ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی لڑائی ساس بہوکے سوپ سیریل جیسی لگنے لگی ہے، جس کی پہلی قسط میں ہی علیحدگی اور صلح کا کھیل شروع ہوتا ہے اور پھر ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔نخریلی بہو یعنی ایم کیو ایم آئے روز تحریک انصاف جیسی نندوں،بھابیوں اورسسرال رشداروں کی لالچی اور فریبی نظروں سے گھبرا کر سسرال یعنی حکومت سے بگڑ کر حزب اختلاف یعنی مائیکہ میں ڈیرہ جما لیتی ہے۔ گو کہ یہ سسرالی سیاست اب دقیانوسی معلوم ہوتی ہے مگر ہر بار نخریلی بہو کچھ ایسے نازوادا سے روٹھتی اور منتی ہے کہ اس بار بار دہرائے جانے والے ڈرامہ میں بھی جان پڑ جاتی ہے۔ حالیہ قسط میں بھی ایم کیو ایم نے سندھ میں اپنی سُسرالی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے بیان کے بعد جھٹ سے الگ گھر یعنی علیحدہ صوبے کا مطالبہ کردیا ہے۔اس بیان کے بعد ایم کیو ایم نے آو دیکھا نہ تاواورچل دی مائیکے یعنی حزب اختلاف کے بنچوں پر۔ مگر بدقسمتی دیکھئے کہ اب مائیکے میں تحریک انصاف سبھی کے دل جیت چکی ہے اور نخریلی ایم کیو ایم کے لئے دلوں اور بیلٹ بکسوں میں جگہ کم پڑتی جارہی ہے۔
نخریلی بہو یعنی ایم کیو ایم آئے روز تحریک انصاف جیسی نندوں،بھابیوں اورسسرال رشداروں کی لالچی اور فریبی نظروں سے گھبرا کر سسرال یعنی حکومت سے بگڑ کر حزب اختلاف یعنی مائیکہ میں ڈیرہ جما لیتی ہے۔
یوں تو ایم کیو ایم نے سندھ حکومت سے علیحدگی کے لئے سید خورشید شاہ کے بیان کو بہانہ بنایا ہے جس پروہ معافی مانگتے ہوئے اپنے غیر مہذب الفاظ واپس بھی لے چکے ہیں مگر کراچی کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم اب مطالبہ کر رہی ہے کے مہاجروں کے ساتھ سوتیلی اولاد جیسا سلوک اور مالی زیادتیوں کے سدباب کے لئے مہاجروں کا علیحدہ صوبہ بنایا جائے جہاں مہاجر اپنی زندگی اپنی خواہشات کے مطابق بسر کرسکیں۔
ایم کیو ایم علیحدہ صوبے کا مطالبہ صرف اس لئے کر رہی ہے تا کہ نئے بننے والے صوبے میں اپنی مرضی سے حکومت چلا سکے۔ اس بات میں کسی کو کوئی شک نہیں کے ایم کیو ایم کراچی کی سب سے بڑی جماعت ہے اور کراچی کے علاوہ بھی سندھ کے دیگر شہروں میں ایم کیو ایم ووٹ بنک رکھتی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم کی جو پوزیشن 2008 کے انتخابات کے وقت تھی وہ اس سے آگے نہیں بڑھ پارہی جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کو وفاق تو دور ایک صوبے میں بھی حکومت بنانے کا موقع نہیں مل رہا۔ اسی لئے ایم کیو ایم یہ چاہتی ہے کہ وہ شہری علاقوں پر مشتمل ایک علیحد صوبہ بنوائے جہاں اس کی حکمرانی ہو۔رہی سہی کسر تحریک انصاف کے کراچی میں ہونے والے جلسے نے نکال دی، پہلے ہی 2013 کے انتخابات میں کراچی کی ایک نشست تحریک انصاف کو ملنے پر پارٹی میں بہت غم و غصّہ پایا جاتا ہے اور اب اگر تحریک انصاف نے اگلے انتخابات میں کراچی کی دیگر سیٹوں پر بھی قبضہ کرلیا تو ایم کیو ایم کراچی میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے گی۔ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ کراچی بیشک ہاتھ سے نکل جائے مگر سندھ کے شہری علاقوں پر مشتمل ایک صوبہ جلد از جلد بن جائے۔
پاکستان میں مہاجر، سرائیکی اور ہزارہ صوبے کی بحث نئی نہیں ہے، اگر ایم کیو ایم علیحدہ صوبہ بنوانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر دیگر قوم پرست تحریکیں بھی یہی مطالبہ کریں گی۔
سندھ کی اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی سے علیحدگی ایم کیو ایم کے لئے ضروری بھی ہے،پیپلز پارٹی کبھی بھی سندھ کی تقسیم پر راضی نہیں ہو گی کیونکہ اگر ایک نیا صوبہ بنتا ہے تو سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی کو ہی ہوگا اور وہ اپنے مضبوط گڑھ سے محروم ہو جائے گی۔پاکستان میں مہاجر، سرائیکی اور ہزارہ صوبے کی بحث نئی نہیں ہے، اگر ایم کیو ایم علیحدہ صوبہ بنوانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر دیگر قوم پرست تحریکیں بھی یہی مطالبہ کریں گی۔لیکن علیحدہ صوبوں کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں میں سے کسی بھی جماعت میں ایم کیو ایم کی طرح شہروں کو مفلوج کرنے کی صلاحیت نہیں اس لئے دیگر تحریکوں کی نہ تو کوئی سنتا ہے اور نہ ہی کوئی ان کے نام پر سیاست کررہا ہے،لہذا فوری طور پر کسی بھی نئے صوبے کا امکان خارج از بحث ہے کیوں کہ تحریک انصاف خیبر پختونخواہ میں، مسلم لیگ نواز پنجاب میں اور قوم پرست بلوچستان میں نئے صوبوں کی ویسی ہی مخالفت کرتے رہیں گے جیسی پی پی پی سندھ میں کرتی ہے۔

One Response

  1. Nawaz

    وه لوگ زندگی میں کامیاب هوتے هیں جواپنے حالات و واقعات کو مدِ نظر رکهتے هوئے اپنی پلاننگ کرتے هیں اور ایک پریآریٹی لسٹ بناتے هیں.وه جانتے هیں که انهیں کونسے کام پهلے کرنے هیں اورکونسے اِس کے بعد اور کونسے اُس کے وغیره وغیره.
    آج کل نئے صوبے بنانے کی باتیں زبان زدِ عام هیں.نئے صوبے بنانے کی باتوں کی مثال توپنجابی کی کهاوت”پنڈ پئے نهیں اچکے پهلے”کا مصداق هے .هم ابهی تک ایک قوم بن نهیں سکے اور گروهوں کو در گروهوں میں تقسیم کرنے کی باتیں کوئی عقل مندی نهیں.جب هم ایک قوم بن جائیں گے تو اپنی عوام کی سهولت کے لیے نئے انتظامی یونٹ بنانا کوئی بری بات نهیں.مگر اب تو ایسا هو رها هے که جب کوئی بهی ناراض هوتا هے تو اپنا علیحده صوبه مانگنا شروع کر دیتا هے.
    اگر پوری دنیا پر نظر دوڑائی جائے تو پته چلے گا که مسلمانوں کے علاوه ساری غیرمسلم دنیا اکهٹی هو رهی هے اور دوسری طرف هم هیں که بهائی کے ساته بهائی رهنے کو تیار نهیں.اگر یورپ پر نظر دوڑائیں تو آپکو یه جان کر حیرانگی هو گی که ان سب کی زنانیں مختلف ،مذاهب مختلف وغیره وغیره مگر ان میں صرف ایک چیز مشترک هے اور وه هے اسلام اور مسلمان دشمنی جس نے انهیں اکهٹا کر رکها هے.اور اِدهر هم مسلمان الله ایک،رسول ایک،قرآن ایک مگر ایمان اور عقل وشعور سے فارغ اپنے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر تلے هوئے هیں.
    خدا را عقل کے ناخن لیجیے اور الله کے لیے ایک امت بنیے.

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: