روز کی طرح آج بھی ماسٹر بدری ناتھ صاحب تشنہ کی بیٹھک پر ان کے شاگرد اور دیگر اہلِ محلہ جمع تھے اوران کے کلامِ تازہ اور حُقے سے لُطف اندوز ہو رہے تھے کہ دارا پٹھان گانجا فروش آدھمکا؛
‘‘اُستاد صاحب! سُنتے ہو؟ آج آپ کے شاگرد خسرو طلعت کی سگائی کی رسم میں اُن کے سُسر اورمیر مُلا میں خوب ٹھنی، تلواریں کھنچ گئیں، خیر گزری کہ چلی نہیں’’
‘‘کیوں؟ کس لئے بچے کی سگائی بے مزہ کر دی میر مُلا نے؟’’
‘‘میر مُلا نے کہاں بد مزہ کی، میرزا عماد الدین نے میر خسرو سے اپنی بیٹی بیاہنے سے ہی انکار کر دیا ہے’’
‘‘جنم جنم کے کم بخت، نام بختاور سنگھ۔۔۔ بے چارہ میر خُسرو طلعت۔۔۔’’
اُستاد صاحب نے کہا تو سامعین مسکرائے۔
‘‘یہ صاحبزادہ جس روز مدرسے داخل ہوا تھا، اس روز مدرسے کی چھت گر گئی تھی’’
اُستاد نے اپنا ٹیڑھا ہاتھ دکھاتے ہوئے کہا تو سامعین محفل نے یوں بے ساختہ قہقہہ لگایا گویا یہ واقعہ بھی پہلی بار سُن رہے ہوں۔ میر خُسرو کا تو نام ہی بختاور سنگھ پڑگیا، بعد میں فقط ‘بختو’ رہ گئے۔
میر صاحب دلی کے محلہ سیدواڑہ میں جمعدار میر ابوالمعالی مہابت جنگ کے ہاں پیدا ہوئے جوکہ محبوب علی خاں نظام دکن کے توپ خانے میں بڑے یگانہ روزگار اور نام ورتوپچی تھے۔ جمعدار صاحب ان کے اوائلِ عمر ہی میں وفات پاگئے تو میر بختو اپنی والدہ کے ہمراہ اپنی ننھیال آرہے جو کہ دریبے میں تھی۔ یہاں ماموں میر مُلا کے ہاں پروان چڑھے جو کہ اپنے زہد و تقویٰ ، نجابت اور بددماغی کی وجہ سے بڑے معزز تھے۔ میر بختُو مدرسے کی عُمر کو پہنچے تو دریبے کے سب سے اچھے مدرسے میں داخل کروائے گئے لیکن جس روز مدرسے میں قدم رکھا، اتفاق سے مدرسے کی چھت آن گری۔ اسے بد شگونی قرار دے کر دوسرے مدرسے میں جابٹھایا تو سؤ اتفاق کہ پہلے ہی روز اس میں وہ آگ لگی کہ مدرسہ جل کر خاکستر ہو گیا۔ کسی دشمن نے کہ دیا کہ میر خسرو طلعت اپنے نام کے بر عکس واقع ہوئے ہیں، میرصاحب کی ماں نے بات دل پر لے لی اور پھر انہیں کبھی مدرسے نہ بھیجا، لیکن پڑھی لکھی خاتون تھیں، گھر میں مدرسے سے اچھی تعلیم دی۔
میر صاحب کو بچپن سے ایک ہی سودا سوار تھا ۔ اقارب سے اپنے والد مرحوم کے کمال و ہنر کا تو سُن رکھا تھا، والد سے انس بھی انہیں بے حد تھا ، پھر پیشۂ آبأ کسے نہیں بھاتا، ٹھان لی کہ والد معظم جمعدار میر ابوالمعالی کے سے اوجِ کمال کو پہنچیں گے۔ بچپن میں اپنے نانا کی جریب تھامے ، بندوق بنائے اپنے ہم سنوں کو ڈراتے پھرتے تھے اور لڑکپن میں تو لکڑی کی ایسی کھلونا توپ بنائی کہ اصل دِکھتی تھی جسے میِر مُلا سمیت سبھی نے بے حد سراہا اوررسالدار تفضل حسین خاں بہادر نے تو ایک رُپیہ انعام بھی کیا۔ سولہ سال سے کچھ اوپر کے ہوئے تو میر صاحب کی منگنی قرار پائی لیکن شومئی قسمت کہ منگنی کی شب لڑکی کے سرسام کا ایسا تھپییڑا لگا کہ جاں بر نہ ہو سکی۔ ایک سال بعد کہیں میرزا عماد الدین کی صاحب زادی سے نسبت طے پائی لیکن کسی دُشمن نے وہ کان بھرے کہ وہمی میرزا عمادالدین نے عین موقع پر میر صاحب کی کُنڈلی نکلوانے کا حُکم دے دیا۔ میر مُلا اس ہندوانہ چلن پر سخت سیخ پأ ہوئے اور شدید بد مزگی ہو گئی۔ قصہ مختصر میرزا عماد نے انکار کر دیا اور میر بختو کی والدہ نے وہ صدمہ دل پر لیا کہ چند ہی ماہ میں عدم سدھار گئیں۔
