[blockquote style=”3″]
نثری نظم اور اس پر بحث اب کوئی نیا موضوع نہیں رہا۔ تمام تر مخالفتوں کے باوجود اب یہ ایک باقاعدہ اور مستحکم صنفِ سخن ہے اور زیادہ تر ادبی جرائد اسے اہتمام سے شائع کرتے ہیں، کچھ “نثری نظم” کے نام سے الگ صنفِ سخن کے تحت اور کچھ اسے “نظم” کے خانے میں رکھتے ہیں یعنی پابند، آزاد اور معریٰ نظم کے ساتھ ۔ لیکن اس کے باوجود کچھ ایسے ادبی رسائل بھی ہیں جن کے مدیران سرے سے اسے تسلیم ہی نہیں کرتے اور نہ اپنے رسائل میں شائع کرتے ہیں۔ گزشتہ چالیس سالوں کے دوران نثری نظم پر بہت بحث ہو چکی ہے، متعدد مضامین، طویل اور جامع مقالہ جات لکھے جا چکے ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ اب اس موضوع پر کوئی نئی بات کرنا، نئے جوازات تلاش کرنا اور نئے مباحث ابھارنا مشکل ہے۔ اب تو اس کے جواز پر کچھ کہنے کی بجائے اس پر عملی تنقید کی ضرورت ہے۔ البتہ کچھ عرصہ پہلے تک صورتِ حال مختلف تھی اور اردو میں آزاد اور معریٰ نظم کے ہوتے ہوئے نثری نظم کو اپنا جواز فراہم کرنے میں بڑی دشواریاں حائل تھیں۔ راقم نے “تسطیر” جنوری،1998ء میں “نثری نظم کا تخلیقی جواز” کے عنوان سے ایک مختصر مگر جامع اداریہ تحریر کیا تھا۔ اس اداریے پر نہ صرف “تسطیر” کے اگلے کئی شماروں میں طویل بحث ہوئی بلکہ تسطیر سے باہر بھی عرصہ تک اس کی گونج سنائی دیتی رہی اور اس کے حوالے سے دیگر ادبی جرائد میں بھی مضامین لکھے گئے۔ اس بحث میں اردو کے کم و بیش تمام اہم اور مقتدر شاعروں، ادیبوں نے حصہ لیا تھا۔ چند سال پہلے جب اکیڈمی ادبیات نے “ادبیات” کا نثری نظم نمبر شائع کیا تو اس کے لیے راقم کو تسطیر میں نثری نظم پر ہونے والی سارے مباحث کو مرتب کرنے کے لیے کہا گیا۔ ان مباحث کی ضخامت سو سے زائد صفحات تھی۔ افسوس کہ کسی “نامعلوم” وجہ کے باعث وہ یکجا کی گئی ساری بحث شائع نہ ہو سکی اور اکیڈمی کے کارپردازوں نے آج تک اس کا مسودہ بھی واپس نہیں کیا۔ یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے “تسطیر” کا اداریہ، چند معمولی ترامیم کے ساتھ، پیش ہے جو آج بھی نثری نظم سے متعلق بنیادی مباحث سے پوری طرح متعلق ہے۔ تاہم واضح رہے کہ یہ 1998ء میں ایک مدیر کی حیثیت سے لکھا گیا ایک مجموعی صورتِ حال کا جامع اظہاریہ تھا اور اِس کو اسی تناظر میں پڑھا جائے۔۔۔۔ نصیر احمد ناصر
[/blockquote]
نثری نظم کے شجرہ نسب کی جڑیں دنیا کے قدیم ادب سے ملتی ہیں۔ بہت سی دیومالائیں، لوک داستانیں اور قبل مسیح کے طویل رزمیے اپنے شاعرانہ آہنگ، ہیئت اور اسلوب میں نثری نظم کے قریب تر ہیں۔ قدیم ویدوں اور سنسکرت ادب سے بھی اس کے ڈانڈے ملائے جاتے ہیں۔ مغرب میں نثری نظم کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا۔ ابتداْ فرانس میں اور بعدہ امریکہ میں اسے بہت فروغ حاصل ہوا۔ اردو میں مختلف ہیئتوں اور ناموں سے نثری نظم کی مثالیں بیسویں صدی کی تیسری دہائی سے ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک ادبی تحریک کے طور پر اس کا باقاعدہ آغاز ساٹھ کی دہائی سے ہوا۔ لیکن لگ بھگ تین دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی نثری شاعری کا یہ تجربہ اردو شعریات میں کسی واضح قبولیت کے مقام تک نہ پہنچ سکا اور ماسوا چند تخلیق کاروں کی ذاتی کاوشوں کے نثری نظم کا “دورِ اول” بالعموم کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکا۔ اس کی بڑی وجہ غالبْا سکہ بند قسم کی ادبی تحریکوں کے خلاف ردعمل اور اردو کی شعری روایات سے یک دم اور یکسر بغاوت تھی۔ اس کے علاوہ اس دور کے نثری نظم نگاروں کی ضرورت سے زیادہ جدت و تجردپسندی، مغرب پرستی اور شعری کیفیات و تجربات کو داخلی صاف گری کے عمل سے گزارے بغیر خام شکل میں پیش کر دینے والا تلخ رویہ بھی اس صنف کی ابتدائی ناکامی کا سبب بنا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ، جہاں نثری نظم کو یہاں تک فروغ حاصل ہے کہ بعض یونیورسٹیوں میں ادب کے طلبا کو رائم لکھنے سے منع کیا جاتا ہے، وہاں بھی یہ صنف ابھی تک ردوقبول ہی کے مرحلے میں ہے۔ اس کا اندازہ بعض امریکی جرائد کے اداریوں اور تحریروں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
نثری نظم کے شجرہ نسب کی جڑیں دنیا کے قدیم ادب سے ملتی ہیں۔ بہت سی دیومالائیں، لوک داستانیں اور قبل مسیح کے طویل رزمیے اپنے شاعرانہ آہنگ، ہیئت اور اسلوب میں نثری نظم کے قریب تر ہیں۔
گزشتہ دس پندرہ برسوں سے اردو نثری نظم ایک نئے فنامنا سے گزر رہی ہے۔ اسے نثری نظم کا “دورِ ثانی” بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس بار میدانِ قرطاس میں زیادہ تر وہ شعرا ہیں جو جدید تر شعری حسیات اور عصری ادبی شعور رکھنے کے ساتھ ساتھ اردو کی کلاسیکی شعری روایات سے بھی مربوط و منسلک ہیں اور فنِ شعر گوئی یعنی اوزان و بحور پر بھی گرفت رکھتے ہیں۔ نثری نظم نگاروں کی اس کھیپ کی شعری ترجیحات و ترغیبات کسی خاص ادبی تحریک کے تابع یا خلاف نہیں بلکہ ادب کے ان جدید اور پس جدید متنوع تخلیقی رویوں سے عبارت ہیں جو اس صنف میں نت نئے اسالیب اور موضوعات کے اضافے کا باعث ہیں۔ بلاشبہ اس زمرے میں وہ شعرا اور نارسیدہ و ناپختہ کار خامہ فرسا شمار نہیں کیے جا سکتے جو اردو کی شعری و عروضی روایات سے آگاہی حاصل کیے بغیر الٹی سیدھی سطروں میں سطحی اور خام شعری مواد کو نثری نظم یا نظم کے نام سے پیش کر دیتے ہیں۔
دراصل احساسات و خیالات کے بہاؤ کو محض شعوری طور پر کسی مخصوص سانچے میں ڈھالنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسا کرنے سے تخلیق کی خوبصورتی، بے ساختگی اور بین السطور بہنے والی اداسی اور آگہی کی رو متاثر ہوتی ہے۔ دراصل ہر نظم اپنی ہیئت یا ساخت خود لے کر آتی ہے۔ تخلیق کے بعد اس کی تراش خراش تو کی جا سکتی ہے لیکن تخلیقی عمل کے دوران اسے زبردستی “نظم” یا “نثری نظم” نہیں بنایا جا سکتا۔ نثری نظم کہنا ایسا آسان بھی نہیں جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں اور نہ نثری نظم کے نام پر شائع ہونے والی چھوٹی بڑی چند سطروں پر مشتمل ہر تخلیق کو نثری نظم کہا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے گہرے تہذیبی شعور، آگہی، عرفان ذات، جدید طرز احساس، عمیق مطالعے، مشاہدے، ریاضت، تخلیقی مزاج کی موزونیت اور علامتوں، استعاروں، تشبیہوں اور پیکروں کے پیچیدہ مگر قابل فہم نظام کے علاوہ نامیاتی وحدت اور پسِ الفاظ اور بین السطور ایک اندرونی آہنگ جیسے لوازمات درکار ہوتے ہیں۔
دراصل ہر نظم اپنی ہیئت یا ساخت خود لے کر آتی ہے۔ تخلیق کے بعد اس کی تراش خراش تو کی جا سکتی ہے لیکن تخلیقی عمل کے دوران اسے زبردستی “نظم” یا “نثری نظم” نہیں بنایا جا سکتا۔
اردو نثری نظم پر اب تک کئی مباحثے و مکالمے ہو چکے ہیں اور طویل مضامین رقم کیے گئے ہیں جن میں اس کے نام، پس منظر، مزاج، آہنگ، علامتی و استعاراتی نظام، فنی و فکری جواز اور شناخت پر تفصیل دار بحث کی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایک اہم سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ بعض شعرا اظہار کے مختلف سانچوں مثلاْ غزل، پابند نظم، معری نظم، آزاد نظم اور دیگر اصنافِ سخن پر قدرت رکھتے ہوئے بھی نثری نظم کب اور کیوں کہتے ہیں۔ میرے خیال اور تجربے کے مطابق نثری نظم اس وقت سرزد ہوتی ہے جب تخلیقی اداسی اور آگہی انسانی بس سے باہر ہو کر وجود کی حدیں پار کرنے لگتی ہے اور شاعری کے مروج پیمانے یا سانچے اس کے اظہار کے لئے ناکافی ہو جاتے ہیں۔ شاید انسان کی ازلی و ابدی تنہائی کسی ایسے شعری نظام اور لسانی آہنگ کی متقاضی و متلاشی ہے جسے ابھی تک دریافت نہیں کیا جا سکا۔ شاید نثری نظم اظہار کی اسی بے بسی کا غیر مرئی تخلیقی جواز ہے۔
نثری نظم کو پاک و ہند کے مختلف مکاتب فکر نثری نظم، نثر لطیف، نثرین، نثم، نثر پارے، نثرانے، نثمانے، نظم کہانی، نظمیے، امکانات وغیرہ کے نام سے قبول کرتے اور اپنے اپنے رسائل میں شائع کرتے ہیں۔ بیشتر اسے نظم کے خانے ہی میں رکھتے ہیں۔ گویا اس صنف میں اظہار پر تو کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے نام کا مسئلہ درپیش ہے۔ کچھ مکاتب فکر ایسے بھی ہیں جو اپنے افکار و نظریات میں جامد یا بہت زیادہ قدامت پسند ہونے کے باعث اس صنف کو اب تک تسلیم نہیں کرتے۔ یہ رویہ بھی ادبی اعتبار سے قابلِ تحسین نہیں۔ تاہم یہ احتیاط برحق ہے کہ نئی نسل کی شعری تربیت اور نصابی ضرورت کے تحت نثری نظم کو معری اور آزاد نظم سے الگ رکھا جائے۔
شعروادب کا ماخذ چاہے کسی بھی زبان سے نسبت رکھتا ہو، حتمی تخلیقی معیار کی قدر و تعین کے لئے اسے با لآخر اسی زبان کے حوالے سے دیکھا اور پرکھا جانا چاہیئے جس میں وہ تخلیق کیا گیا ہو۔
شعروادب کا ماخذ چاہے کسی بھی زبان سے نسبت رکھتا ہو، حتمی تخلیقی معیار کی قدر و تعین کے لئے اسے با لآخر اسی زبان کے حوالے سے دیکھا اور پرکھا جانا چاہیئے جس میں وہ تخلیق کیا گیا ہو۔ چنانچہ اردو نثری نظم کو بھی سنسکرت، ہندی، فرانسیسی اور انگریزی زبان و ادب کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے، اردو زبان کی کٹھالی میں پگھلا کر، اسے اپنے سانچوں میں ڈھال کر دیکھنا ضروری ہے۔ اردو نثری نظم ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کے عبوری دورانیے (دورِ اول) سے گزر کر اب اس مقام پر ہے جہاں اس کے ماخذات اور اس میں اولیت جیسے نزاعی معاملات ضمنی نوعیت کے رہ جاتے ہیں اور تخلیقیت زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔ با لخصوص بیسویں صدی کی آخری دہائی میں تخلیق ہونے والی اردو نثری نظم اپنی ہیئت، اسلوب، موضوعات، زبان و بیان، لفظیات، کثیر معنویت، حساسیت اور عصر آفرینی کے اعتبار سے ارتقا اور خود مختاری کی روشن دلیل ہے۔ جو لوگ اسے کلیتہْ رد کرتے ہیں وہ دراصل اپنی شعری و ادبی نارسائی کا اظہار کرتے ہیں۔ یقیناْ دیگر اصناف ادب کی طرح اس میں بھی رطب و یابس اور ناشاعری در آئی ہو گی، اہل نقد و نظر کو چاہیئے کہ وہ ژرف نگاہی سے کام لیتے ہوئے اس کی چھان پھٹک کریں اور اس کی صحیح شعرات ترتیب دیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وسیع تر تخلیقی امکانات کی حامل اس صنف سخن پر کوئی سنجیدہ اور متفقہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے، اس کی ارتقائی پیش رفت کو تسلیم کرتے ہوئے برسوں پہلے کے عبوری خیالات و نظریات پر نظر ثانی کی جائے اور اسے برزخ کے عالم سے نکالا جائے۔
(نصیر احمد ناصر، اداریہ تسطیر، جنوری 1998)