<
div class=”leftpullquote”>”بیشترلڑکیاں گریجویشن کے بعد پریکٹس ہی نہیں کرتیں یا پھر گائناکالوجسٹ بن جاتی ہیں جس کے باعث پاکستان کے بیشتر علاقے خصوصاً دیہات میں ڈاکٹرز کی کمی ہے کیوں کہ اکثر لڑکیاں دوردراز علاقوں میں جانا نہیں چاہتیں” لاہور میں اپنی رہائش گاہ پرکلینک چلانے والی خاتون ڈاکٹر حوریہ عمرنے لالٹین سے بات کرتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر حوریہ کے مطابق خاندانی دباو اور ذمہ داریوں کے باعث اکثر لڑکیاں پریکٹس نہیں کرتیں۔ میڈیکل ٹیچرز ایسوسی ایشن فیصل آباد کے سیکرٹری ڈاکٹر کرم سہیل راجا نے کہا کہ ملک کو اس وقت ڈاکٹروں کی شدید کمی کا سامنا ہے خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جہاں بنیادی طبی مراکز، دیہی ہیلتھ سینٹرز اور تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتالوں میں متعدد اسامیاں خالی پڑی ہیں۔انہوں نے کہا کہ لڑکے گریجویشن کے بعد ملازمت میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں تاہم وہ اوپن میرٹ داخلہ پالیسی کے باعث داخلہ لینے میں ناکام رہتے ہیں۔
میڈیکل کونسل کے فیصلہ سے بعض طلبہ خوش بھی ہیں، جناح ہسپتال میں ہاوس جاب کرنے والے ارسلان شفیق کے مطابق یہ فیصلہ زمینی حقائق کے مطابق ہے،” میری کلاس میں 34 لڑکیاں تھیں جن میں سے نصف نے ہاوس جاب کے بعد پریکٹس نہیں کی۔ اگر یہ پالیسی سات سال پہلے آجاتی تو مجھے پرائیویٹ کالج میں داخلہ لینے کی ضرورت نہ پڑتی اور پریکٹس نہ کرنے والی لڑکیوں پر حکومت کا پیسہ بھی ضائع نہ ہوتا۔” ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے رکن ڈاکٹر خلیل عمر کے مطابق یہ فیصلہ خوش آئند ہے،”اب صرف وہی لڑکیاں داخلہ لیں گی جو پریکٹس بھی کرنا چاہیں گی، بلکہ حکومت کو لازمی پریکٹس کے حوالے سے قانون سازی بھی کرنی چاہئے۔ اور یہ شعور بھی دینا چاہئے کہ صرف میڈیکل پروفیشن اپنانے والے ہی تعلیم حاصل کریں کیوں کہ حکومت کا بہت سا روپیہ میڈیکل کی تعلیم پر خرچ ہوتا ہے۔”
مختلف حلقوں کی جانب سے اس اقدام کا مطالبہ طویل عرصہ سے کیا جارہا تھا تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کی مخالفت کے باعث صنفی بنیادوں پرداخلہ دینے کی پالیسی قومی سطح پر نہیں اپنائی گئی تھی، تاہم پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے اس فیصلہ کے بعد دیگر شعبوں میں بھی اس ایسی پالیسی اپنائے جانے کا خدشہ ہے۔