یوں تو سنا کرتے ہیں کہ "حق سچ” کے زمانوں میں جانور بھی انسانوں کی طرح بات کر سکتے تھے، لیکن ہر جگہ پر حق سچ کے زمانے کی طوالت ایک جیسی نہ تھی۔ یہ 1925ء کے موسم سرما کی بات ہے جب لاہور چھاؤنی کے ایک رسالے کے اصطبل کے پاس رات کے آخری پہر میں کیپٹن جیک ڈیسمنڈ اپنے گھوڑے ‘ریجنالڈ’ سے آخری بار ملا۔ رسالے کے بیشتر گھوڑے اصطبل سے فاصلے پر بنے ایک ‘شیڈ’ میں بندھے تھے جنہیں اگلے روز نیلامی کے لیے بھیجا جانا تھا کہ اب اس پلٹن کو گھوڑوں کی بجائے ٹینکوں سے مسلح کر دیا گیا تھا۔ گھوڑے اس فیصلے پر از حد اداس تھے اور شاید رسالے والے ان سے بھی بڑھ کر دلگرفتہ لیکن کیپٹن جیک ڈیسمنڈ تو، جو کہ معدے کے السر میں مبتلا ہو کر بھی اور پھر غایت درجے کے بخار میں پُھنک رہا تھا، اپنے اردلی کا سہارا لے کر رات کے اس پہر میں یہاں اپنے گھوڑے ریجنالڈ کے پاس آ بیٹھا تھا۔ پچیس سالہ ریجنالڈ نے اپنا سر تیس سالہ کیپٹن جیک ڈیسمنڈ کی گود میں رکھ دیا تھا اور اس کے نتھنوں سے بھاپ کے مرغولے نکل نکل کر جیک کے بھورے فوجی کوٹ کی سطح پر شبنم کے قطروں کی طرح بیٹھ رہے تھے۔
 
"جیک! خود پر رحم کرو اور مجھ پر بھی۔۔۔ میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور اس طرح کے جاں گسل الوداعی مرحلے کا متحمل نہیں ہو سکتا!”
 
گھوڑے نے آہستہ سے کہا۔ "ریجنالڈ! میری اداسی کو فقط تمہی سمجھ سکتے ہو۔۔۔ یہ میری رجعت پسندی نہیں، یہ فقط ایک رفاقت کے ٹوٹنے کا درد نہیں۔۔ یہ تاریخ کا ایک اداس کر دینے والا موڑ ہے، میکنائزیشن!”
 
کیپٹن جیک نے درد سے لبریز آواز میں بمشکل کہا۔ اس کی پیٹ اور سر کی تکالیف مشترکہ وار کر رہی تھیں۔ وہ کراہا۔ "ریجنالڈ! میرے دوست!”
 
وہ اپنے گھوڑے کو اس کے اصل نام سے نہیں پکار سکتا تھا۔ قط العمارہ کی مہم سے واپسی پر رسالدار ولی محمد اعوان نے اپنا گھوڑا "رانجھن” تحفتہً جیک کی پلٹن کو دیا تھا اور جیک کی زبان پر اس کا اصل نام نہ بیٹھ سکا تو یہ رانجھن سے ریجنالڈ ہو گیا۔ عالمی جنگ کے آخری تین سال ان دونوں نے "سیستان فورس” میں گزارے اور اب جبکہ ٹینک کی ایجاد کو دس سال ہونے کو تھے، اس کی پلٹن کو بھی گھڑسوار سے "میکنائزڈ” کر دیا گیا اور ٹینک نے گھوڑے کی جگہ لے لی۔
 
"جیک، نیشاپور میں برگد کے ایک گھنے پیڑ نے مجھے بتایا تھا کہ مشینی اور آہنی طاقت آئندہ ایک صدی میں انسان کو ان رفعتوں تک پہنچانے والی ہے جس کا ہنوز اسے ادراک بھی نہیں!” گھوڑے نے رازداری سے، سمجھانے کے انداز میں اسے تسلی دی۔
 
"مجھے تسلیم ریجنالڈ، لیکن دیکھ رہے ہو، تمہاری ہماری سیکڑوں سال کی رفاقت رہی ہے، ہم نے جنگلوں، صحراؤں، بستیوں اور بیابانوں کے سفر اکٹھے طے کیے ہیں، جنگ، بھوک، قحط، افلاس اور خوشحالی، سب مل کر بھگتے ہیں۔۔ تمہیں یاد ہے جو میسوپوٹیمیا سے ہندوستان تک کا سفر ہم نے اکٹھے طے کیا تھا؟ پتہ ہے، دشت لوط کی تنہائیوں میں تمہاری سانس کی حدت، تمہارے پسینے کی بو اور تمہاری آواز۔۔ میرے لیے کتنا بڑا سہارا تھا۔ اس سفر میں تھکن سے مراد فقط میری تھکن نہ تھی، یہ تمہاری اور میری تھکن تھی، ہم دونوں کی تھکن، دونوں کا خوف، دونوں کی پیاس۔۔۔ سانجھ کے اسی احساس نے رسالے کی زندگی میں مجھے ہر کٹھن مہم اور ہر مشکل سفر کے لیے قوت بخشی ہے۔” کیپٹن جیک ڈیسمنڈ نے گھوڑے کی ایال میں نرمی سے انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
 
"جیک، دیکھو یہ آہنی مشینیں اسی بے بسی، تھکن اور خوف پر قابو پانے والی ہیں۔ آنے والی صدی تمہارے اقتدار کی صدی ہے۔” ریجنالڈ کے لہجے سے لگ رہا تھا کہ وہ کیپٹن کی بات سے اتفاق ضرور کرتا ہے۔
 
"اس سے مجھے کب انکار ہے ریجنالڈ، لیکن تمہارا جانا دراصل آغاز ہے فطرت کے ساتھ استوار ہمارے رابطے اور ازلی رشتے کی شکست کا۔۔ اور انسان جوں جوں فطرت سے ناتا توڑ رہا ہے، توں توں اس کائنات میں تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ بے بسی کا کیا کہتے ہو، آدمی ہمیشہ کسی نہ کسی طاقت کے مقابل بے بس رہے گا۔ لیکن دیکھو، موت کی مثال لو، ہم اس کے آگے بے بس ہیں ناں!! کل تک تم اس بے بسی میں میرے ساتھی تھے۔ قط العمارہ کی لڑائی میں تمہارے بھائی کی موت اور ٹینن برگ کی لڑائی میں میرے بھائی کی موت! یہ ایک طرف ایک انسان اور دوسری جانب ایک گھوڑے کی موت تھی لیکن فنا، عدم کا کوچ ان دونوں سانحوں میں قدر مشترک تھا۔ ریجنالڈ ہم اشتراک کے اس احساس کے صدیوں سے ساتھی تھے۔ اب نہیں رہیں گے!” جیک نے کراہتے ہوئے، پیٹ پر ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔ گھوڑا خاموشی سے اس کی بات سنتا رہا۔
 
"ریجنالڈ، بڑی جنگ میں رسالے کے لڑاکا گھوڑے، سگنلز کے پیغام رسانوں کے تیز قدم گھوڑے، توپخانے کے کھینچنے والے گھوڑے اور رسد کے باربردار گھوڑے، ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں کھیت ہوئے۔ آنے والے وقتوں میں وہ سب کہانیوں کا حصہ بنیں گے تو شاید کوئی ہمارے عہد کی اس پس ماندگی پر ہنس دے گا لیکن ہماری مشترکہ زندگی اور موت کے کئی سربستہ راز انسان اور فطرت کے درمیان تعلق کی گمگشتہ کڑی نہ بن گئے تو یقین جانو کہ آنے والے دور کا انسان ان کے سحر سے دامن تہی نہ کر سکے گا۔ وہ راز اس کائنات میں تنہا کھڑے ترقی یافتہ انسان کے دامن دل کو کھینچ کھینچ کر بتلائیں گے کہ میری آج کی اداسی آنے والی صدیوں کی روح کی بے مائیگی اور ناداری کی نقیب ہے۔ وہ صدیاں جن میں اہل دل بے ہنر رہ جائیں گے اور اہل خرد ان قرنوں کے مالک ہوں گے” جیک نے ایک بار پھر درد سے کراہتے ہوئے کہا، پھر خاموش ہو گیا۔
 
"جیک میں نے سنا ہے کہ ٹینک کے آنے کے بعد بھی رسالے کی پلٹن کو ‘ہارس’ اور ‘کیولری’ ہی کہا جائے گا۔۔ یہ اچھا شگون ہے، عمدہ ہے۔۔۔” ریجنالڈ نے کیپٹن کو سکون دلانے کے لیے بظاہر موضوع بدلا لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ السر نے معدے کی تکلیف بڑھا دی تھی، جیک آہستہ آہستہ کراہ رہا تھا۔ گھوڑے نے اپنے سوار، اپنے دیرینہ دوست کو تکلیف میں دیکھا تو تشویش میں سر ہلا کر نتھنے پھڑپھڑائے۔ "جیک! میں تم سے استدعا کرتا ہوں کہ اب جا کر سو رہو۔ تم سردی سے کانپے جا رہے ہو۔” ریجنالڈ نے وفاداری کا حق نبھانے کی ایک کمزور سی کوشش کی۔ "ہاں، ٹھیک ہے، جاتا ہوں۔۔ اچھا اب ایک ذاتی سی بات۔۔ ریجنالڈ! تم نے تہذیب و تمدن کے گہوارے میسوپوٹیمیا اور پرشیا میں عمر گزاری ہے اور میں ہندوستان کی پراسرار زمین میں پلا بڑھا ہوں، جہاں ایک پراسرار سی اداسی نے صدیوں سے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، وہ اداسی جو مستقبل میں جھانکنے کی بجائے ماضی میں دیکھنے کی بے پناہ قوت عطا کرتی ہے۔ یہاں پیڑوں کی مانند آدمی کی جڑیں بھی مٹی میں دھنسی ہوئی ہیں، یہ جگہ دست قدرت سے ہاتھ ملانے کی قوت رکھتی ہے۔۔ تبھی تو صدیوں سے سادھؤوں، گرو گیانیوں اور صوفیوں کا مسکن ہے۔۔ سو میری بات شاید تمہیں اجنبی سی لگے، تمہارا ہمارا زندگی سے رخصت ہونا شاید فطرت سے ہمارا آخری مصافحہ ہو، پھر۔۔”
 
کیپٹن اپنی بات نامکمل چھوڑ کر ہانپنے لگا، پھر لحظہ بھر کے بعد اس نے اپنے اردلی کو آواز دی۔ جب کیپٹن جیک ڈیسمنڈ اپنے اردلی کے سہارے رسالے کی میس کی طرف روانہ ہوا تو ریجنالڈ کی آنکھوں میں بھی گہری اداسی کی چمک تھی، اور نمی بھی۔۔۔
 
جیک ڈیسمنڈ چند روز بعد لاہور چھاؤنی میں ہی السر کے عارضے سے مر گیا، فوج میکنائزڈ ہو گئی لیکن اس کے بعد سنتے ہیں کہ آج تک کسی گھوڑے نے انسان سے اس کی زبان میں بات نہیں کی۔

2 Responses

  1. humaira ashraf

    بہترین کہانی اور پیغام۔

    میں ہندوستان کی پراسرار زمین میں پلا بڑھا ہوں، جہاں ایک پراسرار سی اداسی نے صدیوں سے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، وہ اداسی جو مستقبل میں جھانکنے کی بجائے ماضی میں دیکھنے کی بے پناہ قوت عطا کرتی ہے۔ یہاں پیڑوں کی مانند آدمی کی جڑیں بھی مٹی میں دھنسی ہوئی ہیں، یہ جگہ دست قدرت سے ہاتھ ملانے کی قوت رکھتی ہے۔۔ تبھی تو صدیوں سے سادھؤوں، گرو گیانیوں اور صوفیوں کا مسکن ہے۔۔ سو میری بات شاید تمہیں اجنبی سی لگے، تمہارا ہمارا زندگی سے رخصت ہونا شاید فطرت سے ہمارا آخری مصافحہ ہو،

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: