خدا نے انسان کو بے بسی کی صلیب عطا کی اور دنیا کی طرف اس وعدے کے ساتھ روانہ کیاکہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا اور تمہاری مدد کو آوں گا۔ تب انسان نے اس وعدے کو سینے سے لگایا اور صلیب کمر پر لادے دنیا کی طرف چل پڑا۔ پہلے چند قدم تو بے بسی کا یہ بوجھ بہت حسین معلوم ہوا، پھر عظیم لگا کہ میں خدا کے دیے جلیل القدر تحفہ کا واحد حق دار ہوں۔۔ اور آخر بوجھ صرف بوجھ رہ گیا۔جب انسان کی کمر صلیب کے بوجھ سے شل اور پاوں راہ کی رکاوٹوں سے لہو لہان ہوئے تو انسان رکا، ٹھٹھکا اور جھجھکتے ہوئے پہلی بار خدا سے مدد کی درخواست کی، ” اے مالک مجھ ناچیز سے تیرے احسان کا بوجھ نہیں سہا جاتا، میری مدد فرما” لیکن دور دور تک خاموشی تھی، کوئی جواب نہیں آیاغیب سے وعدے کے مطابق کوئی مدد نہیں پہنچی۔
انسان کے انتظار کی حد آ گئی اور وہ پھر سے بے بسی کی صلیب اٹھائے چل پڑا۔ وعدوں اور امید کا مارا تھکا ہارا انسان جب زمین تک پہنچا تو وہ اسے جنت سے کہیں بڑھ کر دلچسپ معلوم ہوئی؛ دلچسپ اور مختلف بلکہ بہت مختلف، مرضی کی مالک ، پر اسرار اور خطر ناک۔وہ بے بسی کی صلیب اٹھائے جینے کی تگ و دو کرنے لگا مگر بے بسی کی صلیب وزنی ہوتی چلی گئی۔ اور جب انسان کو لگا کہ اس وزن کے ساتھ سانس لینا بھی دوبھر ہونے لگا ہےتو اس نے بصد احترام خدا کا سپرد کیا مقدس وزن اپنے کندھوں سے اتارا اور اونچائی پر نصب کردیا۔ پھر وہ بے حد ہلکا ہو کہ زمین میں بھاگتا پھرا، آزاد اور مطمئن۔ مگر یہ دور بھی جلد ہی ختم ہو گیا، بھوک قحط اور خشک سالی نے آگھیرااور انسان کی بھوک نے کسی مستقل حل کی فرمائش کردیا، سوچنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ انسان بے بسی کی صلیب تک پہنچااور خدا سے کھانا ختم ہونے کی شکایت کی اور اس عذاب سے نکلنے کی استدعا کی۔
انتظار۔۔ اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کا انتظارکرتا رہا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ بھوک موت کا نوالہ ہونے کو تھی کہ مینہ برسا اور یوں برسا کہ ہر سو پھر سے سبزہ ہوگیا اور انسان بہت خوش ہوا کہ خدانے اس کی سن لی ۔ دھیرے دھیرے موسموں اور آفات کے تازیانوں نے انسان کو فصلیں بونا سکھا دیااور جب انسان کی لگائی فصل پک کر تیار ہوئی تو بادل گھر گھر کر آئےاور لگاتار برسنے لگے، برستے رہے برستے رہے یہاں تک کہ فصلوں کی جڑیں ننگی ہو گئیں اور آہستہ آہستہ غیر معلوم انداز میں صدیوں کی ریاضت کے قدم زمین سے اکھڑنے لگے اور نشیب کی جانب بہنے لگے سوائے بے بسی کی صلیب کے سب کچھ بہہ گیا۔انسان ہکا بکا کھڑا رہ گیا۔
سب کچھ بہہ گیا تو بے بسی کی صلیب اور وزنی محسوس ہوئی بلکہ شاید وزنی سے زیادہ بے مصرف نظر آنے لگی۔انسان دو زانو ہوا اور خدا سے پھر فریاد کی کہ اے مالک میری غلطی، میرا قصور، میرا گناہ۔۔۔۔مگر آسمانوں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ انسان بہت آہ و بکاکے بعد اٹھا اور پھر سے اپنی مجبوریوں کا ہل سنبھالے زمین سے زندگی کی بھیک مانگنے لگا۔ موسم گزرا، پھر مزید موسم گزرے فصلیں جوان ہو کر انسان کے سر سے اونچی اٹھنے لگیں تو اس کے دل کو خوف کے سیاہ بادل گھیر کر بیٹھ گئے۔ انسان نے دل ہی دل میں خدا سے اس کے حصے کا وعدہ کر لیا۔ اس بار کچھ نہیں ہوا۔ انسان کو احساس ہوا کہ پچھلی بار غلطی اس کی اپنی تھی اس نے خدا کا حصہ نہیں نکالا تھا، آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔
بہت وقت سکون سے نکل گیاپناہ گاہ نے آہستہ آہستہ گھر کی شکل اختیار کر لی، اور گھر پھیل کر بستی بن گئے۔کھیت اور بستی بڑے ہوتے گئے اور جب فصلیں ضرورت سے زائد ہوئیں تو دیواریں اونچی ہونے لگیں، گودام بھرنے لگے اور بے بسی کی صلیب کو دیمک لگ گئی۔اورپھر ایک روز وہ ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ زلزلے ، سیلاب ، آندھی اور طوفان کی جگہ اب کی بار انسان آئے اور انسانوں کی فصل کاٹ کر چلتے بنے۔ لُٹے ہوئے انسان نے جب حملہ آوروں کے جانے کے بعد خود کو سمیٹنے کی کوشش کی تب تک بے بسی کی صلیب اس قدر وزنی )اور بے مصرف(ہو چکی تھی کہ وہ کوشش کے باوجود نہ اٹھ سکا۔ وہ بہت دیر تک معجزوں کے انتظار میں رہا، خاموشی سے کان لگائے کسی آواز کا منتظر ۔ لیکن آسمان سے خداوں کا کوئی جواب نہیں آیا۔۔۔ وہ اٹھا تو اس کے پاس اپنے قدم تھے اور کندھے ہر بوجھ سے آزاد۔
انسان کے انتظار کی حد آ گئی اور وہ پھر سے بے بسی کی صلیب اٹھائے چل پڑا۔ وعدوں اور امید کا مارا تھکا ہارا انسان جب زمین تک پہنچا تو وہ اسے جنت سے کہیں بڑھ کر دلچسپ معلوم ہوئی؛ دلچسپ اور مختلف بلکہ بہت مختلف، مرضی کی مالک ، پر اسرار اور خطر ناک۔وہ بے بسی کی صلیب اٹھائے جینے کی تگ و دو کرنے لگا مگر بے بسی کی صلیب وزنی ہوتی چلی گئی۔ اور جب انسان کو لگا کہ اس وزن کے ساتھ سانس لینا بھی دوبھر ہونے لگا ہےتو اس نے بصد احترام خدا کا سپرد کیا مقدس وزن اپنے کندھوں سے اتارا اور اونچائی پر نصب کردیا۔ پھر وہ بے حد ہلکا ہو کہ زمین میں بھاگتا پھرا، آزاد اور مطمئن۔ مگر یہ دور بھی جلد ہی ختم ہو گیا، بھوک قحط اور خشک سالی نے آگھیرااور انسان کی بھوک نے کسی مستقل حل کی فرمائش کردیا، سوچنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ انسان بے بسی کی صلیب تک پہنچااور خدا سے کھانا ختم ہونے کی شکایت کی اور اس عذاب سے نکلنے کی استدعا کی۔
انتظار۔۔ اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کا انتظارکرتا رہا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ بھوک موت کا نوالہ ہونے کو تھی کہ مینہ برسا اور یوں برسا کہ ہر سو پھر سے سبزہ ہوگیا اور انسان بہت خوش ہوا کہ خدانے اس کی سن لی ۔ دھیرے دھیرے موسموں اور آفات کے تازیانوں نے انسان کو فصلیں بونا سکھا دیااور جب انسان کی لگائی فصل پک کر تیار ہوئی تو بادل گھر گھر کر آئےاور لگاتار برسنے لگے، برستے رہے برستے رہے یہاں تک کہ فصلوں کی جڑیں ننگی ہو گئیں اور آہستہ آہستہ غیر معلوم انداز میں صدیوں کی ریاضت کے قدم زمین سے اکھڑنے لگے اور نشیب کی جانب بہنے لگے سوائے بے بسی کی صلیب کے سب کچھ بہہ گیا۔انسان ہکا بکا کھڑا رہ گیا۔
سب کچھ بہہ گیا تو بے بسی کی صلیب اور وزنی محسوس ہوئی بلکہ شاید وزنی سے زیادہ بے مصرف نظر آنے لگی۔انسان دو زانو ہوا اور خدا سے پھر فریاد کی کہ اے مالک میری غلطی، میرا قصور، میرا گناہ۔۔۔۔مگر آسمانوں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ انسان بہت آہ و بکاکے بعد اٹھا اور پھر سے اپنی مجبوریوں کا ہل سنبھالے زمین سے زندگی کی بھیک مانگنے لگا۔ موسم گزرا، پھر مزید موسم گزرے فصلیں جوان ہو کر انسان کے سر سے اونچی اٹھنے لگیں تو اس کے دل کو خوف کے سیاہ بادل گھیر کر بیٹھ گئے۔ انسان نے دل ہی دل میں خدا سے اس کے حصے کا وعدہ کر لیا۔ اس بار کچھ نہیں ہوا۔ انسان کو احساس ہوا کہ پچھلی بار غلطی اس کی اپنی تھی اس نے خدا کا حصہ نہیں نکالا تھا، آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔
بہت وقت سکون سے نکل گیاپناہ گاہ نے آہستہ آہستہ گھر کی شکل اختیار کر لی، اور گھر پھیل کر بستی بن گئے۔کھیت اور بستی بڑے ہوتے گئے اور جب فصلیں ضرورت سے زائد ہوئیں تو دیواریں اونچی ہونے لگیں، گودام بھرنے لگے اور بے بسی کی صلیب کو دیمک لگ گئی۔اورپھر ایک روز وہ ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ زلزلے ، سیلاب ، آندھی اور طوفان کی جگہ اب کی بار انسان آئے اور انسانوں کی فصل کاٹ کر چلتے بنے۔ لُٹے ہوئے انسان نے جب حملہ آوروں کے جانے کے بعد خود کو سمیٹنے کی کوشش کی تب تک بے بسی کی صلیب اس قدر وزنی )اور بے مصرف(ہو چکی تھی کہ وہ کوشش کے باوجود نہ اٹھ سکا۔ وہ بہت دیر تک معجزوں کے انتظار میں رہا، خاموشی سے کان لگائے کسی آواز کا منتظر ۔ لیکن آسمان سے خداوں کا کوئی جواب نہیں آیا۔۔۔ وہ اٹھا تو اس کے پاس اپنے قدم تھے اور کندھے ہر بوجھ سے آزاد۔