نورجہاں خالہ کو نہانے کا مِراق ہو گیا۔ چھ چھ گھنٹے نہاتی تھیں۔ غسل خانے سے باہر ہی نہیں نکلتی تھیں۔ یہاں تک تو خیر برداشت کر لیا گیا مگر کچھ عرصے بعد وہ صابن، تولیہ اور بالٹی میں پانی بھر کر باورچی خانے کے اند رجانے لگیں۔ وہ باورچی خانے میں نہانے کی کوشش کرنے لگیں جہاں سے اُنہیں بڑی مشکل سے کھنچ تان کر باہر نکالا جاتا، مگر دو تین بار وہ اس کوشش میںکامیاب بھی ہو چکی تھیں۔ دماغی بیماریوں کے معالج کو دکھایا گیا۔ اس نے اُن کے دماغ کے ایک خاص حصّے پر فالج کا اثر بتایا۔ کچھ دوائیں دے کر اُس نے یہ دلاسا دیا کہ کچھ عرصے بعد وہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گی۔
وہ دماغوں پر فالج گر نے کا زمانہ تھا۔ جس کو دیکھو اُس کے دماغ پرفالج گر رہا تھا۔ یہاں تک کہ عصمت چچّا ممّا (وہ ایک طرف سے رشتے میں چچا ہوتے تھے اور دوسری طرف سے ماموں اس لیے میں اُنہیں چچّا ممّا کہتا تھا) گاؤں سے، جو ہمارے گھر سے دس کوس دور تھا، ہمیشہ کی طرح اس سال بھی جب رساول کی ہانڈی لے کر آئے تو گھر کی چوکھٹ تک پہنچتے پہنچتے اُن کے دماغ پر فالج گر چکا تھا۔ وہ رساول کی ہانڈی لیے باربار پاخانے کی طرف دوڑتے تھے۔ جب اُن کو پکڑ کر قابو میں کیا گیا تو وہ زور زور سے چیختے۔۔۔ ’’میں رکھوں گا، باورچی خانے میں، اپنے ہاتھ سے رساول کی ہانڈی رکھوں گا۔‘‘
گویا ایک وبا پھیلی ہوئی تھی، عجیب و غریب وبا، کہیں نہ کہیں سے کسی کے اس وبا کے شکار ہونے کی خبر آتی ہی رہتی۔
حد تو یہ ہے کہ خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک پاگل چوہا رات گئے باورچی خانے میں گھومتا پھرتا تھا اور کسی طرح بھی چوہے دان میں نہ پھنستا تھا۔ اس کا سر ایک طرف کو لڑھکا رہتا تھا، یقینا چوہے کے دماغ پر بھی فالج گر گیا تھا اور اُ س کی یادداشت ٹھیک سے کام نہیں کر رہی تھی۔ شاید وہ باورچی خانے کو چوہے دان سمجھتا تھا۔ جس سے نکلنے کے لیے وہ رات کے سنّاٹے میں بے تُکی اُچھل کود کرتا رہتاتھا اور وہیں ایک کونے میں روٹی کے ٹکڑے سمیت لگے ہوئے چوہے دان کو باورچی خانہ سمجھتا تھا جہاں تک پہنچ پانا اُس کی دانست میں ممکن ہی نہ تھا۔
مجھے تو یہ بھی وہم ہے کہ شاید چیونٹیاں بھی اپنا ذہنی توازن کھو چکی تھیں، کیونکہ اُن دنوں وہ قطار بنا کر چلنے میںناکام تھیں۔
ریحانہ پھوپھی اس وبا کی ذمہ دار دیوالی کی جادو کی ہانڈی کو سمجھتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بار دیوالی کی ہانڈی نے کئی بار، رات میںمسلمانوں کی بستی کے اوپر گشت لگایا تھا۔ جادو کی ہانڈی میں دیا جلتا ہوا اُنھوں نے صاف دیکھا تھا اور ہانڈی سے نکلتی بھیانک زنّاٹے دار آواز کو بھی سنا تھا۔ مجھے صحیح علم تو نہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ دماغ پرفالج گرنے کی جتنی خبریں ہمارے گھر آئی تھیں، وہ مسلمانوں کی ہی تھیں۔ اب سوچتا ہوں کہ وہ کچھ موسم کا اثر بھی ہوسکتا تھا۔
فروری کے آخری دن تھے۔ سردی اور گرمی دونوں آپس میں اونچا نیچا یا چور چھپّا کے کھیل رہے تھے۔ سردی گرمی جب ایک ساتھ ہوتیں ہیں تو بڑی عجیب اور ناقابل فہم بیماریاں پھیلتی ہیں۔
اُدھر باورچی خانے میں کاکروچ بڑھتے جاتے تھے۔ دن میں وہ برتنوںکے پیچھے چھپے رہتے تھے اور رات میں جب کھانا سمیٹ دیا جاتا تھا تو آرام کے ساتھ فرش پر اِدھر اُدھر دوڑ لگاتے پھرتے تھے۔ میں تو چونکہ رات میں بھی، ایک آدھ بار باورچی خانے میں شکر پھانکنے کے لیے ضرور جاتا تھا، اس لیے پاگل چوہے اور کاکروچوں کے بارے میں مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا۔
عجیب زمانہ تھا، ہر طرف دماغی فالج زدہ لوگ بک بک کرتے اورا ُلٹی سیدھی حرکتیں کرتے نظر آتے۔ ان کی جھک اور بکواس نے چاروں طرف ایک شور مچا رکھا تھا اور میں اس شور میں ہر وقت ہانڈیوں کے ڈھکّن اُٹھا اُٹھا کر کھانوں کے رنگ دیکھتا رہتا تھا۔ سرخ رنگ کا کھانا، ہرے رنگ کا کھانا، پیلے اور نارنگی رنگ کا کھانا، بینگنی رنگ یہاں تک کہ سفید اور سیاہی مائل کھانا بھی مگر نیلے رنگ کا کھانا مجھے آج تک نہیں ملا۔
آخر نیلے رنگ کا کھانا کیوں نہیں؟میںسوچا کرتا۔ شاید اس لیے کہ نیلے رنگ کا کھانا یا تو آسمان سے اُترتے ہوئے فرشتوں کا ہوسکتا تھا یا پھر شیطانوں کا۔ ایک زہریلا کھانا۔ اس لیے اچھا ہی تھا کہ نیلے رنگ کے کھانے کا وجود نہیں تھا کیونکہ انسان کو آج تک فرشتے اور شیطان میں فرق محسوس کرنے کی تمیز پیدا نہیں ہوسکی۔
پھر ایک دن ریڈیو پر یہ خبر آئی کہ دماغی فالج کی وجہ آنتوں میں پائے جانے والے کچھ جراثیم ہیں۔ پیٹ اور آنت کی بیماریوں کی وجہ سے ہی لوگ دماغی طور پر غیر متوازن ہورہے ہیں۔ اور ایک خاص قوم، مذہب، نسل اور خطّے کے لوگ پیٹ اور آنتوں کی بیماریوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
پتہ نہیں اس میں کتنی سچائی تھا، ممکن ہے کہ یہ ایک جھوٹ اور پروپیگنڈہ ہی ہو۔ مگر لوٹ پھر کر پھر وہی آنتیں، پھر وہی معدہ، پھر وہی بھوک اور بدنیتی، پھر وہی کھانا، پھر وہی آگ اورپھر وہی باورچی خانہ۔
باورچی خانہ— جو گھر کے سب سے مخدوش مقام کا نام ہے۔
بارہ وفات آگئی، گھر گھر میں موم بتّیاں جلا جلاکر روشنیاں کی گئیں۔ میں نے گھر کی ہر اندھیری کوٹھری، ہر تاریک گوشے اور ہر طاق میں موم بتی روشن کی۔ بارہ وفات کا جلوس نکلا۔ نیاز ونذر کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہمارے گھر میں مٹّی کے پیالوں میں فیرینی جمائی گئی۔ جب میں، رات کو آنگن میں بیٹھا فیرینی کھارہا تھا تو اچانک مجھے انجم باجی کے ہاتھ کی پکائی ہوئی فیرینی کی یاد تازہ ہوگئی۔ وہ فیرینی پر چاندی کا ورق اتنے سلیقے اور نزاکت کے ساتھ لگاتی تھیں کہ مٹّی کا پیالہ جگمگا اُٹھتا تھا۔ جیسے وہاں سے چاند طلوع ہو رہا ہو۔
مگر اِس وقت میرے اندر چاند نہیں بلکہ اندھیرا طلوع ہورہا تھا۔ غصّے کا وہ تاریک سایہ، وہ میرا ساتھی، اچانک طویل القامت ہوگیا۔ وہ میرے قد سے بہت اونچا اورلمبا ہوگیا۔ وہ مجھ سے باہر آنا چاہتا تھا۔ اور میں اپنے ٹھگنے قد کے ساتھ مکمل طور پر اُس کی دسترس میں آتا جارہا تھا۔ وہ اب میرا ساتھی نہ ہوکر میرا آقا بنتا جارہا تھا۔
’’آج فیرینی نہیں پکنی چاہئیے تھی۔ زردہ ٹھیک رہتا۔‘‘ میرے کان کو میری ہی منحوس، لمبی اور کالی زبان نے چاٹا۔ میں نے آسمان کی جانب دیکھا، لال چمکدار کاغذ سے منڈھا ہوا ہوا کے ساتھ روشن ایک قندیل سست روی کے ساتھ اندھیرے میں اُڑتا چلاجارہا تھا۔
’’میں بھی ایک دن قندیل کی مانند، ہوا کے ساتھ اس تاریک آسمان میں اُڑوں گا۔ میں نے سوچا۔