وسط افریقہ کے دور دراز علاقے میں کوئی قبیلہ رہتا تھا۔ صحرائی علاقہ تھااور گزر بسر کے لیے پانی صرف چند جوہڑوں یا تالابوں کی شکل میں موجود تھا۔ چونکہ یہ جوہڑ اپنی کم عمری کے باعث چند دن کے ہی مہمان ہوتے تھے، تو مقامی لوگ اِن کے خشک ہوتے ہی پانی کی تلاش میں نکل پڑتے۔ اُن کی خانہ بدوشی کی زند گی اِن جوہڑوں کی تلاش میں ہی گزرتی۔
قبیلے کی مقامی زبان میں ایسے نایاب ذخائر کو ”ایڈو” کہا جاتا تھا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن کوئی شخص اِن ایڈو کی تلاش میں اپنے قبیلے سے بچھڑا۔ جس جگہ قبیلے نے ڈیرہ ڈالا تھا، وہاں کا ایڈو چند دنوں کا مہمان تھا۔ وہ لوگ ایک ایڈو کا خشک ہونے سے پہلے نئے ایڈو کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے تاکہ قبیلے کے لوگ بھٹکتے نہ پھریں، اور سیدھے نئے ذخیرے کی جانب کوچ کر جائیں۔
بے چارے کی قسمت اچھی یا بری، آپ خود فیصلہ کیجیے گا، وہ سمندر کے کنارے پہنچ گیا۔ کیا دیکھتا ہے، ایسا ایڈو جو اُس کا وہم ہ گمان میں بھی نہ تھا، جِس کی حدوں کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔ خیال آیا، اِس ایڈ و سے اُس کی کیا، اُس کا قبیلے کی کئی نسلیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
” ابھی جا کر لوگوں کو بتاتا ہوں، اتنا پانی، کون سوچ سکتا ہے؟”
بے چارے نے ساری زندگی ایسے ایڈو دیکھے تھے، جو بہت محدود، کم وقتی اور چند دنوں کے مہمان ھوتے تھے۔ سمندر کا پانی اُس کے گماں اور سوچ میں سما نہیں رہا تھا۔ حواس باختہ، بھاگا بھاگا اپنے لوگوں میں واپس آیا۔
"ایڈو۔۔۔”
"ایڈو۔۔۔”
وہ چلا چلا کے بتا رہا تھا، ایسا ایڈو ہے، جو اتنا وسیع ہے کہ کوئی حد نہیں۔
قبیلے والے بھی اُس جیسے ہی تھے۔ ساری زندگی چھوٹے سے جوھڑ دیکھے تھے۔ ایسا اُن کا تصور میں ہی نہ تھا، جیسا وہ شخص کہ رہا تھا۔
اِدھر وہ شخص بضد کہ پانی کا بہت بڑا ذخیرہ ہی، دوسری طرف قبیلے والے، جِن کی عقل اُس کی بات تسلیم کرنے کو تیار ہی نہ تھی۔ پھر وہی ہوا، جو ہمیشہ سے ہوتا اُیا ہے، اور آج بھی ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
کوئی تصور جب خیال کے احاطے میں قید نہ ہو سکے، تو الزام لگتے ہیں۔
"پاگل ہو گیا ہے۔” ایک آواز آئی۔
"اِس کا دماغ خراب ہو گیا ہے”
"اِس پہ خبیث روحوں کا سایہ ہے، جادو کر دیا ہے کسی نے” کوئی بڑی بی بولی ہوں گی۔
"اپنے خداؤں کو جھٹلاتا ہے، مارو اِس کو”
” یہ ہم سب کو تباہ کردے گا، باندھ دواِس کو” سزا تجویز ہوئی۔
بے چارا دھتکارا گیا، سزا وار قرار پایا۔ قصور یہ تھا کہ اُس نے ایسی بات کہ دی، جِس کو لوگوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا، جو لوگوں کی سوچ میں سما نہیں رہی تھی، اُن کی صلاحیت ہی نہ تھی کہ کوئی ایسی بات جذب کر سکیں جو غیرمعمولی ہو۔ اُس کا مشاہدہ جرم بن گیا۔
لیکن وہ ایک ہی نعرہِ مستانہ لگاتا رہا ، "ایڈو، ایڈووو۔ ۔ ۔ ”
وقت گزرا تو کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ نہ تو وہ پاگل ہے، نہ ہی مجنوں، نہ ہی سحر زدہ ہے۔ اب لوگوں میں ایک اور رویّہ نظر آنے لگا۔ اُس کےنا قابلِ فہم مشاہدے کو لوگوں نے مافوق الفطرت اشارہ سمجھنا شروع کر دیا۔ کچھ کا خیال تھا اُس پہ دیوتاؤں کا خاص کرم ہو گیا ہے یاشاید کوئی نیک روح حلول کر گیٔ ہے۔
قبیلے کے اِس گروہ کے کچھ لوگوں نے ایک دن اُس شخص کو قید سے چھڑایا، ساتھ لیا اور اُس سمت میں نکل پڑے جہاں اُس ایڈو کا مشاہدہ ہوا تھا، جس کے دیدار نے ایک عام بندے کو متنازعہ مگر انفرادی حیثیت دی تھی۔ اب جب "ایڈو” پر نظر پڑی، تو سب حیرت ذدہ رہ گۓ۔
اُس نے سچ کہا تھا۔۔۔
قبیلے کی مقامی زبان میں ایسے نایاب ذخائر کو ”ایڈو” کہا جاتا تھا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن کوئی شخص اِن ایڈو کی تلاش میں اپنے قبیلے سے بچھڑا۔ جس جگہ قبیلے نے ڈیرہ ڈالا تھا، وہاں کا ایڈو چند دنوں کا مہمان تھا۔ وہ لوگ ایک ایڈو کا خشک ہونے سے پہلے نئے ایڈو کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے تاکہ قبیلے کے لوگ بھٹکتے نہ پھریں، اور سیدھے نئے ذخیرے کی جانب کوچ کر جائیں۔
بے چارے کی قسمت اچھی یا بری، آپ خود فیصلہ کیجیے گا، وہ سمندر کے کنارے پہنچ گیا۔ کیا دیکھتا ہے، ایسا ایڈو جو اُس کا وہم ہ گمان میں بھی نہ تھا، جِس کی حدوں کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔ خیال آیا، اِس ایڈ و سے اُس کی کیا، اُس کا قبیلے کی کئی نسلیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
” ابھی جا کر لوگوں کو بتاتا ہوں، اتنا پانی، کون سوچ سکتا ہے؟”
بے چارے نے ساری زندگی ایسے ایڈو دیکھے تھے، جو بہت محدود، کم وقتی اور چند دنوں کے مہمان ھوتے تھے۔ سمندر کا پانی اُس کے گماں اور سوچ میں سما نہیں رہا تھا۔ حواس باختہ، بھاگا بھاگا اپنے لوگوں میں واپس آیا۔
"ایڈو۔۔۔”
"ایڈو۔۔۔”
وہ چلا چلا کے بتا رہا تھا، ایسا ایڈو ہے، جو اتنا وسیع ہے کہ کوئی حد نہیں۔
قبیلے والے بھی اُس جیسے ہی تھے۔ ساری زندگی چھوٹے سے جوھڑ دیکھے تھے۔ ایسا اُن کا تصور میں ہی نہ تھا، جیسا وہ شخص کہ رہا تھا۔
اِدھر وہ شخص بضد کہ پانی کا بہت بڑا ذخیرہ ہی، دوسری طرف قبیلے والے، جِن کی عقل اُس کی بات تسلیم کرنے کو تیار ہی نہ تھی۔ پھر وہی ہوا، جو ہمیشہ سے ہوتا اُیا ہے، اور آج بھی ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
کوئی تصور جب خیال کے احاطے میں قید نہ ہو سکے، تو الزام لگتے ہیں۔
"پاگل ہو گیا ہے۔” ایک آواز آئی۔
"اِس کا دماغ خراب ہو گیا ہے”
"اِس پہ خبیث روحوں کا سایہ ہے، جادو کر دیا ہے کسی نے” کوئی بڑی بی بولی ہوں گی۔
"اپنے خداؤں کو جھٹلاتا ہے، مارو اِس کو”
” یہ ہم سب کو تباہ کردے گا، باندھ دواِس کو” سزا تجویز ہوئی۔
بے چارا دھتکارا گیا، سزا وار قرار پایا۔ قصور یہ تھا کہ اُس نے ایسی بات کہ دی، جِس کو لوگوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا، جو لوگوں کی سوچ میں سما نہیں رہی تھی، اُن کی صلاحیت ہی نہ تھی کہ کوئی ایسی بات جذب کر سکیں جو غیرمعمولی ہو۔ اُس کا مشاہدہ جرم بن گیا۔
