بچپن میں بڑوں سے جنات کے واقعات سناکرتے تھے کہ جن آتشی مخلوق ہے جو دماغ سے کام نہیں لیتی بس ذرا سی بات پہ چراغ پا ہو کر اپنے غضب کے شعلوں سے لوگوں کو بھسم کر دیا کرتی ہے۔ نہ یہ مخلوق انسانی آنکھ کو نظر آتی ہے نہ اس کا گھر اورنہ ہی کوئی کنبہ۔ جب کسی انسان کا ایسی کسی جگہ سے گزر ہو جہاں یہ مخلوق آباد ہو تو کچھ دکھائی نہ دینے کے سبب وہ انسان اگر اس مخلوق کی زندگی میں دخل اندازی کا سبب بن جائے تو غصے میں آکر یہ پوری انسانی بستی اجاڑ دیتی ہے۔ بے گناہ لوگوں کو بلا تفریق زن و بچہ یہ مخلوق بس انتقام انتقام کا نعرہ بلند کرتی ہوئی کشت و خون میں جت جاتی ہے۔
یہ خون آشام مخلوق جس کو انسانی لہو کی چاٹ تو کب کی لگی ہوئی تھی لیکن اب اس کی طلب اور وحشت اس حد تک آگئی ہےکہ اس نے ہر حد پار کر لی ہے۔
آج جب بظاہر انسانوں کی مانند دکھنے والی ایک مخلوق کو انسانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑتے دیکھ رہی ہوں تو وہی بچپن کے جنوں بھوتوں اور آسیب کی کہانیاں ہی ذہن میں پھر رہی ہیں۔ یہ انسان نما مخلوق جو اپنے جبر اور سرپھرے خیالات کے ساتھ انسانوں کے خون کی پیاسی ہوئی ہے یہ نہ تو انسان کہی جانے کی مستحق ہے نہ جانور۔ یہ تو شاید ان جنوں بھوتوں کی کہانیوں کے کرداروں سے بھی بھیانک ہے جو بے قصوروں کو صرف اس لیے مار رہی ہے کہ وہ اس مخلوق جیسے کیوں نہیں ہوجاتے۔ اس اسفل مخلوق کا کسی نے کچھ بگاڑا ہے یا نہیں لیکن تاوان بھگتنے والی یہ ننھی معصوم جانیں یقیناً قصور وار نہیں تھیں۔
یہ خون آشام مخلوق جس کو انسانی لہو کی چاٹ تو کب کی لگی ہوئی تھی لیکن اب اس کی طلب اور وحشت اس حد تک آگئی ہےکہ اس نے ہر حد پار کر لی ہے۔ یقیناً شیطانوں کے کوئی اصول نہیں ہوا کرتے لیکن کل ہونے والے اس لرزہ خیز واقعے نے تو شیطانیت کو بھی شرما دیا ہے۔ انسانی جون میں نظر آنے والی یہ مخلوق بے شک بےشک ابلیس کو بھی کوسوں پیچھے چھوڑ چکی ہے۔
ان معصوم جانوں کی تکلیف ان پر توڑے گئے ظلم کا بیان اور داستان اشک بار تو سب ہی جان چکے ہیں۔ سبھی کو علم ہے کہ کیسے یہ معصوم کلیاں بےدردی سے نوچ کر شاخ زندگی سے جدا کر دی گئیں۔ تفصیل میں یوں بھی نہیں جاؤں گی کہ ان کے درد کی داستان زبان زد عام ہے اور میرے قلم میں نہ اتنی ہمت ہے اورنہ میرے ضبط میں اس قدر یارا کہ میں ان تمام مظالم اور ان کے نتیجے میں خود پر بیتی کیفیت کو لفظوں کا جامہ پہنا سکوں۔ الفاظ تکلیف کے اظہار کا اہم ذریعہ سہی لیکن ہر جذبہ الفاظ کا سہارا نہیں لے سکتا۔ محض آنسو ہی ہیں جو اس سانحہ عظیم کےبعد خود پر گزرنے دلی کیفیت کو آشکار کر سکیں تو آنسو آج ہر پاکستانی کی آنکھ میں ہیں۔ ہر دل دکھی ہے ہر آنکھ اشکبار ہے۔ یہ گھاؤ اس قدر گہرا ہے کہ وقت شاید آسانی سے اسے بھر بھی نہ سکے۔ ظالموں نے اس بار بہت کاری وار کیا ہے۔ صرف یہ ۱۳۰ خاندان ہی نہیں پورا پاکستان اس دن اور اس تکلیف کو کبھی نہیں بھول پائے گا۔
لیکن کیا ہمارے ارباب اختیار، بااثر عمائدین حکومت اور سیاستدان اس داستان خون چکاں کو یاد رکھیں گے؟ کیا وہ اب بھی اپنے دلوں پہ طاری اس جمود کو نہ توڑیں گے؟
لیکن کیا ہمارے ارباب اختیار، بااثر عمائدین حکومت اور سیاستدان اس داستان خون چکاں کو یاد رکھیں گے؟ کیا وہ اب بھی اپنے دلوں پہ طاری اس جمود کو نہ توڑیں گے؟مفادات کی سیاست، مفاہمت کی سودے بازیاں بہت ہو گئیں، کمیٹیاں بھی اب تک بہت بنائی گئیں، کمیشن بھی بہت بٹھائے گئے، لیکن نتیجہ کچھ نہ نکل سکا۔ کیا اب بھی ایسا ہی ہوگا؟ کیا اب بھی جھوٹے وعدوں اور طفل تسلیوں سے اس بات کا انتظار کیا جائے گا کہ کچھ وقت مزید گزر جائے اور لوگوں کے ذہن سے یہ واقعہ فراموشی کی نذر ہوجائے؟ اب مزید ایسے واقعات کا انتظارکیوں کیا جائے؟
ملالہ اور اس کی ساتھیوں پر جس وقت حملہ کیا گیا بہت سے لوگوں نے اس پر قیاس آرائیاں کیں۔ وہ پاکستانی بچی جس طرح اپنی جان پہ کھیل گئی، ان درندوں کو اس پر ترس نہیں آیا تب ہی سمجھ لینا چاہیے تھا کہ یہ ظالم لوگ محض اپنے مفادات اور خیالات کے زبردستی پھیلاؤ کے لیے ہر حد سے گزر سکتے ہیں۔ مجرم ہمارے سامنے موجود ہیں جو بڑے فخر سے اس جرم کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں ۔ ہماری صفوں میں موجود کالی بھیڑیں اب بھی ان کے اس عمل کی تائید یا توجیہات پیش کرتی نظر آتی ہیں اور ہم ابھی تک خاموش تماشائی ہیں۔ ان مجرموں کے ہمدردوں کی باتیں اور دلائل سننے میں مگن ہیں۔ کیوں نہیں ہم ان ہی ہمدردوں کے گرد دائرہ تنگ کرتے۔ مجھے یقین ہے کہ خنجر ان ہی کے پس آ ستین ضرور نکلیں گے۔
اپنے معصوم چھوٹے چھوٹے بچوں کے بے گناہ لاشے اٹھانا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ ہم نے یہ لاشے اٹھائے ہیں اور ان کی قبریں صرف زمین پر ہی نہیں ہمارے دلوں میں بن چکی ہیں۔
ان زمینی خداؤں کے لیے ہمارا یہ پیغام ہے کہ ہم اب مزید ایسے کسی واقعے کے متحمل نہیں ہوسکتے، ہمارے سینے دکھ سے چھلنی ہوچکے ہیں۔ اپنے معصوم چھوٹے چھوٹے بچوں کے بے گناہ لاشے اٹھانا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ ہم نے یہ لاشے اٹھائے ہیں اور ان کی قبریں صرف زمین پر ہی نہیں ہمارے دلوں میں بن چکی ہیں۔ ہم سب پاکستانی بطور ایک قوم اس سنگین حرکت کی مذمت ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے مجرمین کو کیفر کدار تک پہنچانے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ اب ہم اس سانحے کو کسی دوسرے کی تکلیف جان کر نظرانداز کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں کیوں کہ یہ درد ہم سب کا مشترکہ ہے۔ ہم بلاتفریق رنگ، نسل، عقائد، زبان، اور مذہب کے اس سانحے کو اپنا ذاتی نقصان قرار دیتے ہیں۔ میری اور یقیناً میرے ساتھ ہم آواز تمام پاکستانیوں کا مطالبہ ہے کہ ہمیں طالبان اور دیگر انتہا پسندوں کا اپنے ملک سے کلی طور پر انخلا چاہیے اور ہم ان ظالموں کے لیے عبرت ناک سزا تجویز کرتے ہیں۔

Leave a Reply