اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

ہر آنے والا ضروری نہیں کہ آیا ہی ہو
کہ خود نہ آیا ہووہ صرف اس کا سایہ ہی ہو
(فرحت احساس)

میں پُر اسرار ہوں
مگر صرف جسم کے تعلق سے
میری روح عام اور معمولی ہے
اور سوچتی نہیں ہے
(فرنانڈو پیسوا)

ہوا ہی وہ چشم دید گواہ تھی جس نے دیکھا کہ وہ اپنے ہی گھر میں ایک اکیلے مگر اُداس کالے چور کی طرح داخل ہوا۔ گھر پتہ نہیں بن رہاتھا یا گر رہا تھا یا کہ کھنڈر بن رہاتھا۔ یہ بھی کوئی نہیں جانتا، صرف ہوا جانتی تھی۔

اُس کی اُداسی اُس کے پیروں سے گر گر کر زمین پر اکٹھا ہوتی جاتی تھی۔ یہ اُداسی بھی کیسی تھی؟ یہ کسی بند کنویں میں جھانکنے کے بعد آسمان کی طرف اُٹھنے والی ایک افسردہ نظر کی طرح تھی اور آسمان لامتناہی طو رپر بے رحم تھا۔ یہ لامتناہیت صرف خوف پیدا کر سکتی تھی۔ سارے معنی، سارے مفہوم اسی لامتناہیت میں ڈوب ڈوب جاتے تھے۔

اس وسیع تر، بھیانک منظر میں محبت سے پکائی گئی دو روٹیاں ہی تھیں جو پرچم بن کر لہرا رہی تھیں۔ مگر یہ روٹیاں اب کسی معدے کے لیے نہ تھیں، یہ خون بن کرجسم میں دوڑنے کے لیے نہ تھیں۔ یہ فُضلہ بن کر جسم سے نکل کر تاریک موریوں میں بہہ جانے کے لیے بھی نہ تھیں، یہ تو دو گواہیاں تھیں۔ روح کی گواہیاں، ریاضی کے دو شفاف ایماندار ہندسوں کی مانند— لُٹی پٹی، اُجاڑ شکل دنیا کے ماتھے پر، لافانی اور پاکیزہ بندیا کی طرح چمکتی ہوئی، چولہے کی راکھ تک ٹھنڈی ہوئی مگر یہ لافانی ہیں اور گرم ہیں۔

اِس لیے ہوا نے دیکھا کہ وہ صرف اُداس ہے ۔وہ رو نہیں رہا، وہ شاید روئے گا بھی نہیں۔ وہ اپنے نمک کو سنبھال کر رکھے گا، نمک میں لاشیں دیر سے سڑتی ہیں۔ اُسے ابھی کتنا کچھ بچا کر رکھنا ہے۔

ہوا نے بہت سائے دیکھے تھے، ایک زمانے سے وہ صرف سائے ہی دیکھتی آئی تھی۔ کتنے سائے گہری، چوڑی اور ایک تاریک ندی میں چلتے چلے گئے ہیں۔ اُن کے پاؤں ریت سے اُتر کر گہرے پانیوں میں چلے گئے اور تب وہ اور بھی دبیز گہرے سایوں میں بدل گئے۔ ہر سفر سے واپسی پر پانی ہی کی طرف جانا ہوتا ہے۔ خلا نام کی کوئی شے نہیں، سب کچھ پانی ہے جو نظر نہیں آتا، مگر وہ ہر اُس جگہ موجود ہوتا ہے جہاں محبت ہوتی ہے، یا پھر نفرت۔

وہ اکیلا نہیں تھا، اس کے ساتھ دو نفس اور بھی تھے، ایک کن کٹا اورلنگڑاتا ہوا خرگوش کا سایہ جو اُس کے پیچھے پیچھے تھا اور ایک کاکروچ تھا جو اُس کی قمیص کے کالر پر تتلی کی طرح بیٹھا تھا۔

ہوا، اس گھر کی یا اِس مقام کی پرانی ہوا، یہاں کی ازلی مکین، ایک گرے ہوئے بھاری اور سوکھے درخت کے نیچے دبی کچلی پڑی تھی اور اب تقریباً پتھّر بن چکی تھی۔

درخت اپنے پتّوں، اپنی شاخوں کو نہ جانے کب کا کھو چکا تھا۔ صرف کچھ سوکھی جڑیں رہ گئی تھیں۔ زمین کے اندر ایک بے معنی اور مضحکہ خیز حد تک قابل رحم انداز میں پیوست، اور ہاں درخت کا تنا بھی تھا جو ایسی لکڑی بننے کے بہت قریب آچکاتھا جس سے گھر کے دروازوں کے جوڑ اور چوکھٹیں بنائی جاسکتی تھیں۔

ایسی ہوا چلتی نہیں ہے ۔یہ نہ کسی کے جسم کو لگتی ہے نہ الگنی پر لٹکے کپڑے سکھاتی ہے۔ یہ بس پتھّر بن کر اُس ملبے کے نیچے سے جھانکتی ہے۔ یہ اُس درخت کا ملبہ ہے جس سے نکل نکل کر وہ باہر آتی تھی۔ جھونکوں کی صورت چلتی تھی یا میلوں لمبی مسافت طے کرکے، جس کے پتّوں اور ٹہنیوں تک وہ آتی تھی۔ وہ درخت!

وہ آم کا درخت جو گزرے زمانوں کے آنگن میں لگا تھا، ہوا کو معلوم تھا کہ درخت کی کب کی موت ہو چکی۔ پھر بھی وہ اُسے چھوڑ کر نہیں گئی۔ جس طرح ایک بدنصیب بندریا اپنے مُردہ بچّے کی لاش کو لادے لادے، اپنے قابلِ رحم پیٹ سے چپکائے چپکائے پھرتی ہے، بالکل اُسی طرح ہوا اپنے درخت کی لاش کو ڈھو رہی تھی اور اُس کے ملبے کے نیچے پتھّر بن گئی تھی۔

پتھّر سے بڑا چشم دید گواہ کون ہے؟

وہ لڑھکتا، ٹھوکر کھاتا، بچتا بچاتا چل رہا تھا۔ ہوا نے محسوس کیا، زمین کے سینے پر پڑے پڑے، کہ اب زمین اپنا رونا نہیں روک پائی ۔ زمین اس کے کرمچ کے جوتوں پر رو رہی تھی جو گیلی مٹّی پر پھسل رہے تھے، وھنس رہے تھے ۔ ہوا کو یہ بھید بھی جلد ہی معلوم ہوگیا کہ وہاں ایک سنّاٹا بھی اپنی کہانی لکھ رہا تھا۔ ہوا کے لمبے لمبے کانوں میں سناٹا اپنی کہانی اُنڈیل رہا تھا۔

اور وہ —؟ اس نے سنّاٹے کو اپنے ٹھنڈے، گیلے جوتوں میں بھر لیا— اُسے شاید معلوم تھا کہ کیا رُونما ہونے والا ہے۔ ایک پتلی ندی کا شکار کرنے کے لیے، کہیں سے گھوم کر ایک بھیانک دریا چلا آرہا تھا۔ اور ندی، ٹھاٹھیں مارتے ہوئے اس دریا میں ملنے کو اپنا مقدّر مانتی ہوئی آہستہ آہستہ خود ہی اُس کی طرف رینگ رہی تھی۔ یہ ایک جال تھا جس میں وہ خود ہی پھنستی جاتی تھی۔

ہوا نے دیکھا کہ وہ سائے کی طرح، ایک کونے میں کھڑا ہے۔

اُسی لمحے وہ سو سال پرانا سانپ جس کی پھنکار سے گھر کی مرغیاں دہشت زدہ ہوکر مر جاتی تھیں، لہراتا ہوا، تقریباً اُسے چھوتا ہوا گزر گیا۔ یہ سانپ بھی اس گھر کا پرانا مکین تھا، مگر اُس نے نہ اُسے دیکھا نہ محسوس کیا۔ اُس نے اُن بے شمار بندروں کے سائے بھی نہیں دیکھے جن سے یہ گھر بھرا ہوا تھا۔
ہوا نے دیکھا کہ ایک جھولتے ہوئے وزنی مگر دیمک زدہ شہتیر کے نیچے سے نکلتے وقت شہد کی مکھّیوں کا ایک خالی چھتّہ اُس کے سر سے ٹکرایا تھا مگر اُسے پتہ نہ چلا۔ چھتہ جس میں کوئی مکھی نہ تھی۔ وہ ویران پڑا تھا، اس لیے اب وہ کتھئی سنہرے رنگ کا نہ ہوکر خالی اور سوکھے اجسام کی ایک سفید صورت تھا۔ اس کی مکھّیاں بھٹکتی ہوئی کسی دوسرے سیارے پر پہنچ گئی تھیں۔ وہ اب چھتہ نہ ہوکر چھتّے کا کفن نظر آتا تھا۔ اتنا ہلکا، اتنا کمزور اوربے وقعت کہ بے حد حبس میں بھی، وہ آہستہ آہستہ ہلتا اور کانپتا تھا۔

مایوس کُن حد تک خطرے سے خالی یہ چھتہ جب اُس کے سائے سے ٹکرایا تو گر جانے سے بال بال ہی بچا۔

ہوا نے دیکھا کہ اُس نے ٹھوکر کھانے سے بچتے ہوئے، درخت کے مردہ، سوکھے تنے کو پھلانگا ہے اور ٹھیک اُسی جگہ سے جہاں وہ تنہا اور سنسان کھوکا ہے جس میں لوسی اور جیک بارش سے پناہ لینے کے لیے آکر بیٹھ جاتے تھے۔

کھوکا اُس تنے کے ”اکیلے پن“ پر گدا ہوا ایک دوسرا اکیلا پن ہے۔ خالی گھونسلہ جو ایک بار چھوڑ د یئے جا نے کے بعد پھر کبھی آباد نہیں ہوتا، وہ لوہے کا گھونسلہ بن جاتا ہے، اور درخت کا تنا اپنے پھولوں، پھلوں، پتّیوں اور شاخوں سب سے الگ، اکیلا اور اُس کے نیچے ایک کچلی ہوئی مگر زندہ ہوا، ہوا کو موت نہیں آتی کیونکہ وہ ہمیشہ سے اکیلی ہے۔ وہ جم کر پتھّر بن سکتی ہے یا برف۔

ہوا چشم دید گواہ ہے کہ وہ اس طرح بھٹک رہا تھا جس طرح اگھوری سادھو شمشان میں بھٹکتے رہتے ہیں تاکہ کسی لاش میں اپنی روح داخل کرکے اُسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکیں۔

Image: Mathew Borrett

Leave a Reply