کراچی میں 1200 سے زائد ووٹرز کم ہوگئے یا یوں کہہ لیجئے کہ لقمہ اجل بن گئے، نہ تو ان ووٹرزکو کسی مخالف سیاسی جماعت نے قتل کیا نہ ہی انہیں جنرل ڈائر کی طرح کسی نے بھون ڈالا، یہ رائے دہندگان تو ہر جماعت کے تھے۔ ان میں لیاری کے پیپلز پارٹی کے جیالے بھی شامل تھے، تو نیو کراچی، ملیر، لانڈھی، نارتھ کراچی، لیاقت آباد، فیڈرل بی ایریا سمیت کئی علاقوں میں بسنے والے الطاف بھائی کےجانثاران بھی ۔ تبدیلی کے متوالوں کےساتھ ایسے بھی تھے جو کسی سیاسی جماعت کو ووٹ نہیں دینا چاہتے تھے لیکن اس کے نام کا ووٹ بھی ڈال دیا جاتا تھا۔ رمضان کا آغاز ہوتے ہی کراچی کو گرمی نے ایسی لپیٹ میں لیا کہ لوگوں کا دم گھٹنے لگا۔ جو تھوڑی بہت سانس چل رہی تھی وہ لوڈ شیڈنگ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر ڈالی۔
اس بار خود کو یہ سمجھانے کے باوجود کہ کراچی میں جو ہوا وہ قدرت کا لکھا تھا ،اتنے لوگوں کی زندگی بس اتنی ہی تھی نہ دل کو تسلی ہوئی نہ دماغ اس توجیہہ کو ماننے کو تیار ہوا
میں نے اپنے مختصر صحافتی کیرئیر میں کچھ رپورٹنگ ایسی جگہوں پر بھی کی جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خواتین کا وہاں جاتے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے، نبض کی روانی کم ہونے لگتی ہے اور آنکھیں نم ہونے لگتی ہیں۔ میں مردہ خانوں اور سرد خانوں کے مناظر خؤد دیکھتی رہی ہوں۔ رزاق آباد پولیس ٹریننگ سنٹر کی بس پردھماکے کی کوریج میں نے جناح اسپتال کے وارڈ میں جاکر کی جہاں خون میں لت پت پولیس اہلکار زندگی و موت کی جنگ لڑ رہے تھے۔حب ریور روڈ پر ہونے والے المناک حادثے میں 80 سے زائد سوختہ لاشیں جب ایک ساتھ ایدھی کے سرد خانے لائی گئیں تب میں وہاں موجود تھیں۔ ان سوختہ لاشوں کی تپش اور بو میرے وجود سے ایسے آرہی تھیں جیسے میں ان کے درمیان رہی ہوں۔ ائیر پورٹ پر حملے اور گودام میں زندہ جل کر مرجانے والوں کے ورثاء کو میں نے جناح اسپتال کے مردہ خانے کے باہر تڑپتے بلکتے دیکھا۔ سمندر میں عید کے روز خوشیاں منانے کے لیے جانے والے پچاس نوجوانوں کی لاشوں کو سمندر سے نکلتے اور پھر سرد خانوں میں منتقل ہوتے دیکھا۔ ایسی ہر خبر کے مکمل ہوجانے کے بعد گھر واپسی پر ایک گہری خاموشی مجھے گھیرے ہوئے ہوتی تھی، کانوں میں اپنوں سے بچھڑ جانے والوں کی آہیں اور سسکیاں نیند کی دوا لینے کے باوجود سنائی دیتی تھیں لیکن اپنے وجود کو میں پر بار یہ کہہ کرمطمئن کر لیتی کہ ” یہ قسمت کا لکھا ہے”۔
چینلز تب جاگے جب اطلاح ملی کہ شہر کے مردہ خانوں میں جگہ نہیں رہی، جب سبھی ڈی ایس این جی وینز کا رخ سرد خانوں کی جانب موڑاگیا تو معلوم پڑا کہ ہسپتالوں میں اس سے زیادہ برا حال ہے
اس بار خود کو یہ سمجھانے کے باوجود کہ کراچی میں جو ہوا وہ قدرت کا لکھا تھا ،اتنے لوگوں کی زندگی بس اتنی ہی تھی نہ دل کو تسلی ہوئی نہ دماغ اس توجیہہ کو ماننے کو تیار ہوا۔ یکم رمضان کے بعد سے کراچی کا پارہ چڑھتا ہی چلا گیا، درجہ حرارت 40 اور پھر 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا، غریبوں کا دم گھٹنے لگا، چھوٹے مکانوں کی چھتیں تپنے لگیں۔ لوڈ شیڈنگ نے سانس لینے کا بچا کچھا حق بھی چھین لیا۔ دوسری جانب اعلیٰ سیاسی شخصیات نے رمضان میں اپنے سیاسی تعلقات مزید مضبوط کرنے کی غرض سے افطار دعوتوں کے کھانوں کی فہرست میں اضافہ کر دیا۔ایوانوں میں چلنے والے ائیرکنڈیشنر 26 سے 21 اور پھر 18 کے پارے پر لائے گئے۔ ایوانوں میں فینسی ڈریس شو کی ملکاوں نے سوئس لان کے نئے جوڑے زیب تن کر کے ایک دوسرے کو احوال بتایا کہ باہر گرمی بہت ہے گاڑی سے اتر کر ہال میں داخل ہونے تک میری طبیعت ناساز ہوگئی۔ ہر بار کی طرح ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے پر الزامات لگا کر ایوان میں وقت گزاری کی، صحافی گیلری میں بیٹھے مچھلی بازار کا احوال ٹکرز کی صورت میں چینلز تک پہنچاتے رہے۔قیامت کی گھڑی تھی اور کسی کو خبر نہ ہوئی۔ چینلز تب جاگے جب اطلاح ملی کہ شہر کے مردہ خانوں میں جگہ نہیں رہی، جب سبھی ڈی ایس این جی وینز کا رخ سرد خانوں کی جانب موڑاگیا تو معلوم پڑا کہ ہسپتالوں میں اس سے زیادہ برا حال ہے۔ سول، عباسی، جناح، لیاری جنرل، لیاقت آباد، نیو کراچی اور نجی ہسپتالوں سمیت بلدیہ عظمی کراچی کے چھوٹے بڑے تمام ہسپتالوں میں لوگ نڈھال تھے۔ کوئی مردہ حالت میں لایا جارہا تھا تو کوئی قریب المرگ تھا۔ہسپتالوں میں بستر اور اسٹریچرز کم پڑ گئے ایمبولینسیں ناپید ہوگئیں۔ شعبہ حادثات جناح ہسپتال کی سینیئر انچارج ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق روزانہ پندرہ سے اٹھارہ سو مریض لو لگنے اور ہیٹ اسٹروک کے باعث لائے جارہے تھے۔ میں مرنے والوں کی تعداد روزانہ اپنی ڈائری میں لکھتی جارہی تھی۔ لاشیں اس قدر تھیں کہ ایدھی سرد خانوں میں دو گھنٹے کے لیے میت رکھے جانے کی مہلت کے بعد لاشیں فرش پر یا کسی اور لاش کے اوپر رکھی جانے لگی تھیں۔ اس دوران ورثاء ایمبولینس ڈھونڈنے ، قبر کی جگہ تلاش کرنےاور گھر میں پانی کی قلت کے سبب واٹر ٹینکر والے کی منت سماجت کرنے میں مصروف تھے۔ بلدیہ ٹاون کی ایک بوڑھی خاتون جن کا واحد سہارا ان کے شوہر تھے وہ ہیٹ اسٹروک کے سبب انہیں اس دنیا میں اکیلا چھوڑ گئے، جب انہیں شوہر کی میت لیجانے کے لیے گھنٹوں ایمبولینس نہ ملی تو وہ ٹرک میں اپنے جیون ساتھی کا لاشہ رکھ کر آخری رسومات کے لیے گھر لے گئیں۔
کئی گھر اجڑ گئے، کئی خاندانوں کے کفیل ختم ہوگئے اور ایوانوں میں بحث جاری رہی کہ اتنی موات کی ذمہ داری وفاق کی ہے، سندھ حکومت کی یا کے الیکٹرک کی
پونے دو کروڑ کی آبادی اور ملک کو 70 فیصد ریونیو کما کر دینے والے شہر میں لاشیں گھروں تک منتقل کرنے کے لیے جانور لانے لے جانے والی گاڑیاں استعمال کی گئیں ۔ایدھی سرد خانے میں جہاں 150 لاشیں بیک وقت رکھنے کا انتظام ہے وہاں 200 میتیں مرکز کے اندر اور درجنوں باہر کھڑی ایمبولینسوں میں پڑی سڑ رہی تھیں۔ بارہ سو تو سرکاری اعدادو شمار ہیں وہ کیسز علیحدہ ہیں جو رپورٹ نہ ہوسکے۔ کوئی گھر یا گلی ایسی نہ ہوگی جہاں سے کسی کا کوئی پیارا جدا نہ ہوا ہو۔ قبروں کے لیے جگہ کم پڑ گئی اور ایک ایک قبر کے لیے اٹھارہ سے بیس ہزارروپے وصول کیے گئے۔ کئی گھر اجڑ گئے، کئی خاندانوں کے کفیل ختم ہوگئے اور ایوانوں میں بحث جاری رہی کہ اتنی موات کی ذمہ داری وفاق کی ہے، سندھ حکومت کی یا کے الیکٹرک کی۔
عابد شیر علی فرماتے ہیں کہ اگر کسی کا دم گھٹ کر انتقال ہوجائے تو وفاق ذمہ دار نہیں، خواجہ آصف نے کہانی نیپرا اور کے الیکٹرک میں الجھا ڈالی، سندھ کے وزیر اعلی سید قائم علی شاہ تو اتنے معصوم نکلے کہ فرماتے ہیں کہ دو روز سے شہر میں نہیں تھا صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ سے پوچھ کر بتاوں گا کہ کراچی میں کیا ہوا۔سائیں کو کچھ نہ ملا تو سرکاری چھٹی کا اعلان کردیا۔دریا دلی تو دیکھیں سرکاری چھٹی ان لوگوں کو دی جو بیٹھتے ہی سرد کمروں میں ہیں یا عام طور پر غیر حاضر رہتے ہیں۔ خود کے الیکٹرک کے خلاف دھرنا دے دیا کہ کوئی اب ان سے سوال نہ کرلے. مجھ سے کسی نے کہا کہ اتنی گرمی میں لوگ لقمہ اجل بن گئے ان سیاستدانوں پر گرمی اثر نہیں کرتی جو جواب میں نے دیا وہ یہاں لکھنا نامناسب ہوگا۔
کل رات میری بہن نے مجھ سے اچانک سوال کیا کہ صحافت آپ سے ہوتی نہیں سیاست آپ کر نہیں سکتیں تو مستقبل میں کیا ارادے ہیں،میں نے جواب دیا "میں سرد خانے بنانا چاہتی ہوں کیونکہ اس میں سیاست کی ضرورت نہیں
عالم پناہ عزت مآب نواز شریف صاحب !ان اموات میں آپ کا کوئی ہاتھ نہیں اور نہ ہی سندھ کی عوام دوست شہیدوں کی جماعت پیپلز پارٹی کی کوئی خطا ہے۔ اس سانحے کے لیے نہ کے الیکٹرک ذمہ دار ہے اور نہ متوسط طبقے کی واحد جماعت ایم کیوایم کا اس میں کوئی دوش ہے یہ تمام لوگ بے تحاشہ سہولیات سے مرے ہیں۔ وہ سہولیات جو آپ جیسے عام لوگوں کو تو نہیں لیکن اس ملک کے عوام کو میسر ہیں۔ اس عوام کے بینک اکاونٹس بیرون ملک جو ہیں، ان کے گھروں میں دس دس اے سی کنڈوں پر لگے ہیں، یہ ٹیکس چور ہیں، یہ کئی کئی ہزارایکڑ اراضی کے مالک ہیں، اگر کچھ کم پڑ جائے تو ان کی امدادبیرون ملک سے ہوجاتی ہے۔ آپ سب کا کیا قصور؟ آپ تو معصوم ہیں۔ آپ کو تو معلوم ہی نہیں کہ بلدیاتی حکومتوں میں راج کرنے کے دوران آپ سے اس شہر میں آبادی کے تناسب سے 8 سے 10 سرد خانے نہ بن سکے کیونکہ سرد خانے بنانا تو بے حد مشکل کام ہے کیو ں کہ آپ کے اپنے گھر اور ایوان کسی سرد خانے سے کم نہیں۔آپ اتنے معصوم ہیں کہ آپ کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ایدھی اور چھیپا غیر سرکاری ادارے ہیں انھیں سالانہ اگر آپ 50 ایمبولینسس دے دیتے تو نوبت یہ نہ آتی کہ لوگ میتیں مویشی لیجانے والی گاڑیوں میں لے کرجاتے۔
آپ تو اتنے انجان ہیں کہ اس قدرتی آفت میں کچھ نہ سہی عارضی سرد خانے قائم کرنے کی بھی جسارت نہیں کرسکتے، یہ کام بھی آپ کے بجائے فوج اور رینجرز نے اپنے ذمے لے لیا۔ عارضی ہیٹ اسٹروک مراکز کسی عمارت میں نہیں قائم کیے گئے، بلکہ قناتوں کی مدد سے قائم کیے گئے جن میں چلرز اور 50 بستروں پر مشتمل چھوٹا سا اسپتال بنادیا گیا۔ کیا یہ کام اتنا دشوار تھا کہ اس میں بھی آرمی کی مدد لی جاتی؟ اگر ہیٹ اسٹروک سینٹرز کے قیام، ادویات کی فراہمی، زلزلوں، طوفانوں اورعوام کی خدمت کے لیے فوج کوہی بلانا ہے تو پھر یہ جمہوریت اور سیاسی جماعتیں کیوں ہیں؟ بنیادی سہولیات کی فراہمی میں وفاقی حکومت بے بس، صوبائی حکومت بے اختیار ہے تو کس حیثیت سے یہ نمائندگان ایوانوں میں بیٹھتے ہیں؟ شدید گرمی میں مرنے والوں کو ٹھنڈک تو میسر ہوئی لیکن سرد خانے میں لیکن ان کا کیا جو سرد کمروں میں بیٹھے اپنا خون تک جما بیٹھے ہیں۔ ان جیسوں کے لیے شرم و حیا تو دور غیرت کا لفظ بھی چھوٹا پڑ جاتا ہے۔کوئی ایک سیاسی شخصیت میں نے ان دس دنوں میں ایسی نہیں دیکھی جس نے رضاکارانہ طور پر کسی اسپتال کے باہر گرمی میں ایک سے دو گھنٹے دیے ہوں یہ کام درد دل رکھنے والے شہریوں نےیا پھر افواج پاکستان نے کیا۔ شہریوں نے ہی اپنی مدد آپ کے تحت اسپتال آنے والوں کو پانی، مشروبات، اور سر ڈھانپنے کے لیے تولیے فراہم کیے جبکہ تمام سیاستدان شام کو ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں صرف الزامات لگانے میں مصروف نظر آئے۔ میری ایک دوست نے کہا کہ اگر ان بے غیرت، بے ضمیر سیاستدانوں کو غیرت دلانے کے لیے یہ کہہ دیا جائے کہ گرمی کے باعث کراچی کے 1200 سے زائد ووٹرز مر گئےتوشاید یہ جاگ جائیں۔میں نے جواب دیا نہیں انہیں فرق نہیں پڑے گا کیونکہ تین سال قبل میرے والد اس دنیا سے چلے گئے تھے لیکن 2013 کے عام انتخابات میں ان کا ووٹ پھر بھی ڈال دیا گیا تھا۔ اس ملک میں لاشیں، مردے سب ہی ووٹ دیتے ہیں تب ہی تو نہ بھٹو مرتا ہے نہ کوئی شریف۔کوئی ملک سے باہر بیٹھ کر تگنی کا ناچ نچاتا ہے تو کوئی کینیڈا سےہر سال یہاں انقلاب برپا کرنے آجاتا ہے۔ کسی کو امپائر کی انگلی کا اشارہ ملنے میں چار ماہ لگ جاتے ہیں تو کوئی ابھی تک اسی خواب میں جی رہا ہے کہ یہ ملک اسلامی بن جائے۔
کل رات میری بہن نے مجھ سے اچانک سوال کیا کہ صحافت آپ سے ہوتی نہیں سیاست آپ کر نہیں سکتیں تو مستقبل میں کیا ارادے ہیں،میں نے جواب دیا "میں سرد خانے بنانا چاہتی ہوں کیونکہ اس میں سیاست کی ضرورت نہیں”۔

Leave a Reply