اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

ماتھے پر برف کے پانی میں بھیگی پٹّیاں رکھو۔‘‘
ماتھے پر کچھ ٹھنڈا ٹھنڈا سا لگتا ہے۔

میرے کورس میں چلنے والی جغرافیہ کی کتاب کا وہ حصّہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے جس میں سرد ممالک کا بیان ہے۔ میں اس صفحے پرایک اُڑتی ہوی مکھّی کی طرح جاکر بیٹھ جاتا ہوں۔ میں ایک بڑے بڑے بالوں والا کتّا ہوں جو برف پر کتّا گاڑی کھینچتا چلا جارہا ہوں۔ میں برف کی ڈھلانوں میں پھسل رہا ہوں جہاں قطب شمالی کا سفید بھالو مجھے بھیانک نظروں سے دیکھتا ہے۔\

’’انجکشن لگاکر دیکھتے ہیں ورنہ اسپتال میں داخل کرنا پڑے گا۔‘‘ بازومیں ایک گندی سی چبھن ہوتی ہے جو ٹھیک میرے دل تک پہنچتی ہے، سوئی ہے، سوئی دل پر جاکر لگنے والی سوئی۔

میں ثروت ممانی کے سامنے بیٹھا ہوں۔ وہ بہت غصہ ور آنکھوں سے کشیدہ کاری کر رہی ہیں۔ وہ رومال پر سوئی اس طرح چلا رہی ہیں جیسے قینچی چلا رہی ہوں۔ رومال چیتھڑوں اور دھجّیوں میں بدلتا جاتا ہے۔

اب دوائیں کھانے کے بعد میرے جسم سے پسینے کی تُلّیاںبہنے لگی تھیں۔ سارا جسم ہر وقت پسیجا اور گیلا گیلا محسوس ہوتا تھا۔ مگر چند گھنٹوں بعد مجھے ایک ہلکی سی جھرجھری محسوس ہوتی۔ میرا جی چادر اوڑھنے کو کرتا۔ اور مجھے معلوم تھا کہ یہ جھرجھری اور یہ سردی، اُس کے آنے کی علامت تھی۔ وہ ابھی دور ہے مگر اُس کے قدموں کی چاپ کو میرا جسم اُسی طرح سن لیتا تھا جیسے دور سے آتی قدموں کی چاپ کو سن کر کتّا بھونکنے لگتا ہے۔ اور پھر وہ آتا۔ وہ یعنی بخار اوراپنی بھیانک تپش کے بھورے غبار میں میرے جسم کا سارا پسینہ سوکھ جاتا۔ جس کے چاروں طرف بخار ایک بگولے کی مانند دیر تک چکراتا رہتا۔ جسم کے ریشے ریشے میں آگ پھیل کرساری نمی، ساری سیلن کو جلائے دیتی تھی۔

نہیں معلوم۔ مجھے نہیں معلوم کہ کب میں سرسامی کیفیت سے واپس آیا۔ بخار ابھی بھی تھا۔ مگر ایک سو ایک سے زیادہ نہیں بڑھتا تھا۔ مجھے صرف دودھ اور پھل دیے جاتے تھے۔ روٹی کھانے کی مجھے اجازت نہ تھی۔ کمزوری تھی، مگر اتنی بھی نہیں کہ میں چل کر پیشاب پاخانہ کرنے بھی نہ جا سکوں۔

ایک روز صبح صبح مجھے پیٹ میں سخت درداور جلن کا احساس ہوا۔ میں بیت الخلا گیا مگر مجھے اجابت نہیں ہوئی۔ بجائے اس کے وہاں ڈھیر سا خون آیا۔ خون دیکھتے ہی میں چکرا کر، قدمچے پر بیٹھے بیٹھے پیچھے کی طرف لڑھک گیا اور میرا سر بری طرح دیوار سے ٹکرا گیا۔ چھوٹے چچا اوربڑے ماموں نے کچھ دیر بعد مجھے بیت الخلا سے نکالا ہوگا۔ سب گھبرا کر روہانسے سے ہونے لگے۔ میں نے بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔ تھوڑی دیر بعد اسپتال کا ڈاکٹر مجھے دیکھنے آیا۔ اُس نے سب سے پہلے میری آنکھیں چیر کر دیکھیں اور کہا۔

’’یرقان ہو گیا ہے، یہ خون بھی اسی وجہ سے آیا ہے۔‘‘

تو مجھے یرقان ہوا تھا۔ شام ہوتے ہوتے مجھے گھر اور دنیا کی ہر شے پیلی نظر آنے لگی۔ میرے پیشاب کا رنگ ہلدی کی طرح ہو گیا۔ میرے جسم کی کھال پر جیسے زرد سفوف سا مل دیا گیا تھا جو شاید بستر پر بھی جھڑتا رہتا تھا۔

پیٹ میں ہلکا ہلکا سا درد رہتا تھا۔ پیٹ بُری طرح سوج بھی گیا تھا۔ ڈاکٹری علاج کے علاوہ ایک مولانا صاحب صبح صبح سورج نکلنے سے پہلے یرقان کو ایک کپڑے سے جھاڑنے بھی آنے لگے۔ وہ ساتھ ساتھ کچھ سورتیں بھی پڑھتے جاتے تھے۔

اب دودھ اور چکنی اشیاء مجھے سختی سے منع کر دی گئیں۔ مجھے صرف اُبلے ہوئے چاول، آلو اور شکر کا گھول یا پھِر گنّے کا رس ہی دیا جاتا رہا۔

چاول اور آلو بغیر مسالے کے اور بالکل سفید رنگ کے تھے مگر مجھے ہمیشہ یہ پیلی تاہری ہی نظر آئی۔ کچی کھانڈ اور گنّے کا رس بھی مجھے پیلا پیلا نظر آتاتھا۔ میں ایک زرد فتنے یا آندھی کی زد میں تھا۔ میرا جی ہر وقت مالش کرتا تھا مگر اُلٹی یا قے ایک بھی نہ ہوئی۔ بس ایسا لگتا تھا جیسے کوئی لجلجی شے ہے جو باربار میرے پیٹ سے گلے تک آکر واپس لوٹ جاتی ہے۔

مگر میری سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ مجھے ہر شخص کی شکل، اُس کا جسم اور اُس کے کپڑے زرد نظر آتے تھے۔ جیسے سب مایّوں بیٹھے ہوئے ہوں۔ ہر طرف اُبٹن کی ایک افسردہ خوشبو پھیلی ہونے کا دھوکہ بھی مجھے ہوتا تھا۔ میری آنکھوں کی پُتلیاں مکمل طور پر پیلی ہو چکی تھیں۔

میں بس بستر پر لیٹا، دن رات ایک زرد دنیا کا تماشہ دیکھ رہا تھا اور اس امر پر کچھ نازاں بھی کہ یہ تماشہ صرف میں دیکھ رہا ہوں۔ میری آنکھیں اُن سب کی آنکھوں سے الگ ہیں۔میری آنکھیں اس وقت دنیا کو ایک الگ رنگ اور ایک الگ روشنی میں دیکھنے پر بھی قادر تھیں۔
اُنھیں دنوں بستر پر لیٹے لیٹے میں نے سنا کہ آفتاب بھائی کے قتل کے سلسلے میں پولیس نے اُن کی بیوی کے دو بھائیوں کو گرفتار کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ بیوی کے بھائیوں کو اُن کی شادی منظور نہ تھی اور اکثر وہ آفتاب بھائی کو مار ڈالنے کی دھمکی دیتے رہتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ میں ایک یرقان زدہ، صرف پولیس، حوالات، ریمانڈ، تھرڈ ڈگری، مقدمہ، عدالت، گواہی، پیشی اور ضمانت کے بارے میں ہی گفتگو اور چہ میگوئیاں سنتا رہتا تھا۔

مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات نکلا۔ کچھ بھی ثابت نہ ہوسکا، بلکہ جلد ہی ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا کر دیا۔

