ایک دفعہ یوں ہوا کہ ایک بے حال، عمر رسیدہ شخص کہیں سے بھول بھٹک کر مسلمانوں کی ایک بستی میں آکر رہنے لگ ۔ وہ عجیب و غریب عادات کا مالک تھا اور اپنے حال میں مست رہتا۔ سکھوں کی طرح اس کے کیس بڑھے ہوئے تھے اور کڑے پہنتا تھا ہندوؤں کی طرح بھجن گاتا اور عیسائیوں کی طرح دعائیں مانگتا، کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہے کہاں سے آیا ہے، اس کی ذات کیا ہے وہ سکھ ہے عیسائی ہے ہندو ہے یا کسی اور مذہب کا ماننے والا ہے کسی کو کچھ نہیں پتا تھا مگر اس بات پر تمام بستی والوں کا اتفاق تھا کہ وہ کچھ بھی ہو کم از کم مسلمان نہیں ہے۔ سب لوگوں بوڑھے کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتے تھے کوئی اسے برا بھلا کہتا تو کوئی بدکار، کوئی اسے کافر کہتا تو کوئی مشرک۔ غرض کوئی بھی اسے اپنانے کو تیار نہیں تھا۔ بستی کے کچھ لوگوں نے اسے سدھارنے اور راہ راست پر لانے کی کوشش کی مگر عمر کے ساتھ ساتھ اس کا مزاج و عادات اور عقائد بھی پختہ ہو گئے تھے اور اس کے کافرانہ مزاج میں کوئی تبدیلی نہ آ سکی۔ پھر یوں ہوا کہ کچھ عرصے بعد بوڑھا مر گیا بستی کے سب لوگ اکٹھے ہو گئے کہ بوڑھے کا کیا کِیا جائے۔ کافی غور و خوض کے بعد بستی کے سیانوں نے ایک بہت عقلمندانہ فیصلہ کیا کہ چونکہ بستی مسلمانوں کی ہے اس لئے بوڑھے کا عین شرعی اصولوں کے مطابق جنازہ پڑھایا جائے گا اور اسلامی طریقے سے اسے دفنایا جائے گا۔
اگرچہ آج سخت جسمانی سزاوں کا جواز باقی نہیں رہا تاہم اگر پھانسی اور اسی جیسی دیگر سخت شرعی جسمانی سزاوں کو ذرا دیر کے لیے درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو پاکستانی معاشرے اور ریاست میں ان کا نفاذ قابل قبول نہیں ہو سکتا۔
ایسا ہی کچھ حال ہمارے ملک میں رائج قوانین اور سزاؤں کا ہے۔ ملکی نظام سزاوجزا کو کوئی اسلامی شریعت کے مطابق نہیں مانتا لیکن ان قوانین اور سزاؤں کا تحفظ، عملی صورت میں نفاذ شریعت اور اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے۔ شرعی قوانین کی روح کی بجائے ان ظاہری رسم و رواج کا تحفظ اور وکالت کی جاتی ہے جو عرب معاشرے میں رائج تھے اور آج کی مہذب دنیا کے لیے قابل قبول نہیں ۔اسلامی نظام انصاف کو جسمانی سزاوں تک محدود سمجھ لیا ہے اور انصاف کے دوران غیر جانبداری، ایمانداری، تحقیق و تفتیش اور مساوات جیسے ان تقاضوں کو بھلا دیا گیا ہے جو اسلام کی تبلیغ ہیں۔ اگرچہ آج سخت جسمانی سزاوں کا جواز باقی نہیں رہا تاہم اگر پھانسی اور اسی جیسی دیگر سخت شرعی جسمانی سزاوں کو ذرا دیر کے لیے درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو پاکستانی معاشرے اور ریاست میں ان کا نفاذ قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ ہمارا نظام انصاف جس قدر بددیانت، کرپٹ اور شکست خوردہ ہے اس کی موجودگی میں شدید جسمانی سزاوں کا نفاذ انصاف نہیں ناانصافی ہے۔
پاکستانی نظام انصاف کا آغاز ایف آئی آر سے ہوتاہے اور یہیں سے شرعی اصولوں سے بھی انحراف کا آغاز بھی ہوجاتا ہے ۔معمولی جرائم رپورٹ کرتے وقت لوگ اپنے اثرو رسوخ اور پیسے کے بل بوتے پر پورے پورے خاندان کو شریک جرم ٹھہرا کر سنگین ترین دفعات کا اضافہ کرا دیتے ہیں۔ سیاسی اور ذاتی عناد کی بناء پرروزانہ سینکڑوں ایف آئی آر کا انداج کیا جاتا ہے۔ پولیس شریعت کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کے بلا کسی تحقیق و تفتیش ایف آئی آر کا انداراج کر لیتی ہے۔پولیس کی روایتی بے حسی اور پیشہ ورانہ بددیانتی قتل جیسے سنگین جرائم میں بھی معصوم لوگوں کی زندگیاں داو پرلگانے سے گریز نہیں کرتے۔ لاہور میں دودھ پیتے بچوں پر قتل کے مقدمات کی روداد ذرائع ابلاغ میں رپورٹ کی جاچکی ہے۔
