میں جب چھوٹا تھا تو ایسی کئی کتابیں پڑھتا تھا، جن میں صلیبی جنگوں کا ذکر ہوا کرتا تھا، جن میں نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کے بڑے بڑے کارنامے لکھے جاتے تھے
مجھ سے لوگ اکثر کہتے ہیں کہ آپ کو بیٹھے بٹھائے کیا سوجھتی ہے کہ فیس بک پر ایک نزاعی سٹیٹس اپ ڈیٹ کردیتے ہیں۔ مذہب کی برائیاں گنانے لگتے ہیں اور خاص طور پر اس مذہب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جس میں آپ پیدا ہوئے ہیں۔ بہرحال آج میں بات کر رہا ہوں اس نظریے اور عقیدے کی حکمرانی کی جس نے انسان کو اندھا بنایا ہے۔ اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو سلب کر لیا ہے اور اسے بلاوجہ خون کا پیاسا اور انسانیت کا دشمن بنا دیا ہے۔ آخر ان سب کی شروعات کیسے ہوتی ہے، میں جب چھوٹا تھا تو ایسی کئی کتابیں پڑھتا تھا، جن میں صلیبی جنگوں کا ذکر ہوا کرتا تھا، جن میں نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کے بڑے بڑے کارنامے لکھے جاتے تھے، میں واقعی کئی بار ان کی شجاعت اور دلیری سے مرعوب ہوا،میں نے بہت سے ایسے مضامین بھی پڑھے جس میں مذہبی پیشوائوں کی عسکری معاملات میں سوجھ بوجھ کو نمایاں کیا جاتا تھا۔ ہم نےجنگ میں خندق بنانے کا فن کیسے سیکھا، عرب لڑنے کے بعد مرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے، فریقین پر پانی بند کرنا، سچ کے لیے لڑنا، جنگ یرموک، احد، بدر اور نہ جانے کیا کیا۔ تاریخ کو میں اس زمانے میں بڑی دلچسپی سے پڑھتا تھا۔ میرے پاس اپنے والد کی دو بڑی ڈکشنریز ہوا کرتیں اور میں انہیں لے کر علامہ اقبال اور میر انیس جیسے شاعروں کو پڑھا کرتا، اس میں کوئی شک نہیں کہ آلات حرب و ضرب، شجاعت و حمیت اور میمنہ و میسرہ سے لے کر قلب و منادی تک بہت سے الفاظ میں نے انہیں شاعروں اور تاریخ دانوں سے سیکھے۔ جب میں اپنے خاص انداز میں ایک بڑی سی کرسی پر چڑھ کر گھر والوں کے سامنے لمبی چوڑی تقریر کیا کرتا تو انہیں خوشی ہوتی، تھوڑا بڑا ہونے پر میں نے گھر گھر جاکر میلادیں بھی پڑھنا شروع کر دی تھیں۔ ہمارے سکول کے ہیڈ ماسٹر بھی اپنے گھر پر فاتحہ کے لیے مجھے بلایا کرتے تھے۔ میں لمبی لمبی راتوں میں جاگ کر نمازیں پڑھا کرتا تھا، بڑی راتوں کی بڑی قدر دانی کی مثال یہ تھی کہ مسجد میں بٹنے والے پرچوں کے حساب سے ان پر لکھی تمام نمازیں پڑھ جایا کرتا، ان کے فضائل پڑھ پڑھ کر مجھے خوشی ہوا کرتی کہ میں نے اتنا ثواب کما لیا ہے۔ جمعہ کو ایک خاص مسجد میں ایک مخصوص جگہ پر جا کر بیٹھ جاتا اور موذن کی پھونک سے سلام کے ختم تک اسی مسجد میں رہا کرتا۔ آج جب میرے ارد گرد کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ تصوف پڑھنے والوں اور صوفیوں سے دلی لگاو رکھنے والوں کے یہاں تشدد کم ہے یا نہیں ہے تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ کون صوفی اور کیسی تعلیمات۔ کیا ان لوگوں نے، جن کو تصوفانہ تعلیمات کا بڑا زعم ہے، کبھی ان جھوٹے اور غیر ضروری دعووں کے ابطال کی ضرورت محسوس کی ہے، جس سے کرامتیں پڑھ پڑھ کر کسی شخص کے اندر کڑی ریاضت کرنے اور اپنی زندگی کا سنہری دور وظائف اور اذکار جیسے کاموں میں صرف کردینے کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے، سفید اور زرق برق کرتے پائجامے میں ایک روز میں مسجد سے جمعہ کی نماز پڑھ کر نکلا، کوئی پرچہ بانٹا جارہا تھا(یہ واقعہ آج سے کوئی بارہ، تیرہ برس پہلے کا ہے) میں نے بھی وہ پرچہ لیا، ابھی پہلی سطر پڑھی تھی کہ اسے پھاڑ کر پھینک دیا، اس پر لکھا تھا۔ ‘نماز میں گدھے یا خچر کا خیال آجانا اس بات سے بہتر ہے کہ نبی کا خیال آئے(نعوذ باللہ)۔’ اب جب میں اس واقعے پر غور کرتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میرے اندر اچانک اتنا غصہ کہاں سے آیا تھا۔وہ کون سی بات تھی، جس نے مجھے اس کاغذ کے ٹکڑے کو پھاڑنے پر مجبور کیا۔ اس وقت جو بات وجہ بنی تھی، وہ یہ تھی کہ اس پر ‘وہابی تعلیمات’ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ تو کیا میں کسی نظریے سے اس چھوٹی سی عمر میں اس قدر ناراض ہوسکتا تھا کہ اس کے بارے میں لکھی ہوئی کسی سطر کو پڑھتے ہی پھاڑدوں، چیتھڑے چیتھڑے کر دوں۔ یا پھر بات اس سے بھی کچھ گہری تھی۔
میں اپنی بسائی ہوئی ایک الگ دنیا میں رہنے لگا، ولیوں اور صوفیوں کے قصے، نبیوں کے معجزات مجھے ہر وقت اپنے ہالے میں رکھتے، اسی لیے ان کی تعلیمات اور ان کے نظریات بھی اپنے اپنے سے لگتے، وہابیت کے خلاف دل میں زور پنپنے لگا۔
اپنے بچپن میں مجھے اس بات کا بڑا شوق تھا کہ زمین پر جب بھی کوئی مقدس آیت لکھا ہوا کاغذ مل جاتا، میں اسے چوم کر کسی اونچی جگہ رکھ دیتا، یا پھر گھر میں آکر اس ڈھیر میں اسے ڈالتا، جس کو ہم ہر پانچویں چھٹے دن سمندر میں سِرانے جایا کرتے تھے۔اب یہ کیوں ہوتا تھا وہ بھی سن لیجیے، اصل میں، صوفیوں کے تذکروں میں موجود ایسے کئی قصے میں نے پڑھے تھے، جن میں کوئی ولی پہلے ڈاکو یا شرابی ہوا کرتے تھے، لیکن ایک دن اچانک انہوں نے خدا کے لکھے ہوئے کلام کو خوشبو میں ڈبو کر کسی اونچے مقام پر رکھ دیا اور ایسے افضل ہوئے کہ ان کے مرتے دم تک، اس شہر کی حدود میں کوئی جانور فضلہ کرتے نہ پایا گیا۔اچھا یہ صرف باتیں نہیں ہیں، یہ قصے موجود ہیں، جن لوگوں نے بشرحانی اور فضیل بن عیاض کے بارے میں تھوڑا بہت بھی کچھ پڑھا ہوگا وہ میری ان باتوں کی تائید کریں گے۔ میرے لیے یہی باتیں ایک عجیب قسم کی فینٹسی پیدا کیا کرتی تھیں، میں خدا کے ایسے ہی قرب کا متلاشی رہنے لگا، جس میں ولایت اور کرامات و فضائل کا ایک پیکج ساتھ میں ملا کرتا ہو۔ بعد میں بہت سوچنے پر معلوم ہوا کہ دراصل اس خواہش نے، تقدس اور احترام کے جذبے کو اتنا مضبوط بنادیا تھا کہ ان لوگوں کے بارے میں کوئی بات سننا، ان کے نظریات کے خلاف کچھ سمجھ پانا میرے بس کی بات نہیں رہ گئی تھی۔
ان وجوہات کی بنا پر میں اپنی بسائی ہوئی ایک الگ دنیا میں رہنے لگا، ولیوں اور صوفیوں کے قصے، نبیوں کے معجزات مجھے ہر وقت اپنے ہالے میں رکھتے، اسی لیے ان کی تعلیمات اور ان کے نظریات بھی اپنے اپنے سے لگتے، وہابیت کے خلاف دل میں زور پنپنے لگا۔ ایک میں ہی نہیں، میرے گھر کے سارے بھائی بہنوں کا، جن میں چچااور پھوپھی زاد بھی شامل ہیں، یہی حال تھا۔ میرے ایک پھوپھی زاد بھائی کا ماجرا یہ تھا کہ وہ بڑا گلینڈا تھا، بات بات پر پھبتی کستا، جو لڑکی نظر آتی، اس سے مباشرت کے راستے ڈھونڈتا،سیکس ہر وقت اس کے دماغ پر سوار رہتا، وہ ہم جنس پرست بھی تھا، کبھی باتوں باتوں میں گال چوم لیتا، کبھی گلے لگا کر پیٹھ سہلاتا، کبھی سوتے میں پیچھے سے لپٹ جاتا۔گورا چٹا، اچھے قد کا لڑکا تھا، پاس پڑوس کی ایک دو لڑکیوں کے ساتھ بھی اس کے گہرے مراسم تھے، ان تمام باتوں کے باوجود اس زمانے میں ، ہم سب بھائیوں کو اس کی ایک بات بہت عزیز تھی کہ ‘گیارہویں’ یا’ بڑے پیر صاحب’ کے بارے میں کوئی غلط لفظ سنتے ہی سامنے والے کی بولتی بند کردیتا، ایسی کھری سناتا، ننگی گالیاں دیتا کہ شیطان بھی دور تک الٹیاں کرتے ہوئے دوڑ لگائے، مگر اسے فرق نہ پڑتا۔ اس کی عقیدت بہر طور سلامت تھی اور اس بات پر ہمارے پورے گھر میں اس کے سات خون معاف تھے۔
باتیں کتنی ہی فروعی ہوں، کیسی ہی اضافی ہوں، انہی کی زمین میں ایک سخت گیرمذہبی معاشرہ اپنے کھونٹے گاڑتا ہے۔
میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ جس بات کو لوگ بدعت کے نام سے منسوب کرتے ہیں، دراصل وہ مذہبی معاشرے کا جوہر ہے۔جو لوگ آپ کو ساری زندگی میں کبھی مذہبی پریکٹس کرتے نہ دکھائی دیں گے، انہیں بھی نجات کا پورا حق ہو گا۔ باتیں کتنی ہی فروعی ہوں، کیسی ہی اضافی ہوں، انہی کی زمین میں ایک سخت گیرمذہبی معاشرہ اپنے کھونٹے گاڑتا ہے۔ ایک دن میری ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ تصنیف! کیا انگلیوں پر نیل پالش لگی ہوتو وضو ہوجائے گا۔ایک روز اسی نے مجھے بتایا کہ اس کی کسی سہیلی نے اسے یہ بتایا ہے کہ جسم پرکسی بھی قسم کا ٹیٹو گدوانا اس لیے غلط ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے پانی کی بوندیں، جسم کے جن چھوٹے چھوٹے سوراخوں تک پہنچنا چاہیے، نہیں پہنچ پاتیں، بلکہ اس سیاہی میں ضم ہوجاتی ہیں۔آج سے چھ سات سال پہلے ، جب میں بی اے، ایم اے کے طلبا کو کوچنگ دیا کرتا تھا تو ایسے بہت سے لڑکے لڑکیا ں مجھے ملے، جو مجھے بڑی نئی نئی باتیں بتاتے تھے۔دوپٹہ کو سر پر کس طرح اوڑھنا چاہیے، کسی لڑکی کو دیکھنا کہاں تک گناہ ہے اور کہاں تک نہیں، ٹوپی پہنے بغیر نماز مکمل نہیں ہوا کرتی، تیمم کرنے کے لیے مٹی کا پاک ہونا ضروری ہے، فلاں فلاں۔۔اور ایسے ہی کئی مسائل اردو اخباروں میں باقاعدہ جمعہ ایڈیشن کی زینت بناکرتے تھے، ایک دفعہ میں نے اس میں ایک مسئلہ پڑھا، بڑا دلچسپ۔ایک صاحب نے مفتی صاحب سے پوچھا تھا کہ رات کو زید اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری میں مشغول تھا ، پستان چوستے وقت، بیوی کا دودھ اس کے منہ میں چلا گیا، اور زید نے وہ دودھ پی لیا، کیا فقہ اسلامی کی رو سے اس نے جو دودھ پیا ہے، وہ حرام تھا یا پھر حلال۔۔مفتی صاحب نے توخیر اس کی تشفی یہ کہہ کے کردی تھی کہ اس میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔مگر یقین جانیے اگر کبھی آپ کو اس قسم کے مسئلے پڑھنے کا اتفاق ہوا ہو، تو ان سے دلچسپ لطیفے اور ہی شاید پوری دنیا میں کہیں پائے جاتے ہوں۔
