Laaltain

نعمت خانہ – بارہویں قسط

11 جولائی، 2017
Picture of خالد جاوید

خالد جاوید

اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

مئی کا تپتا ہوا اور لُو کے جھکّڑوں سے ہلتا اور کانپتا ہوا مہینہ آپہنچا۔ یہ بڑا شاندار اور پُروقار گرمی کازمانہ تھا۔ ہر شے تپ رہی تھی۔ گرمی ہر شے کو آگ کی مانند جلاکر راکھ کر دینے کے درپے تھی۔ ہر شے کو پوتر کرنے کے لیے تیار۔ یہی کام تو آگ کرتی ہے۔

انجم باجی کی شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ تاریخ بھی مقرر ہوگئی۔ شادی، برسات کا موسم گزر جانے کے بعد ہونا طے پائی تھی مگر یہ شادی آفتاب بھائی کے ساتھ نہیں ہو رہی تھی جس کا مجھے اندیشہ تھا۔ شادی کہیں اور ہو رہی تھی اور اُن کا ہونے والا شوہر سعودی عرب میں ملازمت کرتا تھا۔ میں نے یہ واضح طو رپر محسوس کیا کہ انجم باجی زیادہ تر روتی رہتی ہیں اور اپنے بیاہ کے کاموں میں رتّی برابر بھی دلچسپی نہیں لیتیں۔ مجھے نہ جانے کیوں اس سے بڑی طمانیت سی محسوس ہوتی۔
ایک دن میں نے اُن سے پوچھا تھا:

’’آپ مجھے بھول تو نہیں جائیں گی؟‘‘

وہ پہلے تو کچھ نہیں بولیں، پھر میری گود میں بیٹھے کن کٹے خرگوش کو اُٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا اور سسکیاں لینے لگیں۔
’’آپ میری وجہ سے روتی ہیں نا!‘‘

انجم باجی نے خرگوش زمین پر اُتار دیا اور مجھے خالی خالی بیگانی نظروں سے دیکھنے لگیں۔

جون کا مہینہ آتے آتے میں کچھ اور بڑا ہو گیا۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی دن بلکہ کسی بھی لمحے اچانک بڑے ہو جاتے ہیں، تبدیل ہوجاتے ہیں اور آپ کو اپنے بڑے ہوجانے یا بدل جانے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ تبدیلی کا عمل اتنا ہی پُراسرار ہے جتنا کہ زمین کا گردش کرنا، جس کا انسان کو پتہ تک نہیں چلتا۔

میں کچھ اوربڑا ہوگیا یا میرے جسم میں ایک آدھ انچ عمر اور بڑھ گئی۔ ان دنوں مجھے جانوروں سے بہت لگائو ہوگیا تھا۔ سنبل طوطا اور کن کٹا خرگوش تو تھے ہی۔ ہمارے گھر میں کہیں سے گلہری کے دو بچّے آگئے تھے۔ میں نے ضد کرکے انھیں تقریباً پال ہی لیا۔ میں ان کو جوتے کے ڈبّے میں روئی بھر کر رکھتا تھا جس سے کہ وہ اُن کا گھونسلہ بن جائے۔ چھوٹی سی تام چینی کی کٹوری میں دودھ دیتا تھا اور جو کچھ بھی، دانہ دُنکا وہ کھاتے تھے۔ نورجہاں خالہ نے اُن کے نام بھی رکھ دیے تھے۔ لوسی اور جیک۔ مگر جب وہ بڑے ہوئے تو انسانوں سے خاصا ہل جانے کے باوجود انھوںنے آم کے درخت کے ایک کھوکے میں اپنا باقاعدہ گھونسلہ بنا لیا۔ رات میں وہ وہاں سوتے تھے اور دن میں سارے گھر بلکہ بستروں تک پر گھوما کرتے تھے۔

جون کے اواخر میں جب ہلکی ہلکی بارش شروع ہوئی تو دونوں کو ایک عجیب مشغلہ ہاتھ آگیا۔ بارش کی بوندیں جیسے ہی ٹین پر گرتیں وہ داسے پر سے اُچھل کر اپنی خوبصورت دُمیں سر پر رکھ کر بھاگتے ہوئے درخت کے کھوکے میں گھس جاتے اور پھر وہاں سے اپنا منھ باہر نکال کر بارش دیکھا کرتے۔

ویسے ابھی مانسون نہیں آیا تھا اور اُمس کا یہ عالم تھا کہ سارا بدن گیلا اور چکنا ہوگیا تھا۔ اب کہہ سکتا ہوں کہ وہ انسانی ارتقا کے ابتدائی پڑائو کا تجربہ تھا۔ مجھے اپنی کھال مچھلی کی کھال کی طرح لگتی تھی۔ پسینہ سوکھتا ہی نہ تھا۔ جو شخص بھی قریب سے گزرتا، تو پسینے کی بدبو سے ناک سڑ اکر رکھ دیتا۔ زیادہ تر افراد دالانوں سے نکل کر رات میں آنگن میں ہی سویا کرتے۔
ایسی ہی اُمس بھری ایک شام کا ذکر ہے۔ میں چھت سے پتنگ اُڑا کر نیچے آیا۔ باورچی خانے میں ایک کھٹّی میٹھی سی خوشبو جو مجھے بدبو محسوس ہوئی، آرہی تھی۔ میں اندر گیا۔

نورجہاں خالہ چولہے کے سامنے بیٹھی تھیں اور ایک ہانڈی میں باربار کفگیر چلا رہی تھیں۔
’’کیا پک رہا ہے؟‘‘

’’آم رس۔‘‘ نورجہاں خالہ نے اسی طرح کفگیر چلاتے چلاتے جواب دیا۔ اُن کے کپڑوں سے پسینے اور آم کی ملی جلی بو نے میرا جی متلا کر رکھ دیا۔ مجھے نہ آم پسند ہے اور نہ اُس سے بنی کوئی دوسری شے۔

میں جیسے ہی واپس جانے کے لیے مڑا مجھے محسوس ہواکہ میرے پائوں ڈگمگا رہے ہیں۔ دونوں وقت مل رہے تھے، آسمان پر ایک پیلا سا غبار تھا،جیسے آندھی آتے آتے رہ گئی ہو۔ ’’نہیں ٹھیک نہیں ہے۔ آم رس آج نہیں پکتا تو اچھا تھا۔‘‘ میں دھیرے سے بڑبڑایا۔ میری وہ منحوس چھٹی حس شاید جاگنے والی تھی۔ مگر پھر میں نے خود ہی اپنی توجہ زبردستی کہیں اور مرکوز کر دی۔ میں نے لوسی اور جیک کو چمکار کر زور زور سے آوازیں دینا شروع کردیں۔

دونوں اپنی دُمیں سر پر اُٹھائے دوڑے چلے آئے۔ میں تھوڑی دیر تک اُن سے کھیلتا رہا۔ پھر جیک کچھ سونگھتا ہوا باورچی خانے میں چلا گیا اور لوسی چھوٹے چچا کے پلنگ کے پائے پر چڑھنے اُترنے لگی۔

رات ہو گئی، لالٹین جل گئی۔ مجھے بھوک لگنے لگی۔ کھانا تو پہلے ہی تیار ہوچکا تھا۔ بس آم رس کا انتظار تھا۔ وہ بھی اب پک گیا تھا۔
میں باورچی خانے میں دیکھ رہا تھا کہ نورجہاں خالہ نے آم رس کی ہانڈی کو چولھے سے اُتار لیا ہے۔

جیک اُن کے پاس ہی اپنے اگلے دو پنجوں میں کچھ دبائے کُتر رہا تھا۔ نورجہاں خالہ نے چولہے میں سے سلگتی ہوئی لکڑی نکالی اور وہیں بیٹھے بیٹھے لوٹے سے پانی ڈال کر اُسے بجھا دیا۔

جلتی سلگتی لکڑی پر جیسے ہی پانی گرا۔ سن سن کی ایک تیز آواز باورچی خانے میں گونجی۔ انسان اس آواز سے صدیوں سے مانوس ہیں مگربے زبان جانور نہیں۔ جیک اِس (بھیانک آواز؟) آواز سے بری طرح خوف زدہ ہوکر حواس باختہ ہوتے ہوئے زور سے اُچھلا اور چولہے میں جاگرا۔ چولہے میں تازہ تازہ بھوبھل تھی جس کی تہہ میں انگارے دہک رہے تھے۔

وہ ’’چیں چیں‘‘ کی بڑی دردناک آوازیں تھیں۔ سب چولہے کی طرف دوڑے، میں زور زور سے رونے لگا۔

چھوٹے چچا نے اُسے کسی طرح چولہے سے باہر نکالا۔ جیک چیں چیں کرتا ہوا، لڑکھڑاتا، ڈگمگاتا ہوا، فرش پراِدھر اُدھر چکر لگا رہاتھا۔ اس کے ننھے ننھے پیر پوری طرح جل گئے تھے اور قصائی کی دوکان پر رکھے چھیچھڑوں کی مانند نظر آرہے تھے۔ اس کی جلد پر سے سفید دھاریاں غائب تھیں۔ اس کی دُم جل کر ٹوٹ گئی تھی۔ اور وہ ایک گلہری نہ ہوکر ایک بدنما، خارش زدہ اور گندا، دُم کٹا چوہا نظر آرہا تھا۔ تھوڑی دیر تک وہ اسی طرح اچھلتا کودتا رہا، پھر خاموش اور نڈھال ہوکر فرش پر پڑ گیا۔ چھوٹے چچا نے اُسے ہاتھ سے چھوا، میں نے دیکھا، اُس کی آنکھیں غائب تھیں۔ سر کی جلی ہوئی کھال آگے کو لٹک رہی تھی۔

’’دودھ لائو، دودھ۔‘‘ انجم باجی نے کسی سے کہا، مگر نہیں سب بیکار تھا۔ جیک نے اِس سے پہلے ہی دم توڑ دیا۔

باورچی خانے میں سنّاٹا ہوگیا۔ اُس رات کسی نے کھانا نہیں کھایا۔ میں تمام رات پلنگ پر لیٹے لیٹے روتا رہا۔ لوسی پتہ نہیں کہاں تھی؟
کوئی میرے پاس آنے کی یا دلاسہ دینے کی ہمت نہ کر سکا۔ مگر شاید آدھی رات رہی ہوگی جب میرا خرگوش آکر میرے پیروں کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ اپنی تھوتھنی میرے پاؤں سے رگڑ رہا تھا۔ پتہ نہیں کب مجھے نیند آگئی۔

صبح میں دیر سے اُٹھا۔ چھوٹے چچا نے مجھے بتایا کہ لوسی بھی مر گئی۔

فجر کی نماز کے بعد جب چھوٹے چچا مسجد سے لوٹ رہے تھے تو اُن کی نظر بے خیالی میں بجلی کے کھمبے کی طرف اُٹھ گئی۔ انھوںنے دیکھا اوپر بجلی کے کھمبے سے ہوکر جہاں بہت سے تار جاتے ہیں، وہاں اُن بجلی کے تاروں میں وہ جھول رہی تھی، مردہ اور اکڑی ہوئی۔

اس بار میں رویا نہیں، بس خاموشی سے زینے کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا چھت پر چلا گیا۔

مجھے نہیں معلوم کہ جانور خودکشی کرتے ہیں یا نہیں۔ مگرآج اس بات پر مجھے پورا یقین ہے کہ لوسی نے خودکشی کی تھی۔
اس واقعے کے بعد میں اپنی اس خطرناک صلاحیت سے بے حد خوف زدہ اور سراسیمہ رہنے لگا۔ میں خدا سے دُعا مانگتا کہ وہ مجھ سے یہ صلاحیت، یہ پُراسرار حس چھین لے۔ میں نے کافی عرصے تک باورچی خانے کی جانب رُخ بھی نہ کیا۔ میں اس کے قریب سے بھی گزرتا تو ناک بند کرکے کہ کہیں کوئی خوشبو نہ آجائے اور پھر کوئی حادثہ، کوئی برا واقعہ نہ رونما ہوجائے۔ مگر اب مجھے یہ اپنا بچپنا اور حماقت ہی نظر آتے ہیں۔ اب تو یہ میرے لیے بہت عام سی اور فطری بات ہو چکی ہے۔ جیسے کوئی پیدائشی بہرا، گونگا یا اندھا ہو، بالکل اس طرح یہ زائد اور خوفناک چھٹی حس میرے وجود کا وہ پیدایشی عیب یا محرومی بن چکی ہے جو اَب میری عادت میں شمار ہے اور جس کے ساتھ، بغیر کسی پریشانی یا مشکل کے، اطمینان کے ساتھ میں نے جینا سیکھ لیا ہے۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اس منحوس اور کالی صلاحیت نے میرے اندر کی کمینگی اور کینہ پروری کو بھی سہارا دے کر اُسے اور زیادہ مضبوط بنادیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *