Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

nazra-faiz

نذر فیض

اسد فاطمی

اسد فاطمی

15 اپریل, 2024

ہاں مجھے اتنی خبر ہے مرے ہمدم مرے دوست
زندگی اپنی جگہ مہمل و دشوار سہی
کوئی دلجو ہو تو سو بار گزر سکتی ہے
چاہِ نکبت میں بھی اس طور گزاری جائے
بسترِ عیش پہ جیسے پسرِ شاہ کا خواب
اک عصا ماریں تو یوں پھوٹ بہے جوئے شراب
جنبشِ چشم پہ بجنے لگیں مردنگ و رباب
دسترس میں ہو ترے سامری ہاتھوں کا طلسم
تن کو چھو لے تو سبھی زخم بنے جائیں گلاب
وصل کے گیت سنانے کو ملائک اتریں
رات کی رات میں انسان خدا ہو جائے
داغِ تذلیل کہ میراث ہے ہم دونوں کی
ایک مزمورِ مصفا سے صفا ہو جائے
لیلۃ القدر میں ڈھل آئے شب غم کا غبار
مہِ کامل کی ضیا مثلِ صبا آتی رہے
یوں ترے گیسوئے مشکیں کی بلائیں لینے
بزم انجم کو ترے رخ کے مقابل کر کے
رات بھر چہرۂ بیضاء کے فسانے ہوں رقم
حسن و مستی کی حکایات کا حیلہ کر کے
اپنے دامن میں بھرے جائیں سخن ریزے چند
ریگ ساحل پہ پڑے سنگ و گہر سے کھیلیں
موجۂ وقت کے آزار کو سہلاتے چلیں
ایک شب ہو گئے عشروں کے مقابر میں قیام
گردِ دیروز میں گمگشتہ صداؤں کو سنیں
اسی ویرانۂ دیروز کے محرابوں میں
اک دریچہ ہے کہ جس سے مجھے آتی ہے صدا
“تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا”
اور میں خونخوار زمانوں کا ڈرا سہما ہوا
ایک کابوسِ گزشتہ سے لرز اٹھا ہوں
جو بدآموزئ اغیار سے ملتے ہیں وہ زخم
ایک دو طرفہ تبسّم سے ہی بھر جاتے ہیں
میری نسلوں نے مگر خنجر و کرپان کے ساتھ
پے بہ پے سینۂ افگار کی جرّاحی کی
تارِ مسموم سے بے نام سے زخموں کو سیا
کام مرہم کا ہی تھا، یاروں نے نشتر سے کیا
چشم قاتل کے ڈرائے ہوئے بیماروں کے
زخم پر زخم ہی رکھنا تو مسیحائی نہیں
پر مجھے اتنا یقیں ہے مرے ہمدم مرے دوست
نغمہ بن جاتی ہے گر آہ سے اک آہ ملے
اک سرود اور کہ چھاتی پہ کوئی چاک سلے
زخم سینے کو اٹھا بربط و طاؤس کے تار
وقت شاہد ہے مگر مجھ کو فقط تیری قسم
نغمگی سر پہ اٹھا سکتی ہے سو قرن کا بار۔۔۔