لیکن وہ ایک ہی نعرہِ مستانہ لگاتا رہا ، "ایڈو، ایڈووو۔ ۔ ۔ ”
وقت گزرا تو کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ نہ تو وہ پاگل ہے، نہ ہی مجنوں، نہ ہی سحر زدہ ہے۔ اب لوگوں میں ایک اور رویّہ نظر آنے لگا۔ اُس کےنا قابلِ فہم مشاہدے کو لوگوں نے مافوق الفطرت اشارہ سمجھنا شروع کر دیا۔ کچھ کا خیال تھا اُس پہ دیوتاؤں کا خاص کرم ہو گیا ہے یاشاید کوئی نیک روح حلول کر گیٔ ہے۔
قبیلے کے اِس گروہ کے کچھ لوگوں نے ایک دن اُس شخص کو قید سے چھڑایا، ساتھ لیا اور اُس سمت میں نکل پڑے جہاں اُس ایڈو کا مشاہدہ ہوا تھا، جس کے دیدار نے ایک عام بندے کو متنازعہ مگر انفرادی حیثیت دی تھی۔ اب جب "ایڈو” پر نظر پڑی، تو سب حیرت ذدہ رہ گۓ۔
اُس نے سچ کہا تھا۔۔۔
محمد علی کلے، لاکھوں لوگوں کا ہیرو بھی نعرہِ مستانہ بلند کر چکا ہے، جب صاف کہ دیا کہ”نہیں جاؤں گا ویت نام۔” کافی عرصہ اپنے اعزاز ات سے محروم رہا، پھر باکسنگ رنگ میں واپس آیا اور آج بھی کئی ویت نام میں کام آجانے سپاہیوں سے زیادہ مشہور ہے۔
تاریخ میں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں، جنہیں ایسا ہی کوئی ایڈو ملا تھا یا کوئی انقلابی تصور پیش کیا تھا، ایسا تصور جو معاشرے کے لیے نا قابلِ قبول تھا۔ وجوہات بہت سی ہو سکتی ہیں، مگر معاشرے کی روایتی سوچ ایسے خیال کو قید نہ کر پائی۔
ایسے لوگ مجنوں اور دیوانے کہلاتےہیں اور سولیوں پر چڑھتے ہیں۔
ایسا ہی ایک شخص تھا، گلیلیو۔ ایسا کیا کہا تھا اُس نے کہ چرچ نے مہینوں قید رکھا، یہی نہ کہ زمین گول ہی۔ اور چاند بھی گول ہے، اوراس پہ ٹیلے بھی موجود ہیں۔ اور شاید یہ دعوٰی تو خدا کی شان میں گستاخی تھا کہ کائنات کا مرکز زمین نہیں بلکہ ہمارا نظامِ شمسی سورج کا گرد رقص کناں ہے۔
ایسی جرات، توبہ توبہ۔
یہ سب کچھ اشرافیہ اور مذہبی مافیا کے لیئے نا قابلِ برداشت تھا۔ کچھ مذہبی رہبروں کو اپنی ساکھ اور دکانداری خطرے میں نظر آرہی تھی۔ اسٹیٹس کو (status quo)برقرار رکھنے کے لیئے اب ضروری ہو گیا تھا کہ زبان بندی کی جائے۔ سو نظر بندی کی سزا ملی، لیکن 1642 میں اپنے مرنے تک گلیلیو "ایڈو” ڈھونڈتا رہا اور نعرہِ مستانہ لگاتا رہا۔ چند سال پہلے چرچ نے گلیلیو سے اپنے کیے پہ معافی مانگی ہے۔
دیر لگی آنے میں تم کو، شکر ہے پھر بھی آئے تو۔
اپنے ہاں تو آنے کی امّید ہی نہیں ہے، دیر کا شکوہ تو خیر بہت دور کی بات ہے۔ گلیلیو کےایڈو کو تسلیم کر لیا گیا۔
محمد علی کلے، لاکھوں لوگوں کا ہیرو بھی نعرہِ مستانہ بلند کر چکا ہے، جب صاف کہ دیا کہ”نہیں جاؤں گا ویت نام۔” کافی عرصہ اپنے اعزاز ات سے محروم رہا، پھر باکسنگ رنگ میں واپس آیا اور آج بھی کئی ویت نام میں کام آجانے سپاہیوں سے زیادہ مشہور ہے۔
ایک بادشاہ تھا ہندوستان میں، اشوکا کے نام سے۔ بڑا نام تھا، بڑا ہی دبدبہ۔ لیکن میدانِ جنگ میں لاشوں کے انبار دیکھ کر نہ جانے کیا سوچ میں اضطراب آیا۔ سب چھوڑ چھاڑ بن باس لیا اور سدھارتھ (بدھا) کے راستے ہو لیا۔ بادشاہ تھا تو لوگوں نے سزا تو نہ دی، لیکن درباری کھسر پھسر ضرور کرتے رہے ہوں گے۔ لیکن اشوکا اپنے ضمیر کے نعرہِ مستانہ پہ لبیک کہ چکا تھا۔ اس نے بھی ایک "ایڈو” ڈھونڈ لیا تھا۔
ایک اور بھی بادشاہ تھا عرب میں، ابراہیم بن ادھم۔ بڑا رئیس بڑا زور آور۔ ایک رات سوتے ہوئے محل کی چھت پہ قدموں کی آواز آئی ۔
"کون ہے، کیسی آواز ہے یہ؟”
"اونٹ والا ہوں، اونٹ کے قدموں کی آواز ہے” جواب آیا۔
"محل کی چھت پہ اونٹ نہیں آسکتا ہے”
"نرم بستر پہ سوکر تمھارے دل میں رب بھی نہیں آسکتا۔” جواب نے لاجواب کر دیا۔
کہیں چھن کی آواز آئی ہوگی اپنے وجود سے۔ کیف ومستی میں سب کچھ چھوڑ دیا، نرم بستر، محل، خدام۔۔اور رب کی تلاش میں سرگرداں ہوئے۔ اپنے "ایڈو” کو ڈھونڈنے کی لیئے سلوک کی کن منزلوں سے گزرے ہوں گے کہ آج ایک ولی اللہ کہلائے ۔
منصور بن حلاج بھی تھے، دار پہ چڑھائے گئے۔ ایک نعرہ لگایا تھا "انا الحق” کا۔ شاید عالمِ جذب میں کوئی "ایڈو” دیکھ لیا ہوگا، کہ زباں بیاں کرنے سے قاصر ہوگئ اور سننے والوں نے خدائی دعوٰی کا الزام لگایا۔ مگرجسم کی موت بھی ان کی آواز نہ دبا سکی،”انا الحق، اناالحق”آج ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔
معزز انبیا کرام ہوں یا گاندھی اور بدھا، مارٹن لوتھر ہو یا دلی کے سرمد، آنگ سوکی ہو یا نیلسن منڈیلا ۔ اِن سب نے اپنے اپنے "ایڈو” کا نعرہ مستانہ لگایا تھا۔ کسی نے پتھر مارے، کوڑا پھینکا، کافرِ اعظم کہا، جیل میں ڈالا، لیکن اِن کے "ایڈو” سب نے دیکھ لئے، شناخت تو ملی ہی لیکن زندگیوں پہ گہرا اثر بھی چھوڑا۔
بہت سے ایسے نعرہ ہائے مستانہ سینوں میں دفن رہ جاتے ہیں۔ اگر وہ زبان زد عام ہوتے تو شاید بلند کرنے والا تو راندہ درگاہ ہوتا، لیکن کوئی نہ کوئی "ایڈو” دنیا کو ضرور مل جاتا، تاریخ کے اوراق پہ نام رہ جاتا۔۔۔ کتنی ہی آوازوں کا گلا گھونٹ کر انہیں خاموش کرا دیا گیا،کتنے ہی خوبوں کو مسمار کی گیا اور کتنے ہی قدموں میں کانٹے بچھائے گئے مگر تاریخ انہیں کے نام کا ورد کرتی ہے جو اک نعرہ مستانہ بلند کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔
ایسے لوگ مجنوں اور دیوانے کہلاتےہیں اور سولیوں پر چڑھتے ہیں۔
ایسا ہی ایک شخص تھا، گلیلیو۔ ایسا کیا کہا تھا اُس نے کہ چرچ نے مہینوں قید رکھا، یہی نہ کہ زمین گول ہی۔ اور چاند بھی گول ہے، اوراس پہ ٹیلے بھی موجود ہیں۔ اور شاید یہ دعوٰی تو خدا کی شان میں گستاخی تھا کہ کائنات کا مرکز زمین نہیں بلکہ ہمارا نظامِ شمسی سورج کا گرد رقص کناں ہے۔
ایسی جرات، توبہ توبہ۔
یہ سب کچھ اشرافیہ اور مذہبی مافیا کے لیئے نا قابلِ برداشت تھا۔ کچھ مذہبی رہبروں کو اپنی ساکھ اور دکانداری خطرے میں نظر آرہی تھی۔ اسٹیٹس کو (status quo)برقرار رکھنے کے لیئے اب ضروری ہو گیا تھا کہ زبان بندی کی جائے۔ سو نظر بندی کی سزا ملی، لیکن 1642 میں اپنے مرنے تک گلیلیو "ایڈو” ڈھونڈتا رہا اور نعرہِ مستانہ لگاتا رہا۔ چند سال پہلے چرچ نے گلیلیو سے اپنے کیے پہ معافی مانگی ہے۔
دیر لگی آنے میں تم کو، شکر ہے پھر بھی آئے تو۔
اپنے ہاں تو آنے کی امّید ہی نہیں ہے، دیر کا شکوہ تو خیر بہت دور کی بات ہے۔ گلیلیو کےایڈو کو تسلیم کر لیا گیا۔
محمد علی کلے، لاکھوں لوگوں کا ہیرو بھی نعرہِ مستانہ بلند کر چکا ہے، جب صاف کہ دیا کہ”نہیں جاؤں گا ویت نام۔” کافی عرصہ اپنے اعزاز ات سے محروم رہا، پھر باکسنگ رنگ میں واپس آیا اور آج بھی کئی ویت نام میں کام آجانے سپاہیوں سے زیادہ مشہور ہے۔
ایک بادشاہ تھا ہندوستان میں، اشوکا کے نام سے۔ بڑا نام تھا، بڑا ہی دبدبہ۔ لیکن میدانِ جنگ میں لاشوں کے انبار دیکھ کر نہ جانے کیا سوچ میں اضطراب آیا۔ سب چھوڑ چھاڑ بن باس لیا اور سدھارتھ (بدھا) کے راستے ہو لیا۔ بادشاہ تھا تو لوگوں نے سزا تو نہ دی، لیکن درباری کھسر پھسر ضرور کرتے رہے ہوں گے۔ لیکن اشوکا اپنے ضمیر کے نعرہِ مستانہ پہ لبیک کہ چکا تھا۔ اس نے بھی ایک "ایڈو” ڈھونڈ لیا تھا۔
ایک اور بھی بادشاہ تھا عرب میں، ابراہیم بن ادھم۔ بڑا رئیس بڑا زور آور۔ ایک رات سوتے ہوئے محل کی چھت پہ قدموں کی آواز آئی ۔
"کون ہے، کیسی آواز ہے یہ؟”
"اونٹ والا ہوں، اونٹ کے قدموں کی آواز ہے” جواب آیا۔
"محل کی چھت پہ اونٹ نہیں آسکتا ہے”
"نرم بستر پہ سوکر تمھارے دل میں رب بھی نہیں آسکتا۔” جواب نے لاجواب کر دیا۔
کہیں چھن کی آواز آئی ہوگی اپنے وجود سے۔ کیف ومستی میں سب کچھ چھوڑ دیا، نرم بستر، محل، خدام۔۔اور رب کی تلاش میں سرگرداں ہوئے۔ اپنے "ایڈو” کو ڈھونڈنے کی لیئے سلوک کی کن منزلوں سے گزرے ہوں گے کہ آج ایک ولی اللہ کہلائے ۔
منصور بن حلاج بھی تھے، دار پہ چڑھائے گئے۔ ایک نعرہ لگایا تھا "انا الحق” کا۔ شاید عالمِ جذب میں کوئی "ایڈو” دیکھ لیا ہوگا، کہ زباں بیاں کرنے سے قاصر ہوگئ اور سننے والوں نے خدائی دعوٰی کا الزام لگایا۔ مگرجسم کی موت بھی ان کی آواز نہ دبا سکی،”انا الحق، اناالحق”آج ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔
معزز انبیا کرام ہوں یا گاندھی اور بدھا، مارٹن لوتھر ہو یا دلی کے سرمد، آنگ سوکی ہو یا نیلسن منڈیلا ۔ اِن سب نے اپنے اپنے "ایڈو” کا نعرہ مستانہ لگایا تھا۔ کسی نے پتھر مارے، کوڑا پھینکا، کافرِ اعظم کہا، جیل میں ڈالا، لیکن اِن کے "ایڈو” سب نے دیکھ لئے، شناخت تو ملی ہی لیکن زندگیوں پہ گہرا اثر بھی چھوڑا۔
بہت سے ایسے نعرہ ہائے مستانہ سینوں میں دفن رہ جاتے ہیں۔ اگر وہ زبان زد عام ہوتے تو شاید بلند کرنے والا تو راندہ درگاہ ہوتا، لیکن کوئی نہ کوئی "ایڈو” دنیا کو ضرور مل جاتا، تاریخ کے اوراق پہ نام رہ جاتا۔۔۔ کتنی ہی آوازوں کا گلا گھونٹ کر انہیں خاموش کرا دیا گیا،کتنے ہی خوبوں کو مسمار کی گیا اور کتنے ہی قدموں میں کانٹے بچھائے گئے مگر تاریخ انہیں کے نام کا ورد کرتی ہے جو اک نعرہ مستانہ بلند کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔
Really Terrific.. !!
Beautiful.