[blockquote style=”3″]
عارفہ شہزاد کی یہ نظم معروف ادبی جریدے ‘تسطیر’ میں شائع ہو چکی ہے، لالٹین قارئین کے لیے اسے مدیر تسطیر نصیر احمد ناصر کی اجازت سے شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
تسطیر میں شائع ہونے والی مزید تخلیقات پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
تم نے کیا پہنا ہوا ہے؟
اک بساند بھراقہقہہ؟
مت ہنسو
اجنبی قہقہے کراہنے لگتے ہیں
اس میں ایک کھوکھلے قہقہے کا سُر
سب سے اونچا ہے
ارادتا”لڑھکائے ہوئے قہقہے
سماعت کا راستہ نہیں بھولے
مگر بھول گئے ہیں
پچھلے برس
یا اس سے پچھلے برس۔۔۔
یاد نہیں کیا تھا
بس ایک ہیولی’
تھرتھراتا رہتا ہے
جاگتے رہتے ہیں ہونٹ
نہیں جاگتی مسکراہٹ
چھوٹی چھوٹی باتوں میں
کیا رکھا ہے؟
خوابوں کی کھرچن
ناخنوں میں پھانس بن کر چبھنے لگے
تو نیند کا ذائقہ بھول جاتا ہے
نیند میں دیکھے ہوئے خواب
ہر روز تکرار نہیں کرتے
کھلی آنکھ میں خواب دھرے رہو
اور کچھ مت دیکھو
سامنے کیا ہے؟
اردگرد کی دیواروں کا
اندازہ نہیں کیا جا سکتا
جب تک ان کے درمیان کے راستے پر
بار بار پاوں نہ دھرے جائیں
اندر کی آوازوں کو دبانے کے لیے
رات کی کھڑکی سے باہر
خلا میں قدم رکھ کر
ساکت کھڑے رہنا پڑتا ہے
تمہاری طرح۔۔۔!
تم جو چاہو کر سکتے ہو
تم جلتا دن اوڑھ سکتے ہو
میں کیا اوڑھوں؟
اک بساند بھراقہقہہ؟
مت ہنسو
اجنبی قہقہے کراہنے لگتے ہیں
اس میں ایک کھوکھلے قہقہے کا سُر
سب سے اونچا ہے
ارادتا”لڑھکائے ہوئے قہقہے
سماعت کا راستہ نہیں بھولے
مگر بھول گئے ہیں
پچھلے برس
یا اس سے پچھلے برس۔۔۔
یاد نہیں کیا تھا
بس ایک ہیولی’
تھرتھراتا رہتا ہے
جاگتے رہتے ہیں ہونٹ
نہیں جاگتی مسکراہٹ
چھوٹی چھوٹی باتوں میں
کیا رکھا ہے؟
خوابوں کی کھرچن
ناخنوں میں پھانس بن کر چبھنے لگے
تو نیند کا ذائقہ بھول جاتا ہے
نیند میں دیکھے ہوئے خواب
ہر روز تکرار نہیں کرتے
کھلی آنکھ میں خواب دھرے رہو
اور کچھ مت دیکھو
سامنے کیا ہے؟
اردگرد کی دیواروں کا
اندازہ نہیں کیا جا سکتا
جب تک ان کے درمیان کے راستے پر
بار بار پاوں نہ دھرے جائیں
اندر کی آوازوں کو دبانے کے لیے
رات کی کھڑکی سے باہر
خلا میں قدم رکھ کر
ساکت کھڑے رہنا پڑتا ہے
تمہاری طرح۔۔۔!
تم جو چاہو کر سکتے ہو
تم جلتا دن اوڑھ سکتے ہو
میں کیا اوڑھوں؟
Image: Hayv Kahraman