میرے سہ ماہی امتحان ختم گئے تھے۔ میں نے پھر سے جاسوسی ناول پڑھنا شروع کر دیے اور زیادہ سے زیادہ وقت انجم آپا کے گھر گزارنے لگا۔ انجم آپا ایک سانولے بلکہ پکّے رنگ کی لڑکی تھیں۔ مگر اُن کا منھ ہاتھ پیروں کی بہ نسبت کافی صاف رنگت لیے ہوئے تھا جو ایک عجیب بات تھی۔ ان کا قد ٹھگنا تھا اور چہرہ بالکل گول تھا۔ کسی چپاتی کی طرح جس پر چیچک کے جابجا نشانات تھے۔ بالکل چپاتی پر لگی ہوئی چپتّیوں کی مانند۔ اس چہرے کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ بھوک لگنے لگتی تھی اور میری آنتیں کڑکڑانے لگتی تھیں۔ وہ چہرہ مجھے ہمیشہ اپنا اپنا سا لگتا تھا۔ جیسے اپنے گھر میں کھانا کھاتے وقت، روٹی کی ڈلیہ میں رکھی چپاتی اپنی اپنی سی لگتی ہے۔ انجم آپا مجھ سے بہت خلوص سے پیش آتیں، کبھی کبھی تو مجھے لگتا جیسے وہ مجھے انجم باجی سے بھی زیادہ چاہتی ہیں۔
برسات کے بعد اُن کا باورچی خانہ بہت خستہ حال ہوگیاتھا۔ وہ ککیّا اینٹوں کا بنا تھا اور دیواروں پر ہر طرف جنگلی گھاس اُگ آئی تھی۔
اکتوبر کا مہینہ تھا جس میں دھوپ بہت تیز اور چمکدار ہوتی ہے اور شام کو کچھ دھند سی پھیلنے لگتی ہے۔
میں انجم آپا سے ایک جاسوسی ناول کے مجرم کے بارے میں باتیں کر رہا تھا کہ مجھے اُن کے باورچی خانے سے کچھ تلے جانے کی خوشبو آئی۔ میرے نتھنے مہک کر رہ گئے۔ دوپہر تھی اور مجھے زوروں کی بھوک پہلے سے ہی لگ رہی تھی۔ میں نے ناک کے نتھنے پھُلا کر خوشبو کو سونگھا۔
انجم آپا ہنسنے لگیں۔
’’امّاں دال بھرے پراٹھے تل رہی ہیں۔ ایک پراٹھا کھاکرجانا۔‘‘
’’پراٹھے—دال بھرے پراٹھے۔‘‘ میں نے دہرایا۔
’’ہاں!‘‘
ٹھیک اُسی وقت میرے دل پر جیسے ایک سوئی سی چبھی، ایک گیلی گیلی، پانی سے تر سوئی جس کی ٹھنڈی چبھن اب میرے بائیں کاندھے تک رینگ آئی۔ میں خوف زدہ سا ہو گیا۔ اُس خطرناک اور پوشیدہ ریاضی کا ایک سوال میرے سامنے تھا۔ اور میں اس کے حل کی حدود کا تعین کرنے کے لیے ایک مختلف شخصیت میں تبدیل ہوچکا تھا۔
’’نہیں، اب میں جاؤں گا۔‘‘ میں اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
’’کیوں؟ کیا غریبوں کے گھر کھانا نھیں کھاسکتے؟‘‘
’’یہ بات نہیں انجم آپا، مگر مجھے بازار سے سودا لانا ہے۔‘‘
میں نے بہانہ کیا اور کل پھرآنے کا وعدہ کرتے ہوئے ان کے گھر سے باہر آگیا۔ میری بھوک جیسے بالکل مر گئی تھی۔ ’’دال بھرے پراٹھے۔ دال بھرے پراٹھے۔‘‘ میرا ذہن لگاتار یہی گردان کیے جارہا تھا۔
میں ابھی بس اُن قبروں تک ہی پہنچا ہوں گا کہ میں نے اپنے پیچھے ایک زور کی دھمک سنی۔ ایک ایسی دھمک جس کے ساتھ ساتھ ایک پُراسرار سی سنسناہٹ بھی شامل تھی۔ میں واپس مڑا۔ ادھر شوربلند ہورہا تھا۔
’’دیوار گر گئی، دیوار گر گئی۔‘‘ کوئی چیخ رہا تھا۔
’’کس کی دیوار گر گئی؟‘‘
مگر میں اچھی طرح جانتا تھا کہ کس کی دیوار گری ہے۔
میں بھاگتا ہوا انجم آپا کے مکان پر پہنچا۔ وہاں بھیڑ لگ گئی تھی۔
انجم آپا کے خستہ اور بوسیدہ حال باورچی خانے کی دیوار گر گئی تھی۔ اور اُن کی ماں اُس سے دب کر مر گئی تھیں۔
میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
گری ہوئی دیوارکے ملبے اور برسوں پرانی ککیّا اینٹوں اور خوردرو جنگلی گھاس کے نیچے وہ ساکت وجامد پڑی ہوئی تھیں۔ ان کے سارے جسم کو ملبے نے ڈھک لیا تھا۔ صرف اُن کا منھ باہر تھا۔ ان کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔
دیوار کے ملبے کے نیچے ہی شاید اینٹوں کاچولہا بھی دبا پڑا تھا جس کی آگ بجھ کر مٹّی، گارے اور خودروگھاس پودوں میں دفن ہو گئی تھی۔
’’ان دنوںہی تو مکان گرتے ہیں۔ برسات کے بعد کی دھوپ میں ہی دیواریں اپنی جگہ چھوڑتی ہیں۔‘‘ کوئی کہہ رہا تھا۔
مگر مجھے اچھی طرح علم تھا کہ دیوار کیوں گری ہے۔ دودھ میں پڑی ایک زہریلی چھپکلی نے مجھے تِگنی کا ناچ نچاکر رکھ دیا تھا۔ انجم آپا غش کھاکر گر پڑی تھیں۔ باورچی خانے کی اُسی دیوا رکی طرح۔ گھر میں بھیڑ بڑھتی چلی گئی۔ سارا محلہ اکٹھا ہوگیا۔
باورچی خانے میں دال بھرے پراٹھے مجھے نظر نہیں آئے۔ مگر اُن کی خوشبو اب دور دورتک پھیل رہی تھی۔ یہاں تک کہ جب میں اپنے گھر پہنچا تو وہاں بھی ہوا کے زور پر دال بھرے پراٹھوں کی خوشبو اِدھر اُدھر رینگتی محسوس ہوئی۔
میں پریشان، سراسیمہ اور ایک بے وجہ کے احساسِ جرم سے مغلوب ہوکر طوطے کے پنجرے کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔ میرا کن کٹا خرگوش آکر میری پتلون کے پائینچے پر منھ رگڑنے لگا۔
’’کاش میں وہاں آج اِس وقت نہ جاتا۔‘‘ میں نے پشیمان ہوکر سوچا۔
’’گڈّو میاں آگئے۔۔۔۔ گڈّو میاں آگئے۔۔۔۔ :‘‘ طوطا زہرخند لہجے میں بولا۔