پاکستان میں دارالحکومت اسلام آباد، پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان، فاٹا)وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے)، آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان سمیت کل آٹھ انتظامی اکائیاں ہیں جن میں فاٹا صوبائی درجے سے تاحال محروم ہے۔ پاکستان میں موجودہ صوبوں کی تقسیم اور مزید نئے صوبوں کی تشکیل ناگزیر ضرورت بنتی جا رہی ہے۔ نئی انتظامی اکائیوں کی تشکیل پاکستان کے وفاقی، قومیتی، جغرافیائی، ارضیاتی، تذویراتی اور انتظامی تناظرات کا معروضی تقاضا ہے۔

پاکستان کی وفاقی اکائیاں

پاکستان کی وفاقی اکائیاں

بلحاظ رقبہ پاکستان کے ہم پلہ ممالک اور پاکستان کی نصف آبادی سے بھی کم آبادی رکھنے والے ممالک مثلاً ترکی، افغانستان اور ایران پاکستان سے زیادہ انتظامی اکائیاں رکھتے ہیں۔ ترکی میں 81، افغانستان میں 34 اور ایران میں 31 صوبے ہیں جبکہ پاکستان سے رقبے اور آبادی دونوں اعتبار سے انتہائی چھوٹے ممالک سری لنکا میں 9 اور نیپال میں 7 صوبے ہیں۔ اگر پاکستان کا انتظامی اکائیوں کی تعداد پر دیگر ممالک سے تقابلی موازنہ کیا جائے تو اِس حساب سے پاکستان میں کم از کم مزید 30 صوبوں کی ضرورت ہے۔

مضبوط وفاق کے لیے نئے صوبوں کا قیام ضروری ہے

وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ترقی کے یکساں مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے بھی مزید نئے صوبوں کی تشکیل ناگزیر ہو چکی ہے۔
پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے اور مضبوظ وفاق کے لئے صوبوں کا چھوٹا ہونا، ایک دوسرے پر انحصار کرنا، عددی اعتبار سے تعداد میں زیادہ ہونا اور رقبہ اور آبادی میں صوبوں کے باہمی خدوخال متوازی ہونا وغیرہ مضبوط اور فعال مرکز کے لئے ناگزیر عناصر ہیں۔ کیونکہ بصورتِ دیگر حجم میں بڑے، تعداد میں کم، استعداد میں خودانحصار اور آبادی اور رقبے میں غیرمتوازی صوبے مرکز کی برتری کو عموماً خاطر میں نہیں لاتے اور نہ ہی خود وفاقیت کے ثمرات سے بہرہ مند ہوپاتے ہیں۔ ایسی صورت میں وفاق میں صدارتی طرزِ حکومت ہو یا پارلیمانی دونوں صورتوں میں بیشتر اوقات اقتدار آبادی کے اعتبار سے بڑے صوبوں تک ہی محدود رہتا ہے۔ یوں چھوٹے صوبوں کے باشندوں میں احساسِ شراکت کی بجائے بیگانگی کا احساس زور پکڑتا ہے اور وہ خود کو برابر کا شہری سمجھنے کی بجائے ’بیگار‘ پر مجبور کئے گئے سمجھتے ہیں۔ اس طرح پیدا ہونے والے احساسِ محرومی کی وجہ سے چھوٹے صوبے خود کو وفاق کا جزو سمجھنے کی بجائے وفاق کو استعمار (سامراج) اور خود کو نوآبادی (کالونی) سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایسے ممالک میں وفاق کو متحد رکھنے والی قوت (Binding Factor) کے طور پر وفاق کے ثمرات کی بجائے فوج پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

وسائل کی تقسیم اور ترقی کے یکساں مواقع

وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ترقی کے یکساں مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے بھی مزید نئے صوبوں کی تشکیل ناگزیر ہو چکی ہے۔ اگرچہ سندھ میں دیہی اور شہری کوٹہ بندی کی وجہ سے ترقی کے یکساں مواقع کی فراہمی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوگیا ہے لیکن سندھ میں وسائل کی منصفانہ تقسیم ابھی بھی توجہ طلب ہے۔ وہ اس طرح کہ ایک طرف تو سندھ کے دیہی علاقے معاشی محرومیوں میں مبتلا ہیں تو دوسری جانب سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی اور حیدرآباد میں وسائل کا ارتکاز ہو رہا ہے۔ اس سے بدتر حالات پنجاب کے ہیں جہاں نہ تو کوٹہ بندی ہے اور نہ ہی وسائل کی گردش ہے۔ پنجاب کی ترقی اور خوشحالی کا بھانڈا جی ٹی روڈ سے دائیں بائیں ہونے پر ہی پھوٹ جاتا ہے۔ ایک طرف تو لاہور سے باہر کے اضلاع سیوریج جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں تو دوسری طرف پورے پنجاب کی مشترکہ مالیات کو لاہور میں میٹروبس اور اورنج ٹرین جیسے پرتعیش منصوبوں کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔

بلوچستان کے وسیع رقبے اور تعداد میں کم اورمنتشر آبادی کی وجہ سے بلوچستان کو قوم اسمبلی میں معقول نمائندگی نہیں مل سکی ہے۔ بلوچستان تاحال وفاقی اکائیوں کی موجودہ تقسیم کے باعث نہ تو ترقی و خوشحالی دیکھ سکا ہے اور نہ ہی بلوچستان میں انتظامی کارگردگی میں کوئی بہتری آئی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ موجودہ پاکستان کی وفاقی اکائیوں کو تقسیم کر کے مزید نئے صوبے بنائے جائیں۔ اِس ضمن میں بلوچوں کی کم آبادی کے باعث محدود نمائندگی کے مسئلے سے نبٹنے کے لیے نئے بننے والے صوبوں کو مساواتِ مبادلہ (parity) کے تحت قومی اسمبلی میں اضافی نشستیں دی جائیں جبکہ سینٹ میں نئے بننے والوں صوبوں اور پرانے صوبوں کی حسبِ دستور برابر نشستیں برقرار رکھی جائیں تاکہ قانون سازی اور پالیسی سازی میں چھوٹے صوبوں کی رائے بھی فیصلہ کن اثر رکھنے کی استعداد حاصل کر سکے۔ موجودہ وفاقی ڈھانچے میں پنجاب اپنی زیادہ آبادی کے باعث وفاق کے فیصلوں پر حاوی نظر آتا ہے جس کی وجہ سے آبادی میں کم صوبے احساس محرومی کا شکار ہو چکے ہیں۔

لسانی بنیادوں پر نئی انتظامی اکائیوں کی تشکیل

اگر پنجاب کی بولیوں کے لحاظ سے ہی تقسیم کی جائے تو تب بھی موجودہ پنجاب کی جگہ 6 صوبوں کی گنجائش باخوبی بنتی ہے۔
پاکستان ایک کثیر القومیتی ملک ہے جس میں نسلی، لسانی اور ثقافتی اعتبار سے تنوع پایا جاتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں پنجابی، سندھی، پشتون اور بلوچ قومیتی بنیادوں پر پہلے سے چار صوبے موجود ہیں لیکن اِن صوبوں میں مزید کئی چھوٹی بڑی لسانی قومیتیں ہیں جن میں سے بعض اگرچہ بلاشبہ پنجابی، سندھی، پشتون اور بلوچی زبانوں کی ہی ذیلی بولیاں (dialect) ہیں مگر یہ بولیاں ارتقائی عمل سے گزر کر اب بذاتِ خود الگ زبانیں بن چکی ہیں اور اِنہیں بولنے والے لسانی اعتبار سے اپنی الگ قومیتی شناخت کا تقاضا کر رہے ہیں۔ جن میں سرائیکی، ہزارہ اور براہوی سرفہرست ہیں۔

صرف پنجابی زبان کی چھ سے زائد بولیاں ہیں جن میں وسطی پنجاب میں بولی جانے والا ’ماجھی‘ بولی کو پنجابی زبان کا معیاری لہجہ قرار دیا جاتا ہے جو جنوبی اور شمالی پنجاب میں بولی جانے والی بولیوں سے کافی مختلف ہے۔ جبکہ اِس فرق کا مشاہدہ لاہور، راولپنڈی، سرگودھا اور ملتان ریجنز میں بولی جانے والی بولیوں کے مابین تقابلی موازنے میں کیا جاسکتا ہے۔ جب ملتان، سرگودھا اور راولپنڈی کے باشندوں کا اپنے کاموں کے لئے صوبائی دارالحکومت لاہور جانا ہوتا ہے تو وہاں انہیں بولیوں میں خاصے فرق کی وجہ سے پنجابی میں بات چیت میں دقت پیش آتی ہے۔ اس ضمن میں پوٹھوہاری صوبے کا مطالبہ بھی اِسی مسئلے کا نتیجہ ہے۔ اگر پنجاب کی بولیوں کے لحاظ سے ہی تقسیم کی جائے تو تب بھی موجودہ پنجاب کی جگہ 6 صوبوں کی گنجائش باخوبی بنتی ہے۔ جبکہ سندھ میں اردو بولنے والوں کا احساسِ محرومی بھی توجہ کا طلبگار ہے جسے دور کرنے کی بجائے مہاجر کی اصطلاح کو پناہ گزین کے معنوں میں لیتے ہوئے الگ صوبے کے مطالبے پر زبان بندی کے لئے انہیں ازروئے تضحیک بھارت واپس جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں سے متعلق معلوماتی چارٹ

پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں سے متعلق معلوماتی چارٹ

بھارت نے آزادی کے نو سال بعد 1956 ءمیں ہی ورثے میں ملنے والی انتظامی اکائیوں کی لسانی بنیادوں پر تحلیل، انضمام اور تشکیل کے ذریعے نئی انتظامی اکائیاں (صوبے / ذیلی ریاستیں) بنائی تھیں جبکہ حال ہی میں بھارت نے 2 جون2014 ءکو ’آندھراپردیش‘ کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کر کے تیلگو زبان بولنے والوں کے لئے الگ ”تلنگانہ ریاست“ نام کا نیا صوبہ تشکیل دیا ہے۔ بھارت میں لسانی بنیادوں پر تشکیل دی گئی مزید نئی انتظامی اکائیوں کی بدولت، چھوٹی قومیتوں کا احساسِ محرومی دور ہوا، انتظامی اکائیوں میں رقبے اور آبادی کے لحاظ سے توازن قائم ہوا جبکہ بھارتی وفاق کو مضبوطی اور استحکام ملا جس کی پاکستان کو لازماً تقلید کرنی چاہیے۔

غیر ہموار آباد کاری

جغرافیائی اعتبار سے بھی پاکستان میں موجودہ صوبوں کی جگہ مزید نئے صوبوں کی ضرورت بنتی ہے۔ جس کی اہم وجہ ماسوائے سندھ کے بقیہ موجودہ صوبوں کی بلحاظِ نقشہ غیرمتوازن اور بے ہنگم جغرافیائی ساختیں ہیں۔ اِسی وجہ سے صوبوں میں آبادی کی گنجانیت کا فرق بھی سنگین تر ہو رہا ہے۔ پہلے سے ہی گنجان آباد علاقے مزید گنجان ہو رہے ہیں جس کے نتیجے جہاں بعض علاقوں میں زرعی اور جنگلاتی زمینوں پر آبادکاریاں ہو رہی ہیں وہیں دوسری جانب آبادی کے لئے موضوع غیرزرعی اور غیرجنگلاتی زمینیں ویران پڑی ہوئی ہیں۔

دفاعی تقاضے اور نئے صوبے

پاکستان میں جو انتظامی اکائیاں بنائی گئی ہیں وہ پاکستان کے ارضیاتی خدوخال کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی استعداد نہیں رکھتیں
ملکی دفاع اور سلامتی کے نکتہِ نظر سے پاکستان کی محدود تذویراتی گہرائی (strategic depth) بھی نئے صوبوں کے قیام بالخصوص پنجاب کی مزید صوبوں میں تقسیم کی متقاضی ہے۔ تاکہ روایتی حریف بھارت سے جنگ کا سامنا ہو تو وہ موجودہ صوبائی دارالحکومت لاہور کو نشانہ بنا کر 9 کروڑ سے زائد آبادی اور 2 لاکھ سے زائد مربع کلومیٹر کے علاقے کو انتظامی طور پر مفلوج نہ کر سکے۔ یہی معاملہ سندھ کے ساتھ بھی بنتا ہے کہ جہاں بھارت کراچی کی بحری ناکہ بندی کر کے سندھ کو انتظامی طور پر متاثر کرسکتا ہے۔ جبکہ افغانستان اور ایران سے ملحقہ مغربی سرحد سے غیر ریاستی عناصر کی سرحدپار تخریب کاریوں کے اثرات سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی انتظامی فعالیت کو محفوظ رکھنے کے لئے اِن کی تقسیم اور نئے صوبوں کی تشکیل بھی ناگزیر ہے۔ جس کی اہم وجوہات خیبرپختونخوا کی باریک پٹی (strip) نما لمبوتری (elongated) ساخت اور بلوچستان کی دشوار گزار وسیع ترین تذویراتی گہرائی ہے تاکہ امن یا جنگ کے حالات میں اگر غیر متوقع ہنگامی حالات کا سامنا کرنا پڑے تو موجودہ دو صوبوں کی جگہ پانچ سے سات صوبے ہونے کی صورت میں مقامی ذرائع خود ہی خطرات سے نبردآزما ہو سکیں۔

نئے صبوں کا قیام؛ ارضیاتی خدوخال کی یکسانیت مدنظر رکھیں

ارضیاتی اعتبار سے بھی پاکستان یکساں خدوخال کا حامل ملک نہیں ہے بلکہ پہاڑی، صحرائی، دوآبی، سطحِ مرتفعائی، ساحلی اور میدانی خطوں کا عمیق امتزاج ہے۔ مذکورہ بالا خطے موسمیاتی، آب و ہوا، درجہ حرارت، زرخیزی، بنجریلی، دلدلی ، جنگلاتی، ہریالی، برفانی اور بارانی اعتبار سے مزید تنوع رکھتے ہیں۔ جبکہ ترقی و پسماندگی اور بودوباش کا فرق اِن خطوں کے مابین ارضیاتی خدوخال میں تنوع کو مزید ابھارتا ہے۔ مگر اِس حوالے سے پاکستان میں جو انتظامی اکائیاں بنائی گئی ہیں وہ پاکستان کے ارضیاتی خدوخال کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی استعداد نہیں رکھتیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اب جب نئے صوبے بنائے جائیں تو اُن میں ارضیاتی یکسانیت (uniformity) کو ملحوظِ خاظر رکھا جائے۔ جس کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہوگا کہ وہاں جب یکساں پالیسیاں بنیں گی تو اُس کے اثرات بھی پورے صوبے پر یکساں پڑنے کے امکانات ہوں گے۔ علاوہ ازیں زراعت، صنعت، بودوباش، معیارِ زندگی اور ذرائع نقل و حمل وہ عوامل ہیں جن میں اگر یکسانیت پائی جائے تو انتظامی کارگردگی موثر ہوتی ہے اور ترقی کے ثمرات سب تک پہنچتے ہیں۔ ایسی صورت میں مرکز کی جانب سے صوبوں کو فنڈز جاری کرتے وقت یہ فرق رکھنے میں آسانی رہتی ہے کہ ترقی کی وجہ سے کس صوبے کو مطلوبہ اور پسماندگی کی وجہ سے کس صوبے کو فاضل فنڈز ملنے چاہیئں تاکہ ترقی و خوشحالی کے سفر میں وفاق کی تمام اکائیاں ایک ساتھ اور ایک جیسی ترقی کریں۔

اسلام آباد اور لاہور کی محتاجی ختم کریں

انتظامی حوالے سے موجودہ صوبوں کی تقسیم اور مزید نئے صوبوں کی تشکیل باقی عوامل کی نسبت زیادہ ناگزیر اور فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ اگر صرف پنجاب اور سندھ ہی کی مثال لی جائے تو لاہور اور کراچی کی اپنی آبادی دنیا کے کئی ملکوں کی نصف آبادی کے برابر ہو چکی ہے۔ کراچی اور لاہور کی آبادی نیوزی لینڈ، ناروے اور ڈنمارک کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ لہٰذا اب لاہور 9 کروڑ پنجابیوں اور کراچی 5 کروڑ سندھیوں کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری سے پوری طرح عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔ جبکہ بلوچستان میں دوردراز علاقوں کے باشندوں کا دشوار گزار راستوں اور مخدوش ذرائع نقل و حمل سے کوئٹہ آنا جانا انتہائی کٹھن ہے اِس لئے ضروری ہے کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں ڈویژنوں کی جگہ نئے صوبے بنائیں جائیں ۔ جبکہ فاٹا کا نظم و نسق اسلام آباد سے چلانے کی بجائے اُسے مکمل صوبے کا درجہ دیا جائے تاکہ وہاں کے لوگوں کی اسلام آباد کی محتاجی ختم ہو۔ اسی طرح پنجاب کی انتظامی تقسیم سے جنوبی پنجاب کے لوگوں کا لاہور پر انحصار ختم ہو گا۔

موجودہ صوبائی ڈھانچے کی وجہ سے سرمایہ کاری، صنعت کاری، ارتکازِ دولت اور آبادی کی گنجانیت صوبائی دارلحکومتوں اور ان کے گردوں نواح میں سمٹ کر محدود ہوگئی ہے جبکہ دارالحکومتوں سے دور علاقے محرومیت اور پسماندگی میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں
موجودہ صوبائی ڈھانچے کی وجہ سے سرمایہ کاری، صنعت کاری، ارتکازِ دولت اور آبادی کی گنجانیت صوبائی دارلحکومتوں اور ان کے گردوں نواح میں سمٹ کر محدود ہوگئی ہے جبکہ دارالحکومتوں سے دور علاقے محرومیت اور پسماندگی میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں جس کا ازالہ نئے صوبوں کے قیام کی صورت ہی ممکن ہے۔

پاکستان میں موجودہ صوبوں کی تقسیم اور مزید نئے صوبوں کی تشکیل ناگزیر ہو چکی ہے۔ پاکستان کی انتظامی اکائیوں کی از سر نو تشکیل میں پاکستان اور پاکستانیوں کے قومیتی، جغرافیائی، ارضیاتی، تذویراتی، وفاقی اور انتظامی خدوخال کو لازماً ملحوظِ خاطر رکھا جائے تاکہ لوگوں کی زندگیاں آسان ہوں، چھوٹی قومیتوں کی محرومیاں دور ہوں، سماج پہ چھائے جمود کا خاتمہ ہو پاکستانیوں کو وفاق کے ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع ملے۔ انتخابی عمل، انتقالِ اقتدار، پالیسی سازی اور قانون سازی میں تمام قومیتیں بھرپور شراکت کریں۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ترقی کے یکساں مواقع عام ہوں، انتظامی استعداد اور کارگردگی ثمرآور ثابت ہو۔ ملک میں تعمیرو ترقی کا سفر بے ہنگم ہونے کی بجائے یکساں ہو۔ مگر ایسا تب ہی ممکن ہوگا جب پاکستان کی موجودہ 8 انتظامی اکائیوں کو کم از کم 30 صوبوں میں تقسیم کیا جائے گا وگرنہ پاکستانی موجودہ گھٹن اور محرومی جھیلتے رہنے پر مجبور رہیں گے اور وفاق کی بجائے علیحدگی کو اپنی نجات کا راستہ مانیں گے جس کی مثال مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان) کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

2 Responses

  1. Aqeel Hyder

    What a Utopian article, it is strangely comparative analysis quoting example from one place and setting another, like segregation of province on basis of lingual unities, quoting example on punjab whether the writer pleases his article the segregation of sindh by Muhajir lingual entities, their seperated attitude is there isolation identity, which is paraphrasing have been burning issue since inception of this country, one cannot punish whole province on basis of this, if say tomorrow Afghani have become majority of karachi would you place karachi as piece of cake to them. nonetheless he has not single proper example for segregation of sindh, rather putting forward strange indoctrination that current political system is good, and we have to adjust physically, tell me which part of sindhi is different in bylanguage, why don’t urdu speaking individuals have been clarified by the fact that they are now in sindh since 60 years, they should act like one. further more, in depth of article writer discuss main reason for injustified distribution of wealth in sindh is due to overshowring capital in Hyderabad and Karachi, what solution he purpose that those both should be made seperate province and handed over to urdu speaking, where is the solution!!!!

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: