کاش میں تمہیں بتا سکتا
یہ لفظ کس قدر اجنبی ہوگئے ہیں
اب گزرتے ہوئے سلام بھی نہیں کرتے
کوئی بات کرو تو منہ موڑ لیتے ہیں
اپنے بڑے معانی
سینے سے لگا کر بیٹھے رہتے ہیں
مجھے چھوٹی باتیں لکھنے پر مجبور کرتے ہیں
کاش میں تمہیں بتا سکتا
مگر بے وفاؤں سے بے وفائی کے قصّے نہیں کہلواتے
وہ “لیکن” سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں
بے وفائی مرجھا کر رہ جاتی ہے
یہ لفظ کس قدر اجنبی ہوگئے ہیں
اب گزرتے ہوئے سلام بھی نہیں کرتے
کوئی بات کرو تو منہ موڑ لیتے ہیں
اپنے بڑے معانی
سینے سے لگا کر بیٹھے رہتے ہیں
مجھے چھوٹی باتیں لکھنے پر مجبور کرتے ہیں
کاش میں تمہیں بتا سکتا
مگر بے وفاؤں سے بے وفائی کے قصّے نہیں کہلواتے
وہ “لیکن” سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں
بے وفائی مرجھا کر رہ جاتی ہے
کاش میں تمہیں دکھا سکتا
وہ خواب جو روشنیوں سے بچ کر
میں نے آنکھوں کے بڑھاپے میں پالے ہیں
ان کی سفیدی میری بینائی سے نہیں جاتی
مگر کیا کروں میری نظروں میں
منظر چبھ کر رہ گئے ہیں
اب کسی کو میری آنکھوں میں
کچھ دکھائی نہیں دیتا
سوائے ان سب منظروں کے
جو ہر آنکھ پر مسلط ہیں
میری آنکھیں بدکردار عوامی آئینوں کی طرح
لٹکی رہتی ہیں اپنے دریچوں میں
ان کی شناخت
ان کے تمام منظروں کا مجموعہ ہے
جیسے میں اپنے گرد کھڑے لوگوں کی
جمع تفریق بن کر رہ گیا ہوں
مجھے تو اب تم
ہندسوں میں یاد رکھنا
میں اپنے نام سے گر گیا ہوں
وہ خواب جو روشنیوں سے بچ کر
میں نے آنکھوں کے بڑھاپے میں پالے ہیں
ان کی سفیدی میری بینائی سے نہیں جاتی
مگر کیا کروں میری نظروں میں
منظر چبھ کر رہ گئے ہیں
اب کسی کو میری آنکھوں میں
کچھ دکھائی نہیں دیتا
سوائے ان سب منظروں کے
جو ہر آنکھ پر مسلط ہیں
میری آنکھیں بدکردار عوامی آئینوں کی طرح
لٹکی رہتی ہیں اپنے دریچوں میں
ان کی شناخت
ان کے تمام منظروں کا مجموعہ ہے
جیسے میں اپنے گرد کھڑے لوگوں کی
جمع تفریق بن کر رہ گیا ہوں
مجھے تو اب تم
ہندسوں میں یاد رکھنا
میں اپنے نام سے گر گیا ہوں
کاش مجھے بھی ڈپریشن ہوتا
میں بھی زرد صبحوں میں آنکھیں کھول کھول کر
فرد کی زردی کو رو رہا ہوتا
سکون کا آسیب
ایک انتھک اونچائی پر دفنا دیتا
خوشی کا زاویہ توڑ کر
مروڑ کر
اس کے کاغذی جہاز بنا کر
رات کے الاؤ میں جلاتا
لوگ مجھ پر رحم تھوک کر چلے جاتے
دوست اپنی دوستی سے گھبراتے
میں آسمانوں کو کان سے پکڑ کر
اور تقدیر کو گریبان سے پکڑ کر
اپنے کمرے سے نکال دیتا
لیکن افسوس
مجھے ڈپریشن نہیں ہے
مجھے سستی توجہ نہیں مل سکتی
محنت کرنی پڑے گی
میں بھی زرد صبحوں میں آنکھیں کھول کھول کر
فرد کی زردی کو رو رہا ہوتا
سکون کا آسیب
ایک انتھک اونچائی پر دفنا دیتا
خوشی کا زاویہ توڑ کر
مروڑ کر
اس کے کاغذی جہاز بنا کر
رات کے الاؤ میں جلاتا
لوگ مجھ پر رحم تھوک کر چلے جاتے
دوست اپنی دوستی سے گھبراتے
میں آسمانوں کو کان سے پکڑ کر
اور تقدیر کو گریبان سے پکڑ کر
اپنے کمرے سے نکال دیتا
لیکن افسوس
مجھے ڈپریشن نہیں ہے
مجھے سستی توجہ نہیں مل سکتی
محنت کرنی پڑے گی
محنت سے تو ویسے ہی گھبراتا ہوں میں
بچپن میں کچھ نمازیں پڑھ لی تھیں
پھر سستی میں آکر
خدا سے دوستی کر لی تھی
اب یہ لوگ کہتے ہیں
خدا ایک بھونڈا مذاق ہے
تاریخ کا بیٹا ہے
اسکو سجدہ نہیں کرتے
شیشہ دیکھ لیا کرو بس
نماز ہو جاتی ہے
لیکن مجھ سے شیشہ نہیں دیکھا جاتا
اس میں تو کوئی اور ہی کھڑا ہے
شکل سے یہ نئے سجدوں کے امین
نئی نمازوں کے ناصح لگتے ہیں
بچپن میں کچھ نمازیں پڑھ لی تھیں
پھر سستی میں آکر
خدا سے دوستی کر لی تھی
اب یہ لوگ کہتے ہیں
خدا ایک بھونڈا مذاق ہے
تاریخ کا بیٹا ہے
اسکو سجدہ نہیں کرتے
شیشہ دیکھ لیا کرو بس
نماز ہو جاتی ہے
لیکن مجھ سے شیشہ نہیں دیکھا جاتا
اس میں تو کوئی اور ہی کھڑا ہے
شکل سے یہ نئے سجدوں کے امین
نئی نمازوں کے ناصح لگتے ہیں
یہ عقل میں بھیگے پڑے لوگ
خشک اور پھیکے پڑے لوگ
کاش کوئی ان میں آکر
جذبات کے کارتوس بھر دے
مجھے کارتوسی آدمی اچھے لگتے ہیں
دھوکہ نہیں دیتے
یہ وجودی سرد شکل لوگ
کہتے ہیں نقطہِ وجود میں
فطری بے چینی ہے
بکواس بند کرو
یہ میں اور “میں” کی جنگ ہے
کوئی بے چینی سے نہیں مرتا
اس نظم کو ہی دیکھ لو
میں اور “میں” کی جنگ ہے
بے چینی نہیں
خشک اور پھیکے پڑے لوگ
کاش کوئی ان میں آکر
جذبات کے کارتوس بھر دے
مجھے کارتوسی آدمی اچھے لگتے ہیں
دھوکہ نہیں دیتے
یہ وجودی سرد شکل لوگ
کہتے ہیں نقطہِ وجود میں
فطری بے چینی ہے
بکواس بند کرو
یہ میں اور “میں” کی جنگ ہے
کوئی بے چینی سے نہیں مرتا
اس نظم کو ہی دیکھ لو
میں اور “میں” کی جنگ ہے
بے چینی نہیں