Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

میں ہوں تمھارا بیانیہ

test-ghori

test-ghori

08 جنوری, 2015
کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ میں اس دن پشاور کے اسی سکول میں تھا،کیا تم نے مجھے دہشت گردوں کے ساتھ دیکھا؟ ہاں تم نہیں دیکھ سکے لیکن ان بچوں نے مجھے غور سے دیکھا تھا،ان کی آنکھوں میں آخری عکس میرا ہی تھا، وہ لوگ جنھیں تم دہشت گرد بھی کہتے ہو مجھے اپنے ساتھ لائے تھے،اور میرے ہی کہنے پر انھوں نے ان بچوں کی جان لی تھی اور پھر میرے ہی کہنے پر اپنی جان بھی قربان کی تھی، یقینا تمہارے دل میں میرے لیے شدید نفرت کی لہر اٹھی ہے،اور تم حیران بھی ہو کہ میں وہاں سے بچ کے کیسے نکل گیاا، یہ بات تمھیں سمجھ نہیں آئے گی کیونکہ تم پاکستان کی معصوم اور بھولی بھالی عوام ہو، اور تم تو اتنے بھولے ہو کہ تم مجھے بھی صحیح طرح نہیں پہچانتے ، تمہارے حکمرانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ میرے پیروکاروں کو ختم کیا جائے لیکن انھوں نے مجھے ختم کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی،وہ کر بھی نہیں سکتے کیونکہ وہ بھی مجھے نہیں پہچانتے ،میں کسی بندوق سے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔اب تم حیران ہورہے ہو کہ آخر میں ہوں کون؟ اگر میں یہ کہوں کہ پاکستانیوں کی اکثریت کسی نہ کسی سطح پر میری پیروکار ہے،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام مجھے ہی سچ سمجھتی ہے،وہ میرے علاوہ کسی حقیقت کو جانتی ہی نہیں ہے،میں تمہیں اپنے ناموں کے چکر میں نہیں ڈالوں گا کیونکہ میرے نام وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں اور ویسے بھی نام سے زیادہ میرے وجود کی اہمیت ہے ۔
، تمہارے حکمرانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ میرے پیروکاروں کو ختم کیا جائے لیکن انھوں نے مجھے ختم کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی،وہ کر بھی نہیں سکتے کیونکہ وہ بھی مجھے نہیں پہچانتے ،میں ۔کسی بندوق سے ختم نہیں کیا جاسکتا
مجھے 16 دسمبر کے واقعے کے بعد تمہارے ردعمل نے بہت حیران کیا،مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میرے پیروکار ہوتے ہوئے بھی تم اس واقعے پر اتنے دکھی کیوں ہوئے؟ اس سے پہلےبھی تو مساجد،امام بارگاہیں،اور مزار شہید ہوئے،چرچوں میں بھی عام لوگوں کا خون بہایا گیا، جلسوں اور بازاروں کو نشانہ بنایا گیا،بسوں سے لوگوں کو اتار کر مارا گیا،اور لوگوں کو قبروں سے نکال کر پھانسیاں دی گئیں لیکن تمھارے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ تمہارے مذہبی رہنمابھی میرے پیروکار ہیں، وہ تو اس قتل و غارت پر دل سے خوش تھے ، ان کا خیال تھا کہ جو ہورہا ہے وہ اسلام اور پاکستان کی بہتری کے لیے ہورہا ہے۔ ہاں اگر کسی عوامی فورم پر ان سے پوچھا جاتا تھا تو کہہ دیتے تھے کہ یہ سب یہودو نصاریٰ کی سازش ہے۔ وہ ہر حملے کے بعد کہتے تھے کہ ایسے کام کرنے والوں کا طریقہ کار غلط ہے لیکن مقصد ٹھیک ہے۔
عام لوگ چاہے وہ ان پڑھ ہوں یا پڑھے لکھے ،چاہے وہ ڈاکٹر ہوں یا انجینئر، تاجر ہوں یا سپاہی سب میرے ہی ماننے والے ہیں،میرے عقیدت مندوں میں شاہ وگدا سب شامل ہیں۔مریدکے میں مرکز چلانے والوں سے لے کر یونیورسٹی کے پروفیسروں تک سب کی گفتگو ایک سی ہی ہے، تمہارےفوجی جنرنیل بھی وہی خواب دیکھتے ہیں جوملا فضل اللہ دیکھتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ لوگ ہتھیار اٹھا چکے ہیں ، کچھ زبان و قلم سے ذہن تیار کررہے ہیں اور کچھ دل میں میرے پیروکاروں کی کامیابی کے خواہاں ہیں۔ میں اپنی تعلیمات کا خلاصہ ایک بار پھر تمھارے سامنے رکھتا ہوں تاکہ تم مجھے صحیح طرح پہچانواور مجھ پر عمل کرنے کی سوچو،کیونکہ میں تمھارا بیانیہ ہوں؛
“صدیوں سے مسلمان اس لیے ذلت کا شکار ہیں کہ انھوں نے مسلح جہاد کو ترک کردیا ہے،عزت وسربلندی کا صرف یہی راستہ ہے کہ مسلح جدوجہد کے ذریعے خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے اور پوری دنیا میں اس وقت تک کافروں کے خلاف جہاد کیا جائے اور ان کے سامنے صرف تین راستے رکھے جائیں،یا تو وہ اسلام قبول کرلیں،یا جزیہ دیں یا پھر جنگ کے لیے تیار رہیں۔دنیا میں اس وقت تک امن نہیں ہوسکتا جب تک تمام دنیا پر مسلمانوں کی حکومت قائم نہ ہوجائے۔مغرب اپنی بے حیا تہذیب(زبان،لباس،اور تہواروں) اور نظام(سماجی،سیاسی،معاشی،سائنسی) کے ساتھ کفر عظیم ہے۔ مغربی تہذیب وتمدن اور نظام اپنانے والے مسلمان کہلانے کے قابل نہیں ہیں۔مسلمان ملکوں میں اسلامی سزائیں نافذ نہ کرنے والے اورمسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنے والا کفار سے بھی بدتر ہیں۔اقلیتیں صرف اس شرط پر مسلم معاشروں میں رہ سکتی ہیں کہ وہ ذلیل و خوار ہوکر رہیں اورجزیہ دیں”۔
پچھلے تین سو سال سے ہمارے مذہبی طبقہ نے ہمیں صرف یہی بتایا ہے کہ غلامی سے نجات اور نشاۃ ثانیہ کا واحد راستہ صرف مسلح جدوجہدہے،لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایک بھی مسلح تحریک کامیاب نہیں ہوسکی اور مسلمانوں کے ہتھیار اٹھانے کا نقصان مسلمانوں کو ہی ہوا ہے۔
میں ہوں تمھارا جوابی بیانیہ
یقیناً تم مجھے نہیں جانتے ،لیکن تم میرے مخالف کی کہانی سالوں سے سن رہے ہو اور اس پر یقین رکھتے ہو ۔ تمہیں میرے وجود سے بھی لاعلم رکھا گیا ہے لیکن جان لو کہ میں اسی دن سے وجود میں آگیا تھا جب سے مذہب اور نظریے کے نام پر تشدد اور غارت گری جاری ہے۔ لیکن میں گوشہ گمنامی میں تھا سوائے چند ایک اہل علم کےجو سمجھتے تھے کہ پاکستانیوں کو مجھ سے آگاہ ہونا چاہیے، کوئی مجھ سے واقف نہیں تھا۔ میں اپنی تمام تر خواہش کے باوجود پاکستانی عوام تک اپنی تعلیمات نہیں پہنچا سکا،کیونکہ مذہبی طبقہ ہمیشہ سے مجھے سچ ماننے اور مجھ پر عمل کرنے سے انکاری ہے۔لیکن 16 دسمبر کے واقعے کی دہشت نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا،میں سالوں سے اسلام کے نام پر ہونے والے اس ظلم وستم کو دیکھ کر تنگ آگیا ہوں،یہ ہر طرف پھیلا ہوا معصوموں کا خون،دہشت زدہ دل اور خوف زدہ آنکھیں اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتیں۔سنا ہے ارباب سیاست و اقتدار نے اس ظلم کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ مناسب ہے کہ اس موقع پر میں اپنا مؤقف بھی واضح کردوں تاکہ میرے مخالف کی غلطی بھی واضح ہوجائے ۔ شدت پسندوں کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہر خاص و عام کو ایک واضح ،قابل عمل اور پر امن بیانیہ مل جائے ۔میں ہوں تمہارا جوابی بیانیہ اور میری تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے؛
” پچھلے تین سو سال سے ہمارے مذہبی طبقہ نے ہمیں صرف یہی بتایا ہے کہ غلامی سے نجات اور نشاۃ ثانیہ کا واحد راستہ صرف مسلح جدوجہدہے،لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایک بھی مسلح تحریک کامیاب نہیں ہوسکی اور مسلمانوں کے ہتھیار اٹھانے کا نقصان مسلمانوں کو ہی ہوا ہے۔ ہم اپنی حکمت عملی کی درستی کے بجائے پوری دنیا سے لڑنے پر اصرار کررہے ہیں اور مسلسل اس فریب میں مبتلا ہیں کہ ہم دنیا فتح کر لیں گے۔ دنیا میں اقتدار ہمیشہ ان اقوام کو ملتا ہے جو معاشی اور سائنسی میدان میں آگے ہوتی ہیں۔سائنس کبھی بھی مسلمانوں کی دلچسپی کا بنیادی میدان نہیں رہی،جن مسلمان سائنس دانوں پر ہم فخر کرتے ہیں ان میں سے اکثر کو اپنے دور میں کافر قرار دیا گیا اور جلا وطن کیا گیا تھا،مسلمان ہمیشہ سے مابعد الطبیعاتی مباحث میں الجھے رہے ہیں اسی لیے ہمارے تمام عبقری لوگوں کا کام فلسفہ اور تصوف میں کی ہے۔ اگر ہم دنیا میں سربلندی چاہتے ہیں تو معاشی اور سائنسی میدان میں جدوجہد کرنی پڑے گی جویقیناً ایک صبر آزما کام ہے۔
اسلام قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار اللہ نے انسان کو دیا ہے ،کسی بھی شخص کو کسی بھی جبر کے تحت اسلام قبول نہیں کروایا جاسکتا،اور ایک بار اسلام قبول کرلینے یا مسلمان ہونے کا اعلان کرنے کے بعد کسی کو اسلام سے نکال دینے کا اختیار بھی کسی فرد یا ریاست کے پاس نہیں ہے،اور ارتداد کی سزا بھی اللہ تعالی نے قیامت تک اپنے پاس محفوظ رکھ لی ہے۔
اسلام کا بنیادی مخاطب فرد ہے معاشرہ نہیں ،لیکن اگرکسی معاشرے میں مسلمانوں کا نظم اجتماعی قائم ہوجائے تو پھر ظلم کے خلاف جہاد اور اسلامی نظام کے نفاذ کی ذمہ داری ریاست کی ہے کسی فرد کی نہیں۔ یہ واضح کردیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی حکومت ان کے باہمی مشورے سے قائم ہوگی کسی زور زبردستی پر نہیں، خلفائے راشدہ کا انتخاب اکثریت کی مرضی سے ہوا تھا ، اگر مسلمان کسی معاشرے میں اقلیت ہیں تواس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ پر امن نہ رہیں ،مکہ کی تیرہ سالہ زندگی ہمارے سامنے ہے۔ جہاد صرف ظلم و ستم کے خلاف ہے نہ کے لوٹ مار،اور خاندانی بادشاہت کے قیام کے لیے۔
اسلام قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار اللہ نے انسان کو دیا ہے ،کسی بھی شخص کو کسی بھی جبر کے تحت اسلام قبول نہیں کروایا جاسکتا،اور ایک بار اسلام قبول کرلینے یا مسلمان ہونے کا اعلان کرنے کے بعد کسی کو اسلام سے نکال دینے کا اختیار بھی کسی فرد یا ریاست کے پاس نہیں ہے۔
جہاد کے اصول واضح ہیں کسی کھیتی،درخت،بچوں،عورتوں،بوڑھوں، غیر مسلح افراد اور ہتھیار ڈال دینے والوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔اگر کوئی ان واضح احکام کے خلاف عمل کرتا ہے تو وہ جہاد نہیں اقتدار کی لڑائی لڑرہا ہے جس کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اب ریاست کے پاس بھی جارحانہ جہاد کا کوئی جواز باقی نہیں، محض دفاع کے لیے ہتھیار اٹھانے کی گنجائش باقی ہے۔مختلف مذاہب کے افراد ایک ملک میں اپنے اپنے مذاہب پر آزادی سے عمل کرتے ہوئے مساوی شہری بن کر رہ سکتے ہیں جس کے لیے مدینہ کی مثال موجود ہے۔
ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے
بیانیے اور جوابی بیانیے کی گفتگو نے مجھے چونکا دیا،میں تو ذہنی اور جذباتی طور پر تیار تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہوگا اور ملک میں امن ہوجائے گا لیکن مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ میں بھی وہی چاہتا ہوں جو طالبان چاہتے ہیں۔ میرے مؤقف اور ان کے مؤقف میں کوئی فرق ہی نہیں ہے صرف یہ کہ وہ عمل کررہے ہیں اور میں نہیں۔ لیکن اس میں قصور صرف میرا نہیں ہے قصور تو ان لوگوں کا ہے جو 16 دسمبر سے پہلے اخباروں، ٹی وی پروگراموں میں اور مسجدوں کے منبروں پر یہی باتیں کرتے تھے ۔مگر بدقسمتی سے دہشت گردوں کا بیانیہ تشکیل دینے والوں کے خلاف کوئی نہیں بول رہا۔
میرے لیے آج تک اتنا ہی کافی رہا ہے کہ ہر حملے کے بعدمیں فیس بک پر اپنی ڈی پی سیاہ کر لوں ، یوم سیاہ منا وں،شہداء کی یاد میں آنسو بہاوں ،موم بتیاں جلاوں ،سیاستدانوں کے متحد ہونے اور آپریشن کے فیصلے کا خیر مقدم کروں اور چین کی نیند سوجاوں۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ جو تعلیمات تیس سال سے ہمیں دی جارہی تھیں اب ان کا کفارہ ادا کرنے کو کوئی کیوں تیار نہیں؟ وہ غزوہ ہند،وہ کالے پرچم والے کہاں گئے،وہ دنیا کو فتح کرنے کی روحانی بابوں کی پیشن گوئیاں کیا ہوئیں،وہ امریکی استعمار کی اجارہ داری کا خاتمہ کہاں گیا،وہ خلافت کا نفاذ کیا ہوا؟ اب کوئی ان سب سے پوچھے کہ انہوں نے ہمیں جس قتال اور جہاد پر آمادہ کیا تھا کیا وہ اس سے تائب ہونے کو تیار ہیں یا نہیں؟
میرے لیے آج تک اتنا ہی کافی رہا ہے کہ ہر حملے کے بعدمیں فیس بک پر اپنی ڈی پی سیاہ کر لوں ، یوم سیاہ منا وں،شہداء کی یاد میں آنسو بہاوں ،موم بتیاں جلاوں ،سیاستدانوں کے متحد ہونے اور آپریشن کے فیصلے کا خیر مقدم کروں اور چین کی نیند سوجاوں۔لیکن مجھ سمیت ہر پاکستانی کے پاس اب دو ہی راستے ہیں یا تو یہ کہ میں پہلے کی طرح اب بھی کچھ نہ سوچوں اور سوچنے کا کام ایک بار پھر اہل مذہب و اقتدار پر چھوڑ دوں، اشتعال پھیلانے والوں اور ہتھیار اٹھانے والوں کے حمایتیوں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہوں یا پھر ان دہشت گردوں اور ان کے عقائد و نظریات کو پوری شدت سے رد کردوں۔
نوٹ: جہادی بیانیے کی تیاری کے لیے جہادی تکفیری لٹریچر سے مدد لی گئی ہے، اور جوابی بیانیے کے لیے غامدی صاحب کی تحریروں سے مدد لی گئی ہے۔

 
1 Narrative
2 Counter Narrative

Cartoon by: Sabir Nazar