اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
میں انجم آپا کے پاس بیٹھا بازار میں آئے ہوئے ایک نئے جاسوسی ناول کے بارے میں باتیں کر رہا تھا۔ انجم آپا، چولہے پر بیٹھی چائے بنا رہی تھیں۔ شام کا دھندلکا پھیلنے لگا تھا۔ سُلگتے ہوئے اُپلوں سے نکلتے دھوئیں میں باورچی خانے کی کوئی شئے صاف نظر نہیں آرہی تھی۔ باہر دسمبر کی شام نے اپنے ازلی رفیق کہرے کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ باورچی خاے میں صرف چھپکلیوں کے سائے صاف نظر آرہے تھے۔ اتنی سخت سردی میں بھی دیواروں پر اتنی چھپکلیاں تھیں۔ سردی سے تقریباً مُردہ مگر ممکن ہے کہ وہ چولہے کی گرمی کی وجہ سے وہاں آجاتی ہوں۔ تھی مگر یہ حیرت انگیز بات۔
چولہے کے اونلے پر ایک چھوٹی ایلمیونیم کی بوسیدہ سی دیگچی رکھّی تھی، جس میں کوئی ڈھکّن نہ تھا۔ دیگچی میں دودھ تھا۔ انجم آپا نے چائے میں ڈالنے کے لیے ہاتھ بڑھا کر دیگچی اُٹھائی اور تھوڑا سا دودھ چائے کے برتن میں اُنڈیل دیا۔
“آج کل روز، پتہ نہیں دودھ میں کچھ نیلاہٹ کیوں ہوتی ہے؟ بہت ہی پتلا دودھ لارہا ہے یہ دودھ والا، کل اس کی خبر لوں گی۔” کہتے ہوئے جیسے ہی انجم آپا نے دودھ کی دیگچی فر ش پر رکھی، میرے منھ سے زور کی چیخ نکل گئی۔
دودھ میں ایک کالی اور موٹی سی چھپکلی تیر رہی تھی۔
انجم آپا کے بھی حلق سے چیخ نکلی۔
باورچی خانے میں گھر کے دوسرے افراد بھاگے چلے آئے۔
“یہاں اتنی چھپکلیاں ہیں، اندھی تجھے سوجھتا نہیں، سارے برتن بنا ڈھکے پڑے رہتے ہیں۔” کسی عورت کی آواز تھی مگر مجھے محسوس ہوا جیسے دیگچی میں تیرتی چھپکلی نے ہی یہ کہا ہو۔
مجھے یاد آیا کہ کل بھی میں نے یہاں چائے پی تھی، بلکہ دو بار پی تھی اور انجم آپا نے کل بھی دودھ کی نیلاہٹ کا ذکر کیا تھا۔
مجھے یاد آیا کہ کل بھی میں نے یہاں چائے پی تھی، بلکہ دو بار پی تھی اور انجم آپا نے کل بھی دودھ کی نیلاہٹ کا ذکر کیا تھا۔
میں کانپتا ہوا سا اپنے گھر واپس آیا۔ سخت سردی میں بھی مجھے پسینہ آرہا تھا۔ میرا جی بری طرح متلا رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں مجھے چکّر آنے شروع ہو گئے۔
اس کے بعد اگر مجھے کچھ یاد رہ گیا ہے تو وہ اُلٹیاں ہیں جو پتہ نہیں کتنے دنوں تک میرے حلق سے باہر آتی رہیں۔ اپنے بستر پر لیٹا لیٹا میں تھک کر پلنگ سے جھک کر فرش پر ہی قے کرتا رہا اور اُن میں اپنا چہرہ دیکھنے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ نہ جانے کب تک میں نے کھانا نہیں کھایا۔ صرف کڑوی کسیلی دوائیں میرے گلے سے نیچے اُتاری جاتی رہیں۔ مجھے محسوس ہوتا تھا جیسے میری آنتیں اُچھل کر حلق سے باہر فرش پر بکھر جائیں گی۔ آنتوں میں ایک زبردست غصہ تھا۔ وہ غصّے میں دیوانی ہو گئی تھیں۔ میں نے اُنہیں غصّے میں بڑبڑاتے ہوئے سنا۔ آنتیں اپنی چکنائی کو میرے منھ پر مار مارکر باہر پھینک رہی تھیں۔ لگاتار بڑبڑا، بڑبڑا کر مجھے شاید بددُعا دیے جارہی تھیں۔
آہستہ آہستہ میں وقت اور دنیا مافیہا سے بے خبر ہوتا چلا گیا۔ میری پسلیوں کا درد ایک بے ہوشی میں بدل گیا۔ اب نہ دن رہا نہ رات، نہ صبح نہ شام۔ میں موت کے پالنے میں جھولا جھول رہاتھا۔
جب مجھے ہوش آیا تو لوگوں کے کہنے کے مطابق یہ میرا دوسرا جنم تھا یا نئی زندگی۔ میں ایک ایسا بچّہ تھا جس نے موت کی دیوار کو چھوکر واپس بھاگتے ہوئے آنے کا خطرناک کھیل کھیلا تھا۔ میں آئینے میں اپنے آپ کو پہچان نہ سکا۔ میں بے ہنگم، مکروہ اور نکیلی ہڈیوں کا ایک چلتا پھرتا ڈھیر تھا۔ میرے جسم کی ساری کھال پیلی ہوکر جگہ جگہ سے جھڑ رہی تھی۔ مجھے اپنا قد پہلے سے چھوٹا محسوس ہوا۔ میں ایک بھیانک خشکی کی یلغار میں آگیاتھا۔
کچھ عرصے تک میری یادداشت جاڑوں کی ہوائوں کے جھکّڑوں میں اِدھر اُدھر لاوارث اُڑتی پھری، ایک سوکھے پتّے کی مانند، میں کس زمانے میں ہوں؟ قواعد کی کتاب میں، میں نے زمانے کے تینوں صیغوں میں خود کو تلاش کیا اور ہر مقام پر خود کو غیر حاضر پایا۔
لیکن ایک دن جب مغرب کی اذان سے کچھ پہلے میں، باورچی خانے کی سیڑھی کے پاس کھڑا دسمبر کے کہرے کو بے خیالی سے دیکھے جارہا تھا، تو اچانک میری آنتوں نے جیسے میرے کانوں میں کچھ آہستہ سے کہا، کوئی علم، کوئی ریاضی کا فارمولہ، قواعد کا کوئی اصول۔
مگر آنتوں کی یہ آواز میرے کانوں میں جاکر رُک نہیں گئی، میں نے اُسے ایک سفید روشنی کی طرح کانوں سے باہر آتے دیکھا۔ پُراسرار آواز، سفید روشنی کا ایک دھبّہ بن کر گھر کی منڈیر پر چھائے ہوئے کہرے کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر جم گئی۔
پل بھر کو مجھے اپنا وزن بہت کم محسوس ہوا۔ میں ہوا یا روشنی کی طرح ہلکا سا ہو گیا۔ میں نے اپنے اندر ایک واضح تبدیلی محسوس کی۔ جیسے دیوار پر ٹنگی کسی پرانی، دھول زدہ گھڑی کی ٹک ٹک اچانک بہت بلند ہوگئی ہو۔
یقینا میرے اندر، میرے جسم اور دماغ میں کچھ تبدیل ہوا تھا۔ اُلٹیوں اور قے کے ذریعے نہ جانے کیا کیا میرے جسم سے باہراُنڈیل دیا گیا تھا، مگر ساتھ ہی جسم سے باہر موجود ہوائوں نے کوئی پُراسرار یا آسیبی شے میرے وجود کی گہرائیوں میں پیوست بھی کر دی تھی۔
میرے اندر کوئی طاقت آئی تھی۔ آخر کمزوری اورنقاہت، ایک نئی قوت اور طاقت کا پیش خیمہ بھی تو تھے۔
مگر میں اپنی چھٹی حس سے پہچان گیاکہ یہ طاقت منحوس اور خطرناک ہے۔ مجھے احساس تھا کہ جو بھی ہے وہ جلد ہی میرے لیے ایک عذاب کی پیشین گوئی ثابت ہوگا— ہاں! یقینا ایک عذاب!
میں واپس اپنے زمانے میں آ گیا۔ میں نے اپنے روٹھے ہوئے حافظے کو دوبارہ ایک ٹھوس شے کی طرح اپنے سامنے پایا اور میں نے اُسے اپنے دماغ کے خلیوں میں گویا ہاتھوں سے پکڑ پکڑ کر اندر محفوظ کر لیا۔ اُس وقت پنجرے میں طوطے نے تین بار زور زور سے کہا، “گڈّو میاں آگئے، گڈّو میاں آگئے۔”