Laaltain

نعمت خانہ – دسویں قسط

26 جون، 2017
اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

سردیاں رخصت ہو گئیں ۔ مارچ کا مہینہ آپہنچا۔ گھر بھر میں سوکھے پیلے اور مُردہ پتّوں کا ایک ڈھیر لگ کر رہ گیا۔ مارچ کی خشک ہوائوں کے اُداس جھکّڑوں میںیہ پتّے باورچی خانے میں بھی اکٹھا ہوجاتے کیونکہ باورچی خانہ گھر کے مشرقی حصّے میں تھا اور یہ ہوائیں شاید اُدھر سے آتیں تھیں جدھر مغرب تھا۔

میں ایک دوپہر زینے کی چوتھی سیڑھی پر بیٹھا باورچی خانے میں جھانک رہا تھا۔ زینہ ان خزاں رسیدہ پتّوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ وہ میرے پیروں کے نیچے چرمرا رہے تھے۔

اچانک میرے پیچھے کی سیڑھیوں پر پتّوں میں کھڑبڑ ہوئی۔ میں نے مُڑ کر دیکھا۔

وہ ایک چھوٹا سا خرگوش تھا، سفید رنگ کا جس کے دو سیاہ کانوں میں سے ایک، آدھا کٹا ہوا تھا۔ خرگوش کی لال لال آنکھوں میں میرے لیے کوئی خوف یا دہشت نہ تھی، ایسا محسوس ہوا جیسے وہ مجھے ہمیشہ سے جانتا تھا۔

دراصل ہمارے گھر کے پچھواڑے جو مکان تھا، اُس کے مکین گھر چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے تھے۔ اُنہیں لوگوں نے خرگوشوں کا ایک جوڑا پالا تھا۔ انجم باجی اکثر چھت پر مجھے گود میں لے کر اُن کے آنگن میں دوڑتے بھاگے یہ خرگوش دکھایا بھی کرتی تھیں۔ اب وہ لوگ خرگوشوں کے جوڑے کو تواپنے ساتھ لے گئے تھے، مگر اُس کے بچّے کو اسی خالی گھر میں لاوارث چھوڑ گئے تھے۔ کچھ ہی دنوں پہلے مجھے نورجہاں خالہ نے بتایا تھا کہ گھر کی موری سے یہ خرگوش کا بچّہ باہر آگیا اور سڑک کے ایک آوارہ کتّے نے اُس پر حملہ کر دیا، کسی طرح اُس کی جان تو بچ گئی مگر کتّا اُس کا ایک کان آدھا کاٹ کر لے گیا۔

یہ وہی خرگوش تھا جو نہ جانے کہاں کہاں بھٹکتا ہوا، گندی موریوں اورنالیوں سے گزرتا اور بچتا بچاتا یہاں میرے پاس سوکھے مردہ پتوں سے ڈھکی گکیّا اینٹوں سے بنے زینے کی سیڑھیوں پر آکر بیٹھ گیا تھا۔

میں نے اُسے گود میں لے لیا۔ اس کے کان پر زخم تھا جس پر خون جما ہوا تھا۔ زخم اندر سے پک رہا تھا۔

میں نے خرگوش کا سر نرمی سے سہلایا۔ اس نے بے حد مانوسیت کے ساتھ میری گود کو اپنی تھوتھنی سے رگڑا۔
میں باورچی خانے کا منظر جالی میں سے دیکھ رہا تھا۔

ثروت ممانی چولہے پر کچھ پکا رہی تھیں، اُن کے ہاتھ میں ’’رشیدہ کا دسترخوان‘‘ تھا۔

ان دنوں ہمارے گھر میں ہر عورت کے ہاتھ میں یا تو رشیدہ کا دسترخوان ہوتا یا ’’رشیدہ کی کشیدہ کاری۔‘‘

اُڑتے اُڑتے میں نے انجم آپا سے یہ بھی سنا تھا کہ انجم باجی کی بارات ہونے والی ہے، ممکن ہے اسی لیے طرح طرح کے کھانوں پر مشق آرائیاں کی جارہی ہوں۔

ثروت ممانی نے رشیدہ کے دسترخوان کا ایک ورق پلٹا، پھر دوسرا، پھر ناک پر مضبوطی سے عینک جماکر کچھ پڑھنے لگیں۔ ان کی ناک پر وہ ڈھیلی ڈھالی اور بڑے بڑے شیشوں والی عینک پھر پھسلی۔

مجھے تجسّس ہوا کہ وہ کون سے کھانے کی ترکیب پڑھ رہی ہیں۔ میں زینے سے اُتر کر باورچی خانے میں آگیا۔ خرگوش میرے پیچھے پیچھے تھا۔

