اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

اُن دنوں بھی شاید دسمبر کی کالی ہوا چل رہی تھی۔ آج بھی وہی کالی ہوا چل رہی ہے۔ انسانوں کو اس دوسری دنیا کے نادیدہ کنارے پر اُڑا کر لے جاتی ہوئی،ڈ ھکیلتی ہوئی، یہ کالی ہوا دنیا کوکالا کیے دیتی ہے۔ یہ دنیا جس کی اصل روحانی تاریخ ایک ایسی زبان میں لکھی گئی ہے جسے اب مجھے کچھ کچھ پڑھنا آگیا ہے۔ مگر اُن دنوں میں یہ سب کہاں جانتا تھا؟ ہاں! اُن دنوں میں یہ سب کہاںجانتا تھا، کہ دنیا محض انسانوں کے حواسِ خمسہ کو مطمئن کرنے کے لیے چل رہی تھی، وہ خواہش، وہ پاگل، وہ سنکی، وہ شہوت کے ذائقے میں لپٹا سرخ پھل، جما جماکر جس کو کترتے ہوئے دنیا کے دانت سفید، چمکدار اور مضبوط ہوتے گئے۔ اور پھر—؟

پھر ایک دن وہ دانت، ایک گندی سی بدرنگ موری میں گر کر، گل گل کر بہہ گئے۔ یہی اُن کا نروان تھا۔ خواہش ایک دن ختم ہوئی۔ جسم پر خوبصورت جھرّیاں پڑیں، جسم بوڑھا ہوا، اگلا پچھلا سارا حساب چکتا کردیا گیا۔

وہ جو ایکسیڈینٹ میں مارے گئے۔ جو عین جوانی میں شہید ہوئے۔ وہ جو کسی ناگہانی بیماری کے باعث، عمر طبعی پوری کرنے سے پہلے ہی مر گئے۔ انھوں نے زندگی کو اپنی عظیم اور دہشت خیز وسعت کے پس منظر میں کہاں دیکھا۔ انھوں نے کہاں دیکھا، ایک کمزور ڈبّے کو آہستہ آہستہ خالی ہوتے ہوئے، اپنا بوجھ، اپنی کنکریاں، اپنا گندا مٹّیالا تیل گراتے ہوئے اور دُکھ، سکھ دونوں سے بے نیاز ہوتے ہوئے، آزادی کے ایک عظیم الشان اونچے ٹیلے پر اپنی پاک کی گئی دھوئی گئی، روح کی نیلی قمیص کے لہلہانے کی خوبصورت آواز۔

اگرچہ دنیا ختم نہ ہوگی۔ دنیا کے ختم نہ ہونے کا شعور ایک بھیک مانگتے اور گھگیاتے ہوئے، بچّے کی قابلِ رحم آواز میں بھی موجود رہ سکتا ہے۔ شعور کی اس ڈھلان پر سب کچھ ممکن ہے۔ زندگی اور موت دونوں یہاں معمولی ذرّوں کی مانند پھسلتے جاتے ہیں۔ انسان کو ان حقیر ذرّات سے ماورا ہوکر کچھ سوچنا چاہئیے تھا۔ مگر ہیہات! انسان انھیں میں اُلجھ کر رہ گیا۔ اس کا سر اُنہیں دھول بھرے معمولی، روز مرہ کے ذرّات سے بھر کر رہ گیا۔ انسان یہی خاک سر میں ڈالے گھوما، پھر ڈاکو اور رِشی بنا اور حافظے کے تیل میں ملے اس میل، اس دھول اور خاک سے اُس کے سر کے بال بالکل چیِکٹ ہوکر ہی رہ گئے۔ (خودمیرا مقدّر بھی یہی ہے)

کیسا انوکھا دن ہوگا، جب وہ اپنی دوا لینا بھول جائے گا۔ وہ بھول جائے گا کہ اُس نے کھانا کھایا بھی تھا یا نہیں؟
خواب منطقی شعور پر حاوی ہوں گے۔ خوابوںکے سرمئی دھوئیں میں بچپن اور جوانی کی چند محرومیوں کے، چند گلے شکوؤں کے سڑے گلے ٹکڑوںکے سوا سب کچھ ایک پاکیزہ ہوا میں اُڑ رہا ہوگا۔ آزادی—! آزادی!
حافظے کی ایسی کی تیسی!