میرے بڑے بھائی نے مجھے ایک دفعہ کا ایک قصہ سنایا، وہ بس میں سوار تھے، پیچھے دو تین جماعتی مسلمان ہاتھوں میں تھیلا لیے باتیں کررہے تھے، ایک چھوٹا لڑکا بھی ان کے درمیان موجود تھا۔ لڑکے کو بار بار ٹیپ مار کر ایک بڑا نوجوان اس سے پوچھ رہا تھا کہ تجھے بس میں چڑھنے کی دعا یاد ہے؟ بس میں اترنے کی دعا یاد ہے؟ وہ مریل سا لڑکا بچارا ہر بات پر ہاں کہتا اور یقین دہانی کے لیے کچھ چھوٹی موٹی دعائیں بھی سنادیتا، اچانک اس نوجوان نے لڑکے سے پوچھا کہ پخانے میں جانے کی دعا یاد ہے، اس نے کہا بالکل! اللہُم انی اعوذ بک من الخبث والخبائث’اتنے میں اس نے پوچھا کہ ہاں بھئی! یہ تو ٹھیک لیکن ہگنے سے پہلے کی دعا کون سنائے گا۔
آپ اور ہم ان باتوں کو ہنس کر سن سکتے ہیں، ہنسی میں اڑا سکتے ہیں، مگر اس معاشرے میں زیادہ تر لوگوں کے نزدیک یہ ایک عام وبا ہے، وہ لوگوں سے کلموں کے بارے میں، دعاوں کے بارے میں، اسلامی حکمرانوں اور احکام کے بارے میں پوچھ گچھ کیا کرتے ہیں۔میں نے اس معاشرے میں جو دو فقرے سب سے زیادہ سنے ہیں، وہ یہ ہیں، اول کہ اسلام میں یہ آیا ہے یا اسلام یہ کہتا ہے۔۔۔ اور ایسا کہتے وقت نہ کسی مذہبی صحیفے کے حوالے کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کسی عقلی دلیل کی۔منطق ہے تو صرف ایک یہ کہ خدا نے جو کچھ کہا ہے، کچھ سوچ کر ہی کہا ہوگا یا یہ ہمارے پیارے نبی کا فرمان ہے تو غلط کیسے ہو سکتا ہے۔
میں ایک اکیلا شخص، غلط یا صحیح کا فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہوتا، مگر یہ تو پوچھ سکتا ہوں کہ اتنی ساری باتوں کو ایسے یقین کے ساتھ دوہرانے کی اجازت دینے سے پہلے کیا اسلام یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ لوگوں کی ذاتی زندگی میں دخیل ہونا ایک غیر ضروری امر ہے اور اس سے جھگڑے پیدا ہو سکتے ہیں،اور اگر اسلام نے یہ بات کہی ہے تو پھر ایک خالص اسلامی معاشرہ اس تعلیم سے بے بہرہ کیوں معلوم ہوتا ہے۔
آپ اگر مجھ سے یہ چاہتے ہیں کہ میں مذہب پر تنقید نہ کروں تو مذہب کو اس بات سے باز رکھیے کہ وہ میرے معاملات میں دخیل ہو
آپ اگر مجھ سے یہ چاہتے ہیں کہ میں مذہب پر تنقید نہ کروں تو مذہب کو اس بات سے باز رکھیے کہ وہ میرے معاملات میں دخیل ہو، اور اس دخل اندازی میں صرف یہی بات شامل نہیں کہ آپ مجھے نماز نہ پڑھنے پر نہ ٹوکیں، میرے حلیے، بشرے اور انداز و اطواور کو اپنی اسلامی یا مذہبی تعلیمات کے ترازو میں نہ تولیں۔ بلکہ کیا آپ مجھے ضمانت دے سکتے ہیں کہ میں آپ کے گلی محلوں میں چین کے ساتھ بغیر کسی لاوڈ سپیکر کی چیختی ہوئی آواز کے اپنی نیند مکمل کرسکتاہوں ،کیا آپ میرے دروازے کو اس دستک سے محروم رکھ سکتے ہیں، جس میں کسی مسجد کا چندہ یا کسی جماعت میں چلنے کی دعوت کا پیغام نہ ہو۔کیا آپ مجھے اس بات کی اجازت دے سکتے ہیں کہ میں آپ کی آسمانی کتابوں یا فرشتوں کے تقدس کو تسلیم کرنے سے مکمل انکار کرنے کے باوجود آپ کو اپنا دوست کہہ سکوں، کیا میں ایک بالغ معاشرے کی توقع کرسکتا ہوں، جس میں آپ کا کوئی مذہبی فریضہ یا شوق اتنا جذباتی نہ ہو کہ اگر میں رمضان میں سڑک پر کچھ کھاوں، پیوں تو آپ کی نظریں مجھے تشکیک اور ملامت کی ملی جلی کیفیتوں کے ساتھ نہ دیکھیں۔ کیا آپ مجھے زمین کی حقیقتوں پر واقعی غور کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں، کیا آپ اپنی انا کی لو کو ذرا سا مدھم کرسکتے ہیں۔
ایک بات کے اصرار سے آپ کیوں پیچھے نہیں ہٹتے کہ آپ کا دین، دین فطرت ہے۔ بلکہ فطرت کسی دین کی قائل نہیں۔ فطرت تو اتنی الجھی، ایسی پیچیدہ، ایسی عریاں اور اس قدر سفاک حقیقت ہے کہ اگر وہ واقعی آپ کا دین ہوتی، یا آپ کا دین واقعی فطری ہوتا تو آپ کو نہ کسی عورت کے سر پر پردہ ڈالنے کی ضرورت ہوتی، نہ شادی بیاہ کے رسموں میں الجھنے کا کوئی شوق پیدا ہوا ہوتا۔ فطرت صرف انسان کی عجیب و غریب نہیں ہے، یہ مانا کہ انسان ایک ناطق اور عقلمند جانور ہے، مگر ابھی تک ہم نے دوسرے جانداروں کی عقل اور صلاحیتوں کو سمجھنے یا جاننے کی اس گھٹن زدہ معاشرے میں کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ ہم صرف بکرے، مرغیاں کاٹ کر سڑک پر ان کے خون کے فوارے بلند کرتے آ رہے ہیں اور ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ اس قسم کی قربانیاں، خون کی ایسی دھاریں، ہمارے معصوم بچوں کی نفسیات پر کیسا برا اثر ڈال سکتی ہیں۔حالانکہ میں اب نہ جمعہ کی تقریر سنتا ہوں، نہ خطبہ، مسجد کی جانب گئے بھی کئی برس ہوگئے، لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کے مولوی ہوں یا آپ کے علما۔ان سب کے مسائل چکن اور کچن میں الجھے ہوئے اتنے ہی فروعی قسم کے ہوں گے، جتنے کے آپ کے ہیں۔کیونکہ سوال کرنے والے اور جواب دینے والے دونوں کی کوشش صرف ‘ایک سلام کے بدلے ستر نیکیاں’ کمانے کی حد تک محدود ہیں۔
آپ جب ان معاملات پر غور کرنا سیکھ جائیں گے، جب فطرت سے اپنے دین کو علیحدہ کرکے اپنی صورتیں آئینوں میں دیکھیں گے۔ اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کریں گے، تقدس کی اندھا کردینے والی روشنی سے باہر نکلیں گے تب آپ کو اندازہ ہوگا کہ آپ کرکیا رہے ہیں۔آپ صرف پیدا ہورہے ہیں، کھا رہے ہیں، پہن رہے ہیں، عبادتیں کررہے ہیں، زکوٰۃ دے رہے ہیں، حج کر رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔ دنیا کی ترقی اور زندگی کے حسن کو بڑھاوا دینے میں آپ کا اور آپ کی نسلوں کے ذہن کا کوئی کردار باقی نہیں بچا ہے۔ تب آپ کو سمجھ میں آسکے گا کہ ہم جیسے لوگ آپ سے دور جا کر کھڑے رہنے پر کیوں مجبور ہوئے ہیں اور کیوں آپ کی پھیلی ہوئی تھوتھنیوں پر گاڑھے گاڑھے لفظوں کی لپ سٹک دیکھ کر وحشت زدہ ہیں اور آپ کی بدرونقی پر تنقید کر رہے ہیں۔
Image: Stones against the sky by Ken Unsworth
Do you really think that mankind is really smart enough to handle themselves without any proper guidance. Besides you said "Deen-e-Fitrat” AKA "Islam” must not temper the nature(like covering head for females or praying or marrying etc) would you mind telling me that by nature you were born naked then why did you choose to cover yourself? Is not it also tempering the nature. These are just misguided ideas which you want to implement on others.
آپ سے ہمدردی ہے بھائی۔ ایک منافق معاشرے نے آپ کو مذہب سے دور کر دیا۔