[blockquote style=”3″]
ادارتی نوٹ؛ اس کہانی میں شامل مواد کم سن اور نابالغ افراد کے لیے ناموزوں ہے۔
[/blockquote]
آج کی پہلی مشت زنی کے بعد میں تھک کر بیٹھ گیا۔ مجھے اب مچھروں، اٹھائی گیروں اور رات کی پرواہ نہیں رہی لیکن دن کا خوف ابھی باقی ہے۔ سبھی فٹ پاتھ، بس سٹینڈ اور تھڑے رات بھر کے لیے میرےتصرف میں ہیں ۔ میں اندھیرے کے بدن سے واقف ہوں، اس کے نشیب فراز سے واقف ہوں۔ میں نے اسی کی کوکھ سے جنم لیا ہے، اسی کے پستانوں کا دودھ پیا ہے اور میں اسی سے اپنے بچے جنوں گا۔ رات کی کوکھ میں اسی دن نے میرا نطفہ انڈیلا تھا جس نے ان تمام عورتوں کو اپنی آغوش میں لیے رکھا ہے جن کے جسموں کے کساو کو میں اپنی پوروں تلے سرکتا ہوا محسوس کرسکتا ہوں۔ ان عورتوں کے غول نے جو بوجھ میری روح کی کمر پر لاد دیا ہے اسے ڈھیر ی بنا کر دھر دینا ضروری ہے۔
دن کی دوسری مشت زنی کے بعد میں خود سے بیزار ہوچکا ہوں۔ میں خود کو اپنے آپ سے اور تم سے محبت کرنے پر مزید مجبور نہیں کر سکتا۔ میں ہونے یا نہ ہونے اور تمہارے ملنے یا نہ ملنے سے غیر متعلق ہو چکا ہوں۔ میں تم میں اور تم سمیت تمام عورتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے قابل نہیں رہا۔ سنہرے بال یا بھورے بال یا کالے بال۔۔۔۔۔۔ فربہ بدن، مائل بہ فربہ بدن یاچھریرا بدن۔۔۔۔۔ہاتھ، سینا، کولہے یا پاوں۔۔۔۔۔ ادھیڑ عمر، جوان یا کم سن۔۔۔۔۔۔ شادی شدہ، ہم جنس پرست یا محرمات۔۔۔۔۔۔ میں معلق ہوں ۔ میں اپنے پیروں کو کہیں بھی آنے جانے پر آمادہ نہیں کرسکا اور خود کو دھو دھو کر صاف کرنے کی مسلسل خواہش کے باوجود پانی کو چھونے کو تیار نہیں۔ میری رقیق منی نے مجھے تمام عمر کے لیے نجس کر دیا ہے۔
میں اپنے وجود کی تنہائی کو دن کی تیسری مشت زنی کے بعد بھی نہیں بھر سکا۔میرے لیے اب مباشرت میں کشش باقی نہیں رہی۔ میں ایسی مشت زنی چاہتا ہوں جو مجھے مباشرت کی حاجت سے ہمیشہ کے لیے آزاد کر دے۔ تمہارے لمس اور تمہارے قرب کی معدوم ہوتی ہوئی طلب اور میری بڑھتی ہوئی جنسی بیزاری سے مجھے نجات دے سکے۔ میرے لیے شہر کی تمام عورتوں کے دو دوپستان گننا اور یاد رکھنا ممکن نہیں رہا۔ اور کیا تمام ٹانگوں کو ان کے بیچ موجود فرجوں سے علیحدہ شناخت کیا جاسکتا ہے؟ میں اپنی آنکھیں نوچ کر نہیں پھینک سکتا اور اپنے غدودوں کو رطوبتوں کے اخراج سے منع نہیں کرسکتا ۔ میں مجبور ہوں ان تمام عورتوں کو ان کے تناسب کا خراج پیش کرنے پر۔۔۔۔۔ اور اگر میں ان کے حسن کا اعتراف نہیں کروں گا تو کون کرے گا؟ میرے وجودکا واحد جواز، میرے ہونے کا واحد معنی میرا ان تمام عورتوں کے جسموں سے خود کو متعلق رکھنا ہے۔
میری مشت زنی میرے ہونے اور نہ ہونے کے ماورائی اتصال کا نقطہ عروج ہے لیکن میرا انزال میری تخیلاتی بلندی کا معکوسی سفر ہے۔ اس عالم اجلاق میں میں کہاں ہوں؟ میں ہوں کیوں کہ میں مشت زن ہوں؟؟؟ تواتر اور تسلسل کی بیزار لایعنیت اور بے مقصدیت سے فرار کہاں ہے؟؟ کیا یہ ممکن ہے کہ خود لذتی کی خود کفالت سے نجات پا لی جائے؟ کیا ایستادگی سے نجات ممکن ہے؟ کیا میں جو سوچتا ہوں وہ بن چکا ہوں؟کیا میں اپنا سکون اپنے اندر تلاش نہیں کرچکا؟کیامیری کائناتی شہوت تمام عورتوں کے حسن کا اشتراک نہیں؟ اس اشتراک حسن اور اس بے پناہ شہوت کے اس پار کیا ہے؟
اس سب کے اس پار آسمانی باپ کا آلہ تناسل مادر ارض کی فرج میں ایک اور کائنات کی تخلیق میں مصروف ہے۔ تخلیق کے اس کن فیکون کے دوران میرے آس پاس بکھرے سب پستان جڑ پکرنے لگے، تمام زیر ناف فرجیں پتے بن کر سرسرانے لگیں، میری نال دوبارہ اندھیرے کی کوکھ سے جڑ گئی اور میں نے اپنا عضو تناسل کاٹ کر پھینک دیا۔
دن کی دوسری مشت زنی کے بعد میں خود سے بیزار ہوچکا ہوں۔ میں خود کو اپنے آپ سے اور تم سے محبت کرنے پر مزید مجبور نہیں کر سکتا۔ میں ہونے یا نہ ہونے اور تمہارے ملنے یا نہ ملنے سے غیر متعلق ہو چکا ہوں۔ میں تم میں اور تم سمیت تمام عورتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے قابل نہیں رہا۔ سنہرے بال یا بھورے بال یا کالے بال۔۔۔۔۔۔ فربہ بدن، مائل بہ فربہ بدن یاچھریرا بدن۔۔۔۔۔ہاتھ، سینا، کولہے یا پاوں۔۔۔۔۔ ادھیڑ عمر، جوان یا کم سن۔۔۔۔۔۔ شادی شدہ، ہم جنس پرست یا محرمات۔۔۔۔۔۔ میں معلق ہوں ۔ میں اپنے پیروں کو کہیں بھی آنے جانے پر آمادہ نہیں کرسکا اور خود کو دھو دھو کر صاف کرنے کی مسلسل خواہش کے باوجود پانی کو چھونے کو تیار نہیں۔ میری رقیق منی نے مجھے تمام عمر کے لیے نجس کر دیا ہے۔
میں اپنے وجود کی تنہائی کو دن کی تیسری مشت زنی کے بعد بھی نہیں بھر سکا۔میرے لیے اب مباشرت میں کشش باقی نہیں رہی۔ میں ایسی مشت زنی چاہتا ہوں جو مجھے مباشرت کی حاجت سے ہمیشہ کے لیے آزاد کر دے۔ تمہارے لمس اور تمہارے قرب کی معدوم ہوتی ہوئی طلب اور میری بڑھتی ہوئی جنسی بیزاری سے مجھے نجات دے سکے۔ میرے لیے شہر کی تمام عورتوں کے دو دوپستان گننا اور یاد رکھنا ممکن نہیں رہا۔ اور کیا تمام ٹانگوں کو ان کے بیچ موجود فرجوں سے علیحدہ شناخت کیا جاسکتا ہے؟ میں اپنی آنکھیں نوچ کر نہیں پھینک سکتا اور اپنے غدودوں کو رطوبتوں کے اخراج سے منع نہیں کرسکتا ۔ میں مجبور ہوں ان تمام عورتوں کو ان کے تناسب کا خراج پیش کرنے پر۔۔۔۔۔ اور اگر میں ان کے حسن کا اعتراف نہیں کروں گا تو کون کرے گا؟ میرے وجودکا واحد جواز، میرے ہونے کا واحد معنی میرا ان تمام عورتوں کے جسموں سے خود کو متعلق رکھنا ہے۔
میری مشت زنی میرے ہونے اور نہ ہونے کے ماورائی اتصال کا نقطہ عروج ہے لیکن میرا انزال میری تخیلاتی بلندی کا معکوسی سفر ہے۔ اس عالم اجلاق میں میں کہاں ہوں؟ میں ہوں کیوں کہ میں مشت زن ہوں؟؟؟ تواتر اور تسلسل کی بیزار لایعنیت اور بے مقصدیت سے فرار کہاں ہے؟؟ کیا یہ ممکن ہے کہ خود لذتی کی خود کفالت سے نجات پا لی جائے؟ کیا ایستادگی سے نجات ممکن ہے؟ کیا میں جو سوچتا ہوں وہ بن چکا ہوں؟کیا میں اپنا سکون اپنے اندر تلاش نہیں کرچکا؟کیامیری کائناتی شہوت تمام عورتوں کے حسن کا اشتراک نہیں؟ اس اشتراک حسن اور اس بے پناہ شہوت کے اس پار کیا ہے؟
اس سب کے اس پار آسمانی باپ کا آلہ تناسل مادر ارض کی فرج میں ایک اور کائنات کی تخلیق میں مصروف ہے۔ تخلیق کے اس کن فیکون کے دوران میرے آس پاس بکھرے سب پستان جڑ پکرنے لگے، تمام زیر ناف فرجیں پتے بن کر سرسرانے لگیں، میری نال دوبارہ اندھیرے کی کوکھ سے جڑ گئی اور میں نے اپنا عضو تناسل کاٹ کر پھینک دیا۔