بڑے ماموں اب اکثر اپنی دوا کھانا بھول جاتے۔ وہ یہ بھی بھول جاتے کہ پیٹ بھر کر وہ اپنا کھانا کھاچکے ہیں۔ وہ ہمیشہ جھٹلا دیتے کہ اُنہوں نے کھانا کھالیا ہے۔ اُن کے دماغ کے ریشے اور خلیے گل رہے تھے اور آنتوں اور معدے کے پیغام وصول کرنے سے قاصر تھے۔ وہ لوگوں کا نام بھول جاتے، اشیا کو غلط ناموں سے پکارتے۔ ’’رئیس میاں— اور ئیس میاں۔‘‘ وہ زور سے چلّاتے۔

رئیس میاں نام کا کوئی شخص گھر میں نہیں تھا۔ دراصل وہ مجھے پکار رہے تھے۔ میں سمجھ گیاا اوراُن کے پلنگ کی پائنتی جاکر کھڑا ہوگیا۔
’’رات میں لوٹتے وقت کچھ کھانے کو لیتے آنا۔‘‘ انھوں نے اجنبی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کوئی بھی میٹھی چیز۔‘‘
’’مگر میٹھا تمھیں منع ہے، بڑے ماموں۔‘‘
’’تیری ماں کا منع۔۔۔‘‘ وہ گرجے اور اُن کی سانس بری طرح چلنے لگی۔

’’سن، تِل بُگہ لیتے آنا چار آنے کا۔‘‘ وہ ہانپتے ہانپتے بولے۔ ادھر آکر انھوں نے یہ معمول بنا لیا تھا،جہاں میں گھر سے نکلتا اور وہ واپسی میں کوئی میٹھی چیز لانے کی فرمائش کرتے۔ گھر والوں کی مخالفت کے باوجود، وہ لڑ جھگڑ کر میٹھا کھاتے اور تھوڑی ہی دیر میں یہ بھول جاتے کہ اُنہوں نے کیا کھایا ہے۔ اگر کوئی اُنہیں یاد دلاتا تو وہ اُسے گندی گندی گالیوں سے نوازتے۔ حالانکہ اپنی تمام عمر کم از کم گھر میں، میں نے اُنہیں گالی بکتے نہیں سنا تھا۔
میرا بارہویں کلاس کا بورڈ کا امتحان سر پر تھا۔ میں رات رات بھر جاگ کر تیاری کرتا تھا۔ اس لیے مجھے یہ علم بھی ہوگیا کہ بڑے ماموں کو اب رات بھر بڑبڑانے کی عادت بھی ہوگئی ہے۔ اسی بڑبڑاہٹ میں شاید صرف ایک بار میں نے اُن کے منھ سے ’’ثروت‘‘ نکلتے سنا تھا۔ ممکن ہے کہ یہ میرا دھوکہ ہی رہا ہو۔

مگر اُن کی حالت ویسی ہی نہیں رہی۔ ان میں لگاتار تبدیلی آتی رہی۔ ایک روز وہ اُٹھ کرڈگمگاتے قدموں سے جلدی سے باورچی خانے کی طرف لپکے۔
’’کیا ہے، کیا ہے۔‘‘ ریحانہ پھوپھی اور کنیز خالہ اُن کو پکڑنے کے لیے پیچھے پیچھے آئیں۔
’’کچھ نہیں، پیشاب کروں گا۔ ‘‘ بڑے ماموں نے اُنہیں اپنی پیلی آنکھوں سے گھورا۔
’’تو یہاں کہاں— یہ باورچی خانہ ہے۔‘‘ وہ حیرت اور خوف سے چلّائیں۔

’’یہ سالا کب سے باورچی خانہ ہوگیا۔ باورچی خانہ تو وہاں ہے۔‘‘انھوں نے آسمان کی طرف انگلی اُٹھائی، جہاں ایک چیل کوئی اوجھڑی چونچ میں دبائے چلی جارہی تھی۔
اُنہیں بڑی مشکل سے تھام کر پیشاب کرانے کے لیے پاخانے کی طرف لایا گیا۔

کچھ عرصے بعد انھوں نے پیشاب پاخانے کے لیے پلنگ سے اُٹھنا چھوڑ دیا، ان کی آنکھیں بند رہتیں اور منھ کھلا رہتا۔ اس کھلے ہوئے منھ پر اکثر مکّھیاں بھنبھناتیں کیونکہ رات کو کھائے گئے میٹھے کے ذرّات اُن کی کھوکھلی داڑھوں اور زبان پر چپکے ہوتے۔ وہ زیادہ تر غنودگی کے عالم میں ہوتے۔

مگر اُس دن یہ غنودگی بے ہوشی میں بدل گئی جب دوپہر میں اُرد کی دال کی کھچڑی پکی تھی (اور جسے کھاتے وقت ہوا میرے کانوں میں بُدبُدائی تھی اورمیرا دل گھبرانے لگا تھا) اُن کا پیٹ پھولا پھولا اور بہت سخت محسوس ہوا۔ ڈاکٹر کو گھر پر بلایا گیا۔ اُس نے معائنہ کیا اوربتایا کہ اُن کا پیشاب بند ہوچکا ہے۔ گردوں نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔ بے ہوشی کی وجہ خون میں آلودگی کا بڑھنا ہے۔ گندا یا زہریلا خون آہستہ آہستہ دماغ کو اپنی چپیٹ میں لے رہاہے۔

’’بڑے ماموں، بڑے ماموں۔‘‘ میں اُن کے کان کے پاس منھ لے جاکر زورسے چیخا۔ اُن کی آنکھوں کے پپوٹوں میں خفیف سی جنبش ہوئی اوربس۔
شام ہوتے ہوتے اُن کے کھلے ہوئے منھ سے زور زور کے خرّاٹے بلند ہونے لگے۔ میں اُن خرّاٹوں کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ وہ بہت وحشت انگیزتھے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ایسے کوئی درندہ بہت گہری سانس لے رہا ہو اور کبھی ایسا لگتا جیسے باورچی خانے کے کواڑ باربار کھل رہے ہوں یا بند ہورہے ہوں۔ باورچی خانے کے کواڑ اینٹھ گئے تھے اور اُن کو کھولنے بند کر دینے پر ایسی ہی آواز آتی تھی۔

مغرب کی اذان ہوئی۔ اُن کے یہ وحشت ناک خرّاٹے رُک گئے۔ میں نے اُن کی ہچکی کو نہ سنا۔ نہ دیکھا مگر ریحانہ پھوپھی نے دیکھا بھی اور سنا بھی۔
میں نے تو لالٹین کی روشنی میں اُن کا پھولا ہوا سخت پتھّر جیسا پیٹ دیکھا۔ میں نے اُن کی آنکھیں بنددیکھیں۔ میں نے اُنہیں ایک گہری نیند میں ڈوبا ہوا دیکھا۔ میں نے اب اُن کا کھلا منھ نہیں بلکہ بند منھ دیکھا — اور اس طرح میں نے موت کا ’منھ‘ دیکھا۔ محلے کی ایک بڑی بوڑھی نے باورچی خانے میں جاکر دن کی بچی ہوئی اُرد کی دال کی کالی کھچڑی اور دودھ اُٹھاکر باہر سڑک پر پھینک دیے۔

اس کے بعد اگر کچھ یاد رہ گیا ہے تو بس وہی دسمبر کی کالی ہوا ہے جس نے شاید آج تک میرا پیچھا نہیں چھوڑا ہے۔

اِدھر اُدھر کی اور رشتہ دار عورتیں سر کو دوپٹّے سے ڈھک کر، کلام پاک پڑھتی رہیں۔ بیچ بیچ میں کہیں سے رونے کی بھی کوئی کمزور آواز اُبھر آتی تھی، جیسے موسیقی سے بھٹکا ہوا ایک اکیلا سُر۔

اُن کے پلنگ کے نیچے لوبان سلگادیا گیا۔ تیز ہوا کے جھونکوں نے اِس لوبان کی پرُاسرار اور شاید موت جیسی خوشبو کو گھر کے ہر کونے میں پھیلا دیا۔
کوئی عورت (جس کا نام اور شکل آج میرے ذہن سے محو ہوگئی ہے)اُٹھی، باورچی خانے کا دروازہ کھولا اور چولہے پر حلوہ پکانے لگی۔ اُس دن مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ حلوے کا مرُدوں سے کتنا گہرا تعلق ہے۔

ساری رات آنگن میں جنازہ رکھا رہا۔ میں ایک کونے میں دُبکا، دور سے میّت کے پلنگ کو دیکھتا رہا۔ مجھے بھوک لگ رہی تھی، مگر آج باورچی خانے کا چولہا ٹھنڈا تھا۔ اور وہ حلوہ؟؟
حلوہ گھر والوں کے لیے نہیں تھا۔

Leave a Reply