اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

آخر وہ گلی آگئی جس کے بائیں موڑ پر میرا گھر تھا۔
وہاں ایک جم غفیر تھا۔

نیلی بتّی والی، پولیس کی ایک گاڑی گلی کے موڑ پر کھڑی تھی۔ میں ہمت سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھتا گیا۔ اب میرا خوف ہی میرا حوصلہ اور میرا سہارا تھا اور پیروں کی کپکپاہٹ ہی میرے چلنے کی طاقت تھی۔ یہ نہ ہوتی تو شاید میرے پیر پتھّر کے ہوجاتے۔

گھر خاکی وردی والوں سے بھرا ہوا تھا۔ حالانکہ لاش پوسٹ مارٹم کے لیے لے جائی جاچکی تھی۔ پولیس والے ایک ایک کا بیان لے رہے تھے۔ نورجہاں خالہ اور اچھّن دادی تک کا بیان لیا گیا، جب میری باری آئی تو میں نے کہہ دیا کہ صبح سے اسکول میں تھا۔ اورابھی آیا ہوں۔ پولیس کو میرے اوپر کوئی شک نہیں ہوا۔ ورنہ اسکول سے یہ معلوم کیا جاسکتا تھا کہ میں آج اسکول نہیں پہنچا تھا، مگر قسمت نے میرا ساتھ دیا۔
بعد میں،پولیس کے چلے جانے کے بعد بڑے ماموں نے مجھ سے یہ بازپرس ضرور کی کہ میں نے اُن کا کہا کیوں نہیں مانا۔ مگر وہ صرف ایک باز پرس نہیں تھی کیونکہ بعد میں انھوں نے گہری سانس لے کر یہ بھی کہا تھا کہ اچھا ہی ہوا کہ میں اسکول گیا ہوا تھا۔ شاید اُنہیں یہ اندیشہ ہوا ہو کہ اگر میں گھر پر ہوتا تومیری جان بھی خطرے میں پڑسکتی تھی۔

’’یہ ضرور کنپٹی مار کا کام ہے۔‘‘چھوٹی خالہ نے کہا۔

اُن دنوں ایک مجرم جو نفسیاتی مریض تھا، لوگوں کے گھروں میں گھستا پھرتا اور کسی ہتھیار کے ذریعہ کسی بھی تنہا شخص کا قتل کرکے چلتا بنتا۔ پولیس کو ابھی تک اُسے گرفتار کرنے میں کامیابی نہیں ملی تھی۔

کچھ دیر بعد ایک پولیس انسپکٹر کچھ سپاہیوں کے ساتھ دوبارہ آیا تھا۔

’’ہو سکتا ہے کہ یہ اس کنپٹی مار کا کام ہو۔ مگر اُس کے قتل کرنے کا طریقہ بالکل الگ ہے۔ وہ اپنے عجیب و غریب ہتھیار سے ہی آدمی کی جان لیتا آیا ہے۔ مگر ممکن ہے کہ وہ ہتھیار اُس سے کہیں گر گیا ہو یا چھوٹ گیا ہو۔ اس لیے ہم نے تو گھر کی تلاشی لے ہی لی مگر آپ لوگ بھی اپنے طور پر اس امکان کو نظرانداز نہ کریں اور اُس ہتھیار کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔‘‘

پولیس والے چلے گئے تھے مگر ہمارا گھر رشتہ داروں سے اور محلے والوں سے بھر گیاتھا۔

تھوڑی دیر بعد مجھے بہت زور کی سردی لگنے لگی۔ میرے دانت بجنے لگے۔ میرے اوپر لحاف ڈال دیا گیا۔ میں نے کسی کو کہتے سنا۔ ’’بچّہ ہے— بری طرح ڈر گیا ہے، اسے بخار آرہا ہے۔‘‘

اور یقینا وہ آرہا تھا۔ میں نے بخارکے قدموں کی دھمک کو اپنے کانوں کے ٹھیک قریب سنا۔ میری کنپٹیاں تپتی ہوئی سلاخوں جیسی ہوگئیں۔ ماتھا اس طرح جل رہا تھا کہ اُس پر چنے بھونے جاسکتے تھے۔ میں جس بستر پر لیٹا تھا اس کی چادر اتنی گرم ہوگئی تھی کہ لگتا تھا تھوڑی دیر میں دھواں دے کر سلگنے لگے گی۔

میں ہوش سا کھونے لگا۔ مجھے لگا کہ میں باہر سڑک پر پڑا ہوا ہوں۔ اور میرے اوپر چیل کوّے اُڑ رہے ہیں۔ مری یادداشت بخار کے بھبکوں میں پرزے پرزے ہوکر ہوا میں اُڑ رہی تھی۔

کیا میرے دماغ پر بھی فالج گر گیاہے۔ کیا یہ فالج کی بارش ہے؟ ایک گرم تپتی جلتی ہوئی بارش؟ میں نے ہوش کھوتے ہوئے سوچا۔ اس کے بعد صرف کچھ آوازیں تھیں جو میں سنتا تھا۔ اور ا نہیں آوازوں سے مجھے اپنے زندہ ہونے کا گمان گزرتا تھا۔

’’ایک سو پانچ اعشاریہ سات۔‘‘
’’ایک سو چھ۔‘‘

باربار کوئی میرے منھ اور بغل میں کوئی لجلجی سی سلائی لگا دیتا تھا۔

Leave a Reply