خودکشی
حرام نہیں ہے
بہت حرامی ہے
میں اس کے پاؤں دھونے سے پہلے
بہت بہادر تھا
اب کچی عمارتوں والا
دانشور بن گیا ہوں
میں نے خودکشی کے حرامی پن سے تنگ آکر
خودکشی کو حرام کر دیا ہے

 

کائنات بیٹی کو
اس کے ابو نے اس کی پہلی سالگرہ پر
کچھ راز دیے تھے
جو اب آپ اور میں میں کھل رہے ہیں
البتہ میرا آپ
آپ تر ہو رہا ہے
تمہارا تم تمام سہی

 

وقت کا مردہ
بغل میں پڑا تڑپ رہا ہے
زمین مجرا کر رہی ہے
ہٹ دھرمی سے
ان دونوں کی نالیوں میں
جسم گتھم گتھا تھکے ہوئے

 

میں چیزوں کو ان کے چکروں سے آزاد کرنا چاہتا ہوں
آزادی کی ٹارزن چیخوں سے
میرے آنگن کا بلب روشن ہوتا ہے
آزادی کی اداس روشنی
دیمک بن کر میری دیواریں چاٹ گئی
اسی روشنی سے میں نے
اپنا غبارہ پھلایا تھا
جسے تم دیکھ کر کہتے ہو
دیکھو کتنا فولادی آدمی ہے

 

نظم ہاتھ سے نکلی چلی جا رہی ہے
کچھ استعارے رات گلے لگانے کے لیے بچانے ہیں
باہر بارش نے بھیگا دیا ہے
مٹی کا درخت

 

رات اپنی ٹانگیں کھول کر لیٹی ہے
دن کی داڑھی میں تنکا ہے
وقت اگر آدمی نہیں ہے تو
گھڑی کو دلاسہ کون دے گا؟

 

میں بجلی کی تاریں لپیٹ کر
نماز پڑھ رہا ہوں
اس نماز کا خدا مجھے سجدہ کرتا ہے

 

معاف کیجیے گا
آپ کو میری کھال کھٹکھٹانے سے
کچھ نہیں ملے گا
میرا گوشت مجھے بھینچ کر بیٹھا ہے
میں دروازے تک نہیں آسکتا
آپ کھڑکیاں توڑ کر دیکھیں
ورنہ سرنگ کھود لیتے ہیں

Leave a Reply