میرا تعلق متوسط اور روایت پسند طبقے سے ہے جہاں لوگ پرانے اور فرسودہ خیالات کے حامل ہیں۔ جہاں آج بھی عورتوں کا گھر سے باہر کام کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا ھے۔
نرسنگ یوں تو دنیا بھر میں انتہائی باوقار پیشہ سمجھا جاتا ہے مگر چونکہ ہمارے ملک میں ہر چیز منفی انداز میں لیا جاتا ہے، لہٰذا ہمارے یہاں نرسوں اور نرسنگ کے شعبے کو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔
اگرچہ ہمارے معاشرے میں عورت کو باورچی خانے سے باہر نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کو آج بھی زیادہ عزت سے نہیں دیکھا جاتا لیکن نرسنگ کے شعبے کو کچھ زیادہ ہی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ آج تک میں نہیں سمجھ سکی۔ نرسنگ کے پیشے سے وابستہ خاتون کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور راتوں کو بلکتے ہوئے مریضوں کی تیمارداری کے لیے رات کی ڈیوٹیاں کرنے والی نرسوں کو بالکل ہی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ ایسی نرسز کے والدین پر حیران ہوتے ہیں، کہ وہ کیسے اپنی بیٹیوں کو رات گئے ڈیوٹی پر بھیج دیتے ہیں۔
12 مئی کو دنیا بھر میں نرسنگ کے پیشے کے تقدس اور وقار کو سمجھنے کے لیے عالمی نرسنگ ڈے منایا جاتا ہے۔ 12 مئی کی رات مجھے طبعیت کی ناسازی کی وجہ سے ایک نجی اسپتال جانا ہوا، وہاں نرسز کو پیشہ ورانہ مستعدی سے مریضوں کی دیکھ بھال کرتی ہوئی نرسز کو دیکھ کر دل میں ایک چبھن ہوئی کہ ہمارا معاشرہ آخر کیوں ان فرض شناس خواتین کو ناقدری اور حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ میں سوچتی ہی رہ گئی کہ اگر رات اس وقت یہ نرسز سسکتی بیمار انسانیت کی عیادت نہ کر رہی ہوتیں تو اس پیشے کو حقیر جاننے والے “عزت دار” خاندانوں کی جانوں کا کیا ہوتا، کون ان کی خدمت کرتا۔
ہمارے ہاں لوگوں کی سوچ ایسی ہے کہ جب ان کی خواتین بیمار ہوں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی دیکھ بھال اور نگرانی لیڈی نرسز ہی کریں، لیکن وہ اپنی بیٹیوں کو نرس بنانا معیوب سمجھتے ہیں۔ جو لڑکی اس باوقار پیشے کی تربیت حاصل کر رہی ہو، اسے برا بھلا کہنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ الٹا انسانیت کی ان معصوم خدمتگاروں کو اپنا کلچر تباہ کرنے کی کسی مغربی سازش کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ اس طرح کی منافقتوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ حضور اکرمؐ کے دور میں عورتیں جنگوں تک میں شریک ہو کر زخمیوں کی تیمارداری کرتی تھیں۔ ہم ہر وقت اپنی مرضی کے خودساختہ اسلام کا پرچار کرتے رہتے ہیں، ہم اپنی دقیانوسیت کے خول سے باہر ہی نہیں نکل پاتے۔ ہم نہ خود آگے بڑھتے ہیں اور نہ دوسروں کو آگے بڑھنے دیتے ہیں۔ یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے۔
میں نے اسپتال میں موجود ایک نرس کے پاس جا کر اسے ‘Happy Nurse Day’ کا وِش کیا تو وہ یہ سن کر نہایت خوش ہوئی۔ کاش ہمارا معاشرے کی سوچ کا منفی انداز بدل جائے اور ہمارے لوگ عورت کے ہر روپ کو عزت دینا سیکھ لیں۔
نرسنگ یوں تو دنیا بھر میں انتہائی باوقار پیشہ سمجھا جاتا ہے مگر چونکہ ہمارے ملک میں ہر چیز منفی انداز میں لیا جاتا ہے، لہٰذا ہمارے یہاں نرسوں اور نرسنگ کے شعبے کو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔
اگرچہ ہمارے معاشرے میں عورت کو باورچی خانے سے باہر نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کو آج بھی زیادہ عزت سے نہیں دیکھا جاتا لیکن نرسنگ کے شعبے کو کچھ زیادہ ہی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ آج تک میں نہیں سمجھ سکی۔ نرسنگ کے پیشے سے وابستہ خاتون کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور راتوں کو بلکتے ہوئے مریضوں کی تیمارداری کے لیے رات کی ڈیوٹیاں کرنے والی نرسوں کو بالکل ہی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ ایسی نرسز کے والدین پر حیران ہوتے ہیں، کہ وہ کیسے اپنی بیٹیوں کو رات گئے ڈیوٹی پر بھیج دیتے ہیں۔
12 مئی کو دنیا بھر میں نرسنگ کے پیشے کے تقدس اور وقار کو سمجھنے کے لیے عالمی نرسنگ ڈے منایا جاتا ہے۔ 12 مئی کی رات مجھے طبعیت کی ناسازی کی وجہ سے ایک نجی اسپتال جانا ہوا، وہاں نرسز کو پیشہ ورانہ مستعدی سے مریضوں کی دیکھ بھال کرتی ہوئی نرسز کو دیکھ کر دل میں ایک چبھن ہوئی کہ ہمارا معاشرہ آخر کیوں ان فرض شناس خواتین کو ناقدری اور حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ میں سوچتی ہی رہ گئی کہ اگر رات اس وقت یہ نرسز سسکتی بیمار انسانیت کی عیادت نہ کر رہی ہوتیں تو اس پیشے کو حقیر جاننے والے “عزت دار” خاندانوں کی جانوں کا کیا ہوتا، کون ان کی خدمت کرتا۔
ہمارے ہاں لوگوں کی سوچ ایسی ہے کہ جب ان کی خواتین بیمار ہوں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی دیکھ بھال اور نگرانی لیڈی نرسز ہی کریں، لیکن وہ اپنی بیٹیوں کو نرس بنانا معیوب سمجھتے ہیں۔ جو لڑکی اس باوقار پیشے کی تربیت حاصل کر رہی ہو، اسے برا بھلا کہنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ الٹا انسانیت کی ان معصوم خدمتگاروں کو اپنا کلچر تباہ کرنے کی کسی مغربی سازش کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ اس طرح کی منافقتوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ حضور اکرمؐ کے دور میں عورتیں جنگوں تک میں شریک ہو کر زخمیوں کی تیمارداری کرتی تھیں۔ ہم ہر وقت اپنی مرضی کے خودساختہ اسلام کا پرچار کرتے رہتے ہیں، ہم اپنی دقیانوسیت کے خول سے باہر ہی نہیں نکل پاتے۔ ہم نہ خود آگے بڑھتے ہیں اور نہ دوسروں کو آگے بڑھنے دیتے ہیں۔ یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے۔
میں نے اسپتال میں موجود ایک نرس کے پاس جا کر اسے ‘Happy Nurse Day’ کا وِش کیا تو وہ یہ سن کر نہایت خوش ہوئی۔ کاش ہمارا معاشرے کی سوچ کا منفی انداز بدل جائے اور ہمارے لوگ عورت کے ہر روپ کو عزت دینا سیکھ لیں۔