پاکستان کو اقوامِ عالم میں دائمی اقبال حاصل ہے اور یہ حسین حادثہ محض ابھی رونما نہیں ہوا بلکہ کئی صدیوں سے ہم اس مسند پر نہایت کروفر سے اور مکمل اطمینان سے براجمان ہیں۔ کرہِ ارض کے اس خطے کو محمد بن قاسم، محمود غزنوی،ابدالی،مغل،راجپوتوں اور شاہِِ سوری جیسے دیدہ ور نصیب ہوئے ہیں، جنہوں نے اس سرزمینِ خداداد پر راجہ داہر جیسے کافر، بد قماش اور بد کردار لوگ اٹھا کر تاریخ کے کچرے میں پھینک دیے۔ اس خطہِ زمین کی لوگوں کے دلوں میں اتنی محبت ہے کہ لوگ عراق، یونان، اور قسطنطنیہ سے یہاں حج کرنے آتے ہیں۔
محمد بن قاسم بھی ایک ایسا ہی حاجی تھا جو یہاں سے واپسی پر تبرک کے طور پر ہندو مرداروں کے سونے سے بھرے ہوے سترہ مٹکے ساتھ لے گیا تھا۔ مشہور حاجیوں میں محمود غزنوی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ موصوف کو اس سرزمین کی دن میں پل پل یاد ستاتی تھی اور ان کی مضطرب اور بےچین طبیعت کو تبھی چین آیا جب انہوں نے سوغات کے طور پر سومنات کے بت کی ناک کی بالی اتار کر اپنی پوشاک کی اندر والی جیب میں ڈال لی۔ ہندو ظالموں کے کام دیکھو، ایک بت کو سونے، چاندی کے چڑھاوے چڑھا کر سب ضائع کرتے تھے، بندہ کسی مسلمان کو ہی دے دیتا ہے۔ خیر ہندو بدھو لوگ ھوتے ہیں اور ان کا یہی بدھوپن تب انہیں لے ڈوبا تھا۔ پھر اسی طرح حاجیوں کا ایک قافلہ بحری جہازوں پر چڑھ کر اس سرزمین پر آیا اور کوئی سو سال تک یہاں مقیم رہا۔ ان حاجیوں نے نجانے ایسا کیا گل کھلایا کہ یہاں صدیوں سے مقیم ہندو اور مسلمان، جو آپس میں ایک دوسرے کو بھائیوں کی طرح چاہتے تھے، ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے درپے ہو گئے اور نتیجتاً معصوم مسلمانوں کو ہندووں کے شر سے بچنے کے لیے ایک الگ ملک بنانا پڑا۔
ہمیں جس ملکِ یزداں میں رہنے کی سعادتِ سعید نصیب ہوئی ہے اس بہشتِ بریں کا اسمِ گرامی پاکستان ہے۔ پاکستان کی چار اقسام ہیں:-
• نیا پاکستان (خیبر پختونخواہ)
• پرانا پاکستان (پنجاب)
• مشکوک پاکستان (بلوچستان)
• گیا پاکستان (سندھ)
پاکستان میں چار صوبوں کی عوام رہتی ہے جو فلاں ترتیب میں ہیں:-
• پنجابی
• پنجابی
• پنجابی
• پنجابی
پنجابی ایک بہت ہی وسیع القلب قوم ہے جس نے اس ملک میں دوسری چھوٹی موٹی قوموں، جن میں سندھی،بلوچی اور پختون، سرائیکی وغیرہ شامل ہیں، کو رہنے کی جگہ اور کھانے کو روٹی دے رکھی ہے۔ آج کے اس مادہ پرست دور میں ایسی فراخدِلی عنقا ہو چکی ہے۔ پنجابیوں کا ان بھوکے ننگے لوگوں پر یہ احسانِ عظیم تاریخ کے سنہرے حروف میں لکھا جانا چاہیے۔ پنجابیوں نے ایک اور شودر ذات بنگالیوں کی تین لاکھ لڑکیوں کو بھی اپنی مہمان نوازی پیش کی تھی مگر بنگالی چونکہ تھوڑے کوڑھ مغز واقع ہوئے ہیں، اس لیے وہ ناراض ہو گئے، بھئی پیار ہی تو کیا تھا کون سا غلط کام کیا تھا؟ آج وہ پاگل بنگالی لادینیت کی طرف سرگرداں ہیں اور دین و آخرت کی تباہی اپنے نام کرا چکے ہیں۔ ان کا (جی – ڈی – پی) گروتھ پاکستان سے کہیں زیادہ ہے مگر سیانے کہتے ہیں کہ یہ شعلے کا بجھنے سے پہلے آخری بار ٹمٹمانا ہے۔ صحیح ہی کہتے ہیں۔
اچھائی کے مخالف ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ ان پاگل بلوچوں کو ہی لے لیجیے۔ کھانے کو من و سلویٰ اور پینے کو جامِ کوثر مِلتا ہے مگر کتے کی دم ہے کہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ کہتے ہیں ہمیں آزادی چاہیے۔ کوئی کرنے والی بات ہے یہ بھلا؟ بلوچوں کو مکمل آزادی ہے کہ وہ کسی بھی وقت پنجاب میں آ کر اپنی ضرورت کی چیز لے کے جا سکتے ہیں، اب اس سے زیادہ کیا چاہتے ہیں وہ؟ الامان الحفیظ ! یہی خلش ان کند مغز سندھیوں کو بھی ستا رہی ہے۔ یہ سب بنی اسرائیل کی طرح ہیں۔ اپنی حرکتوں کی وجہ سے رحمت و برکت سے دور صحرا میں بھٹکنا چاہتے ہیں۔ باولے ہیں سب۔
شکر ہے کہ ابھی کچھ اصحابِ کہف جیسے عقلمند یہاں موجود ہیں۔ ان عظیم دانشوروں، تاریخ سازوں، عالموں، عاقبت اندیشوں اور بزرگانِ قوم میں علامہ اوریا مقبول جان، مفتی انصار عباسی، مولانا ہارون الرشید اور سگ اصحاب کہف کمانڈر زید حامد شامِل ہیں۔ ان حضراتِ باکمال کی وجہ سے پاکستان پر اللہ کا قہر نازل ہونے سے رکا ہوا ہے اور ہم طوفانِ نوح جیسی کسی آفت سے بچے ہوئے ہیں۔ چند شریر لوگوں نے ان جیسا مرتبہ حاصل کرنے کی سعیِ ناتمام کی تھی۔ عبد السلام بھی ایک ایسا ہی دماغ سے پیدل شخص تھا جسے پتہ نہیں کس سرپِھرے نے نیوکلیائی طبیعات میں ڈِگری دے دی تھی۔ ہمت تو دیکھو اس کافر کی، کس بے باقی سے خود کو پاکستانی اور اس سے بڑھ کر ظلم، خود کو مسلمان کہتا تھا۔ صحیح ہوا اس نامعقول آدمی کے ساتھ اور اس کی قبر کے ساتھ ۔ عبدالقدیر جیسا محبِ وطن شخص یہ مٹی شاید ہی پیدا کرے۔ وطن کی مٹی کی خاطر ہالینڈ سے نیوکلیائی ٹیکنالوجی جس صفائی اور ہنرمندی سے کی، آپ نے دنیا بھر کے بڑے بڑے چوروں کو ورطہِ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ پھر انہوں نے جس دیدہ دلیری کے ساتھ میزائل ٹیکنالوجی فروخت کرنے کی کوشش کی، وہ ان کے اقبال کا شاہین ہونے کی ناقابلِ تردید ضمانت تھی۔ ایک روشن خیالی کے مارے سپہ سالار نے اس مردِ حر کو کافروں کی کہنے پر پابندِ سلاسل کر دیا۔ ہمت دیکھو اس بھوکے ننگے مہاجر کی۔
اس قوم نے چند سر پھرے بھی پیدا کیے ہیں، جن میں جون ایلیا، منٹو اور جالب جیسے لوگ شامل ہیں۔ اِن میں سے ایک مجذوب کا کہنا تھا کہ ” ہم پچھلے ایک ہزار برس سے تاریخ کے دستر خوان پر حرام خوری کے سوِا کچھ بھی نہیں کر رہے”۔ حد ہوتی ہے۔ کوئی ان لوگوں کو بتائے کہ ہم نے ایسے کئی کارنامے سر انجام دیے ہیں جن کو سن کر آپ دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اسلامی بم ہم ہی نے تو بنایا ہے جوطاغوت کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ اور اسلام سے ہماری محبت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ دنیا میں کہیں بھی، کسی بھی جگہ، کسی بھی موقعے پر اگر کوئی شخص اسلام تو درکِنار، اگر عربوں کو بھی کچھ کہہ دے تو پاکستانیوں کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ ریلیاں نِکل آتی ہیں، جلسے جلوس ہوتے پیں۔ مانا کہ ان جلسوں میں کروڑوں روپے کا مالی نقصان ہوتا ہے، معمولاتِ زندگی درہم برہم ہو کر رہ جاتے ہیں، مگر حضرت اصول پرستی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ایسے کارنامے ہمارا روز کا معمول ہیں۔ ہر سال عاشورہ کے موقع پر دھوم دھام سے ایک فرقہ دوسرے فرقے کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے پنجاب یوتھ فیسٹیول کے نام سے ایک میلہ لگا تھا جس میں انسانی جمالیات کی معراج کو پہنچا گیا تھا اور سر سے اخروٹ توڑنے سمیت کئی ریکارڈ بنائے گئے تھے۔ ملالہ نام کی ایک لڑکی جو علم بردارِکفار تھی، اس کے بُنے ہوئے جالے کو سب نے بڑی آسانی سے توڑ دیا اور اس حرافہ کو اسکی اصل اوقات یاد دِلا دی۔ ابھی پچھلے ہی دنوں اقوامِ متحدہ کی جانب سے پاکستان کو ایک ایسے اعزاز سے نوازا گیا ہے جو کسی ملک کے حصے میں نہیں آیا۔ جی جی صحیح سمجھے آپ۔
پاکستانی اپنی رحمدِلی کے لیے بطورِخاص مشہور ہیں۔ آپ خود ہی بتائیے کہ دنیا میں کونسی ایسی قوم اتنی رحمدِل اور درگزر کرنے والی ہے کہ پچاس ہزار سے زائد جانیں گنوا دینے کے بعد بھی نہایت ہی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ ذمہ داران کو بےقصور مانتی ہو؟ سب کو علم ہے کہ جو کروا رہا ہے، امریکہ کروا رہا ہے۔ اب ان جانوں کا الزام ان معصوم باریش طالبان پر کیوں ڈالیں؟ بھلا اپنے بھی کبھی کچھ غلط کر سکتے ہیں؟ وہ ہمارے اپنے ہی تو ہیں۔ ہمیں بس اپنی آنکھوں پر سے وہ پردہ ہٹانے کی ضرورت ہے جسے چند لبرل فاشسٹوں نے ہماری آنکھوں پر باندھ رکھا ہے۔ آپ خود ہی بتائیے کہ طالبان کا جو مطالبہ ہے وہ کیا غلط ہے؟ شریعت ہی تو چاہتے ہیں ناں۔ تو آ لینے دیں شریعت کو۔ پاکستان چونکہ ایک اسلامی ریاست ہے لہذٰا یہاں اسلامی شریعت اور قوانین کو بطورِ خاص ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ ہر شخص اسلام کے آفاقی اصولوں پر نہایت سختی سے عمل پیرا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کی ستاسی فیصد نوجوان آبادی ملک میں شریعت کی خواہاں ہے جس سے ہمیں دین سے محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ لوگوں کے دِلوں میں شک پیدا کرنے کے لیے ایک بکواس سی رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں پاکستان کو پورنستان کہا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان دنیا بھر میں پورن سایٹس وزٹ کرنے والے ممالک میں سرِ فہرست ہے، مگر آپ خود دِل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں، کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا ہو سکتا ہے؟ چند عناصر جو پاکستان کی معاشی،معاشرتی اور اخلاقی ترقی دیکھ کر جلتے ہیں اور درحقیقت ایسی بےبنیاد باتیں پھیلا کر پاکستانیوں کے بےداغ کردار پر کیچڑ اچھالنا چاہتے ہیں۔
پیؤ ریسرچ سینٹر کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں پاکستان کا شمار سب سے کم مذہبی رواداری والے ممالک میں کیا گیا ہے۔ یہ سراسر بکواس ہے اور صیہونی طاقتوں کی جانب سے پاکستان کو بدنام کرنے کی ایک اور سازش ہے۔ شیعہ،سنی، وہابی جیسے چھوٹے موٹے تفرقات سے بالاتر ہو کر سب کو برابر پاکستانی سمجھا جاتا ہے۔ ایسی برابری دیکھ کر کارل مارکس بھی اپنی قبر میں عش عش کر اٹھتا ہو گا۔ تبھی جب بھی کوئی بلوچی یا ہزارہ قتل کر دیا جاتا ہے، یا ہندو لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، یا ڈاکٹروں کو انکے مسلک کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے تو پوری قوم اس کے سوگ میں تعطیلات مناتی ہے، احتجاجی ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور تمام مسالک کے علمائے کرام تفرقہ بازی سے بالاتر ہو کر شدت کے ساتھ مذمتی بیان جاری کرتے ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہنگامی بنیادوں پر ذمہ داران کو پکڑتے ہیں اور اسی دن ان پر مقدمہ چلا کر انکو کیفرِ کردار تک پہنچا دیتے ہیں۔ مذہبی رواداری اور قوتِ برداشت میں جس اوجِ ثریا پر پاکستانی براجمان ہیں اس پر تو اوشو بھی محوِ حیرت ہو گا۔ ایسا انصاف تو نوشیرواں نے اپنے خوابِ انزالی میں بھی نہیں دیکھا ہو گا۔
شداد نے اس زمین پر بہشت بنانے کی کوشش کی تھی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو گیا تھا جیسے آج حکومتِ پاکستان کامیاب و کامران ہو چکی ہے۔ بس ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں ہماری بہشت بریں کا حال بھی شداد کی جنت کے جیسا نہ ہو۔
محمد بن قاسم بھی ایک ایسا ہی حاجی تھا جو یہاں سے واپسی پر تبرک کے طور پر ہندو مرداروں کے سونے سے بھرے ہوے سترہ مٹکے ساتھ لے گیا تھا۔ مشہور حاجیوں میں محمود غزنوی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ موصوف کو اس سرزمین کی دن میں پل پل یاد ستاتی تھی اور ان کی مضطرب اور بےچین طبیعت کو تبھی چین آیا جب انہوں نے سوغات کے طور پر سومنات کے بت کی ناک کی بالی اتار کر اپنی پوشاک کی اندر والی جیب میں ڈال لی۔ ہندو ظالموں کے کام دیکھو، ایک بت کو سونے، چاندی کے چڑھاوے چڑھا کر سب ضائع کرتے تھے، بندہ کسی مسلمان کو ہی دے دیتا ہے۔ خیر ہندو بدھو لوگ ھوتے ہیں اور ان کا یہی بدھوپن تب انہیں لے ڈوبا تھا۔ پھر اسی طرح حاجیوں کا ایک قافلہ بحری جہازوں پر چڑھ کر اس سرزمین پر آیا اور کوئی سو سال تک یہاں مقیم رہا۔ ان حاجیوں نے نجانے ایسا کیا گل کھلایا کہ یہاں صدیوں سے مقیم ہندو اور مسلمان، جو آپس میں ایک دوسرے کو بھائیوں کی طرح چاہتے تھے، ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے درپے ہو گئے اور نتیجتاً معصوم مسلمانوں کو ہندووں کے شر سے بچنے کے لیے ایک الگ ملک بنانا پڑا۔
ہمیں جس ملکِ یزداں میں رہنے کی سعادتِ سعید نصیب ہوئی ہے اس بہشتِ بریں کا اسمِ گرامی پاکستان ہے۔ پاکستان کی چار اقسام ہیں:-
• نیا پاکستان (خیبر پختونخواہ)
• پرانا پاکستان (پنجاب)
• مشکوک پاکستان (بلوچستان)
• گیا پاکستان (سندھ)
پاکستان میں چار صوبوں کی عوام رہتی ہے جو فلاں ترتیب میں ہیں:-
• پنجابی
• پنجابی
• پنجابی
• پنجابی
پنجابی ایک بہت ہی وسیع القلب قوم ہے جس نے اس ملک میں دوسری چھوٹی موٹی قوموں، جن میں سندھی،بلوچی اور پختون، سرائیکی وغیرہ شامل ہیں، کو رہنے کی جگہ اور کھانے کو روٹی دے رکھی ہے۔ آج کے اس مادہ پرست دور میں ایسی فراخدِلی عنقا ہو چکی ہے۔ پنجابیوں کا ان بھوکے ننگے لوگوں پر یہ احسانِ عظیم تاریخ کے سنہرے حروف میں لکھا جانا چاہیے۔ پنجابیوں نے ایک اور شودر ذات بنگالیوں کی تین لاکھ لڑکیوں کو بھی اپنی مہمان نوازی پیش کی تھی مگر بنگالی چونکہ تھوڑے کوڑھ مغز واقع ہوئے ہیں، اس لیے وہ ناراض ہو گئے، بھئی پیار ہی تو کیا تھا کون سا غلط کام کیا تھا؟ آج وہ پاگل بنگالی لادینیت کی طرف سرگرداں ہیں اور دین و آخرت کی تباہی اپنے نام کرا چکے ہیں۔ ان کا (جی – ڈی – پی) گروتھ پاکستان سے کہیں زیادہ ہے مگر سیانے کہتے ہیں کہ یہ شعلے کا بجھنے سے پہلے آخری بار ٹمٹمانا ہے۔ صحیح ہی کہتے ہیں۔
اچھائی کے مخالف ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ ان پاگل بلوچوں کو ہی لے لیجیے۔ کھانے کو من و سلویٰ اور پینے کو جامِ کوثر مِلتا ہے مگر کتے کی دم ہے کہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ کہتے ہیں ہمیں آزادی چاہیے۔ کوئی کرنے والی بات ہے یہ بھلا؟ بلوچوں کو مکمل آزادی ہے کہ وہ کسی بھی وقت پنجاب میں آ کر اپنی ضرورت کی چیز لے کے جا سکتے ہیں، اب اس سے زیادہ کیا چاہتے ہیں وہ؟ الامان الحفیظ ! یہی خلش ان کند مغز سندھیوں کو بھی ستا رہی ہے۔ یہ سب بنی اسرائیل کی طرح ہیں۔ اپنی حرکتوں کی وجہ سے رحمت و برکت سے دور صحرا میں بھٹکنا چاہتے ہیں۔ باولے ہیں سب۔
شکر ہے کہ ابھی کچھ اصحابِ کہف جیسے عقلمند یہاں موجود ہیں۔ ان عظیم دانشوروں، تاریخ سازوں، عالموں، عاقبت اندیشوں اور بزرگانِ قوم میں علامہ اوریا مقبول جان، مفتی انصار عباسی، مولانا ہارون الرشید اور سگ اصحاب کہف کمانڈر زید حامد شامِل ہیں۔ ان حضراتِ باکمال کی وجہ سے پاکستان پر اللہ کا قہر نازل ہونے سے رکا ہوا ہے اور ہم طوفانِ نوح جیسی کسی آفت سے بچے ہوئے ہیں۔ چند شریر لوگوں نے ان جیسا مرتبہ حاصل کرنے کی سعیِ ناتمام کی تھی۔ عبد السلام بھی ایک ایسا ہی دماغ سے پیدل شخص تھا جسے پتہ نہیں کس سرپِھرے نے نیوکلیائی طبیعات میں ڈِگری دے دی تھی۔ ہمت تو دیکھو اس کافر کی، کس بے باقی سے خود کو پاکستانی اور اس سے بڑھ کر ظلم، خود کو مسلمان کہتا تھا۔ صحیح ہوا اس نامعقول آدمی کے ساتھ اور اس کی قبر کے ساتھ ۔ عبدالقدیر جیسا محبِ وطن شخص یہ مٹی شاید ہی پیدا کرے۔ وطن کی مٹی کی خاطر ہالینڈ سے نیوکلیائی ٹیکنالوجی جس صفائی اور ہنرمندی سے کی، آپ نے دنیا بھر کے بڑے بڑے چوروں کو ورطہِ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ پھر انہوں نے جس دیدہ دلیری کے ساتھ میزائل ٹیکنالوجی فروخت کرنے کی کوشش کی، وہ ان کے اقبال کا شاہین ہونے کی ناقابلِ تردید ضمانت تھی۔ ایک روشن خیالی کے مارے سپہ سالار نے اس مردِ حر کو کافروں کی کہنے پر پابندِ سلاسل کر دیا۔ ہمت دیکھو اس بھوکے ننگے مہاجر کی۔
اس قوم نے چند سر پھرے بھی پیدا کیے ہیں، جن میں جون ایلیا، منٹو اور جالب جیسے لوگ شامل ہیں۔ اِن میں سے ایک مجذوب کا کہنا تھا کہ ” ہم پچھلے ایک ہزار برس سے تاریخ کے دستر خوان پر حرام خوری کے سوِا کچھ بھی نہیں کر رہے”۔ حد ہوتی ہے۔ کوئی ان لوگوں کو بتائے کہ ہم نے ایسے کئی کارنامے سر انجام دیے ہیں جن کو سن کر آپ دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اسلامی بم ہم ہی نے تو بنایا ہے جوطاغوت کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ اور اسلام سے ہماری محبت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ دنیا میں کہیں بھی، کسی بھی جگہ، کسی بھی موقعے پر اگر کوئی شخص اسلام تو درکِنار، اگر عربوں کو بھی کچھ کہہ دے تو پاکستانیوں کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ ریلیاں نِکل آتی ہیں، جلسے جلوس ہوتے پیں۔ مانا کہ ان جلسوں میں کروڑوں روپے کا مالی نقصان ہوتا ہے، معمولاتِ زندگی درہم برہم ہو کر رہ جاتے ہیں، مگر حضرت اصول پرستی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ایسے کارنامے ہمارا روز کا معمول ہیں۔ ہر سال عاشورہ کے موقع پر دھوم دھام سے ایک فرقہ دوسرے فرقے کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے پنجاب یوتھ فیسٹیول کے نام سے ایک میلہ لگا تھا جس میں انسانی جمالیات کی معراج کو پہنچا گیا تھا اور سر سے اخروٹ توڑنے سمیت کئی ریکارڈ بنائے گئے تھے۔ ملالہ نام کی ایک لڑکی جو علم بردارِکفار تھی، اس کے بُنے ہوئے جالے کو سب نے بڑی آسانی سے توڑ دیا اور اس حرافہ کو اسکی اصل اوقات یاد دِلا دی۔ ابھی پچھلے ہی دنوں اقوامِ متحدہ کی جانب سے پاکستان کو ایک ایسے اعزاز سے نوازا گیا ہے جو کسی ملک کے حصے میں نہیں آیا۔ جی جی صحیح سمجھے آپ۔
پاکستانی اپنی رحمدِلی کے لیے بطورِخاص مشہور ہیں۔ آپ خود ہی بتائیے کہ دنیا میں کونسی ایسی قوم اتنی رحمدِل اور درگزر کرنے والی ہے کہ پچاس ہزار سے زائد جانیں گنوا دینے کے بعد بھی نہایت ہی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ ذمہ داران کو بےقصور مانتی ہو؟ سب کو علم ہے کہ جو کروا رہا ہے، امریکہ کروا رہا ہے۔ اب ان جانوں کا الزام ان معصوم باریش طالبان پر کیوں ڈالیں؟ بھلا اپنے بھی کبھی کچھ غلط کر سکتے ہیں؟ وہ ہمارے اپنے ہی تو ہیں۔ ہمیں بس اپنی آنکھوں پر سے وہ پردہ ہٹانے کی ضرورت ہے جسے چند لبرل فاشسٹوں نے ہماری آنکھوں پر باندھ رکھا ہے۔ آپ خود ہی بتائیے کہ طالبان کا جو مطالبہ ہے وہ کیا غلط ہے؟ شریعت ہی تو چاہتے ہیں ناں۔ تو آ لینے دیں شریعت کو۔ پاکستان چونکہ ایک اسلامی ریاست ہے لہذٰا یہاں اسلامی شریعت اور قوانین کو بطورِ خاص ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ ہر شخص اسلام کے آفاقی اصولوں پر نہایت سختی سے عمل پیرا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کی ستاسی فیصد نوجوان آبادی ملک میں شریعت کی خواہاں ہے جس سے ہمیں دین سے محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ لوگوں کے دِلوں میں شک پیدا کرنے کے لیے ایک بکواس سی رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں پاکستان کو پورنستان کہا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان دنیا بھر میں پورن سایٹس وزٹ کرنے والے ممالک میں سرِ فہرست ہے، مگر آپ خود دِل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں، کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا ہو سکتا ہے؟ چند عناصر جو پاکستان کی معاشی،معاشرتی اور اخلاقی ترقی دیکھ کر جلتے ہیں اور درحقیقت ایسی بےبنیاد باتیں پھیلا کر پاکستانیوں کے بےداغ کردار پر کیچڑ اچھالنا چاہتے ہیں۔
پیؤ ریسرچ سینٹر کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں پاکستان کا شمار سب سے کم مذہبی رواداری والے ممالک میں کیا گیا ہے۔ یہ سراسر بکواس ہے اور صیہونی طاقتوں کی جانب سے پاکستان کو بدنام کرنے کی ایک اور سازش ہے۔ شیعہ،سنی، وہابی جیسے چھوٹے موٹے تفرقات سے بالاتر ہو کر سب کو برابر پاکستانی سمجھا جاتا ہے۔ ایسی برابری دیکھ کر کارل مارکس بھی اپنی قبر میں عش عش کر اٹھتا ہو گا۔ تبھی جب بھی کوئی بلوچی یا ہزارہ قتل کر دیا جاتا ہے، یا ہندو لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، یا ڈاکٹروں کو انکے مسلک کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے تو پوری قوم اس کے سوگ میں تعطیلات مناتی ہے، احتجاجی ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور تمام مسالک کے علمائے کرام تفرقہ بازی سے بالاتر ہو کر شدت کے ساتھ مذمتی بیان جاری کرتے ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہنگامی بنیادوں پر ذمہ داران کو پکڑتے ہیں اور اسی دن ان پر مقدمہ چلا کر انکو کیفرِ کردار تک پہنچا دیتے ہیں۔ مذہبی رواداری اور قوتِ برداشت میں جس اوجِ ثریا پر پاکستانی براجمان ہیں اس پر تو اوشو بھی محوِ حیرت ہو گا۔ ایسا انصاف تو نوشیرواں نے اپنے خوابِ انزالی میں بھی نہیں دیکھا ہو گا۔
شداد نے اس زمین پر بہشت بنانے کی کوشش کی تھی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو گیا تھا جیسے آج حکومتِ پاکستان کامیاب و کامران ہو چکی ہے۔ بس ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں ہماری بہشت بریں کا حال بھی شداد کی جنت کے جیسا نہ ہو۔
WAH JI WAH PEYARE PAKISTAN KETNE MUSHKLAT MAIN HE AP NEIN US KE SAHE AKSE KAR DE ALLHA AP KO JANAT MAIN REWAND JESA MEHAL ATA KAREIN AMEEN
ye writer hai e cho****