ثروت ممانی کھانا بہت اچھا پکاتی تھیں۔ مگراُن کے پکائے ہوئے چاول ہمیشہ سخت رہتے۔ چاہے وہ خشکہ پکاتیں یا بریانی، ہمیشہ دَم پر آنے سے کچھ پہلے ہی وہ دیگچی چولہے پر سے اُتار لیتیں۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کے ہاتھوں کے پکائے چاول دیکھنے میں تو بہت خوبصورت اور سفید سفید موتی جیسے بکھرے ہوئے ہوتے مگر کھانے میں ہمیشہ تکلیف کا سبب بنتے۔ مگر چوںکہ ثروت ممانی خاصی بددماغ واقع ہوئی تھیں اِس لیے کوئی اُن سے کچھ کہنے کی ہمت نہ کر پاتا۔

وہ بھی ایک عجیب منظر ہوتا۔ جس دن بھی چاولوں میں کسر رہ جاتی، پورا گھر کھانا کھانے کے بعد ناریل کی جُگالی کرتا پھرتا کیونکہ حکیموں کاکہنا ہے کہ سخت یا کرّے چاولوں کا توڑ ناریل ہے۔

اچھن دادی دنیا میں اگر کھانے پینے کی کسی شے سے خوف کھاتی تھیں تو وہ سخت اور کم گلے ہوئے چاول ہی ہوتے تھے، ورنہ وہ تو پائے ، گردے،کلیجی، پھیپڑے اور بٹ اور سِری سب ہضم کر جاتیں اور ڈکار تک نہ لیتیں۔ اُن کا قول تھا کہ ’’کلّا چلے ستّر بلا ٹلے۔‘‘

مگر یہی اچھن دادی سخت چاول کھاکر ، ناریل چباتی جاتیں اور بڑبڑاتی جاتیں کہ
’’چاول کی کنی، نیزے کی اَنی۔‘‘

اب سوچتاہوں کہ کتنا مضحکہ خیز محسوس ہوتا ہے کہ بکھرے بکھرے، سخت چاول کھاکر گھر کے سارے افراد ناریل چباتے جاتے ہیں اور آنگن میں ٹہلتے جاتے ہیں۔ ،’’چاول کی اَنی، نیزے کی اَنی۔‘‘

مگر اصل میں نیزے کی انی کیا ہوتی ہے۔ یہ میں ہی جانتا تھا اور آج بھی جانتا ہوں، میں تو اُس نیزے کے لوہے اور اُسے بنانے والے لوہار تک کو جانتا ہوں۔

’’آپ کیا پکا رہی ہیں؟‘‘

ثروت ممانی ایک بددماغ عورت تھیں۔ اُنھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

میں نے پھر پوچھا، ’’آپ کیا پکا رہی ہیں؟‘‘

’’قیمہ بھرے کریلے۔‘‘ انھوں نے بے نیازی سے کہا اور کتاب کی طرف توجہ مرکوز کر دی۔

’’چولہے پر رکھی ہانڈی میں تیل پک رہا تھا جس میں دوچار لہسن کے جوے جل کرکالے ہو چکے تھے۔ تیل میں سے جھاگ اُٹھ رہے تھے۔ سفید سفید جھاگ جنھیں دیکھ کر جی گھبرانے لگا۔

ثروت ممانی زور زور سے پڑھنے لگیں، جیسے سبق رٹ رہی ہوں۔

کریلے 10 عدد
قیمہ باریک ½ سیر
پیلی سرسوں کا تیل ½ سیر
ناگ پوری پیاز 2 سیر
گرم مصالحہ 1½ تولہ
کاجو 20عدد
کِشمش 2 تولہ
خربوزے کی مینگ 1½ تولہ
چرونجی 2½ تولہ
سرخ مرچ 1 تولہ
ہلدی 2 تولہ
دھنیہ 1½تولہ
لہسن پسا ہوا 5 تولہ
ادرک پسی ہوئی 5 تولہ
نمک حسب منشا

سب سے پہلے کریلوں کو گہرا گہرا چھیل لیں اور کچھ دیر پانی میں بھگو کر رکھیں۔ قیمے میں اگر چکنائی ہو تو اُسے بین بین کر الگ کر دیں۔ قیمہ خوب باریک ہونا چاہئیے ۔۔۔ ثروت ممانی جلدی جلدی دہرا رہی تھیں۔ مگر اُس سے آگے میں نہ سن سکا۔ مجھے کچھ ہونے والا تھا۔ میری طبیعت عجیب انداز سے بگڑ رہی تھی۔ مجھ سے باورچی خانے میں ٹھہرا نہ گیا۔

آنگن میں آم کا درخت بری طرح ہل رہا تھا۔ میں اُس کے سائے میں جاکر کھڑا ہوا تو میرے سر پر اُس کی شاخوں سے بہت سے پتّے گرے۔
خود میرا دل بھی ایک سوکھے پتّے کی طرح ہی لرز رہا تھا۔

یہ بات کچھ دیر بعد مجھے سمجھ میں آئی کہ میرا دل جو پتّے کی طرح لرز رہا تھا وہ دراصل مجھے اپنی زبان میں کچھ بتا رہاتھا۔ وہ مجھے خبردار کر رہا تھا، میں نے اپنے دل کی اس عجیب و غریب زبان کو سمجھ لیا تھا۔

’’آج نہیں— آج قیمے بھرے کریلے نہیں پکنا چاہئیں یہ اچھا شگون نہیں ہے، آج یہ کھانا ایک مخدوش کھانا ہے۔ پتہ نہیں کیا نتیجہ نکلے؟‘‘
آہستہ آہستہ میں اِس یقین کے وہم میں پوری طرح مبتلا ہوگیا کہ آج کے دن اُس وقت یہ کھانا پکنا کچھ منحوس باتوںکا پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے۔

کھانا پکا اور مزے لے لے کر کھایا گیا۔ خود میں نے بھی کھایا مگر میرا دل لگاتار گھبراتا رہا۔ اور میری آنتوں سے نکل کر ایک چکنی روشنی لگاتار ایک روشن دھبّے کی صورت میری آنکھوں کے سامنے گردش کرتی رہی۔ شام کے ساڑھے پانج بجے ہوں گے جب سامنے والے گھر سے ایک شور سا بلند ہوا اور ببّو کی ہذیانی چیخوں سے محلہ ہل کر رہ گیا۔ یوں تو ببّو رات دن ہی چیختا رہتا تھا۔ اس کے گھر والے اور محلّے کے تمام لوگ اُس کی ان وحشی چیخوں کے عادی ہو گئے تھے۔ ببّو کی بھی ایک عجیب کہانی تھی۔

بچپن میں وہ بہت ضدّی اور شیطان قسم کا بچّہ تھا۔ ایک دن اپنے باورچی خانے میں اُودھم مچا رہا تھا۔ وہاں بُرادے کی انگیٹھی دہک رہی تھی۔ ایک پل کو اس کی ماں کی نظر بچی توببّو کے جی میں کیا آئی کہ انگیٹھی پر جاکر بیٹھ گیا۔

وہ ایک نچلے طبقے کا بچّہ تھا، اور چھ سات سال کا ہو جانے کے باوجود نیکر نہیں پہنتا تھا۔

اس کے منھ سے دردناک چیخیں نکلیں، وہ رو بھی نہ سکا۔ اس کا رونا صرف چیخ بن کر رہ گیا۔ ایک کبھی نہ ختم ہونے والی چیخ۔ اس کے ننھے معصوم پوشیدہ اعضا جل کر رہ گئے۔ نچلا دھڑ بری طرح جھلس گیا۔

مگر وہ مرا نہیں، وہ بچ گیا۔ لوگ کبھی کبھی بچ جاتے ہیں۔

وہ ایک بڑی موت کو گلے لگانے کے لیے کمینی اور ٹچّی قسم کی موت کو حقارت سے ٹھوکر مار دیتے ہیں۔

ببّو اَب چالیس سال کا تھا۔ اُس کا دماغ خراب ہو چکا تھا۔ چھ سات سال کی عمر میں وہ پاگل ہو گیا تھا۔ وہ گھر میں ننگا گھوما کرتا اور رات دن چیخیں مارا کرتا، بالکل اُسی طرح جیسے وہ آج بھی جلتی ہوئی انگیٹھی پر بیٹھا ہوا ہو۔

اس کی ماں نہ جانے کب کی مرچکی تھی۔ اور اُس کا باپ جو ایک بڑھئی تھا، وہ اُس کی اور خود اپنی زندگی سے عاجز آچکا تھا۔
محلے والوں کے لیے ببّو ایک تفریح کا موضوع تھا۔ محلے کے لونڈے دروازے میں سے جھانکتے اور ’’ببّو انگیٹھی، ببّو انگیٹھی‘ کہہ کر اُسے چڑا چڑا کر بھاگ جاتے۔ببّو کی وحشی چیخیں بڑھ جاتیں اور اُس کا باپ ہاتھ میں آری یا برما لیے، گالیاں بکتا ہوا بچّوں کے پیچھے دوڑتا۔بچے اِدھر اُدھر پھیلی ہوئی قبروں کے پیچھے کہیں چھپ جاتے۔ محلے کی عورتیں بھی ببّو کے جنسی اعضا جل جانے کا ذکر چٹخارے لے لے کر اور ہنستے ہوئے کرتیں۔

آج ببّو کی ہذیانی چیخیں اچانک بہت بلند ہوگئیں۔ غیر معمولی طور پر بلند۔ محلے میں شور ہورہا تھا، لوگ اُس کے گھر پر جمع تھے۔ پھر وہ چیخیں اچانک تھم گئیں، جیسے ایک زبردست طوفان اچانک رُک گیا ہو۔

میں بھاگ کر چھت پرجاکر کھڑا ہو گیا، جہاں سے ببّو کا گھر صاف نظر آتا تھا۔ لوگ زور زور سے دروازہ پیٹ رہے تھے۔ دروازہ اندرسے بند تھا۔ آخر کئی لوگوں نے مل کر خستہ ہال دروازہ توڑ ڈالا۔ عورتوں اور مردوں کی ایک بھیڑ گھر میں گھستی چلی گئی۔

کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ ببّو انگیٹھی کے باپ نے تنگ آکر پہلے تو ببّو کو گلا گھونٹ کر مار ڈالا اور اس کے بعد اُس آری سے، جس سے وہ لکڑی کاٹا کرتا تھا، اپنی گردن ریت ڈالی۔ مجھے یاد ہے کہ اُس وقت اس کے گھر کی موری سے کچھ کتھئی رنگ کا سیال بہہ کر نالی میں گر رہا تھا۔ تب تو نہیں، لیکن اب میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ کٹی ہوئی گردن سے بہتا ہوا خون ہوگا۔

کچھ ہی دیر بعد ساری گلی پولیس والوں کی خاکی وردی سے بھر گئی۔ میں چھت سے اُتر آیا۔ سارے گھر میں اِسی واقعہ کو لے کر چہ میگوئیاں چل رہی تھیں۔ میں ببّو انگیٹھی کو دیکھنے جانا چاہتا تھا۔ مگر گھر میں کسی نے اس کی اجازت نہیں دی، مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ میں کبھی قریب سے ببّو انگیٹھی کو دیکھ نہیں سکا۔ اپنی زندگی میں صرف ایک بار میں نے اُسے دیکھا تھا، جب وہ نہ جانے کیسے گھر سے باہر نکل کرگلی میں آگیا تھا۔ اور لونڈے اُسے چڑا رہے تھے۔ یا اُس پر مٹّی کے ڈھیلے پھینک رہے تھے۔ اُس وقت وہ چیخیں نہیں مار رہاتھا، اُس کے تن پر صرف میل سے چیکٹ، پھٹی ہوئی ایک بنیان تھی۔ میں نے غور سے اُس کے نچلے دھڑ کی طرف دیکھا تھا۔ وہاں ایک خاموش مُردہ سفیدی کے سوا کچھ نہ تھا۔

اُس رات مجھے نیند نہ آئی۔ ایک ناقابل فہم دہشت مجھ پر چھائی رہی۔ گھر اور دہشت تو محلے پر بھی چھائی رہی۔ میرا اندیشہ صحیح ثابت ہوا، بلکہ میرا علم مکمل طور پر صحیح ثابت ہوا۔ مجھے پکّا یقین ہوگیا کہ اس بھیانک حادثے کا سبب آج دوپہر میں میرے باورچی خانے میں پکنے والے قیمے بھرے کریلوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔

مجھے اپنی اس خطرناک صلاحیت سے اتنا خوف محسوس ہوا کہ مجھ پر کپکپی سی چڑھنے لگی۔

اب اُس خطرناک قوت کا بھید مجھ پر کھل گیا جو لگاتار اور بے تعداد مقدار میں اُلٹیاں کرتے رہنے کے بعد مجھ میں پیدا ہوگئی تھی۔ کھانا اور اُس کے مختلف اقسام اب میرے لیے الجبرے کے اُن الجھے اور مشکل سوالات کی طرح تھے۔ جنہیں میں دیکھے بغیر ہی حل کر سکتا تھا اورجن کے آخر میں کسی ہندسے کے آگے پیچھے + کی یا – کی علامت لگاکر اُسے صحیح صحیح حل کرکے ثابت کردینا میرے لیے ایک خوفناک مگر گویا چٹکیوں کا کھیل تھا۔

(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *