Laaltain

نادیدہ کا موہوم الف

31 مارچ، 2016
Picture of تصنیف حیدر

تصنیف حیدر

تمہارے ساتھ میرا تعلق ایک ایسے ہی گہرے رمز کی داستان ہے۔ وہ رمز جو کھلتا نہیں، بس ایک خاموش قیامت کے بعد، سانسوں سے بھرا ہوا جسم، خالی ہو کر سطح پر آ جاتا ہے
کبھی کسی کہانی کو بہت دھیان سےسننے کا اتفاق شاید سبھی کو ہوا ہو۔کہانی میں ڈوب جانا، اس طرح ہلکے ہلکے گہرائی کی جانب جانا جیسے کوئی اپنی مرضی سے ڈوب رہا ہو، نیچے جاتا ہو، سانسوں کو مٹھیوں کی کوٹھریوں میں دباتا، آنکھوں میں ایک سیاہ درد کی اتھاہ برداشت لیے، گھٹن کو قسمت کی طرح قبول کرتے ہوئے، بس نیچے کی جانب، بہت نیچے کی جانب جارہا ہو۔ تمہارے ساتھ میرا تعلق ایک ایسے ہی گہرے رمز کی داستان ہے۔ وہ رمز جو کھلتا نہیں، بس ایک خاموش قیامت کے بعد، سانسوں سے بھرا ہوا جسم، خالی ہو کر سطح پر آ جاتا ہے، مگر میں وہ جہاز ہوں، جو تمہارے بدن کے سمندر میں کہیں گم ہوتا جا رہا ہے، کہیں ڈوبتا جارہا ہے۔ دنیا کے سب سے حسین لفظ سے میری شناسائی سب سے پہلے کس نے کرائی، میں نہیں بتا سکتا، مگر حیرت ہے کہ یہ سارے الفاظ بے معنی ہیں، کیونکہ جس زبان میں میں تمہیں بھیجی جانے والی یہ تحریر لکھ رہا ہوں، اس میں اس احساس کے لیے ہر لفظ تین اعداد پر مشتمل ہے، عشق، جسم، لمس، بدن، ہوس۔۔۔۔چاہے جو کہہ لو، مگر ایک پھیلی ہوئی اداسی نے اس لفظ کی ہیت بگاڑ کر اسے اکثر تین سے دو اور پھر دو سے ایک بنانا چاہا ہے۔

 

میں اس وقت بھی میز پر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے سوچ رہا ہوں، اس پوری دنیا میں صرف تم اور میں ہی حقیقت ہیں، اور حقیقت سے بڑا فریب کچھ نہیں، میں جو تمہیں دکھائی دے رہا ہو، میں دراصل ایک ایسا آسمان ہوں، جو تمہاری نظروں کی سرحد ہے، نہیں سرحد نہیں، تمہاری بینائی کی وہ حد، جہاں تک تم دیکھ سکتی ہو، ٹھیک اسی طرح جس طرح آسمان سمندر کا بوسہ لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے، وہاں، ہم سے تم سے بہت دور، بپھری ہوئی لہروں کے شور کو عبور کرتا ہوا، اڑ کر ایک جزیرے کے پیچھے جیسے وہ پانی کے لبوں میں اپنی زبان اتاررہا ہے، جیسے وہ دونوں وہاں گم ہوگئے ہیں، رک گئے ہیں، پتھر بن گئے ہیں،اصل میں اس سے بھی پیچھے ایک منظر ہے، اور ان دو ملے ہوئے جسموں، ہونٹوں کے اندر بھی ایک دنیا آباد ہے، اس بجتی ہوئی گارے کی دنیا جس سے ہمارا وجود بنا ہے، اس لبلبی، گرم بوند کی دنیا جس میں مجھ اور تم جیسے ہزاروں لوگ موجود ہیں۔اسی لیے ہمیں بھی پرواز کرنی ہوگی، ایک دوسرے تک پہنچنے کے لیے، ایک دوسرے تک آنے کے لیے۔تمہاری زبان اسی لیے تخلیق کی گئی ہے تاکہ اس پر تیرتے ہوئے قطروں کو ، ہلکے، پھیکے اور نازک اندام ریشوں کو میرے ہونٹ چھو سکیں، میری زبان محسوس کرسکے، وہ ذائقہ جسے میں پھیکا کہہ رہا ہوں، حالانکہ وہ شیریں ہے، شہد اور دودھ سے زیادہ میٹھا اور فرحت انگیز، مگر اپنی ہی تنہائی میں روز تمہارے حلق تک اترتا ہوا اور پھر دوڑ کر میرے انتظار میں بام زبان تک آتا ہوا، ننگےپائوں، وہ ذائقہ جو شاید میٹھا یا پھیکا نہیں، بلکہ کچھ اور ہے، جسے انسانی زبان آج تک کوئی لفظ عطا نہیں کرسکی، جسے محسوس کرکے چھوڑ دیا گیا، ان نسلوں کے لیے، جو اس پر تحقیق کرکے اسے ایک مناسب نام دے سکیں گے۔وہیں کہیں تمہارے جسم میں اترتا ہوا میرا وقت بہہ رہا ہے اور فی الحال میری خواہش اس میں ڈوب رہی ہے، تمہارے ہر نوالے کے ساتھ، تمہارے ہر گھونٹ کے ساتھ۔

 

لباس کی چستی نے تمہاری ریڑھ کی ہڈی کے ایک ایک منکے کو اور واضح کر دیا ہے، میں منکوں پر سے پھسل رہا ہوں یا جنت سے اترتے ہوئے بڑی مہارت کے ساتھ زمین کی جانب آنے والے زینوں پر چھلانگیں لگارہا ہوں
میں ایک منظر بنارہا ہوں، ان عام منظروں سے بالکل مختلف جو اکثر ہماری کہانیوں میں تخلیق کیے جاتے ہیں۔تم ایک بھربھری لادی کے اوپر تاروں سے بندھے میلے کچیلے واش بیسن پر جھکی ہوئی ہو، کھنکھارتی ہوئی، کھانستی ہوئی ہو، تمہارے بدن پر ایک بغیر آستینوں والا لباس ہے، تمہیں قے آرہی ہے، میں تمہاری پیٹھ سہلا رہا ہوں، تمہاری پیٹھ، جیسے ماربل کے بنے ہوئے کسی برتن کی ڈھلواں سفیدی ہو، جس پر ہاتھ بے ساختہ تیر کر نیچے آ جاتا ہے، ہتھیلیاں جس سے مس ہوتے ہوئے، ان پر کھسکتے ہوئے بالکل ویسا لطف لیتی ہیں، جیسے معصوم بچوں کے کولہے پھسلن پر محسوس کرتے ہیں، وہی چکناہٹ، وہی تری تمہاری پیٹھ پر ہے۔ لباس کی چستی نے تمہاری ریڑھ کی ہڈی کے ایک ایک منکے کو اور واضح کر دیا ہے، میں منکوں پر سے پھسل رہا ہوں یا جنت سے اترتے ہوئے بڑی مہارت کے ساتھ زمین کی جانب آنے والے زینوں پر چھلانگیں لگارہا ہوں۔۔۔تمہیں تھوڑی سی قے آتی ہے، اس کی مہک سے میرے نتھنوں کا پھیلاو مزید وسیع ہوجاتا ہے،میں تمہاری پیٹھ متواتر سہلارہا ہوں، تمہارے ہونٹوں میں شاید خون اتر آیا ہے، اس قدر لال، جیسے ابھی ابھی کسی کانٹے کے چبھنے سے میری انگلی کے پورے پر خون چھلک آیا ہو یا یہ ہونٹ نارنجی ہورہے ہیں،ہلکے لال یا گہرے گلابی۔۔میں اس رنگ کے بارے میں کچھ طے نہیں کرپارہا ہوں، اب تمہیں اطمینان ہے، مگر اس لمحے بھی تم اسی قدر حسین ہو، اتنی ہی چمکدار، ویسے ہی اپنی زلفوں سے گوری سی گردن پر پھریرے لگاتی ہوئی، جیسے کہ تم شاید کسی کھلے ہوئے صحن میں ہلکے برسات کے بعد ایک خوبصورت چاندنی رات میں ہوسکتی تھیں، اپنا جوڑا کھولتے یا باندھتے ہوئے،اپنی کمر پر بندھی ہوئی گائون کی رسیاں کھولتے ہوئے، یا آئینے میں اپنا دہکتا ہوا سینہ دیکھتے ہوئے یا محض مسکراتے ہوئے یا سوتے ہوئے۔

 

میں اس دہشت گردانہ ماحول میں تمہارے وجود کے تحفظ کا امید وار ہوں، ہم امید کے پھٹے ہوئے ڈھول بجانے والے، امن پسند اور ڈرے ہوئے لوگ، بس اتنا ہی کرسکتے ہیں۔
رات میں نے خبر دیکھی کہ جس شہر میں تم رہتی ہو، وہاں ایک دھماکہ ہوا ہے، بدن دہشت سے پھٹ پڑے ہیں، زمین سرخ ہو گئی ہے، چہرے زرد پڑ گئے ہیں۔۔۔ میں اس دہشت گردانہ ماحول میں تمہارے وجود کے تحفظ کا امید وار ہوں، ہم امید کے پھٹے ہوئے ڈھول بجانے والے، امن پسند اور ڈرے ہوئے لوگ، بس اتنا ہی کرسکتے ہیں۔۔۔۔ میں بھی دعا کر رہا ہوں کہ دنیا کا کوئی تیزاب، کوئی گرمی تمہارے شہر یا ملک کو اب ایسی جھپٹ میں نہ لے، خدا کے عذاب جو میں نے پڑھ رکھے ہیں، وہ بھی اتنی سرعت سے نہ آتے تھے، زمین اگر کسی بستی کو فنا کرنے کا حکم پاتی ہے تو اس کا کلیجہ تیزی سے کانپنے لگتا ہے، کوئی شہر اگر غرقاب ہوتا ہے،تو بادلوں کی آنکھیں روتے روتے پھٹ پڑتی ہیں۔خدا بھی صور پھونکنے، ہوشیار کرنے، علامتیں بھیجنے، عذابوں کو ہلکی شکلوں میں اتارنے کا قائل تھا، یہ کون سے لوگ ہیں، جو اپنے بدن کو بارود سے بھر کر بھول جاتے ہیں کہ زمین پر اگنے والے سبزے کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے،وہ کون لوگ ہیں جو ان لوگوں سے زندگی کا احساس چھین رہے ہیں، یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اس شہر میں تم بھی رہتی ہو، تم ۔۔۔۔۔جو خدا کی بنائی ہوئی لازوال تخلیق ہو، جسے میں اتنی دور سے بیٹھ کر تصور کی برچھی سے تراشتا رہتا ہوں، ہر بار میں سو بار اور ہر دفعہ میں ہزار دفعہ، نئے انداز سے، نئے زاویے سے، پینترے بدل کر،قسمیں بدل کر۔۔۔تمہارے شہر میں آنکھوں کی خوبصورتی عام نہیں ہوئی ہے ، مذہب کو ابھی تمہارے جسم کی گرمی کا احساس نہیں ہوا ہے،تم ابھی دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہو، تم نادیدہ ہو، اگر لوگ تمہیں کبھی دیکھ سکے تو اس فرانسیسی عطر ساز کی تخلیقی کی ہوئی خوشبو کی طرح تمہارے اثر سے اپنے وجود سے بیگانہ ہوکر عشق و حسن کی کرشمہ سازیوں میں کھو کر، ایک دوسرے کو ننگ دھڑنگ بس چومنے اور چاہنے لگ جائیں گے، جس کے قصے پر ہالی ووڈ میں ’پرفیوم‘ نامی فلم بنائی گئی تھی۔

 

آج رات ہم ملنے والے ہیں، یا اس بار موسم سرما میں یا شاید اگلے سال اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوا تو اس غنودگی میں جب میں ان اعمال اور ان افعال کو بھی تخلیق کرلیتا ہوں، جنہیں عام طور پر کاغذ پر بھی جنم نہیں دے پاتا۔تولید خواب یا تخلیق فریب عمل ، تم اسے جو بھی نام دو۔۔میں اور تم اب ایک دوسرے کے نزدیک ہیں، تمہاری تھوڑی پر بالکل اسی طرح کی ایک لکیر ہے، جیسی سیب کے بیچو بیچ ہوتی ہے، جیسی دو کولہوں کے درمیان یا بدن کے وسط میں ہوا کرتی ہے۔میں ا س لکیر کو چھوتا ہوں تو تمہارے ہونٹ اپنے آپ کھل جاتے ہیں، تمہارے دو سفید اور چمکتے ہوئے دانت سیاہ وہوائوں کے ساتھ اس شب میں ابھرتے ہیں اور پھر تم میرے جسم پر طشت گل یاتخت ماضی کی طرح الٹ جاتی ہو۔

 

میں تمہاری رگوں کو غور سے دیکھتا ہوں، چہرے سے ہوتے ہوئے تمہارے شفاف سینے کی جانب میری انگلیوں کے قدم بڑھتے ہیں تو میں تمہارے چہرے پر ایک مسکراہٹ محسوس کرتا ہوں۔
میں تمہاری رگوں کو غور سے دیکھتا ہوں، چہرے سے ہوتے ہوئے تمہارے شفاف سینے کی جانب میری انگلیوں کے قدم بڑھتے ہیں تو میں تمہارے چہرے پر ایک مسکراہٹ محسوس کرتا ہوں۔ یہ سینہ آئینے کی طرح ہے، جیسے آئینہ سیال کی طرح بہہ رہا ہو، دن ابل رہا ہو، روشنیاں پھوٹ رہی ہوں، اب مجھے کچھ نظر نہیں آرہا، صرف محسوس ہورہا ہے، عام طور پر لوگوں کے بدن پر ایک ایک ریشہ سلا ہوا نظر آتا ہے، مگر تمہارے سینے کا عالم دوسرا ہے، وہ بالکل پانی کی طرح ٹھہرا ہوا ہے، اب اس میں ڈوبنے کی باری ہے، میں اپنی جلتی ہوئی ہتھیلیوں سے اس پانی کی سطح کو چھوتا ہوں اور یہ سارا بدن پھوٹ کر میرے ہاتھوں سے بہہ نکلتا ہے۔تمہاری آنکھیں بند ہیں، جسم ریت کی بھٹی بنا ہوا ہے، آنکھیں خلا میں کہیں دور سفر کررہی ہیں۔تمہاری انگلیاں میرے جسم کے شجر سے اپنی پسند کے پھل توڑنے لگتی ہیں۔میں تمہارے بدن کی ایک ایک آواز کو سن سکتا ہوں، ایک ایک حرف کو پڑھ سکتا ہوں، اس سے مقدس رات اور کوئی نہیں۔اب میرا بدن تمہارے وجود کے سائے میں لیٹا ہے، تمہاری زلفیں میرے چہرے کو ڈھانپ کر ان کی ریشمیں لذتیں میری سانسوں میں گھول رہی ہیں۔تمہارے کاندھے کو چھوتے ہوئے میرے ہونٹ پہلے گردن تک اور پھر تمہارے لبوں تک آن پہنچے ہیں۔میں یہ کس جگہ آگیا ہوں، یہ کیسا ذائقہ ہے جو دنیا کی تمام لذتوں کو شکست دے رہا ہے۔تمہاری آنکھیں بدستور بند ہیں، مگر میں اس خوبصورت ترین حادثے کا گواہ بننا چاہتا ہوں، تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں، تمہارے چہرے کے ایک بھی تاثر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتا۔ہمارے وجود اب ایک دوسرے میں ضم ہوگئے ہیں۔تہاری ابلتی ہوئی چھاتیوں نے میرے بدن میں اپنی سنانیں اتار دی ہیں اور میرے جسم کا ذرہ ذرہ تمہارے لمس میں پیوست ہوگیا ہے۔اس سناٹے میں اب صرف سانسوں کا شور ہے اور میری ہر سانس پہلی سانس سے زیادہ پرجوش ہے، تمہیں نزدیک، بے حد نزدیک کرلینے کے لیے، تمہاری پیٹھ پر میری ہتھیلیاں رقص کررہی ہیں، ان سسکیوں میں تمہارے نام کی بازگشت سرگوشی کی صورت میں ابھرنے لگی ہے، کمرے کا درجہ حرارت بڑح گیا ہے اور اچانک میں نڈھال ہوکر تمہارے بدن کی مٹی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا ہوں۔بس اب میں تمہارا ہوں اور کسی کا نہیں۔

 

میں کہاں ہوں؟ تم کہاں ہو،کوئی کہیں نہیں ہے، نہ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں، نہ تم مجھے۔۔۔ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے نادیدہ ہیں، یا اس لفظ کے درمیان جو یہ الف ہے اب ہلکے ہلکے موہوم ہوتا جارہا ہے، کیونکہ میں نے خواب میں ہی سہی،تمہیں چھولیا ہے، پی لیا ہے۔

2 Responses

  1. سانس روک کر پڑھا ہے میں نے یا پڑھتے سمے سانس کہیں نہیں تھی ، بس لفظ تھے

  2. مہاری زبان اسی لیے تخلیق کی گئی ہے تاکہ اس پر تیرتے ہوئے قطروں کو ، ہلکے، پھیکے اور نازک اندام ریشوں کو میرے ہونٹ چھو سکیں،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

2 Responses

  1. سانس روک کر پڑھا ہے میں نے یا پڑھتے سمے سانس کہیں نہیں تھی ، بس لفظ تھے

  2. مہاری زبان اسی لیے تخلیق کی گئی ہے تاکہ اس پر تیرتے ہوئے قطروں کو ، ہلکے، پھیکے اور نازک اندام ریشوں کو میرے ہونٹ چھو سکیں،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *