بوکو حرام نائیجیریا کی ایک مسلح مذہبی تنظیم ہے، اس کا اصل نام “جماعتہ اہل سنتہ للدعوہ والجہاد” ہے لیکن اسے ہاؤسا جو کہ نائیجیریا کی مقامی زبان ہے میں بوکو حرام کہتے ہیں جس کا مطلب ہے “مغربی تعلیم حرام ہے”۔اس تنظیم کی بنیاد ابو یوسف نے تقریبا بارہ سال پہلے رکھی اس تنظیم کا منشور ہے کہ مغربی تہذیب (زبان،لباس،تہوار،رسوم)،اور نظام (جمہوریت،آئین ،بینکنگ،عدلیہ،تعلیم) حرام اور کفر ہیں ۔ ان کا خصوصی مطالبہ ہے کہ مغربی تعلیم سرے سے ختم اور دینی تعلیم رائج کی جائےجبکہ اس تنظیم کاحتمی مقصد خلافت کا قیام ہے۔ اس تنظیم نے 12 سالوں میں مارکیٹوں،مساجد،چرچوں،سکولوں ،فوج اور پولیس کو نشانہ بنایا اور ایک محطاط اندازے کے مطابق تقریبا 10000 لوگوں کو قتل کیا۔کچھ ہفتے پہلےاس تنظیم نے نائیجیریا کے سرحدی علاقے میں غریب لڑکیوں کے لیے قائم سکول میں رات کو حملہ کیا اور ہاسٹل میں موجود 230 لڑکیوں کو اغواء کرکے لے گئے،لڑکیوں کی اکثریت مسلمان ہے ، اس تنظیم کے کمانڈر ابوبکر شیکاو نے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ لڑکیاں میں نے اغوا کی ہیں اور مجھے اللہ نے حکم دیا ایسا کرنے کا، میں ان لڑکیوں کو بیچ دوں گا اور میں نے لڑکیاں بیچی بھی ہیں۔ بقول ابوبکر شیکاؤ اب وقت آگیا ہے کہ لوگ فیصلہ کرلیں کہ وہ کس کے ساتھ ہیں، مغرب کے ساتھ یا اسلام کے ساتھ۔ غلامی کیونکہ ابراھم لنکن نے ختم کی تھی اس لیے ہم اسے نہیں مانتے۔
تکفیری فکر کی حامل شدت پسند تنظیموں کا رویہ اسلام کو ایک ایسے دین کے طور پر پیش کرتا ہے جس میں اقتدار کے حصول کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اس کے لیے وہ ہر حربہ جائز قرار دیتا ہے ،اور اقتدار میں آنے کے بعد وہ کسی مخالف کو برداشت نہیں کرتا۔
بازاروں،مساجداور غیر مذاہب کی عبادت گاہوں پر خودکش حملے،مخالف فرقوں اور اقلیتوں کو ہراساں اور قتل کرنا، بینکوں کو لوٹنا، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، املاک پر ناجائز قبضہ، اپنے موقف کے مخالف علماء کو قتل کروانا، اپنے علاوہ باقی سب کو کافر قرار دینا اور اب تازہ ترین واقعہ مسلمان خواتین کو اغواء کرکے لونڈیاں بنانا،دل تھام کر کہنا پڑتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے دین کے نام پر کیا جارہا ہے جو سراسر رحمت اور سلامتی ہے۔ اسلامی سکالرز ،دائیں بازو کے دانشور اور تنظیمیں ایسے تمام واقعات پر خاموشی اختیار کرتی ہیں ۔ کہیں ہم رد عمل ،نفرت اور انتقام میں انصاف کا دامن ہاتھ سے تو نہیں چھوڑ رہے؟ صرف پاکستان ہی نہیں پوری مسلم دنیا بشمول افغانستان، شام، عراق، صومالیہ،ازبکستان،وغیرہ میں اسلامی احیا کی مسلح تحریکوں میں کم وبیش ایک جیسا تکفیری رویہ پایا جارہا ہے جس نے اب تک مسلمانوں اور مسلم معاشروں میں تقسیم اور تخریب ہی کی ہے۔
موجودہ تکفیری فکر اسلام کی ایک مخصوص تعبیر اور مغرب وامریکہ کے ظلم کےخلاف رد عمل پر کھڑی ہے۔ احیاء اسلام اورمذہبی خلافت کے قیام کی تحاریک جس مخصوص دینی تعبیر کے شدت پسندانہ اصولوں پر کاربند ہیں ان کے تحت معدودے چند کے علاوہ کوئی مسلمان نہیں رہتا ۔مغرب و امریکہ کے ظلم و ستم کے خلاف ردعمل یہ ہوتا ہے کہ ان کی تہذیب اور نظام حرام قرار پاتے ہیں، اور جب ان خود اخذ کردہ اصولوں کا اطلاق کسی مسلم ملک کی عوام پر کیا جاتا ہے تو اکثر لوگ منافق و کافر قرار دیے جاتے ہیں جن کو سزا دیے بغیر اسلام نظام وخلافت قائم نہیں ہوسکتی۔
موجودہ تکفیری فکر اسلام کی ایک مخصوص تعبیر اور مغرب وامریکہ کے ظلم کےخلاف رد عمل پر کھڑی ہے۔ احیاء اسلام اورمذہبی خلافت کے قیام کی تحاریک جس مخصوص دینی تعبیر کے شدت پسندانہ اصولوں پر کاربند ہیں ان کے تحت معدودے چند کے علاوہ کوئی مسلمان نہیں رہتا ۔مغرب و امریکہ کے ظلم و ستم کے خلاف ردعمل یہ ہوتا ہے کہ ان کی تہذیب اور نظام حرام قرار پاتے ہیں، اور جب ان خود اخذ کردہ اصولوں کا اطلاق کسی مسلم ملک کی عوام پر کیا جاتا ہے تو اکثر لوگ منافق و کافر قرار دیے جاتے ہیں جن کو سزا دیے بغیر اسلام نظام وخلافت قائم نہیں ہوسکتی۔
نظریہ ، عقیدے اور مذہب چاہے وہ کتنی ہی مقدس کیوں نہ ہوں ، انسانی زندگی سے قیمتی نہیں ہو سکتے۔ انسانی زندگی کو کسی بھی مذہب یا نظریہ کی بھینٹ چڑھانے کی ترغیب دینے والے نظریات کسی بھی طرح انسانی بقا ، ترقی اور نجات کی بنیاد نہیں ہو سکتے۔
تکفیری فکر کی حامل شدت پسند تنظیموں کا رویہ اسلام کو ایک ایسے دین کے طور پر پیش کرتا ہے جس میں اقتدار کے حصول کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اس کے لیے وہ ہر حربہ جائز قرار دیتا ہے ،اور اقتدار میں آنے کے بعد وہ کسی مخالف کو برداشت نہیں کرتا۔زیادہ افسوس علماء پر ہوتا ہے جو عصبیت کی بنیاد پر سچ کا ساتھ نہ دیتے ہوئے خاموشی اختیار کرتے ہیں، گزشتہ ایک ماہ میں ان طالبات کے اغوا کے بعد سے اب تک کسسی مذہبی تنظیم یا عالم کی جانب سے کوئی مذمتی بیان تک سامنے نہیں آیا۔اب وقت آگیا ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء ایسے تمام گروہوں کے مقابل ایک واضح موقف اپنائیں اور اس بات کو واضح کردیں کے ایسے تمام شدت پسند عناصر اسلام کی صحیح تعلیمات کی نمائندگی نہیں کرتے، ورنہ ہم غیر مسلموں کے ان الزامات کی توثیق کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے دین تلوار کے زور پر پھیلایا اور صرف اقتدار کے لیے لوٹ مار کی۔
مذہبی احیاء پر مبنی شدت پسند فکر کے تحت سب سے زیادہ نقصان عورت کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ایسے نظریات کے حامل افراد نے ہی طالبان امارت اسلامیہ کی صورت میں افغانستا ن میں عورتوں پر ترقی اور تعلیم کے دروازے بند کر دیے تھے، انہیں جہادیوں نے سوات کی طالبات کو سکول جانے سے منع کردیا تھا اور اب یہی فکر سینکڑوں بچیوں کو سیاسی اور مذہبی مقاصد کے لئے اغوا کے بعد لونڈی اور غلام بنانے کی گھناونی حرکت میں ملوث ہے۔ ایسی فکر کے حامل لوگ جو مذہب اور ثقافت کے تحت مردانہ برتری اور نسوانی پستی کی تقسیم کرنا چاہتے ہیں افغانستان، سوات اور نائجیریا کی عورت کے ہاتھوں ہی شکست پائیں گے۔
نظریہ ، عقیدے اور مذہب چاہے وہ کتنی ہی مقدس کیوں نہ ہوں ، انسانی زندگی سے قیمتی نہیں ہو سکتے۔ انسانی زندگی کو کسی بھی مذہب یا نظریہ کی بھینٹ چڑھانے کی ترغیب دینے والے نظریات کسی بھی طرح انسانی بقا ، ترقی اور نجات کی بنیاد نہیں ہو سکتے۔
مذہبی احیاء پر مبنی شدت پسند فکر کے تحت سب سے زیادہ نقصان عورت کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ایسے نظریات کے حامل افراد نے ہی طالبان امارت اسلامیہ کی صورت میں افغانستا ن میں عورتوں پر ترقی اور تعلیم کے دروازے بند کر دیے تھے، انہیں جہادیوں نے سوات کی طالبات کو سکول جانے سے منع کردیا تھا اور اب یہی فکر سینکڑوں بچیوں کو سیاسی اور مذہبی مقاصد کے لئے اغوا کے بعد لونڈی اور غلام بنانے کی گھناونی حرکت میں ملوث ہے۔ ایسی فکر کے حامل لوگ جو مذہب اور ثقافت کے تحت مردانہ برتری اور نسوانی پستی کی تقسیم کرنا چاہتے ہیں افغانستان، سوات اور نائجیریا کی عورت کے ہاتھوں ہی شکست پائیں گے۔
نظریہ ، عقیدے اور مذہب چاہے وہ کتنی ہی مقدس کیوں نہ ہوں ، انسانی زندگی سے قیمتی نہیں ہو سکتے۔ انسانی زندگی کو کسی بھی مذہب یا نظریہ کی بھینٹ چڑھانے کی ترغیب دینے والے نظریات کسی بھی طرح انسانی بقا ، ترقی اور نجات کی بنیاد نہیں ہو سکتے۔
One Response
ظریہ ، عقیدے اور مذہب چاہے وہ کتنی ہی مقدس کیوں نہ ہوں ، انسانی زندگی سے قیمتی نہیں ہو سکتے۔ انسانی زندگی کو کسی بھی مذہب یا نظریہ کی بھینٹ چڑھانے کی ترغیب دینے والے نظریات کسی بھی طرح انسانی بقا ، ترقی اور نجات کی بنیاد نہیں ہو سکتے۔