Laaltain

میڈیکل کالجز میں اوپن میرٹ کی بجائے صنفی بنیاد پر داخلوں کا نظام متعارف

27 ستمبر، 2014
Picture of لالٹین

لالٹین

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے طالبات میں طب کی تعلیم کے بعد میڈیکل کا پیشہ چھوڑ دینے کی بلند شرح کے پیش نظر اوپن میرٹ کی بجائے صنفی بنیادوں پر داخلوں کی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ پی ایم ڈی سی کے چاروں صوبوں کے ہیلتھ سیکرٹری نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن و کوآرڈنیشن کے سیکرٹری کو جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق مخلوط میڈیکل کالجوں کی پچاس فی صد نشستیں طالبات جبکہ پچاس فی صد نشستیں طلبا کے لئے مخصوص کر دی گئی ہیں۔ فیصلہ کا اطلاق تمام نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں پر تعلیمی سال 2014-2015کے داخلوں پر ہو گا۔ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے یہ فیصلہ فروری میں ہونےو الے ایک اجلاس کی روشنی میں کیا ہے جس میں لڑکیوں کے تعلیم کے بعد پریکٹس نہ کرنے کے رحجان پر بحث کی گئی تھی۔
“تعلیم ہی نہیں ملازمت بھی عورت کا حق”
کارکن خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی سماجی کارکن سیما منتظر نے صنفی بنیادوں پر تعلیمی اداروں میں داخلوں کی پالیسی کو تشویش ناک رحجان قرار دیا ہے،”آج آپ میڈیکل کالجوں کے لئے صنفی بنیادوں پر تقسیم کی پالیسی لائیں گے تو کل کو ہر شعبہ اور ادارے میں یہی مطالبہ سامنے آجائے گا۔ بجائے اس کے کہ حکومت خواتین کو ملازمت کرنے کے مواقع فراہم کرتی اور ان کی حوصلہ افزائی کرتی تعلیم کو عورت اور مرد میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ” سیما منتظر نے اسے معاشرے کی ناکامی قرار دیا ہے،” عورت کو جب تک خاندان سے علیحدہ کر کے آزاد اور خود مختار حیثیت میں نہیں دیکھا جائے گاتب تک وہ میڈیکل تو کیا ہر ڈگری محض اچھے رشتے کے لئے کرتی رہے گی۔ ملازمت بھی عورت کا تعلیم ہی کی طرح کا حق ہے اور عورت ہونے کی بنیاد پر کالج میں داخلہ سے محروم کیا جاناناانصافی اور معاشرتی ناکامی ہے۔”
“دوردراز علاقوں میں لڑکیاں جانے سے گھبراتی ہیں”

<

div class=”leftpullquote”>”بیشترلڑکیاں گریجویشن کے بعد پریکٹس ہی نہیں کرتیں یا پھر گائناکالوجسٹ بن جاتی ہیں جس کے باعث پاکستان کے بیشتر علاقے خصوصاً دیہات میں ڈاکٹرز کی کمی ہے کیوں کہ اکثر لڑکیاں دوردراز علاقوں میں جانا نہیں چاہتیں” لاہور میں اپنی رہائش گاہ پرکلینک چلانے والی خاتون ڈاکٹر حوریہ عمرنے لالٹین سے بات کرتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر حوریہ کے مطابق خاندانی دباو اور ذمہ داریوں کے باعث اکثر لڑکیاں پریکٹس نہیں کرتیں۔ میڈیکل ٹیچرز ایسوسی ایشن فیصل آباد کے سیکرٹری ڈاکٹر کرم سہیل راجا نے کہا کہ ملک کو اس وقت ڈاکٹروں کی شدید کمی کا سامنا ہے خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جہاں بنیادی طبی مراکز، دیہی ہیلتھ سینٹرز اور تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتالوں میں متعدد اسامیاں خالی پڑی ہیں۔انہوں نے کہا کہ لڑکے گریجویشن کے بعد ملازمت میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں تاہم وہ اوپن میرٹ داخلہ پالیسی کے باعث داخلہ لینے میں ناکام رہتے ہیں۔

“بیشترلڑکیاں گریجویشن کے بعد پریکٹس ہی نہیں کرتیں یا پھر گائناکالوجسٹ بن جاتی ہیں جس کے باعث پاکستان کے بیشتر علاقے خصوصاً دیہات میں ڈاکٹرز کی کمی ہے کیوں کہ اکثر لڑکیاں دوردراز علاقوں میں جانا نہیں چاہتیں۔” لاہور میں اپنی رہائش گاہ پرکلینک چلانے والی خاتون ڈاکٹر حوریہ عمرنے لالٹین سے بات کرتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر حوریہ کے مطابق خاندانی دباو اور ذمہ داریوں کے باعث اکثر لڑکیاں پریکٹس نہیں کرتیں۔ میڈیکل ٹیچرز ایسوسی ایشن فیصل آباد کے سیکرٹری ڈاکٹر کرم سہیل راجا نے کہا کہ ملک کو اس وقت ڈاکٹروں کی شدید کمی کا سامنا ہے خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جہاں بنیادی طبی مراکز، دیہی ہیلتھ سینٹرز اور تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتالوں میں متعدد اسامیاں خالی پڑی ہیں۔انہوں نے کہا کہ لڑکے گریجویشن کے بعد ملازمت میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں تاہم وہ اوپن میرٹ داخلہ پالیسی کے باعث داخلہ لینے میں ناکام رہتے ہیں۔
تیسری جنس کا سوال؟
خواجہ سراوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی “مہک” نے اس فیصلے کو خواجہ سراوں کے خلاف تعصب پر مبنی قرار دیا،”اگر لڑکے اور لڑکیوں کے لئے علیحدہ نشستیں ہیں تو پھر تیسری جنس کا سوال کوئی کیوں نہیں اٹھاتا، ہم کئی سال سے مطالبہ کر رہے کہ ملازمتوں اور داخلوں میں ہمارا کوٹہ رکھا جائے لیکن کبھی کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ ” انہوں نے اس کوٹہ میں خواجہ سراوں کی شمولیت کا مطالبہ بھی کیا۔
“فیصلہ سے مایوسی ہوئی”
انٹر میں اپنے کالج میں پوزیشن لینے والی طالبہ کشمالہ امین نے اس فیصلہ پر مایوسی کا اظہار کیا ہے،”مایوسی ہوئی ہے کہ ایک ہزار نمبر لینے کے بعد بھی ہو سکتا ہے کہ میں کالج میں صرف اس لئے داخلہ نہ لے سکوں کیوں کہ میں لڑکی ہوں ۔” علامہ اقبال میڈیکل کالج میں تھرڈ ائیر کی طالبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں توہین آمیز رویہ کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے،”کلاس کے لڑکے اس بات پر اکثر مجھے اور دیگر لڑکیوں کو مذاق کا نشانہ بناتے ہیں کہ ہم لڑکیاں ہیں اور شادی کے بعد ہم نے ویسے بھی پریکٹس نہیں کرنی اس لئے ہمیں پڑھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔”ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کو لڑکیوں کو پریکٹس کی جانب مائل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ تعلیم کے دروازے بند کرنے کی،” اگر گھر والے ساتھ دیں اور حکومت لڑکیوں کو تحفظ اور بہتر مراعات دے تو بہت سی لڑکیاں پریکٹس کریں گی۔”
میڈیکل کونسل کے فیصلہ سے بعض طلبہ خوش بھی ہیں، جناح ہسپتال میں ہاوس جاب کرنے والے ارسلان شفیق کے مطابق یہ فیصلہ زمینی حقائق کے مطابق ہے،” میری کلاس میں 34 لڑکیاں تھیں جن میں سے نصف نے ہاوس جاب کے بعد پریکٹس نہیں کی۔ اگر یہ پالیسی سات سال پہلے آجاتی تو مجھے پرائیویٹ کالج میں داخلہ لینے کی ضرورت نہ پڑتی اور پریکٹس نہ کرنے والی لڑکیوں پر حکومت کا پیسہ بھی ضائع نہ ہوتا۔” ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے رکن ڈاکٹر خلیل عمر کے مطابق یہ فیصلہ خوش آئند ہے،”اب صرف وہی لڑکیاں داخلہ لیں گی جو پریکٹس بھی کرنا چاہیں گی، بلکہ حکومت کو لازمی پریکٹس کے حوالے سے قانون سازی بھی کرنی چاہئے۔ اور یہ شعور بھی دینا چاہئے کہ صرف میڈیکل پروفیشن اپنانے والے ہی تعلیم حاصل کریں کیوں کہ حکومت کا بہت سا روپیہ میڈیکل کی تعلیم پر خرچ ہوتا ہے۔”
مختلف حلقوں کی جانب سے اس اقدام کا مطالبہ طویل عرصہ سے کیا جارہا تھا تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کی مخالفت کے باعث صنفی بنیادوں پرداخلہ دینے کی پالیسی قومی سطح پر نہیں اپنائی گئی تھی، تاہم پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے اس فیصلہ کے بعد دیگر شعبوں میں بھی اس ایسی پالیسی اپنائے جانے کا خدشہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *