محی الدین نواب انتقال کر گئے تو مجھے اپنا عہد جوانی یاد آیا جب ہم ‘دیوتا’ کے ہیرو فرہاد علی تیمور اور سونیا کی محبت میں گرفتار، ٹیلی پیتھی کی مہارت حاصل کرنےکے لیے راتوں کو موم بتی جلا کر گھنٹوں اس کے شعلے کو پلک جھپکائے بغیر دیکھا کرتے تھے
اگلے دن معلوم ہوا کہ دنیا کی طویل ترین کہانی ‘دیوتا’ کے خالق محی الدین نواب انتقال کر گئے تو مجھے اپنا عہد جوانی یاد آیا جب ہم ‘دیوتا’ کے ہیرو فرہاد علی تیمور اور سونیا کی محبت میں گرفتار، ٹیلی پیتھی کی مہارت حاصل کرنےکے لیے راتوں کو موم بتی جلا کر گھنٹوں اس کے شعلے کو پلک جھپکائے بغیر دیکھا کرتے تھے اور اس کے بعد اپنے بہن بھائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کے خیالات پڑھنے کی کوشش کرتے یا دل ہی دل میں انہیں اٹھنے، بیٹھنے کا حکم دیتے جس کا یقیناً ان پر کوئی اثر نہیں ہونے والا تھا،لیکن اگر کبھی اتفاق سے ایسا ہوتا کہ ادھر ہم نے اپنے دماغ سےحکم دیا اور ادھر وہ خود سے کھڑے ہوگئے یا ہماری طرف دیکھ لیا تو ہم سمجھتے کہ بس کامیابی چند قدم ہی دور ہے۔

میرا دوست امجد اقبال نیازی کہتا تھا کہ دیوتا فرضی کردار ہے لیکن دل نہیں مانتا تھا کہ فرہاد علی تیمور کوئی فرضی کردار ہو سکتا ہے، وہ اتنا خوبرو، جری اور ذہین ہیرو ہو کر بھی حقیقت سےاتنا قریب تھا کہ اپنے ارد گرد محسوس ہوتا تھا۔ وہ زخمی بھی ہوتا تھا، غلطیاں بھی کرتا تھا، گر گر کر اٹھتا بھی تھا، بہت اپنا لگتا تھا۔
کہانی کا جنون ایسا تھا کہ لڑکپن میں ہم جس پری وش پر فدا تھے اور جس سے ملنے کے لیے مہینوں انتظار کیا کرتے تھے، اس سے جب ملتے اور ساتھ میں غلطی سے کہیں سسپنس ڈائجسٹ ہاتھ آ جاتا تو ہم ہجر وفراق کے درد بھلا کر، اس پری وش کو نظر انداز کر کے، ر سالہ لے کر بیٹھ جاتے، وہ بےچاری ہمارے ہاتھ سے رسالہ چھینتی رہتی کہ یہ تو کہیں بھی مل جائے گا مگر یہ پل نہیں ملیں گے لیکن ہم وہ پل ‘ضائع’ کرنے کی بجائے ‘دیوتا ‘ پڑھنے میں صرف کرتے۔ آج سوچتا ہوں کہ محی الدین نواب نے کتنا ظلم کیا مجھ پر۔ کیسے کیسے لمحے میں نے ‘دیوتا’ کے چرنوں میں قربان کر دیئے۔

وہ باتیں یاد آتی ہیں، کلیجہ منہ کو آتا ہے

ڈائجسٹ کرائے پر پڑھنے کے لیے دستیاب ہوا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے اور میرے بھائی کو بھی یاد ہے کہ اپنا جیب خرچ استعمال کرنے کے بعد، ڈائجسٹ کرائے پر پڑھنے کے لیے میں اپنے چھوٹے بھائی سے ایک روپیہ ادھار لیا کرتا تھا اور اس کے بدلے اسے ‘ دیوتا’ کی کہانی سناتا تھا۔ پھر جب ‘دیوتا’ کتابی شکل میں آنے لگی تو صدر کی دکانوں پر اسے دور سے دیکھ کر آہیں بھرا کرتا تھا، کیونکہ کتاب پر اتنے پیسے خرچ کرنا ہماری حکومت سے لے کر عام آدمی تک کو حماقت محسوس ہوتا ہے۔ خیر جب ‘دیوتا’ کی کتابی صورت بھی کرائے پر ملنے لگی تو ایسا لگا دنیا کا سب سے قیمتی خزانہ ہاتھ آ گیا ہے۔ اب اور کچھ نہیں چاہیئے تھا۔ میں ناول اٹھاتا اور گھر والوں کو بتائے بغیر ریلوے لائنز میں واقع ریلوے کنٹین چلا جاتا۔ کوئی مجھے تلاش نہ کر پاتا، کسی دوست کے ہاں ہوتا نہ آس پاس محلے میں۔ یہ میرا خفیہ ٹھکانہ تھا، یہاں میرا مطالعہ بلا مداخلت چلتا رہے۔

جب تک فرہاد علی تیمور ‘دیوتا’ کا مرکزی کردار رہا، کہانی میں بہت دلچسپی رہی لیکن جب کرداروں کی کثرت ہونے لگی اور خود فرہاد پس منظر میں چلا گیا، نیز جب سونیا کو بھی ٹیلی پیتھی سکھا کر میدانِ عمل کی بجائے کرسی پر بٹھا دیا تو اس میں دلچسپی کم ہونے لگی۔
ریلوے کنٹین بہت خوشگوار جگہ تھی۔ درخت ہی درخت تھے، اکا دکا ریلوے ملازمین کے آنے جانے کے علاوہ وہاں صرف پرندے پر مار سکتے تھے۔ اس ماحول میں، میں صبح نکلتا اور شام کو ڈوبتے سورج کی آخری کرنوں کی روشنی تک ‘دیوتا’ پڑھتا رہتا۔ بلکہ جس دن چاندنی رات ہوتی یا مطلع صاف ہونے کی وجہ سے ستارے کچھ زیادہ روشنی فراہم کرپاتے تو ان کی روشنی میں بھی پڑھتا رہتا۔ مگر اب اس کنٹین کا راستہ سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ میرے لڑکپن کا وہ منظر اب قابل رسائی نہیں رہا۔ اس مطالعاتی مراقبے کے دوران میں کھانے کا وقفہ بھی نہیں کرتا تھا کہ وقت ضائع ہوگا۔ نیز اگر گھر جاؤں گا تو گھیر لیا جاؤں گا۔ چنانچہ رات کو ہی گھر لوٹتا اور امی سے خوب ڈانٹ پڑتی، لیکن ‘دیوتا’ کے عشق میں یہ سب گوارا تھا۔

محی الدین صاحب رومانس کےبادشاہ تھے۔ رومانس کی منظر کشی ایسی کرتے کہ محسوس ہوتا کہ ہیرو کی جگہ ہم خودرومانس کے نشیب و فرازطے کر رہے ہیں۔ رومانس کی منظر کشی میں دیگر ادیب بھی کمال ہیں لیکن محی الدین نواب اس عمل کو جس طرح ‘جائز ‘ کر تے تھے اس کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔

دیوتا کے خالق محی الدین نواب

دیوتا کے خالق محی الدین نواب

جب تک فرہاد علی تیمور ‘دیوتا’ کا مرکزی کردار رہا، کہانی میں بہت دلچسپی رہی لیکن جب کرداروں کی کثرت اور تکرار ہونے لگی اور خود فرہاد پس منظر میں چلا گیا، نیز جب سونیا کو بھی ٹیلی پیتھی سکھا کر میدانِ عمل کی بجائے کرسی پر بٹھا دیا تو اس میں دلچسپی کم ہونے لگی۔ شروع میں نئے نئے کردار آتے اور ان میں بہت تنوع ہوتا تھا لیکن پھر محسوس ہونے لگا کہ کرداروں میں تنوع نہیں رہا، پہلے سے بیان کردہ مختلف کرداروں کی خصوصیات کو اکٹھا کر کے نئے کردار تشکیل پانے لگے تھے۔ نیز عمر کا تقاضا تھا کہ اب کچھ سنجیدہ مطالعہ کیا جائے چنانچہ ‘دیوتا’ کا عشق اترنے لگا اور زندگی ان گنت موضوعات کا شکار ہوگئی۔

تاہم لڑکپن کا عشق بھلایا نہیں جا سکتا، چاہے ‘دیوتا’ ہو یا وہ پری وش جسے ہم ‘دیوتا’ پر قربان کر دیتے تھے۔

Leave a Reply