اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
ہمارا گھر ایک عجیب و غریب اور مثالی مشترکہ خاندان تھا۔ میرے ماں باپ کو چھوڑ کر وہاں سب ہی رہتے تھے۔ ماں میری پیدائش کے کچھ ہی مہینوں بعد چل بسی تھیں۔ اُنھیں پرانی ٹی بی تھی اور باپ پولیس میں ملازمت کرتے تھے۔ میری عمر شاید دوسال رہی ہوگی جب ڈاکوؤں سے مقابلہ کرتے ہوئے وہ اُن کی گولیوں سے ہلاک ہو گئے تھے۔ تو ماں باپ کا ذکر ہی کیا کرنا، وہ ایک بند کتاب کی طرح ہے، جسے شاید کبھی نہیں کھولا جا سکے۔
مگر اُن کے علاوہ گھر میں افراد کی کوئی کمی نہیں تھی۔ خاص طور پر چچازاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد اور خالہ زاد بھائیوں اور بہنوں کی، دادیہال کے علاوہ شاید میری پوری نانہال بھی یہیں آبسی تھی۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ وہ کیا حالات تھے جس کے سبب میری نانہال کے بہت سے لوگ مثلاً ماموں اور خالہ وغیرہ بھی اس گھر میں رہتے تھے جسے میں اپنا گھر کہہ رہاہوں۔ اصل میں گھر کس کا تھا اور کس کے نام تھا۔ نہ مجھے معلوم تھا اور نہ کبھی یہ دریافت کرنے کی کوئی ضرورت ہی محسوس ہوئی۔ مجھے اصل میں کون پال رہا تھا، میری پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری کس کی تھی مجھے یہ بھی نہیں معلوم۔ گاؤں میں ایکڑوں کے حساب سے زمین تھی اور وہاں سے اتنا اناج اور غلّہ آتا تھا کہ گھر میں رکھنے کی جگہ نہ بچتی تھی۔
گھر میں کتنے افراد تھے، میں گن گن کر بتا سکتا ہوں، مگر مانا کہ میری یادداشت بہت اچھی ہے لیکن آخر اُس پر زور کیوں ڈالاجائے۔ دماغ کے ایک چھوٹے سے حصّے میں اگر اتنی تصویریں زبردستی اکٹھا کرکے اُن کے نام لے لے کر گنایاجائے تو اس سے نہ تو اُن تصویروں کا کوئی بھلا ہوگا نہ دماغ کا۔ بہتر یہی ہے کہ میں پیچھے پیچھے آنے والے اُس وفادارکتّے کی چاپ ہی سنوں۔ اِدھر اُدھر کی دوسری آہٹوں کو نظرانداز کر دوں۔
انجم باجی میری خالہ زاد بہن تھیں۔ عمر میں مجھ سے کم از کم دس سال بڑی ضرور رہی ہوںگی۔ اس بھرے پرے گھر میں شاید وہ سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرتی تھیں۔ چھ سات سال کی عمر تک تو وہ مجھے گود میں لیے لیے بھی گھوما کرتیں اور باہری دالان کے داسے کے کنڈے میں لٹکے ہوئے طوطے کے پنجرے کے پاس مجھے لے جاتیں۔ اور طوطے سے کہتیں، “لو گڈّو میاں آگئے، گڈّو میاں آگئے۔” طوطا بڑا باتونی تھا، نقل اُتارنے کا ماہر، سُنبل اُس کا نام تھا۔ دو تین منٹ تک تو طوطا خاموشی سے اپنی آنکھیں گھما گھماکر ہم دونوں کو دیکھتا رہتا، پھر فوراً ہی اپنی واضح طور پر توتلی مگر غیر انسانی آواز میں بولتا۔
“ گڈّو میاں آگئے، گڈّو میاں آ گئے”
انجم باجی ایک ہری مرچ میرے ہاتھوں میں تھما کر کہتیں۔
“لو سنبل کو مرچ کھلاؤ۔”
انجم باجی ایک ہری مرچ میرے ہاتھوں میں تھما کر کہتیں۔
“لو سنبل کو مرچ کھلاؤ۔”
مرچ کو چونچ میں دبائے دبائے وہ ہم دونوں کو دیکھتا رہتا۔ پھرانجم باجی اسی طرح مجھے گود میں لیے لیے نل پر چلی جاتیں، اور اُس سے ملی دیوار پر مٹّی کے وہ گھر دِکھانے لگتیں جو بھڑیں بنا رہی تھیں۔
انجم باجی بہت گوری اور دُبلی پتلی نازک سی لڑکی تھیں۔ تب تو نہیں مگر بہت بعد میں غصّے کے کچھ کمزور اور کمینے لمحات میں، میں نے جب اپنے خیالوں میں اُنہیں بے لباس کرنا چاہا تو یہ ممکن ہی نہ ہوا۔ شاید کپڑوں کے اندر اُن کا جسم تھا ہی نہیں، یا کپڑے اُتارتے ہی اُن کے بدن کے تمام نشیب و فراز دھواں دھواں ہوکر تحلیل ہوجاتے تھے۔
اُن کے گورے بدن میں ایک پیلاہٹ تھی، وہ جس رنگ کا بھی کپڑا پہنتیں، اُس پر مجھے پیلے پن کی ایک پاکیزہ مگرپُراسرار سی چھوٹ پڑتی ہمیشہ محسوس ہوتی۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو کسی شخص میں بس کوئی ایک ہی چیز نظر آتی ہے۔ آخر آنکھوں کی اپنی حماقت بھی تو ہوتی ہے یا اُن کا اپنا انفرادی المیہ۔
میری آنکھوں کو نہ تواُن کی آنکھیں کبھی صاف طورپرنظر آئیں اورنہ ناک یا ہونٹ اور جہاں تک گردن کے نیچے کا سوال ہے تواُن کے دوپٹے کا اُبھار مجھے دلکش تو لگتا تھا مگر جتنا دلکش لگتا تھا اُتنا ہی فطری اور عام بھی۔ ظاہر ہے کہ یہ عورت اور مرد کا فرق تھا جس طرح ایک میز کرسی سے مختلف ہوتی ہے یا ایک کتاب پتھّر کی سل سے۔ اس لیے میرے اندر انجم باجی کے سینے کے اُبھاروں کے بارے میں کوئی تجسس نہ تھا۔ یاد رکھئے جنسی معاملات میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
اس لیے مجھے تو صرف ان کی گوری، اجلی، صاف ستھری رنگت ہی نظر آتی تھی۔ پتہ نہیں وہ خوبصورت تھیں یا یونہی سی تھیں۔ میں اپنی فطری یادداشت کو اُلجھن میں کیوں مبتلا کروں؟ میں اُن کی رنگت سے ہی لپٹا رہنا چاہتا تھا۔ کاش! وہ سفید اُجلا رنگ انجم باجی کے جسم کی کھال سے نہ چپکا ہوتا۔ کاش! وہ رنگت اُن سے ماوراہوتی، کہیں خلا میں،یا ہوا میں، یا آسمان میں اور تب میرے گناہوں کے اندھیرے اتنے گاڑھے نہ ہوتے۔ وہاں کچھ سفیدی باقی رہتی۔
مجھے انجم باجی سے محبت ہو گئی تھی، بچپن میں، جب میں نیکر پہنتا تھا اور زیر ناف میرے بال بھی نہیں اُگے تھے، مگر میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اپنی ماہیت میں بچپن کا یہ عشق، جوانی بلکہ کسی بوڑھے بوالہوس کے عشق سے مختلف نہ تھا۔ باورچی خانے میں رکھے کچّے گوشت کے مانند جس پر گرم مسالوں کی تہہ نہ لگی ہو اور جو ابھی ہانڈی میں اُبلنے کے لیے نہ رکھا گیا ہو۔
محبت اورنفرت میں ایک بڑا واضح اور خطرناک فرق ہے۔ محبت کی شکل صورت، اس کا جسم، اس کے خطوط اور خدوخال یاد نہیں رہتے، مگر نفرت ہمیشہ ایک جسم اور چہرہ رکھتی ہے۔
آفتا ب بھائی سے مجھے نفرت تھی۔ ہمیشہ سے،چاہے انھوں نے مجھے کتنی بھی ٹافیاں اور قلاقند کھلائے ہوں۔ آفتاب بھائی لمبے چوڑے جسم کے مالک تھے، رنگت اُن کی بھی گوری تھی مگر وہ انجم باجی کی طرح ایک پاکیزہ پیلی سفیدی نہ تھی۔ اُن کی جلد کی سفیدی میں لال رنگ چھپا ہوا تھا۔ ایسی سفیدی ہمیشہ اندر سے داغ دار اور تشدّد کی سیاہی سے پُتی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کا پتہ بھلے ہی بعد میں چلتا ہو۔
آفتا ب بھائی سے مجھے نفرت تھی۔ ہمیشہ سے،چاہے انھوں نے مجھے کتنی بھی ٹافیاں اور قلاقند کھلائے ہوں۔ آفتاب بھائی لمبے چوڑے جسم کے مالک تھے، رنگت اُن کی بھی گوری تھی مگر وہ انجم باجی کی طرح ایک پاکیزہ پیلی سفیدی نہ تھی۔ اُن کی جلد کی سفیدی میں لال رنگ چھپا ہوا تھا۔ ایسی سفیدی ہمیشہ اندر سے داغ دار اور تشدّد کی سیاہی سے پُتی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کا پتہ بھلے ہی بعد میں چلتا ہو۔
اُن کی آنکھیں بھوری اوربے رحم تھیں اور دہانہ کسی بل ڈاگ سے ملتا جلتا تھا۔ جس کو وہ اپنی خاندانی وجاہت اور مردانہ پن کی شان سمجھتے تھے۔
آفتاب بھائی، انجم باجی کے پھوپھی زاد بھائی تھے تومیرے کون ہوئے؟ پتہ نہیں بڑی گڑبڑ ہے۔ نہ جانے کیوں اس گھر میں اتنے عم زاد آکر کیوں اکٹھا ہوگئے تھے؟ غنیمت یہی تھا کہ یہاں بندروں نے اپنا ٹھکانہ نہیں بنایا تھا ورنہ وہ بھی ان تمام زادوں میں شامل ہو جاتے تو کوئی بعید نہ تھا۔
یقیناً آفتاب بھائی میں ایسی کوئی شے نہیں تھی جو اُن کے جسم سے ماورا ہونے کا امکان رکھتی۔ وہ پیٹو تھے اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہتے تھے۔ جس کے فوراً بعد مٹھی میں سگریٹ داب کر لگاتار گہرے گہرے کش کھینچتے۔ سگریٹ کی بو اُن کے آس پاس ہونے کی علامت تھی۔
آفتاب بھائی سے میری نفرت کی شدّت میں اُس دن غیر معمولی اضافہ ہوگیا جب میں نے انجم باجی کی سانسوں سے اُس سگریٹ کی بو آتی ہوئی محسوس کی۔
یقیناً آفتاب بھائی میں ایسی کوئی شے نہیں تھی جو اُن کے جسم سے ماورا ہونے کا امکان رکھتی۔ وہ پیٹو تھے اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہتے تھے۔ جس کے فوراً بعد مٹھی میں سگریٹ داب کر لگاتار گہرے گہرے کش کھینچتے۔ سگریٹ کی بو اُن کے آس پاس ہونے کی علامت تھی۔
آفتاب بھائی سے میری نفرت کی شدّت میں اُس دن غیر معمولی اضافہ ہوگیا جب میں نے انجم باجی کی سانسوں سے اُس سگریٹ کی بو آتی ہوئی محسوس کی۔
میں بڑا ہورہا تھا یا یہ کہاجاسکتا ہے کہ میرے جسم کے اندر عمر کی مقدار بڑھ رہی تھی۔ جس سے جسم آہستہ آہستہ۔ آخر کا ربڑھاپے کی طرف بلکہ تباہی کی طرف جاتا ہے۔
اب انجم باجی مجھے گود میں نہیں لیتی تھیں۔ نیکر میں میری پنڈلیاں اور رانیں موٹی موٹی ہو گئی تھیں۔ میں واقعی موٹا ہورہاتھا اور زیادہ تر وقت باورچی خانے میں گزرا کرتا تھا۔ باورچی خانے میں ایک دن جب میں شکر میں دیسی گھی ڈال کر اُسے باسی روٹی کے ساتھ کھا رہا تھا تو میں نے دیکھا۔
میں نے باورچی خانے کی جالی میں سے زینے کی چوتھی سیڑھی پر دیکھا، آفتاب بھائی انجم باجی کو اپنے ہاتھ سے کیک کھلا رہے تھے۔
میرے ہاتھ سے روٹی گر گئی۔
انجم باجی کا منھ چل رہا تھا۔ میں نے شاید پہلی بار اُن کا منہ کھلا دیکھا۔ وہ جلدی جلدی، گھبرا گھبرا کر کیک نگل رہی تھیں۔ میں نے پہلی بار اُن کے حلق کی حرکت اور اُس کی ہڈی کو دیکھا۔ شدید قسم کے غم و غصّے نے مجھے آکر گھیر لیا۔
دوپہر تھی، مئی کی تپتی ہوئی دوپہر۔ باورچی خانے کی جالیوں میں زینے سے ہوکر آتی ہوئی لُو ہوک رہی تھی۔ آفتاب بھائی سے مجھے خوف سا محسوس ہوا اور اِس بات پر افسوس بھی کہ اب تک میں نے یہ غور کیوں نہیں کیا تھا کہ انجم باجی کے پیٹ میں بھی آنتیں تھیں۔ نہ جانے کتنی بار میں نے اُن کے ہاتھ ہی کا پکا ہوا پلاؤ کھایا تھا۔ وہ بہت نفیس پلاؤ پکاتی تھیں، جس کا رنگ خود اُن کی اپنی رنگت سے ملتا جلتاہوتا۔ اور اُن کے ہاتھ کا پکایا ہوا پتلا شوربہ جسے میں تام چینی کی سفید رکابی میں اُتار کر بڑے اہتمام سے کھاتا تھا، جس دن بھی انجم باجی کے کھانا پکانے کی باری آتی، میں پڑھنا لکھنا چھوڑ کر باورچی خانے میں اُن کے ساتھ ہی کھڑا رہتا۔ مجھے اُن کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا ہی اچھا لگتا تھا اور باورچی خانہ بھی اُس وقت مجھے دنیا کا سب سے حسین مقام معلوم ہوتا تھا جب وہاں انجم باجی کچھ کام کر رہی ہوتیں۔توا رنگ برنگی چنگاریاں بکھیرتے ہوئے ہنسنے لگتا جب وہ روٹیاں پکاتیں۔
بارہا میں نے انجم باجی کو کھانا کھاتے دیکھا تھا، مگر نہ جانے کیوں مجھے کبھی اُن کے جسم میں (اگر اُن کا کوئی جسم تھا) آنتوں کے ہونے کا رتّی برابر شائبہ تک نہ ہوا۔
مگر آج مئی کی اس سنسان گرم، تپتی ہوئی دوپہر میں۔ جب آسمان پر چیل انڈا چھوڑ رہی تھی، اچانک انجم باجی کے پیٹ میں نہ جانے کہاں سے آنتیں آگئیں۔ پل بھر کو آفتاب بھائی مجھے وہ نفرت انگیز چیل نظرآئے جو سڑک کے کنارے سڑتی ہوئی کسی اوجھڑی کو اپنی چونچ میں دبائے وہاں اُڑ رہی تھی۔
یہ غلیظ اور کراہیت سے بھری ہوئی اوجھڑی کسی بھی پاک صاف مقام پر، پاکیزہ جسم پر گر سکتی تھی۔ مجھے یاد ہے میں چولہے کی بھو بل کے پاس بیٹھ کر رونے لگا۔
میں نے زینے سے آتی ہوئی سرگوشی سنی۔
“باورچی خانے میں گڈّو میاں ہیں۔” انجم باجی تھیں۔
“وہ احمق موٹا ہوتا جارہاہے، سب اُسے گڈّو میاں کیوں کہتے ہیں، اُس کا اصل نام حفیظ ہے، حفیظ ہی کہنا چاہئیے۔” آفتاب بھائی ہنسے۔
“ابھی چھوٹا ہے، بن ماں باپ کی اولاد— وہ گڈّو ہی ہے۔ گڈّو میاں۔” انجم باجی کے لہجے میں پیار تھا۔
“یہ چھوٹاہے۔۔۔ اب کیا بتاؤں اُس دن جب یہ سورہا تھا۔ میں نے دیکھا۔۔۔” آفتاب بھائی نے کچھ آہستہ سے کہا تھا۔ یا جملہ غیر مکمل چھوڑ دیا تھا
“شرم نہیں آتی۔” انجم باجی غصے سے بولیں۔
اُس کے بعد سناٹا چھا گیا۔ میں چولہے کی بھوبل کے پاس اُسی طرح سر جھکائے بیٹھا تھا۔ میں اب رو نہیں رہاتھا۔ میرے کان آفتاب بھائی کے غیر مکمل جملے کے فحش پن کومکمل کر رہے تھے۔
اسی لیے میں نے کہا تھا کہ نفرت کا جسم بھی ہوتا ہے۔ اور چہرہ بھی۔ میں اپنی یادداشتوں پر تبصرہ کرتے رہنے کے لیے بھی مجبور ہوں۔ آخر جسم میں اتنی عمر آگئی ہے اور دماغ کے خلیے کمزور ہوکر مٹ رہے ہیں۔ میں جھکّی ہوتا جارہا ہوں۔
آفتاب بھائی اب میرے لیے سراپا نفرت کی ایک رسّی تھے جس سے میں بندھا ہوا تھا۔ اس رسّی سے بندھے ہوئے کسی وحشی جانور کی طرح میں انجم باجی کی طرف شکایت بھری نظروں سے دیکھتا تھا۔
وہ کچھ نہیں سمجھتی تھیں یا جان بوجھ کر انجان تھیں۔ اُنھیں دنوں اُنہوںنے مجھے اپنے ہاتھوں سے لال رنگ کا ایک سویٹر بھی بُن کر دیا تھا۔ میں نے وہ سویٹر آج تک نہیں پہنا، وہ اُسی طرح اُس لوہے کے کالے صندوق میں بند ہے۔ جس کے بارے میں، میں نے سنا تھاکہ وہ میرے ماں باپ کا صندوق تھا۔
میں بظاہر اپنا وقت اسکول کی کتابوں میں گزارنے لگا۔ میں نے انجم باجی کے پاس جانا کم کر دیا۔
بس کبھی کبھی میں طوطے کے پنجرے کے سامنے جاکر اُداس کھڑا ہوجاتا۔ طوطا دیر تک آنکھیں گھما گھما کر مجھے دیکھتا اور پھر زو رزور سے بولنا شروع کر دیتا۔
“گڈّو میاں آگئے، گڈّو میاں آگئے۔ “