ایک ذاتی خط کی بازیافت، ۸ مارچ یومِ نسواں کی مناسبت سے
(الف۔ف)
جاناں، میرے لیے تم پر یہ باور کرانا اب بہت ضروری ہے، کہ لازم نہیں میں ہر رقعے میں تمہارے تلووں پر نثار رہنے کے وچن بھروں۔ اپنی ہر تخلیق میں تمہارے خالِ لب کے سویدا میں سیرِ عدم فرماؤں، اور تمہارے ذقن پیالے کو سلسیل یا کوثر کا حوض باندھوں۔آج لکھے پڑھے مجازوں،حقیقتوں سے فرار کی شب ہے۔ مجھے آج سہ پہر کے بدمزہ راز و نیاز پر تمہارے فریبی تبسم، اوربیت چکی کڑواہٹ پر تمہاری مکارانہ پردہ داری کی قبا کو پھاڑنا ہے۔ اگرچہ نیل کے ساحل سے جمنا کے گھاٹ تک، بابا لوکوں کے حرف و حکایت تمہارے فریب سے بچ جانے کے ٹوٹکوں سے بھرے پڑے ہیں۔ سعدی کی نصیحتوں سے لے کر وارث شاہ کی پوتھیوں تک، کون بزرگ ہے جس نے مکر و فریبِ زناں کے پُرحکمت باب پر قلم نہیں اُٹھایا۔ کنعان والے یوسف کے پھٹے کڑتے پر، مصر کی زلیخا کا لکھا ہوس پرور بہتان کس صحیفے میں نقل نہیں ہوا۔ لیکن پھر بھی، آج کے غمگین دن نے تمہاری عیاری پر بات کرنے کی بہت سی گنجائش اور نکال دی ہے۔
جاناں، تمہارے نین نقش سے ٹپکتی معصومیت کی قسم ہے، تم بچپن کے قصوں والی لومڑی سے بڑی فریبی ہو، احسن الماکرین کی قسم ہے، تم گرگٹ سے بھی بڑھ کر بہروپن ہو۔ تمہاری بالی عمر کی سوگند ہے، تمہاری اس پختہ کار اداکاری کے پیچھے صدیوں نہیں، ہزاریوں کی تربیت اور مشق کارفرما ہے۔ میری بات اور ہے، میں بفضل اللہ مرد ہوں، میرے کھرے پن پر ہر مصحف، ہر حکایت دلیلیں دیتی ہے۔ میری سچائی کو یہی کافی ہے کہ جب آسمان سے صدق اتارا جاتا ہے تو میں ہی ہوں جس کے ہم جنسوں کو اس کی امانت سونپی جاتی رہی ہے۔ اور مجھے بہروپ کی یا اداکاری کی حاجت ہو بھی کیوں، میں تو ایک ہدایتکار ہوں۔ جو کہانی کو آگے بڑھاتا ہے، جس کے نام سے کہانی پہچانی جاتی ہے۔ ہدایتکار کا خود اداکار ہونا اس لیے بھی ضروری نہیں کہ اُس نے پردے کے پیچھے رہ کر، پہلو بدلتی کہانی کے ساتھ ساتھ محض اداکار کو بدلتے رنگ کا لباس ہی پہنانا ہوتا ہے۔ ہدایتکار، جس کا رزق اسی بات پر انحصار کرتا ہے کہ اداکار پیدا ہوتے رہیں، اور رانجھے سہتی کی پکچر اسی پہلو چلتی رہے۔
متاعِ جان! میں جانتا ہوں کہ میرے اندر کی ہر ہوس پرور تمنا کے پل بھر میں پورا کرنے کو میرے ورزشی دست و بازو ہیں، میری اپنی گھڑی ہوئی قانون و فقہ کی لاٹھیاں ہیں…لیکن تمہاری ہوس کو سوائے مکرِ زلیخا کے، اور کوئی حیلہ نہیں ہے۔ جانِ جانان، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ملن کی گھڑیوں میں تم جس وارفتگی کے ساتھ میری دلبری کو حاضر آتی ہو، وداع کے بعد گھر واپسی پر تمہیں اسی خودسپردگی اور وفاداری کے ساتھ اپنے بابا کے پیر بھی دابنا ہیں۔ سہیلیوں میں تم گڈی گڈے کے بازیچے میں جن حیاباختہ جملوں پر ہنستی اور قہقہے لگاتی ہو، اتنی ہی خاموش طبعی اور جھکی نگاہوں سے تم شام کو اپنے بھیا کا گھر میں سواگت کرتی ہو۔ کہانی کے ناپختہ اداکاروں کا انجام شاہد ہے کہ اس تمام نوٹنکی میں اگر کہیں بھی تمہاری اداکاری میں کوئی چُوک ہوئی تو تم کمر تک زمین میں گَڑ کے سنگساری جاؤ گی۔
جاناں، استاد نے ایک بار ایک مقولہ پڑھایا تھا کہ طاقت، صداقت سے آتی ہے… کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ صداقت جو ہے، وہ طاقت سے آتی ہے… کوئی طاقتور مچھندر بھلا کس کے ڈر سے کچھ چھپائے گا کہ اس نے کتنوں کی جاگیریں ہڑپ کیں، اوراسے کس کس کوٹھے پر تماشبینی میں اڑایا… سینہ ٹھونک کر ہی تو کہے گا کہ ہاں میں نے جو قمار بازی کی، جو خانم بازی کی، سبھی راست بازی سے بتاتا ہوں، نیک طینتوں میں ہمت ہے تو کچھ اکھاڑ لیں… تم ایسے بے بس لوگ تو کھل کے ہنسنا بھی چاہیں تو پہلے احتیاطاً آس پاس کی سازگاری دیکھتے ہیں، پھر ہنستے ہیں۔ تمہارے اس فریبی ضبط اور اداکاری کے، جبری یا اختیاری ہونے کے بارے میں صحیفوں نے کچھ نہیں بتایا۔تم پر بیتی ہے، خود تمہی بتاؤ…
جب تک تمہیں اس کا کوئی جواب سوجھتا ہے، تب تک پچھلے منگل کی اس صبح کی بات کر لیتے ہیں، جب تمہارا میرا کوٹلے والی بس میں اتفاقی آمنا سامنا ہوا تھا، میں پائیدان سے لٹکا تھا اور تم اپنی ماں کے ساتھ بس پر سوار ہوئی تھیں۔ جاناں، جس وقت سرپنچ نے تمہارے اور تمہاری ماں کے لیے اپنی سیٹ چھوڑی تھی تو تمہاری اماں اُس کی نیکی کے جس قدر قصیدے گائے جاتی تھی، اُس سے زیادہ کہیں میرا کلیجہ جلا ہو گا یہ سب دیکھ کر… یہ جو ہر جگہ تم بی بیوں کے لیے "پہلے آپ، پہلے آپ” کے نعرے لکھے ہیں، یہ بستی کے مردوں کا تمہارے ساتھ اتنا بڑا فریب اور مکر ہے، کہ بزرگوں کی حکایتیں تو کیا، صحیفے تکاس دھوکے میں برابر کے شریک ہیں۔ اور تم پگلی سرپنچ کی دی ہوئی احترامِ نسواں کی چُسنی منہ میں رکھ کر قناعت کر جاتی ہو۔ کل کو جب یہی سرپنچ تمہاری نسبت رنگ پور کے کھیڑوں میں طے کرنے کا فیصلہ سنائے گا تو میں تمہارے ڈولے کا پردہ جھنجھوڑ کر تمہیں یہ پچھلے منگل کی تاریخ اور یہ سِیٹ چھوڑنے کا قصہ یاد کروانےآؤں گا…
نجمہ، یہ جس مچھندر طاقت نے تم سے تمہاری صداقت چھینی ہے، اس سے اپنی طاقت واپس چھینے بغیر تمہیں اپنی صداقت واپس ملنے کی نہیں ہے…یہ اداکاری، یہ ذات پر سمجھوتا تمہیں شایان نہیں ہے…خدارا اب کہانی میں مزید اپنے کردار کو ہدایتکار کے تابع مت رکھو… سنگساری بھی کہانی کے ایک خونریز سِین سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے… کمر تک زمین میں دھنسے ہوئے بھی زبانِ صدق تو اپنی سطح ہموار ہی رکھتی ہے…یہ زمین اب اتنی وسیع بھی نہیں ہے کہ تم سب کو اس میں بو دیا جائے گا اور یہ تنگ نہیں پڑے گی…
اپنا رقعہ لپیٹنے سے پہلے مجھے اب پھر سہ پہر والا وہی تلخ موضوع دُہرانا ہے… اگر اِس مکر و اداکاری سے باہر آنا ہے تو وقت ہے، صبح تک یہ بستی چھوڑکر کسی نئی دنیا کے ہو لیں…اس سے پہلے کہ کسی دن ہم اِس پھونس سے بھی زیادہ خشک بستی پر تیل چھڑک کرخود ہی اسے آگ میں جھونک دیں…
فقط،
تمہارا محبّتی

(Published in The Laaltain – Issue 8)

Leave a Reply