کون مرے اِس سچ کو سچا جانے
میرا سچ جو اِس اَن حد باغیچے کے اِک گوشے میں کھِلا ہوا معمولی پھول ہے
کون اِس پھول کی خوشبو چننے آئے
کس کو اِتنی فرصت!
کبھی کبھی تو میں اِس باغ کے باترتیب کیاروں میں
کھِلے ہوئے پھولوں سے ڈر جاتا ہوں
جن کے رعب تلے دب جاتی ہیں
میری ننھی خوشیاں
میرے مسکانے کی معصوم سی خواہش
اِن پھولوں کی سچائی کو سچ کرنے کی خاطرہی تو ہے
گل بانوں کا سارا پانی، ساری محنت
ایسے میں میری خود رَو سچائی کو جھوٹے بھی گر جھوٹا جانیں
تو خود انصاف کرو
میں کس کو جھٹلاؤں؟
میں نے تو بس اپنے اثبات کی خاطر
اپنے پہلو میں ایک کلی کو ساتھ کیا
جو نہ شبِ حشر کی ملکہ
نہ روزِ اجر کی رانی
جس نے اپنے اثبات کی خاطر
نہ کوئی کہرام کیا
نہ کوئی ہنگام کیا
بس اتنا سا کام کیا
خاموشی سے مجھ بے نام کا نام لیا
Image: Salavador Dali