اب میر بختو کی زندگی کو ایک تکلیف دہ جمود کا سامنا تھا ، کوئی کام کرسکتے نہ کہیں دل لگتا۔ میر مُلا سمیت کئی رشتہ داروں کے مزاج بدل گئے اور میر صاحب تنہائی کے گرداب میں پھنس گئے۔ غم غلط کرنے کو ماسٹر بدری ناتھ صاحب المتخلص تشنہ کے ہاں شاعری میں شاگرد ہو گئے۔ طبع بھی موزں تھی لیکن شعر نہ کہہ سکے۔ خُدا اپنے بے یارومونس لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑتا۔ قدرت نے رسالدار تفضل حسین خاں بہادر کی لڑکی رخشندہ بانو کے دل میں میر صاحب کے لئے مہرومحبت کے لالہ و گل اُگا دیئے۔ اگرچہ میر صاحب واجبی سی شکل و صورت رکھتے تھے، ننھالیوں کی طرح لمبے اور گورے چٹے لیکن دُبلے پتلے سے تھے۔ ہنستے تو گالوں پر دو لمبی جھریاں پڑ جاتیں جنہیں وہ نہرِ ذقن کہہ کر خوش ہو لیتے۔ رخشندہ بانو نے ان کے ولولوں اور مزاج کی گمشدہ رعنائیوں کو ازسرِ نو زندہ کردیا۔ تب میر صاحب نے پہلی بار کوئی ایسی غزل کہی کہ ماسٹر صاحب سُن کر پھڑک اُٹھے ، فرمایا:
‘‘دیکھو اب رعنائیِ خیال تمہارے کلام میں عود کر آئی ہے، کس شخص کا تصور در آیا ہے؟’’
میر مُسکرائے؛ ‘‘بس اُستادِ معظم، ایک بنتِ حوا ہے جو ابنِ مریم بن کر آئی ہے’’
ماسٹر جی بھی ہنس دیئے کہ لونڈا صنائع بھی سیکھنے برتنے لگا ہے۔ اب تک میر صاحب کا دل کاروبارِ حیات سے ایسا اُٹھ چکا تھا کہ انہیں اپنا سپہ گری کا شوق بھی پہلے کی طرح بے چین نہ کرتا تھا لیکن اس ‘رسالدار زادی’ نے جہاں میر صاحب کو نئی زندگی دی ، وہاںان کے شوق کو بھی زندہ کر دیا ۔ اُسی کے کہنے پر ہی میر صاحب اپنا شجرۂ نسب اور والد کے کاغذات لے کر دکن کے انگریز کپتان صاحب سے بھرتی کی سفارش حاصل کرنے روانہ ہوئے جو کہ میر ابوالمعالی کے واقف کار تھے۔ قدرت کو اب کچھ اور ہی منظور تھا کہ جس روز میر صاحب دکن پہنچے، کپتان برنابی صاحب بہادر ملکِ سندھ کی کسی ولائیت کو جا چکے تھے۔ میر دلگیر واپس آئے اور بہت آزردہ ہوئے۔ رخشندہ بانو نے حوصلہ افزائی کا خط بھیجا اوران سے وعدہ لیا کہ اب ہرگز رنجیدہ نہ ہوں گے، اور اب کے دلی چھوڑیں گے تو پھر میر ابوالمعالی مرحوم کی طرح نامور سپاہی بن کر لوٹیں گے، رخشندہ بانو عمر بھر ان کا انتظار کرے گی۔
کئی دن گزرے تھے کہ میر صاحب گھر کے چھجے میں بیٹھے ، قلم تھامے، کاغذ پسارے، غزل کہنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن بات مطلع سے آگے نہیں بڑھ رہی تھی؛
ہرروز سنور بن کے ترا یاں سے گزرنا
ٹُک دیکھ ہمارا بھی کبھو جاں سے گزرنا
بہت دیر سوچا کئے لیکن جب کچھ نہ بن پڑا تو ناگواری سے کاغذ مروڑ ا اور چھجے سے نیچے پھینک دیا۔ اتفاق کہیئے یا میر صاحب کی بد بختی، کہ گلی میں ماسٹر بدری ناتھ کی لڑکی کاویری اپنی ہمجولیوں کے ساتھ حسبِ معمول بن ٹھن کر پوجا پاٹ کیلئے جا رہی تھی ۔ مطلع کاویری کے سامنے آ کر گرا تو اُس نے اُٹھا کر پڑھا، انہی قدموں پر واپس لوٹی اور مطلع باپ کے حوالے کردیا اور لگی پھسر پھسررونے۔ کاویری شریف لڑکی تھی اور لاڈلی بھی۔ ماسٹر صاحب تو وہ آگ بگولا ہوئے کہ لٹھ سنبھالی اور آدھمکے میر صاحب کے گھر۔ نیچے بُلوا کر میر بختو کی وہ خبر لی کہ کھال اُدھیڑ کر رکھ دی۔ میر صاحب حماقت کی حد تک نیازمند تھے، اپنی صفائی بھی بخوبی پیش نہ کر سکے ، شکا یت میر مُلا تک پہنچی تو آؤ دیکھا نہ تاؤ، گویا پہلے سے ہی عذر کی تلاش میں تھے، فوراً میر بختو کو گھر سے نکال دیا۔
گھنشام بابو میر صاحب کا بچپن کا یار تھا، انگریزی جانتا تھا جس وجہ سے ‘بابُو ’ مشہور تھا اور لاہور میں نوکر تھا۔ میر صاحب کی بے دخلی کی خبر سُنی تو گھنشام بابو نے انہیں ساتھ لیا اور لاہور روانہ ہو گئے۔ پورے سفر میں میر صاحب کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرتے رہے، جلا وطنی کے دکھ میں نہیں بلکہ اُس آخری پیغام پر جو رخشندہ بانو نے یہ خبر سُنتے ہی بھیجا تھا:
‘خُسرو طلعت! آپ بد بخت تو مشہور تھے ہی، لیکن بد نیت بھی ہیں، اس کی ہمیں خبر نہ تھی۔ شائد کاویری جی ہی آپ کے لائق تھیں،یہ باندی نہیں۔۔۔’
گھنشام بابو نے بہتیرا سمجھایا ، بہلانے کے حیلے کئے لیکن میر صاحب بجائے سلجھنے کے، اُلجھتے ہی جا رہے تھے۔ بات شکررنجی تک پہنچی تو لاہور سے پہلے ہی کسی ہالٹ پر ریل سے اُتر گئے۔ مغرب سے آنے والی کیس گاڑی میں سوار ہو ئے اور مُلکِ حیدرآباد کا قصد کیا۔حیدر آباد میں ایک سرائے میں آٹھہرے اور کچھ دنوں بعد یہاں سے میر صاحب نے گھنشام بابو کو خط لکھا اور معافی مانگی کہ ناحق دوست سے خفا ہوا۔ گھنشام بابو کا جواب آیا کہ رخشندہ بانو کے بیاہ کی خبریں ہیں اور وہ ہاپُڑ جانے والی ہے۔ انہیں بجا طور پر افسوس تھا کہ رخشندہ بانو نے انہیں کس عجلت سے ہرجائی سمجھ لیا تھا۔میر صاحب اور دلگرفتہ ہوئے۔
وہ حیدرآباد میں جس مہمان سرائے کے برآمدے میں پناہ گزین تھے، وہاں کسی نے انہیں بتایا کہ اورنگ آباد میں کپتان چارلس برنابی صاحب بہادر نے چند ماہ کیلئےتو پ خانے کی تربیت کی پلٹن کھڑی کی ہے اور رنگروٹ تیار کرکے ریاستی توپ خانوں میں بھیجیں گے۔ میر صاحب کو امید کی ایک کرن نظر آ ئی کہ شائد بھرتی کی کوئی راہ نکل آئے کیونکہ صاحب موصوف میر ابوالمعالی کے رفیق کار بھی تھے اور دوست دار بھی۔ میر ابوالمعالی اس دور کے توپ خانہ جمعدار تھے جب دیسی سپاہیوں میں کم ہی لوگ توپ خانے کے ماہر تھے اور اس صیغہ پر انگریز کا براہِ راست اختیار تھا۔ دراصل ۱۸۵۷ کے بعد دیسی سپاہیوں اور بالخصوص مسلمانوں کو حتی الوسع اس صیغے سے دور رکھا گیا تھا۔ کپتان برنابی اور میر ابوالمعالی میں خوب گاڑھی چھنتی تھی اور باہم تحائف کا تبادلہ بھی رہتا تھا۔ کپتان چارلس برنابی صاحب بہادر شعرو سخن کا ذوق بھی رکھتے تھے اور توپ خانہ سے انہیں عشق تھا۔ ہندوستانیوں سے کمال شفقت سے پیش آتے تھے لیکن انگریزوں میں غیر مقبول ہی رہے۔ سارجنٹ سے صاحب بنے تھے اور حال ہی میں فوجی ملازمت سے سبکدوش ہوئے تھے۔ اورنگ آباد میں پلٹن کھڑی کرنے کا مقصد صرف اپنا دل لگائے رکھنا اور فراغت کا مشغلہ بنائے رکھنا تھا۔ ان کے ہاں اولاد نہ تھی لیکن میم صاحب اس ڈھلتی عمر میں بھی بے حد محبت روا رکھتی تھیں۔
میر صاحب کا بچپن کا شوق ایک بار پھر سے جوان ہو گیا اور وہ کپتان برنابی صاحب سے امیدیں وابستہ کئے اورنگ آباد روانہ ہو گئے۔ اُمید نے وہ سرشاری بخشی کہ گزشتہ تلخیاں بھی وقتی طور پر ذہن سے اُتر گئیں۔ اورنگ آباد پہنچ کر پہلے اُستاد چُغری خاں سے مُلاقات ہوئی جو میر صاحب کے والد مرحوم کے ہم پیشہ و ہم جلیس تھے۔ اُستاد چُغری خاں جو آج کل کپتان برنابی صاحب کے ایجٹن تھے، میر صاحب کو کپتان صاحب کے بنگلے پر لے گئے جہاں صاحب بہادر اور میم صاحب باغیچے میں بیٹھے شطرنج کھیل رہے تھے۔ اُستاد چغری خاں نے کپتان صاحب سے میر صاحب کا تعارف کرایا تو کپتان صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے اور میر صاحب کو گلےلگا لیا۔ چند جملے انگریزی میں اپنی میم صاحب کے گوش گزار کر کے دیر تک میر صاحب سے باتیں کرتے رہے۔
‘‘خُسرو طلعت ! تُم پیدا ہوئے تھے، تب ہم لفٹین تھے، اب تُم نوجوان۔۔۔ہم کپتان! ہاہاہا!’’ کپتان صاحب کا یوں ہنس کر اور اس اپنائیت سے ملنا میر صاحب کو بہت اچھا لگا۔
‘‘پیارا بچہ ہائے۔۔۔’’ میم صاحب نے بھی میر صاحب کو دیکھا اور کہا۔
کپتان چارلس برنابی صاحب بہادر کے ہاں بھی قریب قریب صلہ داری نظام کے تحت پلٹن کا کاروبار تھا، یعنی رنگروٹوں کو اپنی وردی اور رہائش کا خرچ خود کرنا ہوتا تھا لیکن میر خُسرو کو جنہیں کوئی بھی یہاں میر بختو نہیں کہتا تھا، کوئی مسئلہ درپیش نہ آیا۔ میر خسرو اپنے نئے اُستاد ، جمعدار ایجوٹنٹ چغری خاں کے ساتھ رہتے تھے۔ چغری خاں عمر رسیدہ فارسی بان توپچی تھا اور اپنی زبان کی طرح اخلاق بھی شیریں رکھتا تھا۔ میر صاحب کو وہ کمال شفقت سے موچی کے ہاں چھوڑ آیا اور ان کے لئے ان کے ناپ کا فوجی بُوٹ، کمر بند اور نیام بنانے کا حُکم دیا۔
‘دِلی کے ہو جوان؟’ موچی نے میر صاحب کو سرتاپا دیکھ کر سوال کیا تو میر صاحب نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنا نام بتایا۔
‘آئیے قبلہ۔۔۔ میرا نام ولائیت حُسین ہے اور میں بھی دِلی سے ہوں!’ ولائیت حسین دراصل موچی نہ تھا بلکہ غدر کے وقت میرٹھ کے ویلی بازار کا نامی طبلہ نواز تھا اور نتھُو پکھاوجی کے نام سے مشہور تھا۔ جب اہلِ کمال کو چُن چُن کر قتل کیا جانے لگا، جبکہ نتھوُ کی بھی ہندوؤں سے عداوت چل رہی تھی، تو رسالدار بہرام سنگھ نے اسے وہاں سے نکالا اور یہ ہمیشہ کیلئے اورنگ آباد کا ہو رہا ۔ اپنے ہم پیشہ لوگوں کے قتل کے بعد طبلہ پھینک کر چرم چمڑے کا کام اپنایا جو اس کے باپ کا پیشہ تھا۔ اس سے بھی میر صاحب کو خُوب ربط بن گیا۔
کپتان صاحب کبھی کبھار میر خسرو کو شام کے کھانے پر بلاتے تھے اور اُستاد چُغری خاں سے ان کا خاص خیال رکھنے کو کہتے۔ اب میر خُسرو نے اُمید باندھی کہ یہاں سے وہ ایک دن نامور توپچی بن کر نکلیں گے اور ضرور مہابت جنگ جیسا کوئی لقب پائیں گے۔ اُنہوں نے ٹھان لی کہ اب ان کی زندگی میں بندوق اور توپ کے سوا کوئی‘ مؤنث’ نہیں ہو گی۔
تربیت کے باقاعدہ آغاز سے قبل میر خُسرو کو بتایا گیا کہ پہلے وہ بندوق کے استعمال میں مہارت حاصل کریں گے، پھر توپچی کی تربیت پائیں گے۔ اس پلٹن کے پاس درجن بھر بندوقیں ہوں گی اور تین توپیں۔ یہ بندوقیں اور توپیں لگ بھگ تیس سال پُرانی تھیں اور کسی ہندُو راجہ سے کپتان صاحب نے سستے داموں خریدی تھیں۔ ذیادہ تر بندوقیں دیسی ساختہ تھیں اور نالی سے بھری جاتی تھیں۔ ولائیت کی انفیلڈ کی بنی بندوقیں بھی بھرنے میں ایسی تھیں لیکن ہزار گز تک گولی پھینکتی تھیں ۔ البتہ ان کا بارود اور کارتوس کم یاب تھا اور محدود مقدار میں دستیاب تھا اسی لئے تربیت کے کچھ اسباق خالی بندوقوں سے پڑھائے جاتے۔ ہفتہ میں تین روز اُستاد بندوق سر کرنا، توپ بھرنا اور ہر دو کی دیکھ بھال اور صفائی وغیرہ سکھاتا تھا۔ ہر اتوار کی شام کپتان صاحب خوُد آتے تھے اور ہر رنگروٹ اُن کی موجودگی میں بندوق سر کرتا۔
میر خسرو طلعت کی تربیت کا آغاز ہوا۔ پہلے تین ہفتے بندوق اور توپ کی دیکھ بھال اور صفائی سیکھی، بندوق سر کرنا سیکھی اور پھر جا کے اتوار کے ملاحظے میں حاضر ہوئے۔ کپتان برنابی صاحب نے میر صاحب کو رنگروٹوں کی قطار میں دیکھا تو زیرِلب مسکرائے، اُستاد چُغری خاں نے بھی ان کے جواب میں باچھیں پھیلائیں۔ کپتان صاحب ہمراہ جے صاحب (جمعدار ایجوٹنٹ صاحب) اور دبیر سنگھ توپچی کے، میدانِ مشق میں کھڑی رنگروٹوں کی قطار کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک گئے، باری باری ہر رنگروٹ کے پاس آکھڑے ہوتے، رنگروٹ بندوق بھرتا، سر کرتا ، پھر سے بھرتا، دوبارہ گولی داغتا اور پھر ہوشیار کھڑا ہو جاتا۔ کپتان صاحب اپنی رائے سے نوازتے اور اگلے رنگروٹ کی طرف بڑھ جاتے۔ میر خسرو طلعت پُر جوش بھی تھے اور متذبذب بھی۔ ہتھیلیوں پر پسینہ آرہا تھا اور دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔ کپتان صاحب ان کے پاس آئے تو میر صاحب نے فوجی سلام کیا، کپتان صاحب مسکرائے ، احوال پرسی کی اوربندوق بھرنے کا حُکم دیا۔ فرطِ جوش سے میر صاحب کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ بارود بھرنے لگے تو بہت سا گرا ڈالا۔ پھر بندوق چلائی تو ٹُھس کی آواز کے ساتھ کارتوس میر صاحب کے سامنے ہی گر گیا۔ کپتان صاحب نے اُستاد چُغری خاں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، اُستاد نے میر صاحب کی طرف دیکھا اور میر صاحب نے نظریں جھکا لیں کپتان برنابی صاحب نے کندھے اچکائے اور آگے چل دیئے۔ میر بےحد اداس ہوئے لیکن استاد چُغری خاں نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور تشفی دی کہ ایک رنگروٹ سے یہ بعید نہیں ، پھر جھوٹ موٹ ایک ایسا قصہ میر ابوالمعالی مرحوم کی بابت بھی سُنا ڈالا۔ میر صاحب بھانپ تو گئے لیکن خاموش رہے اور سنبھل گئے۔ تربیت میں تیغ زنی اور بانک بنوٹ کے فن بھی شامل تھے لیکن میر صاحب کی دُبلی جسامت اور ان کے توپ و تفنگ کے شوق نے انہیں اس طرف ذیادہ نہ آنے دیا۔
ایک بار پھر استاد چغری خاں نے انہیں اتوار کی مشق میں لا کھڑا کیا کہ اب کی بار ہمت کیجئے اور خوب نشانہ باندھیں۔ میر صاحب میدانِ مشق میں کھڑے بار بار گتے کے کارتوس کو مٹھی میں بھینچے اُس سمت دیکھ رہے تھے جس طرف سے کپتان برنابی نے آنا تھا ۔ وقتِ مقررہ پر کپتان صاحب آئے، اُستاد چُغری خاں اور دبیر سنگھ توپچی نے اُن کا استقبال کیا ، میر صاحب نےاپنی باری آنے سے قبل کارتوس کا ایک بار پھر جائزہ لیا جو شائد پُرانا تھا کہ نرم پڑ چکا تھا لیکن میر صاحب کا خیال تھا کہ خوب چلے گا۔ ان کی باری آئی تو کارتوس کو دانت سے کاٹا، بندوق میں بھرا اور بندوق چلا دی۔ شومئی قسمت کہ بارود پرانا تھا، اب کے بار رنجک چاٹ گئی اور بندوق سر نہ ہو سکی۔ کپتان صاحب کچھ دیر سر جھکا کر سوچتے رہے، اور مونچھ کو تاؤ دیتے رہے۔ اس دوران اُستاد چغری خاں اور دبیر سنگھ پر خاموشی طاری رہی۔ ‘‘اُستاذ! مشق کی ضرورت ہے!’’ کپتان صاحب نے کہا اور رخصت ہو گئے۔ میر صاحب نے بندوق پرے پھینکی اور زمین پر بیٹھ گئے۔ اس رات کھانا بھی نہ کھایا اور رات دیر تک بے قراری کے عالم میں جاگتے رہے۔ کبھی والد مرحوم کو یاد کر کے بہت روئے تو کسی دم والدہ مرحومہ کو۔ اپنی بدبختی کو کوستے اورسسکیاں لیتے خُدا جانے رات کے کس پہر آنکھ لگی۔ اگلی صبح اُستاد چُغری خاں نے میر صاحب کی آنکھوں سے ہی اندازہ لگا لیا کہ صاحبزادے نے معاملہ دل پر لے لیا ہے۔ کپتان صاحب سے ملاقات ہوئی تو استاد نے سرِ راہے بتا دیا کہ صاحب بہادر کا لاڈلا اداس ہے۔ کپتان صاحب نے حکم دیا کہ میر صاحب شام کا کھانا ان کے ہمراہ کھائیں گے۔ کپتان صاحب اکثر ہنستے ہوئے کہا کرتے تھے کہ عشق اور سپہ گری کسی کا رنگ ، مذہب اور نسل نہیں دیکھتے۔ کم سن میر صاحب سے انس شائد فقط بے اولادی کی وجہ سے ہی نہیں، سپہ گری کے پیشے کی دین بھی تھا کہ میر ابوالمعالی کا بھی کپتان صاحب ایک اچھے اور کہنہ سال سپاہی ہونے کی وجہ سے از حد احترام کرتے تھے۔ میر صاحب جب کپتان برنابی صاحب کے ہاں گئے تو کپتان صاحب نے ان کی آزردگی کی وجہ پوچھی اور پھر دیر تک ان کی ہمت بڑھاتے اور غم غلط کرنے کی باتیں کرتے رہے۔ لطائف اورشعر و سخن کا تبادلہ بھی ہوا اور میر صاحب کی طبیعت ایک بار پھر ہلکی پھلکی ہوگئی۔
کپتان برنابی صاحب کی حوصلہ افزائی نے میر صاحب کو پھر سے تربیت پر آمادہ کیا تو وہ ایک بار پھر میدان کی مشق میں آکھڑے ہوئے۔ اب کی بار میر صاحب کو سب سے پہلی باری دی گئی تھی۔ان کے ساتھی بڑے تجسس سے دیکھ رہے تھے کہ کپتا ن صاحب بہادر کا چہیتا کیوں کر بندوق سر کرتا ہے ۔ آج انہیں ولائیتی انفیلڈوالی بندوق دی گئی جس کا کارتوس بھی اچھا تھا۔ یہ بندوقیں ۱۸۵۷ کے بعد اب آکر کپتان برنابی صاحب نے استعمال کی تھیں جبکہ باقاعدہ افواج میں ان کے متنازعہ ہو جانے کی وجہ سے ان کا استعمال قریباً ختم ہو چکا تھا اور ان کی جگہ اب مارٹینی ہنری اور سنائیڈر کی بندوق نے لے لی تھی۔ میر صاحب نے پورے اعتماد کے ساتھ بندوق بھری، نشست باندھ کر لبلبی دبا دی لیکن گھوڑے نے چلنے سے انکار کر دیا۔ اس مردود پرزے نے عین وقت پر بے وفائی کی تو میر صاحب گھبرا گئے۔ اسی لمحے اُستاد چغری خاں نے آگے بڑھ کر بندوق تھام لی جبکہ کپتان صاحب انگریزی میں کچھ بڑبڑانے لگے۔ اس سے پہلے کہ استاد ٹھونک بجا کر بندوق کے نقص کا اندازہ لگاتے، بندوق استاد کے ہاتھ میں ازخود چل گئی اوردبیر سنگھ توپچی کا، جو کہ لپک کر اُستاد کے پاس آگیا تھا اور بندوق کی نال کے سامنے کھڑا تھا، بایاں پاؤں زخمی کر گئی۔ کپتان برنابی نے جو یہ منظردیکھا تو پہلے بے ساختہ ہنس پڑے، پھر سنجیدہ ہو کر واپس چلے گئے۔ میر صاحب دیر تک یہی سوچتے رہے کہ کپتان صاحب نے قہقہہ لگا کر اُن کی نحوست اور بدبختی کی داد دی ہے۔ بہت خفا ہوئے، رات دیر تک شہر سے ہٹ کر ایک مندر کے پچھواڑے میں، ندی کنارے بیٹھے رہے۔ رات بھی چاندنی تھی اوردل بھی اداس ۔ بڑی مدت کے بعد آج میر صاحب کو رخشندہ بانو کا خلوص یاد آیا۔ اس کی بہت کمی محسوس کی لیکن جب اس کا ترکِ تعلق یاد آیا تو ہر تلخ و شیریں یاد کو ذہن سے جھٹک کر اُٹھ آئے۔ میر صاحب اگر اس قدر حساس نہ ہوتے تو شائد قدرت بھی ان کے ساتھ اتنی چھیڑ چھاڑ نہ کرتی۔ میر صاحب کی رنجیدگی اور دلگرفتگی کا قصہ پھر کپتان صاحب تک پہنچا تو وہ میم صاحب کے ہمراہ خود ہی اُستاد چُغری خاں کے ہاں چلے آئے۔ میر صاحب کو پاس بٹھایا اور کہا؛
‘‘میر صاحب، تُم فقط تھوڑے سے بدقسمت واقع ہوئے ہو ورنہ سپہ گری میں تُم ہرگز نالائق نہیں ہو، لیکن بہادر بنو!’’
میم صاحب نے فرمایا: ‘میر، ٹُوم جس دن نظام کی فوج میں بھرتی ہو گا، میں ٹُومارا شادی بناؤں گی’ میر صاحب مسکرا کر چپ ہو رہے۔
میم صاحب نے سفارش کی کہ میر خسرو کو توپ کی تربیت دی جائے، شائد اسے ہماری پلٹن کی بندوق راس نہیں ہے۔ کپتان صاحب نے سفارش مان لی ۔ پلٹن میں بھی چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں ، بلکہ کچھ لوگوں نے تو شرطیں بدنا بھی شروع کر دیں کہ میر خسرو کیسے توپ چلائے گا۔ اب استاد چغری خاں نے میر صاحب پر سخت محنت شروع کر دی اور کئی روز مشق اور قواعد کے بعد کپتان صاحب سے اجازت طلب کی کہ میر صاحب کو مشق کروائی جائے کہ وہ توپ چلا کر دکھائیں۔ کپتان صاحب نے پلٹن کی سب سے چھوٹی توپ (توپک) میر صاحب کے لئے نکلوائی ۔ یہ توپ پیندے سے بھری جاتی تھی جس میں گولہ ڈال کر دندانے دار بیلن کا پیندا گھما کر کس دیا جاتا تھا۔ بہت ہلکی توپ تھی اور استاد قالی خاں نے بیجا پور میں پہاڑی توپ خانےکیلئے ڈھالی تھی۔جب سے یہ توپ استاد قالی خاں نے کپتان صاحب کو تحفہ کی تھی، یہ توپ کم ہی چلی تھی۔ مقررہ روز جب میر صاحب نے مشق کے میدان میں توپ چلانا تھی ، اس روز استاد چغری خاں اچانک بیمار پڑ گئے، جس وجہ سے کپتان صاحب کے ہمراہ دبیر سنگھ توپچی کو آنا پڑا جس کا پاؤں ہنوز زخمی تھا۔ وقت مقررہ پر کپتان صاحب کی موجودگی میں جب میر صاحب نے توپ بھری، تمام پلٹن دیکھ رہی تھی، سب نے میر صاحب کے ماہرانہ انداز کی داد دی اور کپتان صاحب بھی دیکھ کر خوش ہوئے۔ میر صاحب نے بڑے اعتماد سے توپ میں سلامی کا گولہ ڈالا اور دبیر سنگھ کے، جو کہ چند قدم پیچھے کھڑا تھا، اشارہ کرنے پر مہتابی دکھا دی۔ چھوٹا سا دھماکا ہوا اور پیندے کا دندانے دار بیلن (بریچ) ٹوٹ کر کسی پٹاخے کی طرح پھٹ گیا جس کا ایک ٹکڑا دبیر سنگھ کی دائیں ٹانگ پر لگا جبکہ دوسرا اپنی پوری شدت سے عقب میں ایک درخت میں پیوست ہو گیا۔ آگ کے شعلے سے میر صاحب کی بھنویں اور سر کے بال بھی کچھ جھلس گئے۔ دراصل کسی نے غور نہیں کیا کہ پیندے کے بیلن میں پرانا پڑ جانے کی وجہ سے بال کے برابر دراڑ پڑ گئی تھی۔ یہ تو خیر گزری کہ سلامی کا گولہ ڈالا گیا تھا ورنہ اُلٹی توپ چلنے سے بہت نقصان ہوتا تھا۔ کپتا ن بے حد خفا ہو کر وہاں سے چل دیے۔ تمام لوگوں نے اسے دبیر سنگھ کی نااہلی قرار دیا لیکن کپتان صاحب ناروا میر خسرو سے ناراض ہو گئے ۔ اسی شام کپتان صاحب دبیر سنگھ کی عیادت کے بعد استاد چغری خاں کی عیادت کو بھی آن پہنچے تو میر صاحب سے بھی سامنا ہوا لیکن بات نہ کی۔ استاد نے میر کی وکالت کرنے کی کوشش کی تو کپتان برنابی صاحب آگ بگولہ ہو گئے؛
‘‘اُستاذ، من ہرگز باور نکنم کہ اُو خلفِ ابوالمعالی است’’ کپتان صاحب نے سخت غصے میں کہا اور چلے گئے۔ میر صاحب نے بھی سُن لیا اور سخت بُرا مان گئے اور اسی شب اپنا بوریا بستر سمیٹ کر اورنگ آباد سے روانہ ہو گئے۔ جاتے ہوئے استاد چغری خاں سے کہا؛ ‘‘اُستادِ من، ہم سپہ گری پر تین حرف بھیج چکے، اب جاتے ہیں اجمیر، خواجہ کی درگاہ میں ٹھکانہ کرنے ’’ استاد سن کر پریشان سے ہوگئے ، ‘‘میر خسرو طلعت! خدارا دل میلا نہ کیجو، ابھی تو آپ رنگروٹ ہیں!’’ استاد نے ملتجیانہ کہا لیکن میر صاحب ، کپتان صاحب کی بات دل پر لے چکے تھے، ہرگز نہ رُکے اور اجمیر روانہ ہو گئے۔ اگلے روز جب کپتان صاحب کو واقعہ کا علم ہوا تو پہلے سخت برہم ہوئے، لیکن استاد چُغری خاں اور دبیر سنگھ کے سمجھانے پر انہیں احساس ہوا کہ اُنہوں نے ناروا غُصے سے کام لیا ہے۔ توپ کی خرابی کی ذمہ داری سنگھ نے اپنے سر لے لی اور معقول بات بھی یہی تھی۔ کپتان برنابی نے اگلے ہی روز ایک جوان کو میر صاحب کے نام کا ایک رقعہ دے کر اجمیر روانہ کردیا ۔ اس نامہ بر کو بصد مشکل میر صاحب ملے تو کپتان صاحب کا رقعہ میر صاحب کے حوالے ہوا، لکھا تھا؛
‘‘سیدزادے! کیوں خفا رہ کر گنہ گار کرتے ہو؟ اب تھوکو غصہ اور آبھی چکو، دیکھو بہت نادم ہوں اور میم صاحب بھی افسردہ ہیں’’
میر صاحب تیوری چڑھا کر بولے، ‘‘ایک فرنگی کاہے کو ہمارے تئیں اس لائق گردانے؟ یہ تحریر استاد چغری خاں کی ہے’’ قاصد نے جا کر کپتان صاحب کو بتایا تو وہ بھی ناراض ہوئے مگر استاد چغری خاں کے مشورے پر اُنہوں نے گھنشام بابو کو خط لکھا جس چغری خاں خوب جاننے لگے تھے۔ میر صاحب گھنشام بابو کی بات ٹالنے والے نہ تھے، لہٰذا اس کے ہمراہ ہی اورنگ آباد آگئے ۔ آنے سے پہلے درگاہ میں خوب دعائیں مانگ کر آئے، راہ میں گھنشام بابو نے کسی جوتشی سے میر صاحب کی پریشانی بیان کی تو اس نے فقط اتنا کہا؛ ‘‘میر صاحب کے ہاتھ میں تفنگ ضرور چلے گی!’’ گھنشام بابو کو تو میر صاحب کی بپتا پر ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا تاوقتیکہ اورنگ آباد پہنچ کر کپتان صاحب کی پلٹن سے سُن نہ لی۔ گھنشام بابو کے ساتھ میر صاحب نے ریاست میں چند روز خوب سیر کی، یوں ان کا مزاج اچھا ہوا اور وہ معمول پر آگئے۔
یہ ۱۸۸۲ کی کوئی تاریخ تھی جب کپتان برنابی صاحب بہادر اور میم صاحب کے دیرینہ دوست اور بے حد محبوب رشتہ دار کرنیل گورڈن صاحب بہادر کی خبر ملی کہ تل الکبیر کے معرکے میں مارے گئے ہیں، یعنی ایک دھاوے میں گھوڑے سے زخمی ہو کر گرے اور رسالے بھر کی ٹاپوں نے روند دیا۔ پلٹن میں سوگ کا اعلان کر دیا گیا۔ پلٹن کے پرانے لوگ آنجہانی کرنیل صاحب کا بے حد احترام کرتے تھے۔ کرنیل صاحب کبھی کپتان صاحب کے مہمان ہوتے تو پلٹن کا دورہ بھی کرتے۔ آخری بار میر صاحب کے آنے سے کچھ قبل دورہ کیا ہوگا لیکن میر صاحب نے ان کی سپاہیانہ وجاہت اور ہیبت کے قصے سُن رکھے تھے۔کپتان برنابی صاحب بہادر نے پلٹن میں دربار لگایا اور کرنیل صاحب کے پرانے دوست اور شاعر میرزا محی السنت احقر کو بلوا کر ان سے مرثیہ کہلوایا۔ استاد چغری خاں نے فارسی میں قطعۂ تاریخ کہا جبکہ ایک شعر میر خسرو طلعت نے بھی اہلِ دربار کے گوش گزار کیا؛
جنگ جوئے قہر ساماں پر یہ قہرِ واژگوں
تفو تجھ پر، حیف تجھ پر اے سپہرِ واژگوں!
کپتان صاحب چونکے۔ ‘‘میر صاحب! سپہر ِ واژگوں نے جو قہر میرے مرحوم دوست پر ڈھایا، یہ قہرِ واژگوں کیسے ہو گیا؟’’ کپتان صاحب کے سوال پر میر صاحب کا جواب بھی خوب تھا؛ ‘‘حضور، صاحب بہادر خُلد آشیانی کے قہر سے بھی تو فلکِ پیر کانپ اُٹھتا تھا!’’
کپتان برنابی بہت خوش ہوئے اور اپنی کارتوس بھری قرابین وہیں میر صاحب کو انعام کر دی۔ میر صاحب نے بصد شکریہ قرابین کمربند میں اُڑس لی اور خوش خوش واپس آگئے۔
اگلے روز شور ہوا، ‘میر صاحب کی قرابین چلی ہے!’ ‘میر صاحب نے قرابین سے گولی داغی ہے!’ جو سچ تھا، جلد ہی سب کو پتہ چل گیا ۔ میر صاحب نے جو قرابین جامے میں اُڑس لی تھی، وہ کسی لمحے اُن کا ہاتھ پڑ جانے سے از خود چل گئی اور گولی ان کی ران پہ لگی ۔ بمشکل ایک رات جان بر رہ سکے، خون ذیادہ بہہ جانے کی وجہ سے پہلے بے ہوشی ہوئی، پھر دم توڑ دیا۔ دمِ مرگ وصیت کر گئے تھے لہٰذا پلٹن کی لین میں دفن ہوئے۔
قبر پر مٹی پھینکی جارہی تھی، ضابطے مطابق سپاہ کی گارد نے سلامی کی بندوقیں سر کیں تو اپنی جھونپڑی میں بیٹھے ولائیت حسین موچی کے شاگرد کا ہاتھ رک گیا۔ پاس بیٹھے کسی بچے نے کہا، ‘‘پلٹن میں کوئی سنتری مر گیا ہے، سپاہی لوگ اُسے دفنا رہے ہیں’’
‘‘بالآخر اس کا بھی بخت جاگا۔۔۔’’ نوجوان موچی نے کہا، بچے نے کچھ جواب نہیں دیا۔ ‘‘اچھا ہی ہوا، فرنگی کے احسانوں کے بار سے آزاد ہوا اور عدم کے ملک میں اپنا ایمان سلامت لیے جا بسا ہے، خُدا بخشے۔۔۔’’
بگل کی آواز پر دیر تک ‘لاسٹ پوسٹ’ کی دُھن بجتی رہی اور موچی کا ہاتھ اسی روانی سے کپتان برنابی کے گھڑسواری کے بوٹ سینے میں مشغول ہو گیا۔۔۔