پولیس کی درج کردہ ناقص ایف آئی آر کی بنیاد پر غریب اور کمزور لوگوں کے ساتھ جو کچھ عدالتوں میں ہوتا ہے اس میں بھی شریعت کہیں دور دور نظر نہیں آتی۔غربا وکیلوں کے دفتروں اور عدالتوں میں سالہا سال اپنے جوتے گھِساتے اور انصاف کے لئے ذلیل و خوار ہوتے پھرتے ہیں لیکن ان کی سننے اور داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا جبکہ دوسری طرف طاقت ور اور بااثر افراد کے خلاف اول تو کسی ایف آئی آر کا اندراج نہیں ہوتا اگر ہو بھی جائے تو عدالتوں میں گواہان کا سچ خرید کرانہیں باعزت بری کرالیا جاتا ہے۔ جیلوں میں موجودقیدیوں کا جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہماری جیلیں معاشرے کے غریب اور پسے ہوئے طبقات سے بھری پڑی ہیں۔ ہمارے بندی خانوںمیں تقریباً 8 ہزار سے زائد لو گ کال کوٹھڑیوں میں موت کی سزا کے منتظر ہیں ۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے افراد ہیں جو معاشرے کی بے رحمی ، بے حسی اور دہرے معیارکا شکار ہو ئےاور جن کے پاس کوئی اچھا وکیل کرنے یا انصاف خریدنے کی استطاعت نہیں تھی۔
پاکستانی نظام انصاف کا آغاز ایف آئی آر سے ہوتاہے اور یہیں سے شرعی اصولوں سے بھی انحراف کا آغاز بھی ہوجاتا ہے ۔معمولی جرائم رپورٹ کرتے وقت لوگ اپنے اثرو رسوخ اور پیسے کے بل بوتے پر پورے پورے خاندان کو شریک جرم ٹھہرا کر سنگین ترین دفعات کا اضافہ کرا دیتے ہیں۔ سیاسی اور ذاتی عناد کی بناء پرروزانہ سینکڑوں ایف آئی آر کا انداج کیا جاتا ہے۔ پولیس شریعت کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کے بلا کسی تحقیق و تفتیش ایف آئی آر کا انداراج کر لیتی ہے۔پولیس کی روایتی بے حسی اور پیشہ ورانہ بددیانتی قتل جیسے سنگین جرائم میں بھی معصوم لوگوں کی زندگیاں داو پرلگانے سے گریز نہیں کرتے۔ لاہور میں دودھ پیتے بچوں پر قتل کے مقدمات کی روداد ذرائع ابلاغ میں رپورٹ کی جاچکی ہے۔
پولیس کی درج کردہ ناقص ایف آئی آر کی بنیاد پر غریب اور کمزور لوگوں کے ساتھ جو کچھ عدالتوں میں ہوتا ہے اس میں بھی شریعت کہیں دور دور نظر نہیں آتی۔غربا وکیلوں کے دفتروں اور عدالتوں میں سالہا سال اپنے جوتے گھِساتے اور انصاف کے لئے ذلیل و خوار ہوتے پھرتے ہیں لیکن ان کی سننے اور داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا جبکہ دوسری طرف طاقت ور اور بااثر افراد کے خلاف اول تو کسی ایف آئی آر کا اندراج نہیں ہوتا اگر ہو بھی جائے تو عدالتوں میں گواہان کا سچ خرید کرانہیں باعزت بری کرالیا جاتا ہے۔ جیلوں میں موجودقیدیوں کا جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہماری جیلیں معاشرے کے غریب اور پسے ہوئے طبقات سے بھری پڑی ہیں۔ ہمارے بندی خانوںمیں تقریباً 8 ہزار سے زائد لو گ کال کوٹھڑیوں میں موت کی سزا کے منتظر ہیں ۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے افراد ہیں جو معاشرے کی بے رحمی ، بے حسی اور دہرے معیارکا شکار ہو ئےاور جن کے پاس کوئی اچھا وکیل کرنے یا انصاف خریدنے کی استطاعت نہیں تھی۔
کرپشن، بد عنوانی اور بددیانتی کے باعث بوسیدہ ہوجانے والے اس نظام انصاف کے تحت پھانسی جیسی سخت سزا کو شریعت کے نام پر تحفظ دینا ایک غیرانسانی بلکہ میرے نزدیک غیر اسلامی عمل ہے۔
دہشت گردی اور قتل کے مقدمات میں سزائیں پانے والے صرف کمزور افراد تھے۔تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ پاکستان میں جتنے بھی لوگوں کو پھانسی دی گئی ان میں سے اکثریت کا تعلق معاشرے کے کمزور طبقات سے تھ ۔آج تک کسی با اثر وڈیرے، جاگیردار، نامی گرامی دہشت گرد کو کو ان شرعی سزاؤں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پھانسی اور دیگر سزائیں جنہیں اسلامی کہا جاتا ہے کیا یہ صرف معاشرے کے نادار، غریب اور مظلوم طبقات کے لیے ہیں؟ کیا ہمارے دولت مند اور بااثر طبقات دودھ کے دھلے ہیں؟ اسلامی سزاؤں اور شریعت کا شور مچانے والوں سے پو چھا جائے کیا شریعت اور اس کی سزائیں صرف غریبوں کے لیے ہیں؟ اس کا جواب سب کے پاس ہے سب جانتے ہیں کہ یہاں کچھ بھی شریعت کے مطابق نہیں ۔کرپشن، بد عنوانی اور بددیانتی کے باعث بوسیدہ ہوجانے والے اس نظام انصاف کے تحت پھانسی جیسی سخت سزا کو شریعت کے نام پر تحفظ دینا ایک غیرانسانی بلکہ میرے نزدیک غیر اسلامی عمل ہے۔ ایک صالح معاشرے کے قیام اور منصفانہ، شفاف اور غیر جانبدار نظام انصاف کی تشکیل کے بغیر شرعی سزائیں دینے کا عمل کسی بھی طرح شریعت کے مطابق قرار نہیں دیا جاسکتا۔
Leave a Reply