ووگ نامی جریدے نے بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم، تشدد کے واقعات اور امتیازی سلوک ختم کرنے کے لیے بامعنی اشتہارات بنانا شروع کیے ہیں۔ اس سلسلے کے اب تک دو اشتہارات نشر ہوچکے ہیں، پہلے کا عنوان لڑکے رلاتے نہیں ہیں تھااور دوسرے کا عنوان ہے مائی چوائس۔ پہلی ویڈیو میں مادھوری ڈکشٹ نے بڑے مامتا بھرے انداز میں قوم کی اصلاح کی تھی جب کہ دوسرے اشتہار میں دپیکا پڈوکون نے عورت کی آزادی اور خودمختاری پر لباس، جنسی اخلاقیات اور پدرسری روایات کے اثرات کے تناظر میں بات کی ہے۔ ووگ کی اس مہم کا مقصد خواتین کو با اختیار بنانا ہے۔
اشتہار میں دپیکا کے ذریعے معاشرے میں عورت کے اپنی جنسی شناخت پر قادر ہونے کی راہ میں موجود روکاوٹوں کی نشاندہی کی گئی اور عورت کو یہ احساس دلایا گیا کہ وہ بھی مردوں کے مساوی جنسی آزادی کا حق رکھتی ہے۔
بھارت پچھلے کئی برسوں سے بہترین فلمیں اور اشتہارات بنا کر پورے خطے بلکہ تمام دنیا کو متاثر کر رہا ہے۔ لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردینے والی تخلیقات ان کا طرہِ امتیاز رہی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال موقع موقع اشتہار تھا،لوگوں نے میچ کم اور یہ اشتہار زیادہ دیکھا تھا، اس اشتہاری مہم کا پہلا شکار پاکستان اور پھر پوری دنیا بنی۔ جس کسی کو اردو یا ہندی سمجھ آتی تھی اس نے اس اشتہاری مہم کا ویڈیو جواب دینے کی بھی کوشش کی لیکن دھماکہ اس دن ہوا جس روز بھارت سیمی فائنل ہار کر عالمی کپ سے باہر ہوگیا۔ اس دن اس اشتہاری مہم کو کرارا جواب ملا اور وہ تھا” پونکا پونکا” پاکستان اور بنگلہ دیش سے لوگوں نے بھارت فون کر کر کے بھارتی کرکٹ کونسل کو تنگ کیا اور اپنی بھڑاس نکالی۔اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک دفعہ جب کوئی چیز مشہور ہوجاتی ہے تو اس کا ردعمل بھی سامنے آنے لگتا ہے۔ عوام جواب دیتے ہیں اور خوب دیتے ہیں، پرانے زمانے میں عوام صرف خطوط لکھا کرتے تھے، مراسلے اور تار بھجتے تھے لیکن آج کے جدید دور میں ویڈیو بنا کر جواب دیتے ہیں۔
ووگ کے اشتہارات پر بھی لوگوں کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔پہلے انہوں نے” لڑکے روتے نہیں بلکہ لڑکے رلاتے نہیں "کا موضوع چنا اور ایک جاندار اشتہارتخلیق کیاجس میں مردوں کو ملنے والی اس غلط تربیت کی نشاندہی کی گئی جو مرد کو عورت پر تشدد کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ دوسرے اشتہار میں دپیکا کے ذریعے معاشرے میں عورت کے اپنی جنسی شناخت پر قادر ہونے کی راہ میں موجود روکاوٹوں کی نشاندہی کی گئی اور عورت کو یہ احساس دلایا گیا کہ وہ بھی مردوں کے مساوی جنسی آزادی کا حق رکھتی ہے۔ اس اشتہار پر متوقع ردعمل کے پیش نظراسے صرف انٹرنیٹ پر نشر کیا گیا ٹی وی پر نہیں۔ یہ اشتہار عورت کو زندگی کے ہر مرحلے پر اپنی نجی زندگی کے معاملات پر بااختیار بنانے کی کوشش ہے ۔
ووگ کے اشتہارات پر بھی لوگوں کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔پہلے انہوں نے” لڑکے روتے نہیں بلکہ لڑکے رلاتے نہیں "کا موضوع چنا اور ایک جاندار اشتہارتخلیق کیاجس میں مردوں کو ملنے والی اس غلط تربیت کی نشاندہی کی گئی جو مرد کو عورت پر تشدد کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ دوسرے اشتہار میں دپیکا کے ذریعے معاشرے میں عورت کے اپنی جنسی شناخت پر قادر ہونے کی راہ میں موجود روکاوٹوں کی نشاندہی کی گئی اور عورت کو یہ احساس دلایا گیا کہ وہ بھی مردوں کے مساوی جنسی آزادی کا حق رکھتی ہے۔ اس اشتہار پر متوقع ردعمل کے پیش نظراسے صرف انٹرنیٹ پر نشر کیا گیا ٹی وی پر نہیں۔ یہ اشتہار عورت کو زندگی کے ہر مرحلے پر اپنی نجی زندگی کے معاملات پر بااختیار بنانے کی کوشش ہے ۔
جس کسی کی رسائی انٹرنیٹ تک اس کی جانب سے دپیکا کی کردار کشی اور ہجو گوئی کا سلسلہ شروع ہوگیا، ہر جانب سے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر پر لعن طعن کی جانے لگی اوراس اشتہار کا اصل مقصد فوت ہوگیا جو عورتوں کو جنسی انتخاب اور جنسی ترجیحات کے تعین کی آزادی دینا تھا۔
اگرچہ اشتہار کا بیشتر حصہ عورت کی ذات ، شناخت اور انتخاب کی راہ میں موجود روکاوٹوں سے آزادی حاصل کرنے کے پیغام پر مبنی تھااور عورت کی جانب سے یہ پیغام دیا گیا کہ وہ کائنات کی طرح ہر سمت میں لا متناہی ہے، وہ ایک جنگل (معاشرے) کا محض جزو نہیں بلکہ ایک درخت(فرد) بھی ہے لیکن عوام کی سوئی صرف ایک جگہ آ کر اٹک گئی ہے؛ بقول دپیکا کہ ’میری مرضی شادی کروں یا نہ کروں، جنسی تعلقات شادی سے پہلے استوار کروں یا بعد میں یا شریکِ حیات کے علاوہ بھی کسی کے ساتھ تعلقات رکھوں،میری مرضی کہ میں ایک مرد سے محبت کروں، عورت سے یا دونوں سے، میں چاہوں تو عارضی محبت کروں یا ہمیشگی کی ہوس رکھوں۔”اس نکتے پر بہت سے لوگ معترض ہیں اور یہ جانے سمجھے بغیر کے ان باتوں کا مطلب کیا ہےمحض اعتراض کررہے ہیں۔ جس کسی کی رسائی انٹرنیٹ تک اس کی جانب سے دپیکا کی کردار کشی اور ہجو گوئی کا سلسلہ شروع ہوگیا، ہر جانب سے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر پر لعن طعن کی جانے لگی اوراس اشتہار کا اصل مقصد فوت ہوگیا جو عورتوں کو جنسی انتخاب اور جنسی ترجیحات کے تعین کی آزادی دینا تھا۔ یہ اشتہار انتخاب کے حق کو عورت کی پہچان بنانے سے متعلق ہے جسے بہت سے لوگ غلطی سے جنسی "بے راہ روی”کی تبلیغ سمجھ بیٹھے ہیں۔
غالباً یہ اشتہار بنانے کی جو وجہ ووگ والوں کے پاس تھی وہ کچھ یوں تھی کہ مردوں کو ان کا ہی مکروہ چہرہ دکھا کر جتایا جائے کہ جو آزادی ایک مرد چاہتا ہے وہی ایک عورت کی بھی خواہش ہے۔ یہ اشتہار بھی مردوں اور پدرسری معاشروں کے منہ پر تھپڑ ہے۔کیوں کہ مرد یہ سب کچھ کرتے ہیں اور کسی کو پرواہ نہیں ہوتی لیکن چونکہ ایک عورت نے یہ سب کہا ہے تو لوگوں کو آگ لگ گئی ہے۔ چوں کہ اس خطے میں عورتوں کا ایک "خاص "مرتبہ ہے اوریہ اشتہار سیتا، درگا اور ساوتری جیسے طاقتور مشرقی استعاروں کی نفی کرتا ہے اس لیے بہت سے لوگوں کے خیال میں اب عورت بھی اتنی ہی گندی اور گری ہوئی ٹھہری ہے جتنی کہ مرد۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ روایتی پدرسری معاشرتی تصورات ہی نہیں ہیں جو عورت کی آزادی اور خودمختاری کی راہ میں روکاوٹ ہیں؟
یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ بااختیاری کے اس منجن نے عالمی منشور برائے انسانی حقوق کی شق نمبر ۱۹ کا استعمال کرتے ہوئے آزادیِ اظہارِ رائے کا بھرپور استعمال تو کرلیا ہے لیکن کیامشرقی معاشرہ ایک آزاد اور خود مختار عورت کو قبول کرنے کے لیے تیار بھی ہے یا نہیں۔ اور کیا بااختیار ہونے کا مطلب محض جنسی آزادی ہے یا خاندان کے آغاز اوربقا کی کوئی صورت بھی اس تصور کے ساتھ وابستہ ہے؟
غالباً یہ اشتہار بنانے کی جو وجہ ووگ والوں کے پاس تھی وہ کچھ یوں تھی کہ مردوں کو ان کا ہی مکروہ چہرہ دکھا کر جتایا جائے کہ جو آزادی ایک مرد چاہتا ہے وہی ایک عورت کی بھی خواہش ہے۔ یہ اشتہار بھی مردوں اور پدرسری معاشروں کے منہ پر تھپڑ ہے۔کیوں کہ مرد یہ سب کچھ کرتے ہیں اور کسی کو پرواہ نہیں ہوتی لیکن چونکہ ایک عورت نے یہ سب کہا ہے تو لوگوں کو آگ لگ گئی ہے۔ چوں کہ اس خطے میں عورتوں کا ایک "خاص "مرتبہ ہے اوریہ اشتہار سیتا، درگا اور ساوتری جیسے طاقتور مشرقی استعاروں کی نفی کرتا ہے اس لیے بہت سے لوگوں کے خیال میں اب عورت بھی اتنی ہی گندی اور گری ہوئی ٹھہری ہے جتنی کہ مرد۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ روایتی پدرسری معاشرتی تصورات ہی نہیں ہیں جو عورت کی آزادی اور خودمختاری کی راہ میں روکاوٹ ہیں؟
یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ بااختیاری کے اس منجن نے عالمی منشور برائے انسانی حقوق کی شق نمبر ۱۹ کا استعمال کرتے ہوئے آزادیِ اظہارِ رائے کا بھرپور استعمال تو کرلیا ہے لیکن کیامشرقی معاشرہ ایک آزاد اور خود مختار عورت کو قبول کرنے کے لیے تیار بھی ہے یا نہیں۔ اور کیا بااختیار ہونے کا مطلب محض جنسی آزادی ہے یا خاندان کے آغاز اوربقا کی کوئی صورت بھی اس تصور کے ساتھ وابستہ ہے؟
Leave a Reply