[blockquote style=”3″]
تصنیف حیدر کا یہ مضمون اس سے قبل ادبی دنیا پر بھی شائع ہو چکا ہے۔ تصنیف حیدر کی اجازت سے اسے لالٹین پر شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
یہ اس سویرے کی بات ہے، جب میری آنکھ اتفاق سے جلد کھل گئی تھی، پتہ نہیں کیوں، کس بات پر مگر نیند ٹوٹی تو معلوم ہوا کہ نیند کے ساتھ ساتھ خواب بھی ٹوٹا ہے اور یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ سرحدی علاقے میں اٹھارہ جوانوں کو کچھ دہشت گردوں نے شہید کردیا ہے۔ حالانکہ لفظ شہید ہمیشہ میرے لیے کشمکش کا باعث رہا ہے اور میں اپنی دوست رامش فاطمہ سے اس حد تک اتفاق کرتا ہوں کہ یہ لفظ انسان کے قتل، اس کی موت کو تقدس کے ہالے میں لپیٹ کر طاق میں رکھ دینے کی سازش کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ بہرحال اب آپ میرے یہاں موجود اس لفظ کو قتل یا موت کے معنی میں پڑھ سکتے ہیں۔ ہم اس دن نیوز کی دکانوں پر پڑی لکڑی کی چھوٹی چھوٹی بینچوں پر بیٹھے رہے، جہاں تازہ اپڈیٹس کی جلیبیاں اتار کر عوام کو دی جاتی ہیں، کچھ کرکری، کچھ تازی، کچھ گرم اور کچھ بہت زیادہ جلی ہوئی۔ دکان دار کوشش کرتے ہیں کہ یہ جلیبیاں کرکری اور گرم ہوں تاکہ بیٹھے ہوئے لوگوں کو اس کی عادت پڑ جائے۔ سو اس دن بھی یہی ہورہا تھا۔ آج میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں، حالانکہ مجھ جیسے ایک گھریلو قسم کے ادیب کا ہندوپاک کی نہایت گنجلک، خطرناک، سازشی اور سخت ترین سیاست پر لکھا گیا کوئی بھی جملہ اعتبار کا درجہ نہیں رکھتا، مگر میں چونکہ ایک امن پسند، ڈرا ہوا اور خاموش طبع انسان ہوں، اس لیے چاہتا ہوں کہ میری بات بھی کبھی سنی جائے۔
جب بھی کہیں کوئی موت ہوتی ہے، ہمیں اس کا دکھ منانا چاہیے، دکھ اس معاملے میں کہ آج ایک پھول پک کر، سڑ کر، پچک کر زمین پر گرپڑا ہے۔
جب بھی کہیں کوئی موت ہوتی ہے، ہمیں اس کا دکھ منانا چاہیے، دکھ اس معاملے میں کہ آج ایک پھول پک کر، سڑ کر، پچک کر زمین پر گرپڑا ہے۔ عام طور پر ہمارے ملکوں میں سپاہیوں کی موت کو موت نہیں بلکہ قربانی سمجھا جاتا ہے، ان کے مرنے، ان کے قربان یا پھر شہید ہونے سے ان کے ماں باپ کو فرق نہیں پڑنا چاہیے، ان کے بچوں، ان کے خاندان والوں اور ان کے اپنوں کو پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ فوج میں بھرتی ہونے کا ایک مقصد ہمارے یہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ لوگ وطن پر جان دینے کے لیے، کفن باندھ کر اپنے گھر سے نکلے ہیں۔ ہمارے یہاں ایک ٹرینڈ ہے، اگر آپ کو یہ بے وقت کا انگریزی لفظ برا معلوم ہوا ہے تو معافی چاہوں گا، مگر یہ روایت سے کئی گنا بہتر لفظ ہے۔ ٹرینڈ یہ ہے کہ ایک بھری ہوئی بندوق لیے ہوئے سپاہی کے پیچھے کھڑے ہوئے کچھ نہتے جی بھر کر جالیوں کے اس پار لوگوں کو گالیاں دینا چاہتے ہیں، کوسنا چاہتے ہیں، ان کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں، ان سے جھگڑا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں طرف ہے۔ اور جب اس جانب سے کوئی گولی آتی ہے تو سپاہی کا سینہ تو شہید ہونے ہی کے لیے بنایا گیا ہے، چنانچہ اس کا کوئی غم نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے غم میں مزید آبلہ پا ہو کر ایک نئے انسان کو وردی، کنٹوپ پہنا کر، بندوق ہاتھوں میں تھما کر اس کی پشت پناہی حاصل کرلینی چاہیے۔ ہمیں اس شخص کے گھروالوں، اس کے عزیزوں، اس کی زندگی، رشتوں، خوابوں، طور طریقوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔معاف کیجیے گا، مگر ہم اس مقام پر سپاہی اور خودکش بمبار میں فرق کرنا بھول جاتے ہیں۔سپاہی ایک ذمہ دار شہری ہوتا ہے، ایک ذمہ دار باپ ہوتا ہے، ایک ذمہ دار شوہر ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر ذمہ دار انسان ہوتا ہے، جس کے اندر وہ سارے جذبات موجود ہیں، جو اس کے پیچھے کھڑے ہوکر چخ چخ کرنے والوں میں ہونے کے امکانات ہیں۔ہم کبھی جنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے، اس لیے کیوں نہیں گھبراتے کہ ہمیں ان سپاہیوں کی جان اور ان کے بچوں، بیویوں کی زندگی کی فکر ہو، ان سے محبت ہو، ان کی زندگی سے محبت ہو۔ہم نفرت کی دلدل میں اس قدر گہرےاترنے کے لیے تیار ہیں کہ اپنی طرف سے لڑنے کے لیے کچھ ایسے مجبور انسانوں کو آگے کرتے ہیں، جن کے لیے فوج میں بھرتی ہونا، ان کی چھوٹی بڑی ذمہ داریوں کو نبھانے کا نام بھی ہوسکتا ہے۔ جنگ کی خواہش آپ کی ہے، تو سپاہی کیوں مرے۔ آپ کہیں گے کہ اس کا کام ہی حفاظت کرنا ہے۔ تو میرا سوال ہے کہ حفاظت اصل کام ہے، موت اصل کام نہیں ہے۔ موت اس کا مقصد نہیں ہے، اس کا مقصد ایک سچی، صاف اور صحیح زندگی ہے۔ نفرت میں ڈوب جانے والے، اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ وہ نفرت کرنے والوں کی ہی زبان بول رہے ہیں۔اس بھاشا کا اپیوگ ہمیشہ ہوتا رہا ہے، ہر زمانے میں۔ اور ہر زمانے میں سوچنے والا ذہن ان کے لیے ایک نحوست، قابل نفرت اور گھن کرنے جیسی چیز ہی بنا رہا ہے۔سوشل میڈیا کی خبروں پر ہندو پاک کے عام لوگوں کے جذبات ، جس طرح منہ سے نکلنے والے جھاگ کی طرح ، کی بورڈ پر گھس کر پیدا کیے جانے والے لفظوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں،ان کا نظارہ تو ہر شخص نے کیا ہوگا۔ایک صاحب نے لکھا۔ ہندوستان پر نیوکلیر حملہ ہوجائے تو ہوجائے، ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔یہ بہت بڑا دیش ہے، جتنے لوگ بچیں گے، وہ پھر سے ہندوستان بنالیں گے، مگر ہم پاکستان کا نام و نقشہ اس دنیا سے ہٹا دیں گے۔میرے ذہن میں ان کے خیالات پڑھنے کے بعد دو باتیں ایک ساتھ پیدا ہوئیں۔ اول تو یہ کہ یہ کمنٹ کرتے وقت موصوف پوری طرح اس بات کی یقین دہانی کرچکے تھے کہ وہ بچنے والوں میں سے ہی ہوں گے، دوسرے ان کا رویہ اس دہشت گرد کی ہی طرح تھا، جو سوچتا ہے کہ بھیڑ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مارگرایا جائے، مجھے تو مرنا ہی ہے، مگر میں اپنے دشمنوں کو بھی زیادہ سے زیادہ ختم کرسکوں۔اس کے لیے وہ تمام لوگ اس کے دشمن ہوتے ہیں، جن سے نہ وہ کبھی ملا، نہ ان کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کی، نہ عام زندگی میں انہیں اپنے ہی جیسا گھرداری اور کاروبار، عشق و تمدن میں الجھا ہوا انسان سمجھا، نہ وہ ان کے نام سے واقف، نہ ان کی فکریات سے۔بس چل پڑے، خود کو چیتھڑے چیتھڑے کرنے۔ اب اس سوچ میں اور اس سوچ میں کون سا ایسا فرق ہے۔ دہشت گردی، کہیں اور سے نہیں آتی، یہ بدلے کے جذبے سے پیدا ہونے والا ایک مرض ہے، ایک نفسیاتی مرض، جو انسان کو سوچنے سمجھنے سے محروم کرکے بس تباہی پھیلانے کی جانب راغب کرتا ہے۔اورتباہی بھی ان لوگوں کی ،جن کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو۔جن سے بلاواسطے کا ایک بیر ہو۔
امن حکومت کے ذریعے نہیں آ سکتا، یہ نعرے لگانے، چیخنے چلانے، گولیاں داغنے یا بم ماردینے سے نہیں آئے گا۔یہ بات کرنے کے ماحول سے پیدا ہو گا۔
یہی کام اس روز ان چار دہشتگردوں نے کیا، جو سرحد پار کرکے یہ جانتے بوجھتے اس طرف داخل ہوئے تھے کہ وہ کسی کو مار پائیں یا نہ مار پائیں مگر ان کا مرنا تو طے ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ انہوں نے کیا کیا ہے؟یہ وقت حکومتوں کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کا نہیں ہے، وہ وقت گزر گیا، اب مسئلہ عوام کے ذریعے حل ہوگا۔جرمنی کے تاریخی معاہدے کو یاد کیجیے، جرمنی کی حکومتوں نے برلن کی دیوار کو نہیں گرایا تھا، عوام نے گرایا تھا۔ دیواریں تو ہمیں ہی گرانی ہوں گی۔ یہ کون لوگ ہیں، جو ہمیں جانے بوجھے بغیرہمارے بیچ مارنے، مرنے کے لیے آجاتے ہیں۔ہمیں ان کے مرض کی تشخیص کرنی ہو گی، ہمیں انہیں یہ یقین دلانا ہوگا کہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں، انہیں ہماری دشمنی پر جو لوگ آمادہ کررہے ہیں، دراصل وہ انہیں گمراہ کر رہے ہیں۔ امن حکومت کے ذریعے نہیں آ سکتا، یہ نعرے لگانے، چیخنے چلانے، گولیاں داغنے یا بم ماردینے سے نہیں آئے گا۔یہ بات کرنے کے ماحول سے پیدا ہو گا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ بات کیسے ہو گی، یہ بھی آپ ہی کو طے کرنا ہے۔آپ کو کسی حکومت سے بات نہیں کرنی ہے، آپ عوام سے بات کیجیے، عوام میں یہ یقین پیدا کیجیے کہ وہیں کے رہنے والے، وہیں کے لوگوں کے درمیان آپ کی اس امیج کو غلط ثابت کر دیں، جو وہاں کے گھٹیا ذہن بنارہے ہیں۔ وہاں کے نصابات میں زبردستی جس طرح بھارت اور بھارتی لوگوں کو دشمن بتایا جارہا ہے، آپ اپنے عمل سے یہ ثابت کیجیے، کہ تمہارا نصاب جھوٹا ہے، تم لوگوں کو غلط تعلیم دے رہے ہو، کیونکہ اسکولی تعلیم اور حقیقت پسند انسانی زندگی میں بہت فرق ہوتا ہے۔
پاکستان ایک کمزور پڑتا ہوا ملک ہے، وہاں کے بہت سے رہنے والوں کے دماغوں میں مذہبی رگ پھول کر سبز سے نیلی ہوگئی ہے۔ انہیں یہ بات سمجھنے میں دشواری ہورہی ہے کہ زندگیاں کرکٹ کا میدان نہیں ہوا کرتیں۔جہاں ہوائوں میں چھکے، چوکے لگائے جائیں۔ میں حیران ہوں کہ ان کے وزیر دفاع ایک نیشنل چینل پر نیوکلیئر کو استعمال کرنے کی بات کربھی کیسے سکتے ہیں۔یہ سب کتنا خطرناک ہے، پاکستانی حکمرانوں اور وہاں کے مذہب پرست بیمار لوگوں کو اس سے کوئی مطلب نہیں۔ اب ایسی ہی کچھ آبادی ہمارے یہاں بھی ہے، جو اس بات کو نہیں سمجھتی کہ مسئلے مذہبی فقروں یا وطنی نعروں سے نہیں حل ہوتے۔انسانیت کی قدر کرنے سے حل ہوتے ہیں۔مگر ایسا نہیں ہے کہ ان کے یہاں اور ہمارے یہاں کی عوام سیکولر نہیں ہے، عوام جنگ چاہتی ہے یا اپنی تباہی کے لیے پر تولے بیٹھی ہے۔ ان کے مسائل بھی اتنے ہی زمینی ہیں، جتنے ہمارے ہیں۔مجھے کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ اگر پاکستان نہیں بنا ہوتا تو کیا یہ مسائل ہوتے، جواب ملتا ہے کہ ہوتے اور شاید اس سے زیادہ بھی ہو سکتے تھے۔ کیونکہ مذہبی افتخار، نئی قومیت کے تصور کو جنم دے رہا ہے، جس سے اکیسویں صدی میں بڑی طاقتیں فائدے اٹھارہی ہیں۔نیوز چینلوں کی ان بکواسوں پر مت جائیے کہ امریکہ یا چین ہندوپاک کی ٹھڈیوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں کس طرح منانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جنگ کا میدان اگر دو ملک بنتے ہیں، تو آج کے زمانے میں وہاں صرف وہ دو ممالک ہی نہیں لڑتے، بلکہ دنیا کے باقی بڑے ممالک بھی اسی کا فائدہ اٹھاکر اپنی طاقت جھونک دیتے ہیں، تاکہ ایک دوسرے سے اپنی زمین سے دور لوہا لیا جاسکے، ایک دوسرے کی طاقت کا اندازہ کیا جاسکے اور کسی ایک کو کمر جھکانے پر مجبور کیا جائے۔سیریا کا انجام آپ کے سامنے ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے گلوبل حالات سے کچھ نہیں سیکھا اور کیوں نہیں سیکھا یہ کسی اور سے نہیں، اپنے آپ سے پوچھیے۔خدا کی بخشی ہوئی عظیم تر نعمت یعنی کہ زندگی کو کوئلہ کردینے کی خواہش نہ رکھیے، کسی سے نفرت ہی کرنی ہے تو اس رویے سے کیجیے جو انسان کو انسان سے لڑنے پر مجبور کرتا ہے۔
ان اسباب کو ڈھونڈنا اور ڈھونڈ کر انہیں ختم کرنا نہایت ضروری ہے، جو شہادت کے اس غلط اور گمراہ کن تصور کو رائج ہونے میں مدد دیتے ہیں، ورنہ اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتاردینے والوں کی کمی کبھی نہیں ہوگی۔
میں سوچتا ہوں کہ وہ کون لوگ ہوں گے، جن کو اس بات پر مذہبی فقرے سنا کر آمادہ کرلیا جاتا ہوگا کہ تم کسی کی جان لے کر کوئی گناہ نہیں کررہے ہو، کسی باپ، کسی شوہر، کسی بیٹے کو ختم کرکے، اسے ابدی نیند سلا کر، اس کے افکار و نظریات سے ناواقف ہوتے ہوئے بھی تم کو ایک کھلکھلاتی جنت مل سکے گی۔ان اسباب کو ڈھونڈنا اور ڈھونڈ کر انہیں ختم کرنا نہایت ضروری ہے، جو شہادت کے اس غلط اور گمراہ کن تصور کو رائج ہونے میں مدد دیتے ہیں، ورنہ اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتاردینے والوں کی کمی کبھی نہیں ہوگی۔اس لیے ضروری ہے کہ جتنے انسان پیدا ہوں، اسی مقدار میں سوچنے والے ذہن پیدا ہوں۔شارلی ہیبدو پر جب حملہ ہوا تو فرانس میں دس لاکھ کے مجمع نے مل کر اپنے غصے کا اظہار کیا، لیکن وہاں کے لوگ مسلمانوں کے تعلق سے تب بھی یہی کہہ رہے تھے کہ انہیں تعلیم کی ضرورت ہے۔سچ ہے کہ تعلیم ہی اس مسئلے کا حل ہے، وہ تعلیم جو سوچنا سکھا سکے، صرف دوسروں کے کہے پر بنا سوچے سمجھے چلنے کاطریقہ نہ سکھائے۔
کشمیر کا جہاں تک معاملہ ہے، مجھے لگتا ہے کہ اس علاقے کو یہاں کی ہٹ دھرم مذہبی اور علیحدگی پسند سیاست نے جہنم بنارکھا ہے۔وہاں کے لوگوں کو چاہیے کہ ہندوستان کا ساتھ دیں۔ایک تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ملک کو دل سے اپنائیں اور اس کا حصہ بنیں اور اس سے محبت کریں۔انہوں نے ہمیشہ حالات کو اس قدر خراب اور عجیب رکھا ہے کہ ان کی علیحدگی پسندی نے ہندوستان کے باقی بیس بائیس کروڑ مسلمانوں کی ایمانداری اور وطن سے ایک قسم کے محبتانہ جذبے پر سوالیہ نشان قائم کردیا ہے۔کشمیریوں کو چاہیے کہ اس قسم کی سیاست سے باہر نکلیں اور ہندوستان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کرچلیں ، بغاوت یا علیحدگی کے نام پر کسی بندوق بردار کا ساتھ نہ دیں۔وہ اپنے لیے ایک خوشگوار ماحول پیدا کرسکتے ہیں۔مگر وہ نہیں کررہے ہیں۔وہ اس مسئلے کو پچھلے ستر سا ل سے مسئلہ بنائے ہوئے ہیں اور آگے بھی بنائے رکھیں گے، یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اور ان کی زندگیاں جنت و جہنم کے بیچ ڈولتے ہوئے ایک پل پر یونہی مجہول و مبہم رقص میں مبتلا رہیں گی۔یہ ٹچی حرکتیں، جن میں دوسری زمینی طاقتوں کی زبانی حمایت سے لے کر ایک الگ ملک کا شہری ہونے کے خواب تک پھیلی ہوئی ہیں، اب کشمیریوں کو بند کردینی چاہییں۔جس دن وہ یہ فیصلہ لیں گے، اپنے ہی نہیں، اپنے بچوں کے مستقبل کو بھی تابناک کردیں گے۔ہندو پاک کے وہ تمام لوگ جو اس زخم کے سوکھنے کے بجائے، ابھی بھی اسے اپنے نظریات سے ناسور بنے رہنے کی حمایت کرتے ہیں، وہ کشمیریوں کی زندگی کو ابتر کرنے کی سازش میں برابر کے شریک ہیں۔انہیں کشمیرکے رہنے والے انسانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، وہ بس ان کو بے وقوفوں کی طرح ایک مسلح فوج سے بھڑا دینا چاہتے ہیں، جس کا انجام نہایت کریہہ اور خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
میں جنگ کے خلاف ہوں لیکن اس لیے کیونکہ میں یہ جانتا ہی نہیں کہ میری جنگ ہے کس سے۔
ہندو پاک کے کرکٹ میچ میں چھائے ہوئے ایڈونچر سے لے کر آج جنگ کی نوبت جب ایک دفعہ پھر ہمارے آسمانوں تک آن پہنچی ہے تو ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔ہم اپنے ملکوں کے وفادار ہیں تو ہمیں ان کی بھلائی کے بارے میں سوچنا چاہیے، ہمیں بغیر جانے، بغیر دیکھے ہوئے لوگوں کو دشمن سمجھنے کے بجائے ایک ایسی طاقت سے لڑنے کی ضرورت ہے، جو نفرت کو ہوا دے رہی ہے اور آئے دن اس نفرت کا سہارا لے کر معصوم لوگوں کی جان لینے کے درپے ہیں (جن میں بھٹکے ہوئے نوجوان بھی ہیں اور وردی پوش سپاہی بھی)۔
میں جنگ کے خلاف ہوں لیکن اس لیے کیونکہ میں یہ جانتا ہی نہیں کہ میری جنگ ہے کس سے۔میں کسی سٹیڈیم میں بیٹھ کر رنگ میں لڑنے والے اپنے فریق کے بدن میں حوصلے کی ہوا نہیں بھررہا ہوں، بلکہ یہ ایک ملک کا سوال ہے، جہاں کی آبادی، جہاں کی جگہوں، جہاں کے قصوں، جغرافیائی حصوں، تاریخی مقامات اور معاملات سے میرا ایک تعلق ہے۔میں کسی انسان کے خلاف نہیں جاسکتا، جب تک کہ اپنے ذہن کی کسوٹی پر اس کے نظریات کو نہ کس لوں۔میں چاہتا ہوں کہ بہکانے والی طاقتیں ختم ہوں، کیونکہ وہی سب سے بڑا مسئلہ ہیں لیکن میرے چاہنے سے ہوتا کیا ہے۔۔۔۔
تبصرے