مجھے اس بات کا علم ہے کہ یہ جملہ مجھ سے پہلے ہزاروں لوگ کہہ چکے ہیں کہ ادب پڑھنا اور سمجھنا ایک بڑی ذمہ داری ہے اور اس سے بڑی ذمہ داری ہے ادب کو تخلیق کرنا لیکن میں اس سوال کو اپنے معاشرے اور عہد کے تناظر میں یا پھر اس تاریخی پس منظر میں جس میں عہد بہ عہد اس سوال پر غور کیا گیابہت مختلف اور جداجدا پاتا ہوں۔ ادب ایک بڑا شعبہ ہے۔ زندگی کا بھی اور موت کا بھی۔ لہذا اس کو پڑھنا بھی ہر شخص اور جماعت کے نزدیک ایک الگ تقاضہ رکھتا ہے۔ ہمارے اکابرین نے جب ادب کو پڑھا،سمجھا اور تخلیق کیا تو زندگی کے تقاضے دیگر تھے اور آج کے لوگ جس ادب کو پڑھتے،سمجھتےیا تخلیق کرتے ہیں اس کے تقاضے دیگر ہیں۔ حالاں کہ اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی شخص یا جماعت کس طرح کا ادب پڑھتی ہے یا کیوں پڑھتی ہے مگر انفرادی طور پر ہر اس شخص کو ایک بار ضرور اس بات پر غور کرنا چاہیے جو ادب کا مستقل قاری ہے کہ وہ ادب کیوں پڑھتا ہے؟

میں نے گزشتہ کئی برسوں میں اس سوال پر غور کیا ہے اور کئی مرتبہ کیا ہے۔ اول بات تو یہ کہ تاریخ،مذہب اور سیاسیات کی طرح ادب کو پڑھنا مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آیا۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ ہر مضمون خواہ وہ کسی بھی راہ علم و عمل سے متعلق ہو ایک نوع کے ذاتی مزاج کے ساتھ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ جس میں ریاضی سے لے کر سائنس، ادب اور جغرافیہ تک تمام مضامین کا شمار ہوتا ہےاور یہ اس ذاتی مزاج کی ہی دین ہے کہ ایک مضمون کو دیگر مضامین سے ممیز کیا جاتا ہے۔ مثلاً جس طرح علم رابطہ (Communications)کا مطالعہ تفسیر البیانات (Data Interpretation)کی طرح نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح علمیات کا مطالعہ ساختیات کی طرح نہیں کیا جا سکتا۔ ہر علم کا ایک طریقہ تحصیل اور طریقہ استفادہ ہے۔ ادب بھی اسی طرح ایک طریقہ علم کے تحت ہی پڑھا، سمجھا اور لکھا جا سکتا ہے۔

ایک مرتبہ مجھ سے مرحوم کمال احمد صدیقی نے تاکیدا یہ کہا تھا کہ اگر ادب پڑھنا چاہتے ہو اور دور تک اس سے محظوظ ہونا چاہتے ہو تو ہر علم کو اپنے مطالعے میں شامل کر لو خواہ کہ وہ مبادیات ہی تک کیوں نہ محدود رہے۔ ان کی یہ بات مجھے خاصی پسند آئی تھی۔جس وقت انہوں نے مجھے یہ نیک مشورہ دیا تھااس وقت میری عمر تقریبا بیس برس تھی۔حالاں کہ اس وقت تک میں کلیات اقبال، مقالات مسعود، اشرف صبوحی، امتیاز علی تاج، عربی ادب کی تاریخ اور اردو اور فارسی ادب کی کئی ایک چھوٹی بڑی کتابیں پڑھ چکا تھا مگر میں نے ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے شعبہ زندگی سے متعلق مختلف طرح کے علوم کی کتابوں کو اپنے معمولات زندگی میں شامل کیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ ان میں سے بشریات اور تاریخ، سماجیات اور تصوف کی کتابوں سے مجھے دیگر کے بالمقابل زیادہ لطف ملنے لگا تو میں نے ادب کو ثانوی درجے پر رکھ کر انہیں کا مطالعہ شروع کر دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب تصوف کی الٹی سیدھی اور بے سر پیر کی باتوں سے اور ہندوستانی تاریخ میں میمنہ اور میسرہ کی بکواس سے دل اکتانے لگا تو پھر ادب کی طرف لوٹا لیکن اس بار میں نے ادب کی جو جو کتابیں پڑھیں ان میں مجھے ایک الگ ہی نوعیت کا حسن اور دلچسپی نظر آئی۔ مثلاً کلیات اقبال، مراثی میر انیس، قصائد ذوق، دیوان غالب و میر،دیوان درد سے لے کر جدید شعرا کے کلام تک، ترقی پسندی، مابعد جدیدیت اور نارنگ صاحب کے جلے ہوئے کاغذات تک، آواز دوست، لوح ایام، کئی چاند تھے سر آسماں اور قبض زماں سے ممنوعہ محبت کی کہانی تک ادب کی دنیا میرے لیے بہت مختلف ہو چکی تھی۔ میری دیگر کتب کے مطالعے نے مجھے اس فعل میں کیا کچھ عطا کیا اس کا ادراک مجھے کمال صاحب کے مشورے کے پانچ برس بعد ہوا جب میں نے ادب کو دوسرے دور میں پڑھنا شروع کیا۔لیکن یہ سوال میرے لیے اب بھی خاصہ اہمیت کا حامل رہا کہ میں ادب کیوں پڑھتا ہوں ؟
تاریخ پڑھتے وقت میرے ذہن میں ہمیشہ اس بات کا کہیں نہ کہیں احساس موجود رہا کہ اگر میں کسی بھی نوع کی تاریخ پڑھ رہا ہوں تو اس سے مجھے انسانی زندگی کے گزرے ہوئے حالات کا علم ہو رہا ہے۔ ایسا علم جو مجھے اپنی موجودہ اور آنے والی زندگی میں نئی تہذیب کا ادراک کرواتا ہے۔ یہ ایک نوع کا علم نافع ہے جس کو وقت کا زیاں نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے بالمقابل عصمت چغتائی کا ایک ناول یا منٹو کی ایک کہانی،عین المعارف کی ایک غزل اور آہنگ کی ایک نظم سوائے ذرا دیر کی تسکین کے یا اس حظ اور اضطراب کے کیا دے سکتی ہے جس سے میرا اور انسانیت کا کچھ بھلا نہیں ہوتا۔یہ ہی وجہ ہے کہ ادب کے مطالعے نے مجھے ہمیشہ سائنس کی اہمیت کا احساس دلایا۔ سائنس کی نئی نئی ایجادات اور معجزات سے میں ادب کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ متحیر ہوا ہوں۔ ابھی چند روز قبل کی بات ہے کہ میں نے Jet Packپر پون گھنٹے کی ایک ڈاکیو مینٹری دیکھی جس میں Nick Macomberکی کارستانیوں کو دیکھ کرمجھے انسانی عقل کے ارتقا کی حیرت انگیز مثال ملی۔ اسی طرح ہالی ووڈ کی ایک موویThe Walkدیکھ کر بھی میں متحیر ہواکہ انسان کس کس طرح سے اپنے وجود پر قابو پانے کے قابل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اب جبکہ میرے محظوظ ہونے کا عمل ترقی کر کے چشم دید حالات تک پہنچ گیا ہے اور میں انسان کی عقلی معراج کے زندہ کرشموں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں تو ایسے میں یہ سوال میرے لیے زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ آخر میں ادب کیوں پڑھ رہا ہوں۔

اس سوال کا جواب ادھر میں نے خود کو کچھ یوں دینا شروع کیا ہے کہ ادب پڑھنا میرے لیے ایک قسم کے ذہنی ارتقا کا باعث رہا ہے۔ میں نے جب جب ادب کے مطالعے کو اپنے لیے غیر اہم تصور کیا ہے تب تب ادب نے کسی نہ کسی طرح مجھے اپنے سحر میں لینے کی کوئی نہ کوئی ادا وضع کر لی ہے۔ ادب کیا ہے؟ اس سوال کا جواب خواہ ہم شعوری طور پر نہ دے سکیں مگر اس کو ہم اپنے لاشعور میں تحلیل ہوتے ہوئے انبساط سے تو حاصل کر ہی سکتے ہیں کیوں کہ جب تک اس بات کا فیصلہ نہیں ہو جاتا کہ ادب آخر ہے کیا بلا تب تک ہم اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں اور کیوں پڑھ رہے ہیں۔ میں نے اس سوال پر غور کر کے اب تک کی زندگی میں یہ جانا ہے کہ ادب ایک ایسی غیر اصولی ترتیب جمالیات ہے جو ہمیں سوائے اپنے احساسات کے کہیں اور نظر نہیں آ سکتی۔ انسانی احساسات کی دنیا جتنی متنوع ہے ادب بھی اتنا ہی نوع بہ نوع ہے۔ جس طرح اشیاء کی خارجی حالت خواہ وہ باطن در باطن ہو اس کا تجزیہ اور ادراک سائنس ہے۔ اسی طرح انسانی احساسات کی باطنی حالت خواہ وہ ظاہر ترین ہو ادب ہے۔ میں نے ادب کو جب سے اس اصول کے تحت سمجھنا شروع کیا ہے اس کے مطالعے کا احساس جمال مجھ میں مزید بڑھا ہے۔ انسانی احساسات کو سمجھنا یہ کوئی کمال نہیں کہ اس کی قدرت تو انسانی جبلیت کا حصہ ہے۔ اپنے احساسات کا اظہار یہ کمال فن ہے۔ ادب کو میں نے جب جب اور جہاں جہاں سے پڑھا ہے اور پڑھ رہا ہوں۔ مجھے ہمیشہ حیرت ہوئی ہے کہ انسان نے دھیرے دھیرے اپنے خیالات کو کتنے دلچسپ انداز میں بیان کرنا سیکھا ہے۔ ادب کے مطالعے کا ایک فسوں مجھ پر اکثر یہ بھی کھلا ہے کہ یہ قدیم نہیں ہوتا۔کیا ہی عجیب بات ہے کہ سائنس کی کوئی بھی تھیوری یا تو ماضی ہوتی ہے یا حال۔ مثلاً متذکرہ بالا Jet Packکی ہی مثال لے لیجیے کہ جس حال میں وہ 1961 میں تھا اسی طرح آج بھی ہے 26 سیکنڈ کی اڑان میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ لیکن ادب کا معاملہ یہ ہے کہ یہ ماضی اور حال کے بالمقابل مستقبل ہوتا ہے۔ چاسر یا شیکسپر کی کوئی عبارت ایسی ہو سکتی ہے کہ وہ سلمان رشدی سے بہتر نہ ہو،لیکن یہ ایک عجیب بات ہے کہ ادب میں اکثر اس صورت حال کی تقلیب نظر آتی ہے۔ غالب کی زیادہ تر شاعری راشد یا میراجی سے اچھی نہیں میں اس بات کو نہیں مان سکتا یا فیض اور فراق، جمال احسانی اور فرحت احساس سے بڑھے ہوئے نہیں اس کو بھی نہیں۔ ادب کا ایک فسوں یہ بھی ہے کہ یہ ماضی میں حال سے بہتر ہوتا ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال یہ ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو نیاز فتح پوری من جملہ کتب ادبیات کے بالمقابل دیوان مومن پر اکتفا کرنے کا مژدہ نہ سناتے۔

میں ادب کو اس لیے بھی دیگر تمام علوم کے بالمقابل زیادہ اہم سمجھتا ہوں یا اس سے تسکین حاصل کرتا ہوں کیوں کہ اس میں تفریق نہیں پائی جاتی۔ ادب انسان کو اصولوں کے باہر جینا سکھاتا ہے۔ ہمارے ادب کی صورت حال اس سے بظاہر خواہ کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہو، لیکن یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ ادب ایک واحد ایسا متن ہے جس کو غیر اصولی طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔ سماجی،سیاسی اور سائنسی علوم کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو ادب کی طرح پڑھا جا سکتا ہو۔ مثلا ً اگر ہمیں ریاضی کا علم حاصل کرنا ہے یا سیاسیات کا یا کمسٹری کا تو اولین صورت میں ہمیں اس کی مبادیات سے واقف ہونا پڑتا ہے۔ جب کہ ادب کی مبادیات خود انسان وجود اور اس کے احساسات ہیں۔ میں نے اکثر محسوس کیا ہے کہ ادب کا کوئی طالب علم خواہ وہ ٹالسٹائی سے اپنا سفر شروع کرے یا کافکا سے۔ چی خف کوپہلے پڑھے یا گوگول کو، غالب، کیٹس اور کالی داس کو اولیت دے یا حبیب جالب اور نزارقبانی کو پہنچتا ایک ہی جگہ ہے۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ انسانی احساس جمال ترقی کرتا ہے اور انحطاط کا شکار بھی ہوتا ہے لیکن ادب میں اس کے دائرے دیگر علوم کے بالمقابل بالکل جدا ہیں۔ کب کسی شخص کو متبنی اور امروالقیس پسند آئیں اور کب ابھیشیک شکلا اس کا کوئی تعین نہیں ہے۔ ادب کی جمالیات کی کوئی قواعد نہیں۔ حالاں کہ جہاں مجھے اپنے تجربے سے ایک طرف یہ بات سمجھ میں آئی ہے وہیں دوسری طرف میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ انسانی علم کے ساتھ ساتھ اس کے احساس جمال میں بھی وسعت اور معیار پیدا ہوتا ہے۔ ابھی چند روز قبل کی بات ہے کہ میں اپنے ایک عزیز علی اکبر ناطق کی ایک نظم پڑھ رہا تھا کہ مجھے کئی ایک تاریخی واقعات یا د آ گئے اسی طرح جب میں راغب اختر کی ان نظموں کو پڑھتا ہوں جن میں اسلامی تلمحیات نظم ہوئی ہیں تو بھی کئی ایک واقعات کو ان سے جوڑ دیتا ہوں۔ صدف فاطمہ کی کہانی ذائقہ اور منٹو کی کہانی ٹھنڈا گوشت ان دونوں کے حالات اور واقعات کو تاریخی اور سیاسی حالات سے جوڑنے میں مجھے لمحہ بھر نہیں لگتا۔ اس کی ایک واضح مثال ظفر سید کا قائم کردہ وہ فیس بک ادبی فورم حاشیہ ہے جس پر مختلف شعرا کی مختلف نظموں کا احباب نے مختلف انداز سے جائزہ لیا اور اس کی تشریحات پیش کیں۔ ادب کا میرے نزدیک یہ ہی فائدہ ہے کہ وہ انسانی ذہن کے ارتقا کو کسی طے شدہ دائرے کے تحت ترقی نہیں بخشتا جس طرح دیگر علوم عطا کرتے ہیں بلکہ وہ انسانی فکر اور احساس جمال کو غیر اصولی طور پر بڑھاتا ہے۔

میرے ادب پڑھنے کی ایک بڑی وجہ جھوٹ اور سچ، لیاقت اور عدم لیاقت، شناخت اور عدم شناخت یا اوصاف کی دو طرفہ تقسیم کے قضائے بھی ہیں۔ادبی متن کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ وہ تاریخ کی طرح فیصلے نہیں سناتا یا تہذیبی علوم کی مانند جھوٹ اور سچ کی دو الگ خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ یہاں کسی بھی لیاقت کا کوئی دخل نہیں اگر ہوتا تو ہم کبیر کو سر آنکھوں پر نہیں بٹھاتے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ادب صرف علم ہے تو یہ بھی سراسر غلط ہی محسوس ہوتا ہے کہ ادب کا جتنا تعلق لکھنے، پڑھنے سے ہے اتنا ہی بولنے اور سننے سے بھی ہے۔ ایک اچھا ادیب اور تخلیق کار ہمیشہ لکھنا اور پڑھنا جانتا ہویہ ضروری نہیں۔ اس کی بھی زندہ مثال قرآن ہے جو کہ عربی مبین میں ہے۔ ادب سےمیں نے انسانی اوصاف کی حمیدہ اور رذیلہ تقسیم کو مٹتا ہوا دیکھا ہے۔ جس کی جارہانہ تقسیم علم کلام میں نظر آتی ہے۔ اس کی مثال خلیل جبران کا ڈراما شیطان ہے جس میں ایک پادری اور شیطان کے مکالمے سے ادب کا حقیقی معیار واضح ہوتا ہے۔ میں نے ادب کو مختلف معیارات سے دنیا کے دیگر علوم جن سے میں اپنے محدود دائرہ علم میں اب تک واقف ہوا ہوں بہتر ہی جانا ہے۔ ابھی مزید جان رہا ہوں اور اس جاننے کے اس عمل سے ہی ادب کی مزید فہم بھی پیدا ہو گی جس کو زیر تحریر لانا میں نہایت ضروری سمجھتا ہوں۔ آخر میں اطہر فاروقی سے متعلق ایک دلچسپ واقعے کا بھی ذکر کرتا چلوں کہ ایک صاحب کے تعلق سے جب میں ان سے گفتگو کر رہا تھا جو بقول خود ایک ڈاکٹر ہوتے ہوئے گزشتہ بیس برس سے روز آنہ پندرہ گھنٹے ادبی متن کا مطالعہ کرتے ہیں اور آئے دن تنقید کی کوئی نہ کوئی کتاب سامنے لاتے رہتے ہیں تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ اگر وہ تنقید کو ادب سمجھتے ہوئے پندرہ گھنٹے ادب کے بجائے علم معالجہ کو وقت دیتے تو بے شک کوئی بڑا کارنامہ انجام دیتے۔ مجھے اظہر فاروقی سے صد فی صد اتفاق ہے کہ تنقید ہی ادب کی ایک ایسی شاخ ہے جس پر سائنس کیا انسانی علوم کے کسی بھی شعبے کو ہزار گنا ترجیح دی جاسکتی ہے۔

Image: Jeanie Tomanek

Leave a Reply