پہلی پاکستان سوپر لیگ نہایت کامیابی سے اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ آج کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور اسلام آباد یونائٹڈ کے درمیان لیگ کا فائنل مقابلہ کھیلا جانے والا ہے۔ پی ایس ایل کے انعقاد سے نہ صرف پاکستانی کرکٹ کے بہت سے مثبت پہلو سامنے آئے ہیں بلکہ شائقین کو بھی اچھی کرکٹ دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ کوئٹہ میں تو کافی عرصے بعد لوگ مسلک اور برادری سے بالاتر ہوکر کوئٹہ کی جیت کے لئے دعا گو ہیں اور سننے میں یہ آیا ہے کہ کوئٹہ کے بگٹی سٹیڈیم میں میچ کی سکریننگ کرنے کا انتظام بھی کیا گیا ہے جو کوئٹہ میں کرکٹ کے فروغ کے لئے سودمند ثابت ہو گا۔

کوئٹہ میں تو کافی عرصے بعد لوگ مسلک اور برادری سے بالاتر ہوکر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی جیت کے لئے دعا گو ہیں
لیگ کے شروع ہونے سے پہلے کوئٹہ کی ٹیم کو ایک کمزور ٹیم قرار دیا جا رہا تھا لیکن ان کی بہترین کارکردگی اور پشاور کی ٹیم کے لیگ سے باہر ہونے کی وجہ سے فائنل کے لئے کوئٹہ کو ہی فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے (پلے آفز تک گراؤنڈ میں سب سے زیادہ پشاور ٹیم کے مداح اور شائقین موجود ہوتے تھے)۔ لیکن اسلام آباد کی ٹیم بھی مسلسل چار میچ متاثرکن انداز میں جیت چکی ہے جس سے ان کے جیتنے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔ ٹی ٹونٹی، محدود اوورز پر مشتمل فارمیٹ ہے اس لیے ایک روزہ مقابلوں اور ٹیسٹ میچز کی نسبت اس میں کھیل کا پانسہ چند گندوں میں بھی پلٹ سکتا ہے، ایک اچھا اوور لمحوں میں میچ کا رخ پلٹ سکتا ہے اسی لئے دونوں ٹیموں کو جیتنے کے لئے میچ کی دونوں اننگز کے پورے چالیس اوورز میں جارحانہ کھیل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ میری تمام تر ہمدردیاں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم کے ساتھ ہیں لیکن مصباح الحق کا مداح ہوتے ہوئے میرے دل میں اسلام آباد یونائٹیڈ کے لئے بھی نیک خواہشات ہیں۔ دونوں ٹیموں کی کارکردگی اور کھلاڑیوں کو نظر میں رکھتے ہوئے یہاں دونوں ٹیموں کا موازنہ کیا جارہا ہے:

مصباح الحق بمقابلہ سرفراز

ٹی ٹونٹی کی مقبولیت کی جب بھی بات آئے گی تو پہلے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے فائنل کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا اور مصباح کا نام بھی یاد رکھا جائے گا۔ ان کی آخری شاٹ دنیائے کرکٹ کے جدید دور کا سب سے معنی خیز لمحہ (مگر پاکسانیوں کے لئے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح) ثابت ہوا اور آئی پی ایل کے آغاز کا سبب بنا۔ گو مصباح ایک بہترین کپتان ہوتے ہوئے بھی پاکستان کو ایک روزہ ورلڈ کپ نہیں دلا سکے ہیں لیکن انہوں نے پاکستان ٹیم کی قیادت اس وقت کی جب ٹیم چاروں طرف سے مشکلات کا شکار تھی اور انہوں نے یہ کام بخوبی انجام دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اپنی ٹیم کو ٹائٹل دلانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں۔

پچھلے ایک روزہ ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کے جن دو کھلاڑیوں کو سب سے زیادہ سراہا گیا ان میں ایک سرفراز احمد تھے (دوسرا کھلاڑی وہاب ریاض تھا)۔ آج کے دور میں سب سے خوبصورت سویپ شاٹ کھیلنا بھی سرفراز کے کھیل کا حصہ ہے۔ ان کی قیادت کے بارے میں کیون پیٹرسن کہتے ہیں کہ وہ بہت ہی اچھے کپتان ہیں جو دوسری ٹیم کے دیے گئے مواقع اور غلطیوں سے استفادہ کرنا جانتے ہیں اور پوری ٹیم کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ سرفراز اس وقت قومی ٹیم کے نائب کپتان ہیں اور مستقبل میں ایک اچھے کپتان ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ فائنل ایک سابق کپتان اور ایک مستقبل کے کپتان کا مقابلہ ہے۔

وسیم اکرم اور ڈین جونز بمقابلہ ویوین رچرڈز اور معین خان

سرفراز اس وقت قومی ٹیم کے نائب کپتان ہیں اور مستقبل میں ایک اچھے کپتان ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ فائنل ایک سابق کپتان اور ایک مستقبل کے کپتان کا مقابلہ ہے۔
وسیم اکرم کو ان کی بہترین باؤلنگ کی وجہ سے سوئنگ کا سلطان بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنے دور میں دوسرے گیند بازوں کی رہنمائی کی ہے بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پاکستانی اور غیر ملکی گیند بازوں کو گر سکھانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ محمد سمیع، محمد عرفان اور آندرے رسل جیسے باؤلر ان کی زیر نگرانی حریف بلے بازوں کو مشکلات سے دوچار کرسکتے ہیں۔ ڈین جونز نے ایک روزہ کرکٹ میں تیز رفتار بلے بازی اور تیزی سے رنز کرنے کی روایت ڈالی۔ بطورِ بلے باز انہوں نے ہمیشہ دباو میں ٹیم کے لئے کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جس کی مثال مدراس(موجودہ چِنائی) میں بھارت کے خلاف ان کی ڈبل سینچری ہے جس میں وہ ڈی ہائڈریشن کا شکار ہوتے ہوئے بھی اعلٰی کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہوئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اسلام آباد کے بلے بازوں کی بیٹنگ پر کتنے اثرانداز ہوتے ہیں۔

سر ویوین رچرڈز کی تعریف کے لئے اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ وِزڈن (کرکٹ کی بائبل) نے انہیں گزشتہ صدی کے پانچ عظیم ترین کرکٹرز میں شامل کیا تھا۔ ویوین نے پہلے کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں تین کھلاڑیوں کو رن آؤٹ کرکے ورلڈ کپ ویسٹ انڈیز کے نام کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور دوسرے ورلڈ کپ کے فائنل میں سینچری سکور کرکے ویسٹ انڈیز کی جیت کو یقینی بنایا۔ سر ویوین رچرڈز کی موجودگی نے کوئٹہ کے کھلاڑیوں کے حوصلے بلند کئے ہیں اور جس طرح ہر جیت کے بعد وہ خوشی مناتے ہیں ایسا لگتا ہے وہ کوئٹہ کی ٹیم کو جتا کر ہی رہیں گے۔ دوسری جانب معین خان بھی ایک اچھے کوچ کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔ دنیا میں اگر سرفراز سے بہتر کوئی سویپ شاٹ کھیل سکتا تھا تو وہ معین خان تھے اور اس لحاظ سے انہوں نے نئے بلے بازوں کی کافی مدد کی ہے۔

شرجیل خان بمقابلہ احمد شہزاد

شرجیل تادم تحریر پی ایس ایل میں سینچری بنانے والے واحد بلے باز ہیں جنہوں نے اپنی جارحانہ بیٹنگ سے پشاور کی ٹیم کو اکیلے ہی لیگ سے باہر کر دیا۔ انہوں نے پچھلے میچ میں ٹیم کے مجموعی سکور کا تقریباً 70 فیصد اکیلے ہی سکور کیا۔ اب تک لیگ میں سب سے زیادہ چھکے بھی انہوں نے ہی لگائے ہیں۔ اگر وہ فائنل میں پچاس تک سکور بنا لیتے ہیں تو وہ لیگ میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ سکور کرنے والے کھلاڑی بن جائیں گے۔ دوسری جانب احمد شہزاد پچھلے کچھ عرصے سے فارم میں نظر نہیں آرہے ہیں لیکن سر ویوین رچرڈز کے باعث اس کا اعتماد دوبارہ بحال ہوا ہے۔ جس رفتار سے وہ بیٹنگ کرتے ہیں اگر وہ پانچ، چھ اوورز تک کریز پر موجود رہے تو کوئٹہ کی ٹیم ایک بڑا سکور کرنے یا ایک بڑے ہدف کے تعاقب میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

سنگاکارا اور پیٹرسن بمقابلہ ہیڈن اور سمتھ

شرجیل تادم تحریر پی ایس ایل میں سینچری بنانے والے واحد بلے باز ہیں جنہوں نے اپنی جارحانہ بیٹنگ سے پشاور کی ٹیم کو اکیلے ہی لیگ سے باہر کر دیا۔
سنگاکارا اور پیٹرسن کی موجودگی سے کوئٹہ کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے لیکن ہیڈین اور سمتھ کی بلے بازی کے اندازِ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ فائنل میں کوئٹہ ٹیم کے جیتنے کا دارومدار سنگاکارا اور پیٹرسن کی بیٹنگ پر ہے۔

آندرے رسل اور عمران خالد بمقابلہ گرنٹ ایلیٹ اور محمد نواز

محمد نواز نے پی ایس ایل کے پہلے ہی میچ میں مین آف دی میچ جیت کر اپنے موجودگی کا احساس دلا دیا تھا۔ ایلیٹ نے ذوالفقار بابر کی مدد سے ٹی ٹونٹی کی تاریخ میں دسویں وکٹ کی شراکت میں سب سے زیادہ سکور بنائے ہیں۔ سرفراز نے ان دونوں کا بطورِ باؤلر اچھا استعمال کیا ہے اور بیٹنگ میں بھی دونوں فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں۔ دوسری جانب عمران خالد اور آندرے رسل بھی جمے ہوئے بلے بازوں کی شراکت توڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ضرورت پڑنے پر آندرے رسل ایک اچھے بلے باز بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔

ذوالفقار بابر بمقابلہ سعید اجمل
سعید اجمل اور ذوالفقار بابر دونوں ہی نہایت تجربہ کار کرکٹرز ہیں اور دونوں نے ہمیشہ مل کر پاکستان کو ٹیسٹ میچز جتائے ہیں لیکن آج وہ ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گے۔ باولنگ ایکشن رپورٹ ہونے اور فارم میں نہ ہونے کی وجہ سے سعید اجمل کو پچھلے چند ماہ کرکٹ سے دور رہنا پڑا، پی ایس ایل کے بھی گزشتہ چند میچوں میں نہیں کھلایا گیا ہے لیکن عین ممکن ہے کہ انہیں فائنل میں جگہ مل جائے اور وہ اپنی ٹیم کو جتانے میں کامیاب ہوجائیں لیکن ذوالفقار بابر کی موجودگی بھی اسلام آباد کی ٹیم کے لئے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔

محمد سمیع اور محمد عرفان بماابلہ انور علی اور عمر گل

میرے نزدیک کوئٹہ کی ٹیم یہ فائنل جیتنے کے لیے زیادہ بہتر امیدوار ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ میچ کے نتیجے سے قطع نظر اس فائنل میں جیت صرف پاکستان اور پاکستان کرکٹ کی ہو گی۔
جن لوگوں نے پاکستان کو ٹی ٹونٹٰی ورلڈ کپ جیتتے ہوئے دیکھا ہے انہیں عمر گل کی شاندار باؤلنگ کا پتہ ہوگا۔ عمر گل ایک اوور میں چھ یارکر کرنے والا شاید دنیا کا واحد باؤلر ہو۔ عمر گل کو پچھلے کچھ میچوں میں نہیں کھلایا گیا ہے مگر میری خواہش ہے کہ اسے فائنل میں موقع دیا جائے تاکہ وہ کوئٹہ کو ٹائٹل جتوانے میں کامیاب ہوجائے۔ انور علی نے بھی شاندار باؤلنگ کی ہے اور حریف ٹیموں کے افتتاحی بلے بازوں کو پریشان کئے رکھاہے۔ دوسری جانب محمد عرفان نے اپنے لمبے قد اور پچ کے باؤنس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسری ٹیموں کے بلے بازوں کو پریشان کیا ہے۔ اور ساتھ ہی محمد سمیع نے جوکہ کافی عرصے بعد منظرِ عام پرآئے ہیں، اچھی باؤلنگ کی ہے اور کراچی کے خلاف پانچ کھلاڑی پویلین بھیج کر اپنے انتخاب کا حق ادا کیا ہے۔

ٹیم بمقابلہ افراد

پشاور اور اسلام آباد کے میچ کے دوران ٹینس کے مشہور پاکستانی کھلاڑی اعصام الحق نے ٹینس اور کرکٹ کے فرق کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ٹینس میں صرف ایک فرد کی کامیابی ہی لازمی ہوتی ہے جبکہ کرکٹ میں فتح کے لئے پوری ٹیم کو متحد ہوکر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ پی ایس ایل کے فائنل کا فیصلہ بھی اسی بنیاد پر ہوگا۔ انفرادی طور پر اسلام آباد کے کھلاڑی کوئٹہ کے کھلاڑیوں سے بہتر ہے لیکن کوئٹہ کی ٹیم نے بطورِ ٹیم کھیلنے کی کوشش کی ہے اور اسی وجہ سے کامیاب ہوئے ہیں۔ اسلام آباد کے کھلاڑی زیادہ چھکے مارنے، زیادہ سکور کرنے، بہترین باؤلنگ فیگرز میں پیش پیش ہیں لیکن سب سے کم مارجن سے جیتنے اور مجموعی طور پر سب سے زیادہ سکور کرنے والی ٹیم کوئٹہ کی ہے۔ آج کے فائنل میں پتہ چل جائے گا کہ ٹیم جیتے گی یا انفرادی کارکردگی۔ دونوں صورتوں میں ایک دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔ میرے نزدیک کوئٹہ کی ٹیم یہ فائنل جیتنے کے لیے زیادہ بہتر امیدوار ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ میچ کے نتیجے سے قطع نظر اس فائنل میں جیت صرف پاکستان اور پاکستان کرکٹ کی ہو گی۔

Leave a Reply