Laaltain

نظریہ کثرتِ کائنات

16 جنوری، 2016
Picture of محمد علی شہباز

محمد علی شہباز

کائنات کیا ہے؟ اس کی ماہیت کیا ہے؟ کیا یہ کائنات ہمیشہ سے ہے؟ کیا یہ کائنات کبھی ختم بھی ہوگی؟ یہ اور ان جیسے دیگر بہت سے سوالات انسان کو ہمیشہ غوروفکر کرنے پر مجبور کرتے آئے ہیں۔
کائنات کیا ہے؟ اس کی ماہیت کیا ہے؟ کیا یہ کائنات ہمیشہ سے ہے؟ کیا یہ کائنات کبھی ختم بھی ہوگی؟ یہ اور ان جیسے دیگر بہت سے سوالات انسان کو ہمیشہ غوروفکر کرنے پر مجبور کرتے آئے ہیں۔ مختلف ادوار کے انسان اپنے اپنے انداز اور طریقوں سے کائنات کو جاننے میں مصروف رہے ہیں۔ انسان ابتدا ہی سے کائنات کے ساتھ اپنا ایک تعلق استوار کرنا چاہتا ہے۔ اس جذبے نے کبھی تو انسان کو توہمات اور مذاہب کی نمو میں مدد دی اور کبھی فلسفیوں اور دانشوروں کے نظریات نکھارنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن ایک بات جو کبھی نہ کہی گئی اور نہ سنی گئی اور نہ ہی کبھی اس پر سوال اٹھا یا گی، وہ سوال آج سائنس اٹھانے میں پیش پیش ہے۔ بات یہ ہے کہ انسان نے کائنات کے متعلق جو بھی نظریہ تخلیق کیا ہے یا جو بھی سوال اٹھایا ہے اس میں شاید لاشعوری طور پر انسان اس کائنات کو جس میں وہ رہتا ہے ہمیشہ ایک واحد شے کے طور پر دیکھتا آیا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ انسان مختلف جہانوں اور دنیاﺅں کے وجود کا قائل بھی رہا ہے۔ اس جہان کے علاوہ دیگر جہانوں کا تصور زیادہ تر غیر سائنسی اور ماوراءالطبیعی بنیادوں پر ہی استوار کیا جاتا رہا ہے۔ ایسی مخلوقات کا تذکرہ بھی ملتا ہے کہ انسان نے ان کو نہ کبھی دیکھا اور نہ ہی ان کے وجود پر کوئی سیر حاصل بحث موجود ہے۔ ان دیگر جہانوں کا تذکرہ انسان کی تاریخ میں شاید اس بات کی دلیل ہے کہ انسان تنہائی سے خائف ہوتا ہے۔ اس لیے وہ خود کو کائنات میں تنہا نہیں دیکھنا چاہتا اور یوں وہ ایسے جہانوں کا تصور بنا لیتا ہے جن کے لیے کوئی واضح ثبوت مہیا نہیں ہوتے۔

 

اس دور میں ایسے جہانوں کا وجود ایک سائنسی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا اور یوں دیگر مخلوقات کا مسئلہ ایک سائنسی سوال کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں موجود فلکیاتی طبیعات کے ماہرین ایسے جہانوں اور ایسی مخلوقات کی کھوج میں سرگرم نظر آتے ہیں۔ اپنی اس کھوج کو سائنسدان Extra Terrestrial Intelligenceکے نام سے منسوب کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا موجودہ موضوع ان دیگر جہانوں کی تلاش سے متعلق نہیں ہے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ اور حیرت انگیز سوال ہے جو آج کی سائنس میں باقاعدہ ایک تحقیق کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ “کیا اس کائنات کے علاوہ بھی دیگر کائناتیں موجود ہیں، ایسی کائناتیں جو ہماری کائنات سے قدرے مختلف ہوں اور ان کے قوانین یہاں کے قوانین سے بالکل برعکس ہوں؟” یہ وہ سوال ہے جسے سائنسی اصطلاح میں Multiverse Theory کے نام سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ اس سوال کے پس منظر میں کچھ سائنسی نظریات اور دریافتوں کا جان لینا نامناسب نہ ہوگا۔

 

اس وقت دنیا بھر میں موجود فلکیاتی طبیعات کے ماہرین ایسے جہانوں اور ایسی مخلوقات کی کھوج میں سرگرم نظر آتے ہیں۔ اپنی اس کھوج کو سائنسدان Extra Terrestrial Intelligenceکے نام سے منسوب کرتے ہیں۔
1929ء میں اڈون ہبل نامی سائنسدان نے خوردبین کی مدد سے دور دراز کی کہکشاﺅں کا مشاہدہ کیا اور اپنے تجربات کی روشنی میں ایک انتہائی اہم راز دریافت کیا۔ اس نے دیکھا کہ جو کہکشائیں ہم سے جتنی دور ہیں وہ ہم سے مزید اتنی رفتار سے دور تر چلی جارہی ہیں۔ اس کی دریافت نے برسوں پرانا نظریہ غلط ثابت کر دیا کہ کائنات جامد حالت میں موجود ہے اور شاید ہمیشہ سے اسی طرح موجود تھی۔ ہبل کے مطابق کائنات نہ صرف متحرک ہے بلکہ وہ ہر لمحہ وسعت پذیر ہورہی ہے۔ لیکن اس وقت کی سائنس یہ تقاضا کرتی تھی کہ کائنات کا یہ پھیلاو وقت کے ساتھ سست ہوتا رہے گا۔ بالکل ویسے ہی جیسے آپ کوئی بھی شے زمین کی سطح سے اوپر پھینکیں تو اس کی رفتار سست ہوتی جاتی ہے اور بالآخر وہ رک جاتی ہے اور پھر کشش ثقل کی وجہ سے واپس زمین کی طرف گرجاتی ہے۔ اسی طرح اگر مختلف کہکشائیں ایک دوسری سے دور ہوتی جارہی ہیں تو ان کے دور ہونے کی رفتار بھی سست ہوتی جائے گی اور بالآخر وہ رکیں گی اور یوں دوبارہ واپس ایک دوسرے کی طرف گرنے لگیں گی اور کائنات کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اسے Big Crunch کہا جاتا ہے۔
1990ءکی دہائی میں کچھ ماہرین فلکیات نے ایک انوکھا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے خوردبین کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کہکشاوں کے پھیلاو کی رفتار کی شرح میں کس قدر فرق آیا ہے۔ اپنے اس مشاہدے کے نتیجے میں انہیں ایک نہایت حیران کن حقیقت سے واسطہ پڑا۔ وہ یہ کہ مخلتف کہکشاوں کے پھیلاو کی رفتار کی شرح کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ یعنی کہکشائیں ایک اسراع پذیر حالت میں اک دوجے سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی قوت ان کہکشاوں کو مسلسل ایک دوسرے سے ہر لمحہ بڑھتی ہوئی رفتار سے دور کر رہی ہے۔ اس حیران کن دریافت پر 2011ءکا فزکس کا نوبل انعام ان ماہرین فلکیات Saul Perlmutter , Adam Riess اور Brian Schmidt کو دیا گیا۔

 

انیس سو نوے کی دہائی میں کچھ ماہرین فلکیات نے ایک انوکھا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے خوردبین کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کہکشاوں کے پھیلاو کی رفتار کی شرح میں کس قدر فرق آیا ہے۔
وہ قوت جو کائنات کے پھیلاو کی رفتار میں اضافہ کر رہی ہے اسے “پوشیدہ قوت” یعنی Dark Energy کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس قوت کا منبع کیا ہے؟ اس سوال کے لیے سائنسدانوں کو ایک مرتبہ پھر جدید طبیعات کے بانی مشہور سائنسدان آئن سٹائن کے نظریہ عمومی اضافیت سے رجوع کرنا پڑا۔ آئن سٹائن کے اس نظریہ کے مطابق گریوٹی کی قوت نہ صرف کشش ثقل کا کام دیتی ہے بلکہ یہی قوت دفع ثقل کا کام بھی دے سکتی ہے۔ ہم عام زندگی میں گریوٹی کو محض کشش ثقل کے طور پر جانتے ہیں۔ اس پوشیدہ قوت یعنی دفع ثقل کی وجہ سے ہی کہکشاوں ایک پھیلاو دن بدن تیز تر ہوتا جارہا ہے۔ لیکن ایک اور مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے اگر ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کتنی مقدار میں یہ پوشیدہ قوت کافی ہوگی کہ وہ کائنات کے پھیلاو میں مدد دے سکے۔ مشاہدات کے مطابق یہ مقدار انتہائی کم یعنی 10^-125 کے قریب نکلتی ہے۔ایک سائنسدان کے لئے کسی بھی طبیعی مقدار کی قیمت کا اس قدر چھوٹا ہونا ایک نہایت اہم مسئلہ ہے اور یہاں یہ مسئلہ پوری کائنات کی سائنسی وضاحت کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ لہٰذا انہوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کی ٹھان لی۔ کچھ ہی عرصے میں سائنسدانوں نے ایک نئے نظریہ کو جنم دیا جسے سٹرنگ تھیوری (String Theory) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اگرچہ سٹرنگ تھیوری کی دریافت میں جو عوامل کارفرما ہیں ان کا تعلق ایک اور سائنسی جہت سے ہے جسے ہم بنیادی فطری قوتوں کی یکجائیت کا نام دیتے ہیں اور اپنے ایک گزشتہ مضمون “کائنات کے متعلق سائنسی نظریات” میں اس پر بحث کر چکے ہیں۔لیکن یہی سٹرنگ تھیوری ہمیں پوشیدہ قوت کی انتہائی کم قیمت کا جواز بھی فراہم کرتی ہے۔ سٹرنگ تھیوری پر کام کرتے ہوئے جب پوشیدہ قوت کی کم قیمت کے مسئلے کو زیرغور لایا گیا تو وہیں سائنسدانوں کو ضرورت محسوس ہوئی کہ یہ کائنات جو اب تک چار بنیادی جہتوں یعنی تین مکانی اور ایک زمانی جہت پر مشتمل تھی اس کی اضافی جہتیں(Extra Dimensions) بھی درکار ہیں۔ یعنی یہ کائنات چہار جتہی ہونے کی بجائے پانچ جہتی یا اس سے بھی زیادہ کی حامل ہے۔

 

وہ قوت جو کائنات کے پھیلاو کی رفتار میں اضافہ کر رہی ہے اسے “پوشیدہ قوت” یعنی Dark Energy کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔
سٹرنگ تھیوری کے اولین دور میں ان اضافی جہتوں کی بنیاد پر پانچ مختلف ماڈل پیش کیے گئے۔ لیکن ان اضافی جہتوں کی صحیح شکل معلوم نہ ہوسکی۔ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف مادل پیش کئے جانے لگے اور ہر ماڈل میں اضافی جہتوں کی اشکال مختلف تھیں۔ حتٰی کہ اس وقت تک کی تحقیق کے مطابق ان کی تعداد ناممکن حد تک بڑھ کر 10^500 تک جا پہنچی ہے۔اس ناممکن حد پر پہنچ کر سائنسدانوں کی ایک کثیر تعداد میں مایوسی پیدا ہوگئی اور اس سے پہلے کہ وہ سٹرنگ تھیوری کو غیر سائنسی قرار دیتے، ایک نیا نظریہ سامنے ابھر آیا۔ اس نئے نظریے کے مطابق سٹرنگ تھیوری کے ہر ماڈل میں ایک حقیقی اور منفرد کائنات پنہاں ہے۔ یعنی اس کے مطابق کائنات واحد نہیں ہے بلکہ ہماری کائنات کے علاوہ دیگر اربوں کھربوں کائناتیں موجود ہیں اور ان میں سے ہر کائنات کے قوانین اور ان کے تمام خصائل بشمول وہاں کی مخلوقات حقیقی وجود رکھتے ہیں! اسی نظریے کو کثرت کائنات (Multiverse) کا نظریہ کہا جاتا ہے۔ اس نظریے کے استعمال سے پوشیدہ قوت کی انتہائی کم قیمت کا معمہ اپنی حیثیت کھو دیتا ہے۔ کیونکہ پوشیدہ قوت ہر طرح کی قیمت اختیار کرتی ہے اور ہماری کائنات میں اس کی یہ مقدار اتنی ہی ہے جتنی کہ ہم مشاہدات سے اخذ کر چکے ہیں۔اور اتنی ہی مقدار سے بننے والی کائنات میں ایسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں جس سے کہکشائیں وجود میں آگئیں اور ہمارے پیدا ہونے کا امکان بڑھ گیا۔اگر اتنی مقدار نہ ہوتی تو ہمارا وجود میں آنا ممکن نہ ہوتا۔

 

ہماری کائنات کے علاوہ دیگر اربوں کھربوں کائناتیں موجود ہیں اور ان میں سے ہر کائنات کے قوانین اور ان کے تمام خصائل بشمول وہاں کی مخلوقات حقیقی وجود رکھتے ہیں اسی نظریے کو کثرت کائنات (Multiverse) کا نظریہ کہا جاتا ہے۔
اسی نظریے کے حق میں مزید دلائل ایک اور سائنسی نظریہ پیش کرتا ہے جس کا تعلق کائنات کے آغاز سے ہے۔ جسے ہم ”بگ بینگ تھیوری“ کا نام دیتے ہیں۔ اس نظریے کے متعلق بھی ہم ایک مضمون “بگ بینگ اور شعور کائنات” لالٹین پر شائع کرچکے ہیں۔ بگ بینگ نظریہ کے مطابق ہماری کائنات ایک عظیم پھیلاو کی صورت میں ظہور پذیر ہوئی ہے۔ بگ بینگ کے نظریہ میں کچھ مسائل وضاحت طلب پائے گئے جنہیں حل کرنے کے لیے “انفلیشن” نامی ماڈل پیش کیا گیا جس کی وضاحت بھی ہم اپنے ایک اور مضمون “صدائے جرس” میں تفصیل سے پیش کر چکے ہیں۔ انفلیشن کے اس ماڈل کے مطابق کائنات میں آغاز کے وقت ایک کوانٹم فیلڈ (Quantum Field) موجود تھا جس کے باعث کائنات ایک سیکنڈ سے بھی انتہائی کم وقت میں اپنے سائز سے کروڑوں گنا بڑی ہوتی گئی۔ اسی تیز ترین پھیلاو کی وجہ سے اس دورانیے کو انفلیشن کا نام دیا گیا۔اس ماڈل کے بانیوں کے مطابق انفلیشن کا عمل صرف ایک دفعہ یا ایک ہی جگہ پر وقوع پذیر نہیں ہوا ہوگا۔ مختلف اوقات میں اور مختلف رفتاروں سے یہ کوانٹم فیلڈ میں بارہا انفلیشن کا عمل ہوا ہوگا اور ایسے ایک سے زیادہ مرتبہ بگ بینگ ہوئے ہوں گے۔ اور یوں ایک کثیر تعداد میں مختلف کائناتیں وجود پذیر ہو گئی ہوں گی۔اس نظریہ کو Eternal Inflation بھی کہا جاتا ہے۔ انفلیشن کے نظریہ کی تصدیق کے لیے اس وقت مختلف تجربات ترتیب دیئے جارہے ہیں جن میں سب سے اہم ثقلی لہروں (Gravitational Waves) سے متعلق تجربات شامل ہیں۔یہاں اس بات پر بھی غور کرنا بے جا نہ ہوگا کہ آج کے دور میں کونیاتی مباحث اور مشاہدات میں جب بھی سائنسدان کسی غیرمعمولی مشاہدے سے برسرپیکار ہوتے ہیں تومختلف حلقوں کی جانب سے پہلا تاثر یہی ہوتا ہے کہ شاید اضافی جہتوں (Extra Dimensions) کی دریافت ہونے والی ہے۔ ایسا ہی ایک تاثر 15 دسمبر 2015ءکو یورپی مرکز برائے نیوکلیائی تحقیق (CERN) کی جانب سے جاردی کردہ اعلامیے میں ایک غیر معمولی نوعیت کے نئے ذرہ کے بارے میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ یہ ذرہ اپنی خاصیتوں کے اعتبار سے بالکل منفرد اور تمام معلوم ذروں سے الگ شناخت کا حامل معلوم ہورہا ہے اور یوں ایک بار پھر سے کثرت کائنات کے نظریے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اگر کثرت کائنات کا نظریہ ثابت ہو جاتا ہے تو یہ انسان کے لئے اپنے اندر ایک بہت بڑی بحث کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ ایسے جہانوں کا وجود سائنسی حیثیت اختیار کر جائے گا جو آج تک محض توہمات اور مذاہب کی شکل میں موجود ہیں!

تبصرے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تبصرے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *