نئےذہن کسی بھی تہذیب ، زبان اور ادب کے لیے بہت اہم  سرمایہ ہوتے ہیں، جس سرمائے کی قدر ہر وہ شخص کرتا ہے جو ان کی اہمیت کو جانتا ہے اور ان کے ذریعے وجود میں آنے والے نئے انقلابات کی آہٹ کو بہت پہلے سن لیتا ہے ۔ جو قوم اور تہذیب اپنے نئے لوگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اس کی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی۔اس کے برعکس جن اقوام میں نئے اذہان کی خوش آمدید کا ماحول نہیں ہوتا وہ کبھی کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے پاتیں ۔ نیا ذہن ایک نعمت سے کسی طور کم نہیں ہوتا جس میں ہزاروں ،لاکھوں طرح کی نئی روشنیوں کو اخذ کرنے  کی طاقت ہوتی ہے۔ جس کی بنیاد پر وہ مستقبل کو ماضی سے بالکل جداگانہ انداز میں تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ نئے ذہن میں نئی امنگوں اور خواہشوں کا وفور ہوتا ہے اوروہ نئی بلندیوں کے تصور سے سجا ہوتاہے ۔ اس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ زندگی کا نیا معمار بن سکے اور تہذیب کی بے معنی جدلیات کو ازکار رفتہ بنا کر حسن کی نئی کائنات کا تصور پیش کرسکے ۔ کسی بھی قوم اور تہذیب کا ہر نیا ذہن ایک نئے انقلاب کی پہلی آہٹ ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی قدر کرنا اپنے آنے والے لمحات کو بہتر اور خوش حال بنانے کے مترادف ہے ۔ ادب، تاریخ ، سیاست ، فنون لطیفہ، زبان اور مذہب زندگی کے ان تمام شعبوں میں نیا ذہن ہی نئی وسعتیں اور نئے راستے بناتا ہے۔ جس کے ہاتھ میں پرانے آلات کا ہنر مند ہتھیار بھی ہوتا ہے اور سوچنے کے لیے امید سے زیادہ رنگین دماغ  بھی،جس کی بنیاد پر وہ ان چاہی خواہشوں کے فراق میں ایک نیا منظر تراشتا ہے۔

 نئے ذہن کا استقبال دنیا کو نئی راحتوں کا معیار بخشتا ہے۔اس کے تانوں بابوں کو بنتا ہے اور اس کی افشاں کو آسمان میں بکھیرتا ہے۔ نیا ذہن تعصبات کے پیمانوں سے خالی ہوتا ہے اور ماضی کے گدلے پانی سے پاک ۔ اس میں سڑے ہوئے بوسیدہ خیالات کی بساند نہیں ہوتی اور فرسودہ روایات کا جالا نہیں لگا ہوتا ۔ لہذا وہ نئی اور غیر جانب دار آنکھ سے دنیا کو دیکھتا ہے اور اپنے  چاروں جانب لطیف آب و ہوا کا تصور باندھ کر اس سے ایک حسین کائنات بنانے کا ہنر رکھتا ہے ۔ نیاذہن پرانے اذہان سے ہر طور بہتر ہوتا ہے ، اس لیے بھی کہ اس میں پرانے کی طرح کے مادی تصورات کا غلبہ نہیں ہوتا ۔ وہ چیزوں کو اور خیالات کو ، سچ اور جھوٹ، اچھائی اور برائی کے دو دو خانوں میں تقسیم کرنے کا مجاز نہیں ہوتا ۔ نیا ذہن ایک ستھرا، نور کا پیکر ہوتا ہے، جس میں پرانے الفاظ و نظریات کی کجی کی نہیں ہوتی ۔جس کے باعث وہ ایک ایسی دیوار تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو سیدھی ہو اور ثریا تک جا سکے۔

نئے ذہن کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ چیزوں کو الٹ کر دیکھنے کا ہنر جانتا ہے ۔ اس میں سیدھے اور الٹے کے کوئی واضح پیمانے نہیں ہوتے ۔وہ تصویر کے ایک رخ کو اس کا اول اور دوسرے کو اس کا آخر نہیں گردانتا ، وہ بہتا ہے اس سیال کی طرح جو ہر طرف سے چاروں جانب بہہ رہا ہے ، کسی سمت کا تعین اور کسی معراج کا خواب اس کے یہاں نہیں ہوتا ۔ وہ خوش اور صحت مند حالت میں سفر کرتا ہے، جس سے کسی طرح کے خطرے اور بیمار تصور کے جنم لینے کا خدشہ نہیں ہوتا ۔ نیا ذہن لفظوں کی ترتیب اور خیالات کی تعظیم سے معرا ہوتا ہے ۔ اس کے یہاں اصول کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ،کسی دوڑ کا کوئی تصور نہیں ہوتا ،اس کے باطن سے ظاہر تک ایک طرح کا اجلا عکس جاری رہتا ہے جس میں بہت سی چیزیں اپنی دلچسپیوں اور تازگیوں کے ساتھ زندہ رہتی ہیں ۔ ان میں بیمار اور تہذیب و لسان کی سطح پر اکھڑے اور اڑے ہوئے نظریات کا گز ر نہیں ہوتا۔ وہ چیزوں کو جوڑ توڑ کر ان میں زندہ رہنے اور رحم و امن کے ساتھ زندہ رہنے والےوسیلے تلاش کرنا جانتا ہے۔نئے ذہنوں کو خوش آمدید کہنے میں ہمیں اس لیے بھی خوش اسلوبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیوں کہ ان میں کوئی ذاتی یا الہامی دوئی نہیں پائی جاتی۔ ان کے ہونے کے تصور کو مزید مستحکم کرنے میں ہمیں یوں بھی کوشاں ہونا چاہیے کہ نیاذہن ان چاہی تبدیلیوں کو مرقع ہوتا ہے ۔

نئے ذہنوں میں دنیا اور کائنات کے نئے تصورات ہوتے ہیں، پھر خواہ وہ کتنے ہی نا قابل قبول معلوم ہوں مگروہ پرانے سے ہزار گنا بہتر ہوتے ہیں ۔ نئے ذہن کی جس نا تجربے کاری کو ہم اس کا سقم سمجھتے ہیں وہ ہی اس کا سب سے بڑا مثبت نکتہ ہے ۔ جو آسمان کو آسمان اور زمین کو زمین نہیں سمجھتا ۔ جو سورج کو صرف آگ پھینکے والا گولا اور زندگی کو قائم رکھنے والا خدا نہیں سمجھتا  جو بارش کو صرف ایک طرح کا موسماتی عمل نہیں جانتا اور جو سردی ،گرمی ،بہار اور خزاں کو چند دنوں اور مہینوں تک محدود رکھنے والا کوئی قدرتی کھیل نہیں جانتا۔ نیا ذہن مشرق اور مغرب کے جھگڑوں سے اور ماکس اور موسی کی حکایات سے افضل ہوتا ہے ۔ اس میں اللہ ،رسول کے ناصحانہ تصورات کی بھیڑ نہیں ہوتی یا معاشی ، اقتصادی اور سماجیاتی تفریقات کا طے شدہ نظام نہیں پایا جاتا ۔ وہ سرحد سے پاک اور تصنعات سے جدا ہوتا ہے ۔ جس کی معصوم ہنسی اور عیار مسکراہٹ میں دنیا کو نئے سرے سے سجانے کی صلاحیت چھپی ہوتی ہے ۔ نئے ذہن کی خوشی اور اس کا استعجاب ہی اس کا سب سے اہم پہلو ہے جس میں حیرتوں کا ٹھاٹھے مارتا سمندر موجزن ہوتا ہے اور جو کہیں اور کسی بھی ساحل کو اپنا کنارہ تصور کر کے اس کی ریت کو نم کردینااپنا فرض سمجھتا ہے ۔ نیا ذہن نئی قدر اور نئی فضا کے ساتھ جنم لیتا ہے۔ اس کا استقبال نئی رسموں ، رواجوں ، مذہبوں ، تہذیبوں، زبانوں اور خیالوں سے زیادہ پرتپاک انداز میں کیا جانا چاہیے۔ ان کو مذہبوں اور زبانوں کی تقسیم میں بانٹنے کی جلدی میں خود کو ان کے آگے کسی دیوار کی طرح پیوست کرنے ے بجائے ان کی سادگی اور تازہ کاری سے خود کو صیقل کرنے کی سعی کرنا چاہیے ۔ نئے ذہنوں سے نئی روشنی حاصل کرنے کے لیے پرانے اذہان کو ان کے آگے پر امید نگاہوں سے تاکتے رہنا چاہیے۔ ان کے اذہان پر اپنی کائی زدہ فکر کو جمانے کے بجانے ان کے خیال کے پانی سے خود کے زنگ آلود نظریات کو صاف و شفاف کرنا چاہیے ۔ نیا ذہن نئی عمارت کی طرح اجلا اور با رونق ہوتا ہے جس کی دیواروں پر بوسیدہ اورر پرانے خیالات کی سیلن نہیں ہوتی ۔ جس پر جھوٹے رنگوں کا لیپ نہیں ہوتا۔ اس کا رنگ وہی ہوتا ہے جو اولین صورت میں قدرت  نے اسے عطاکیا ہوتا ہے ۔ وہ ان بوسیدہ عمارتوں کی مانند نہیں ہوتا جس پر عقائد ونظر یات کابدبودار روغن چڑھا ہوتا ہے اور جن کے منہ پہ وقت کی کھینچی ہوئی خراشوں کو چھپانے کے لیے مذہبی رسومات کا مسالا بھرا جاتا ہے۔نیا ذہن اس کچی مٹی کی طرح ہوتا ہے جس سے سوندھی سوندھی اور مدہوش کر دینے والی مہک اٹھتی رہتی ہے اور جس میں قبولیت کا ایسا لوچ پایا جاتا ہے کہ کسی حسین تصور کو قبول کرنے کے لیے اسےکسی کی اجازت نہیں لینی پڑتی ۔ نئے ذہن میں جوش جذبہ اور طمانیت تو ہوتی ہی ہے ساتھ ہی ساتھ اس میں انکسار ،حلم اورمحبوبیت بھی بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے ۔ نئے ذہن کا استقبال نئی قوموں اور نئے دنیاوں کے عروج کی موجب ہے ۔ ان کی تعظیم نئی کائنات  کےروشن نظاروں کی ضامن ہے۔ ہمیں نئے ذہن کا استقبال کرنا چاہئے اور اس  کی آمد کے جشن کو اپنی ذات کا مسئلہ تصور کرنا چاہیے۔

Leave a Reply