہوئیں۔ گھر کے پاس ہی ڈاکٹر اقبال کا مطب تھا۔ ڈاکٹر اقبال ایک نیم حکیم تھا اور اُس کے پاس باقاعدہ کوئی میڈیکل ڈگری نہیں تھی۔ مگر اُس کے مطب پر مریضوں کا میلہ لگ گیا۔ مطب ایک پتلی سی گلی میں تھا۔ یہ پوری گلی ہیضے کے مریضوں سے اور پیشاب پاخانے کی ناگوار بدبوئوں سے بھری رہتی تھی۔ مریض ایک کے اوپرایک لدے سے رہتے اور اکثر اپنی اپنی الٹیاں اور قے برداشت نہ کرتے ہوئے، ایک دوسرے کی پیٹھ پر ہی کر دیتے اور پھر آپس میں مارپیٹ کی نوبت آجاتی۔ اگرچہ مارپیٹ ہو نہ پاتی کیونکہ وہ سب لگاتار دستوں، اُلٹیوں، بخار اور کچھ نہ کھانے پینے کی وجہ سے انتہائی لاغر اور کمزور ہوچکے تھے۔ ان کی کھال، گوشت اور ہڈیوں میں پانی کی بوند تک نہ بچی تھی۔کئی مریضوں نے ڈاکٹر اقبال کے مطب کے سامنے، اِسی گلی میں نالیوں میں گر کر دم توڑ دیا۔
یہ تھا انسان کی آنتوں کا تماشہ جسے سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ تھی منھ چلائے جانے کی سزا۔ انسان کا جرم اور اُس کی سزا دونوں ہی اس کی تعمیر میں مضمر ہیں۔
اس لیے میں نے کہیں کہا تھا کہ انسان اپنی آنتوں میں رہتا ہے۔
پھر آہستہ آہستہ یہ وبا بھی کم ہونے لگی۔ کیونکہ زمین نے گردش کرنا تو چھوڑانھیں تھا۔ ستمبرکے آخری دن آپہنچے اور وہ ہوائیں چلنے لگیں جن سے تیز دھوپ بھی ہار جاتی ہے وہ دُھلی دھلائی اور پاکیزہ دھوپ تھی۔ نیلا آسمان پہلے سے زیادہ نیلا نظر آنے لگا اور دوپہر میں تیز ہوا کے جھکّڑ جیسے دھوپ اور آسمان دونوں کو اپنے ساتھ اُڑائے لے جاتے تھے، موسم نے کروٹ لی تھی۔ ہیضے کے جراثیم کمزور پڑنے لگے۔
یہ ہوائیں بارش کے رخصت ہوجانے کا ایک جشن منا رہی تھیں یا نوحہ، یہ تو میری سمجھ میں آج تک نہ آسکا، حالانکہ میں ہر سال بارش کے بعد چلنے والی ان ہوائوں سے دوچار ہوتا ہوں مگر اب یہ بھی ہے کہ جشن اور نوحہ کون سی دو مختلف باتیں ہیں، جس طرح زندگی اور موت دو مختلف چیزیں نہیں ہیں۔
وہ خوفناک بارش تو چلی گئی تھی مگر میں پہلے سے کچھ زیادہ بڑا اور شاید زیادہ خطرناک ہوگیا تھا۔ میرے گالوں اور ٹھوڑی پر ہلکا ہلکا سا رُوواں سا اُگ آیا تھا۔ مجھے اب اُس مہربان لڑکی والے خواب بالکل نہیں آتے تھے، نہ ہی دانتوں کے درمیان آکر زبان کٹتی تھی۔ میرے امتحان قریب آرہے تھے۔ مجھے راتوں کو جاگ جاگ کر پڑھنا تھا۔ اس لیے میں نے ان خوابوں کو بائیں طرف، اپنے دل کے قریب، اپنی قمیص کی اوپری جیب میں رکھ لیا ہے جسے جب چاہے نکال کر دیکھا جاسکتا ہے۔ میں اپنے خوابوں کو دیکھنے کے لیے نیند کا محتاج نہیں تھا۔
میں دیر رات تک جاگ جاگ کر پڑھتا۔ زیادہ تر ریاضی کے سوال حل کرتا کیونکہ ہائی اسکول میں، اس مضمون سے سب سے زیادہ مجھے ڈر لگتا تھا۔ بہت سے سوالوں کو میں حل نہیں کر پاتا تھا۔ تب اُن کے جواب، کتاب کے آخر میںدیکھ کر میں اُلٹے سیدھے، اوٹ پٹانگ طریقے سے فارمولے کا غلط استعمال کرتے ہوئے نیچے لکھ دیا کرتا تھا۔ ظاہر تھا کہ میری ریاضی چوپٹ ہوئی جارہی تھی۔ اور سب سے زیادہ توالجبرا اور جیومٹری جہاں سب کچھ پہلے سے ہی فرض کر لیا جاتا تھا۔ یہاں سب کچھ ایک تُک بندی تھی۔ ایک اندھا راستہ، کچھ مان کر چلو اور ایک اوٹ پٹانگ، مگر اپنے ہی بنائے ہوئے راستے پر چل کراُسے ثابت کر دو۔ (دنیا کے وجود کو بھی ایسے ہی ثابت کیا گیا اور ایسے ہی سراب مان کر اس کا نہ ہونا بھی ثابت کر دیا گیا) عقل و دانش اور منطق کی یہ خود غرض مکّاریاں اب تو میرے سامنے پوری طرح عیاں ہوچکی ہیں۔ مگر اُن دنوں حساب کا مضمون مجھے بری طرح تھکا کر رکھ دیتا تھا اور میں تنگ آکر سوال کوحل کیے بغیر اُس کا جواب دیکھ کر وہیں لکھ دیا کرتا تھا اور یہ بات بھی آج تک میرے لیے ناقابل فہم بلکہ مضحکہ خیز ہے کہ اگر کسی سوال یا مسئلے کا جواب کہیں لکھا ہوا ہے یا کسی نے اُسے حل کر رکھا ہے اوراُس پر اُسے یقین بھی ہے تو پھر دوسروں کو الجھانے اور پریشان کرنے سے کیا فائدہ؟
مگر اس ریاضی سے الگ ایک دوسری ریاضی بھی تھی۔ ایک مہلک اور پُراسرار ریاضی جس کا علم میرے علاوہ کسی کو نہیں تھا۔ صرف میرے پاس ہی اُس کے خطرناک فارمولے تھے۔ اس کی کوئی کتاب نہ تھی جس کے آخری اوراق پلٹ کر میں سوالوں کے حل ڈھونڈ لیتا، مگر میں حل سے لاعلم رہتے ہوئے بھی ’حل‘ کی نوعیت سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ وہ کتنے اعداد کے درمیان کہیں ہوگا۔ کم نحس سے زیادہ نحس کے درمیان۔
یقینا اب یہ ایک گھٹیا ہتھیار تھا۔ جو میرے ہاتھ لگ گیا تھا اور میں اس پر کبھی کبھی فخر بھی کرتا۔ گھٹیا باتوں پر فخر کرنے والوں میں، دنیا میں اکیلا میں ہی تو نہیں ہوں۔ کتنے عامل، تانترک، جیوتشی، قسمت کا حال بتانے والے اور چھچھورے، سیاست داں اور کاروباری لوگ آخر گھٹیا باتوں پر ہی تو فخر محسوس کرتے ہیں۔
اِس خطرناک مضمون کا ایک سوال میں نے جلد ہی پھر حل کیا۔