ہوا یوں کہ پولیس نے، ایک رات اُس بدنام زمانہ کنپٹی مار کو گولی مار کر گِرا دیا جب وہ کسی کا قتل کرکے فرار ہورہا تھا۔ گولی اُس کی ٹانگ میں لگی تھی۔

کنپٹی مار گرفتار ہوا اور اُس نے اپنے ہر جرم کا اعتراف کرلیا مگر سب سے زیادہ حیران کن بات تویہ تھی کہ اُس نے آفتاب بھائی کو قتل کرنے کا بھی اعتراف کر لیا، اس نے ایسا کیوں کیا؟ یہ میرے لیے ایک معمّہ ہے۔

ایک رات میں نے بخار میں جلتے جلتے جب آنکھیں کھولیں تو وہ میرے سامنے کھڑا تھا بالکل عُریاں۔ وہ بہت ٹھگنے قد کا تھا۔ وہ بالکل زرد ہو رہا تھا۔ جیسے اُسے ہلدی سے رنگ دیا گیا ہو۔ اُس کی کنپنی پر ایک سیاہ گہرا سوراخ تھا۔ جس میں سے لگاتار پیلا خون نکل کربہتا ہوا، گردن سے پنڈلی تک آتا ہوا فرش پر پھیلتا جارہا تھا۔ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرایا، پھر آگے بڑھا۔ سامنے ہی پھانسی کا پھندا جھول رہا تھا۔ اس نے مجھے ایک بار پھر غور سے دیکھا، اس بار وہ زور سے قہقہہ مار کر ہنسا بھی تھا۔ اب اُس نے میری جانب پشت کر لی اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا کالی رسّی کے پھندے کی طرف بڑھ گیا۔ وہ چلتا تھا تو اس کے جسم سے ہلدی کا چُورا فرش پر گر گر کر بکھرتا جاتا تھا۔
زرد کنپٹی مار، پھانسی کے کالے پھندے میں جھول گیا۔ وہ اس وقت یوں نظر آتا تھا جیسے آسمان میں رکی ہوئی پیلی آندھی پر اکّا دکّا کالے بادلوںکی گھنی اور موٹی لکیریں۔

تقریباً ایک ماہ بعد لوٹ پوٹ کر میں بالکل ٹھیک ہو گیا۔

اب سارا دھیان میں نے اپنی پڑھائی کی طر ف لگانا شروع کر دیا۔ میں گیارہویں جماعت میں آگیا۔

مزے کی بات یہ تھی کہ یرقان سے صحت یاب ہونے کے بعد میرا وزن بڑھنے لگا۔ میری ہڈیاں چوڑی ہونے لگیں۔ میری بھوک بہت کھل گئی تھی۔ میری آنتیں اب پہلے سے بہت زیادہ خوراک کی طلب گار تھیں۔ اپنے ساتھ گزرے ہوئے بھیانک واقعے کو شاید میرے بخار اور میرے یرقان نے میرے ذہن سے اس طرح پونچھ کر صاف کر دیا تھا جیسے کوئی فرش پر پڑی گندگی کو گیلے کپڑے سے پونچھ دیتا ہے۔

مگر اُس وقت مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ کچھ نہ کچھ جراثیم، کچھ نہ کچھ باقیات تو رہ ہی جاتے ہیں۔ اُنھیں نہ کوئی کپڑا صاف کر سکتا ہے، نہ کوئی صابن اور نہ کوئی تیزاب۔

وقت اچھا گزر رہا تھا، جب میں نے سنا کہ انجم آپا اپنے گھر واپس آگئی ہیں۔

مجھے خوشی ہوئی۔ وقت اور اچھا گزرے گا میں نے سوچا۔ پھر اُسی شام انجم آپا کے گھر جانے کا ارادہ کر لیا۔

اس ارادے کے ساتھ ہی میرا دل شاید خوشی سے بلّیوں اُچھل رہا تھا۔ میں نے کچھ کتابوں کے نام سوچنے شروع کر دیے جن سے شاید انجم آپا کو دلچسپی ہوسکتی تھی۔

Leave a Reply