ایسا کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔یہ کوئی طے شدہ معاملہ نہیں ہے۔ یعنی کھاتے وقت، کہیں سفر کے دوران، اپنے بستر پر آرام کرتے وقت یا ان احباب کے بیچ جن کے ساتھ میں زور زور سے ٹھٹھے مار کر ہنس رہا ہوتا ہوں ۔ میری مایوسی ایک عجیب و غریب سرور کی طرح ہے، جو ایک لذت کی طرح مجھ پر اترنا شروع ہوتی ہے۔ مجھے بہت اہم چیزوں سے یا اپنے آس پاس کے ان کار آمد اشخاص سے انجان کرنے لگتی ہے اور پھر کچھ یوں ہوتا ہے کہ میں جو کہ محفل میں شان جمانے میں ماہر ہوں، لوگوں کے لبوں پر ہنسی بکھیرنے میں مشاق بس ایک طرح کے اندھیر ے میں اترتا چلاتا جاتا ہوں۔ اس کو دو اور دو چار کی طرح بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن یہ کچھ ایسی غائب شئے بھی نہیں جس کا ادراک مشکل ہو۔ میں نے گھنٹوں ، نہیں! بلکہ دنوں ، ہفتوں اور مہینوں اس پر غور کیا ہے۔ آپ نے سورج دیکھا ہے۔ یہ مایوسی بالکل سورج کی مانند ہے۔ وہ شباب کے وقت کا سورج ۔ مثلا! ً یہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ میں !بارہ بجے دن کے کسی کو سورج کی طرف دیکھ کر یا دکھا کر یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ موجود ہے۔ کیوں کہ اس کے ہونے کا اثبات اتنا شدید ہے کہ مجھے اس عمل سے گزرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ بس سب اچانک یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ سورج ہے۔ اسی طرح ،بالکل اسی شکل میں، میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہنستے بولتے، لڑتے لڑاتے، کھیلتے گاتے مایوس ہو جاتا ہوں۔ پھر وہ مجھ سے یہ نہیں پوچھتے کہ تم مایوس ہو۔ بس انہیں محسوس ہو جاتا ہے۔ میں اس معاملے میں بھی اللہ جانے کس مخلوق پر پڑا ہوں کہ اپنی مایوسی کے اثبات سے اپنے اطراف کے لوگوں کو نا بلد نہیں رکھ پاتا۔ مجھے اس کا کچھ خاص قلق نہیں ،مگر کسی شاعر کا شعر پڑھا تھا جس کا مفہوم کچھ یہ تھا کہ اگر تم نے اپنی مایوسی کو لوگوں پر ظاہر کر دیا تو یقین جانو کہ تم مایوس ہونے کا بس ڈھونگ کر رہے ہو۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ ایک پیچیدہ سوال ۔ کیا کوئی مایوس ہونے کا ڈھونگ کر سکتا ہے؟ بھلا اس میں بھی کسی نوع کی کامیابی ہے؟ یہ تو بس زندگی کا ایک پژمردہ احساس ہی ہو سکتا ہے کہ انسان مایوس ہو جائے۔ نہ اس کی کوئی قواعد ہے اور نہ اس کے ظہور کی کوئی نشانی اور پھر اس سے انسانی مفاد کی کوئی لہر بھی تو وابستہ نظر نہیں آتی۔ پھر اس میں ڈھونگ کا سوال چہ معنی دارد۔ عین ممکن ہے ڈھونگ ہی ہوتا ہو۔ انسان جو خود اپنے عرفان سے نا بلد ہے اس کو کسی بھی شئے کے ڈھونگ ہونے میں کچھ کلام نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ جانے کسی دن کوئی آسمانی ندا آ جائے اور ہم سب کو جو ایک دوسرے کو بہت رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ایک دوسرے سے جلتے، لڑتے اور ایک دوسرے پر قابض ہونے کی کوشش کرتے ہیں ، معلوم ہو کہ ہم تو ہم ہیں ہی نہیں بلکہ ایک نوع کا ڈھونگ ہیں ۔بہر کیف اگر میں اپنی مایوسی کو ایسا کوئی لفظ سمجھ بھی لوں تو کیا اس سے اضمحلال کا اثر جاتا رہے گا۔ میری مایوسی بعض اوقات بہت بڑھ جاتی ہے۔ اتنی کہ میں چاہتا ہوں کہ کسی طرح، بس کسی طرح اس کا گلا گھونٹ دوں، پھر خواہ اس کے لیے مجھے کوئی غیر فطری عمل ہی کیوں نہ کرنا پڑے یا کسی مضحکہ خیز صورت حال سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے۔ مگر اس کا فوت ہونا شرط ہے۔ مجھے گناہوں سے مایوسی کا علاج معلوم ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ایک عدد گناہ جس کو میرا اطراف یا وہ ضمیر کی آواز جس سے میں اکثر اپنی آنکھیں چراتا ہوں وہ منٹوں ، سکنڈوں میں میری مایوسی کا علاج کر دے گی۔ جز وقتی ہی سہی اور جز وقتی میں ایسی کچھ قباہت بھی تو نہیں کہ مایوسی تو خود جز وقتی ہے۔ یہ تو ابھی گہری ہو رہی ہے۔ گہری ،پھری مزید گہری اور پھر مزید گہری۔مجھے بازار میں بھی وحشت ہو سکتی ہے اور تنہائی میں بھی ۔محبوب کے پہلو میں بھی اور وصل کے عین عالم شباب پر بھی۔ کوئی ایسا لمحہ نہیں جو اس کمبخت روگ سے بچا ہوا ہو۔ دس برس قبل یہ صرف راتوں میں اس وقت ہوا کرتی تھی جب میں ایک حرارت مائل سفید پانی سے شرمندہ ہو جاتا تھا۔ پھر ان لمحوں میں بھی ہونے لگی جب شام کے وقت کوئی چھت پر شور مچائے اور میں اپنے گھر کے باہری کمرے میں آرام سے ٹی وی نہ دیکھ پاوں۔ اس وقت تک میری مایوسی کے اسباب تھے اور میں اس صورت حال سے اتنا ناخوش بھی نہیں تھا کہ اس کی وجہ سے واقف تھا۔ مگر پھر دس برس انہیں الجھنوں اور وجوہات کے جھگڑوں میں گزر گئے۔ایک روز جب میں اپنے بھائی کے چشمے کا یا شائد وہ میرا اپنا ہی چشمہ تھا اس کا ٹوٹا ہوا کانچ لگوا رہا تھا کہ اس نے، مایوسی نے ،بے وقت حملہ بولا۔ میں حیران ہوا، پھر خوش ہوا اور پھر مزید حیران ہوا۔ اس روز سے ایسا کئی بار ہوا۔ یہ سلسلہ راتوں کی نیندوں سے بھاگنے کا ایک بہانا بھی بننے لگا۔ پھر لوگوں کے درمیان مذاق بننے کا۔ پھر معاشرے سے کٹنے کا، پھر اپنے اندر سے بھاگ کر کہیں تاریکی میں چھ جانے کا۔ مذہب نے میری اس مایوسی کو ابھارنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ بات کسی کو سمجھ میں نہ آئے لیکن اگر کسی دن دنیا میں یہ خبر عام ہو جائے کہ کشمیر اور فلسطین ان دونوں نے ایک ساتھ اپنی ہار تسلیم کر لی ہے تو شائد میری مایوسی میں کچھ کمی آ جائے۔ یا اگر کسی صبح میری آنکھ کھلے اور مجھے یہ معلوم ہوکہ دنیا بھر کے تمام یہودیوں نے اسلام قبول کر لیا ہے تو بھی ممکن ہے اس مایوسی کا کچھ علاج ہو جائے۔ایسے ہزاروں چٹکلے ہیں۔ اسی طرح جس طرح ہم سائنس کے آئے دن نئے نئے چٹکلے سنتے رہتے ہیں۔ میں ان چٹکلوں کو اپنی مایوسی کا ایک چھوٹا علاج ہی تصور کرتا ہوں۔ انسان بھی بڑا حمق ہے اسے اس بات کو جاننے میں زیادہ دلچسپی ہے کہ اس کے اعتراف کی کہکشاوں میں دنیائیں آباد ہیں کہ نہیں جبکہ وہ اپنی دنیا سے خود اتنا اکتایا اور گھبرایا ہوا ہے کہ اس کا بس چلے تو اسے کسی بلیک ہول کی نذر کر دے۔ میں اللہ سےیا رسول سےمایوس نہیں میں ان کے ماننے والوں سے مایوس ہوں۔ شنکر اور ہنومان سے سے نہیں بلکہ ان کے نام پر لوگوں کو ہتھیار بنانے والوں سے مایوس ہوں۔ اچھی کہانیاں نہ پڑھنے والوں سے اور برے شعروں پر داد دینے والوں سے۔ میں ہر اس شخص سے مایوس ہوں جو بنا سوچے سمجھے اور بنا اپنے آپ کو جانے جیتا چلا جا رہا ہے اور ان سے بھی جو اپنے آپ کو جاننے اور جنوانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔میری ایک دوست ہے، چھوٹا قد ، سانولارنگ، بھدی شکل صورت اور بد صورت چال چلن والی۔ مگر میں اس کی قدر کرتا ہوں۔ اس لیے نہیں کہ وہ میری مایوسی کی طرح اس دنیا میں بے معنی ہے،بلکہ اس لیے کہ وہ خود سے مایوس نہیں۔ خوش ہے۔ ایک غیر مانوس اور انجان چیزوں سے ہی صحیح مگر خوش۔ اس کو کسی چیز سے کچھ شکائت نہیں۔ وہ ہنستی ہے۔ کھلکھلا کے اور بعض اوقات گاتی بھی ہےجیسے کوئی پوکیوپائن چیخ چیخ کر نکی مناج کی پال البم گا رہا ہو اور بلا وجہ ناچ بھی لیتی ہے۔ مایوس نہیں نظر آتی ۔ پھر میں اس کو خود سے بہتر مان لیتا ہوں اور مزید مایوس ہو جاتا ہوں۔ میں کسی ایک خاص وجہ سے مایوس نہیں بس مایوس ہوں۔ خود سے اپنے اطراف سے۔ دنیا سےاس کو بگاڑنے والوں سے ہر اس شخص سے جو مر رہا ہے اور ہر انسان سے جو پیدا ہونے کوشش میں لگا ہے۔ ان سب کی وجہ سے میں مایوسی میں ہو۔گہری اور تیزی ہوتی ہوئی مایوسی میں۔
Image: Edward Munch